تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات
جھوٹ اور جھوٹی گواہی
احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئےحضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ایک ٹیسٹ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، توبہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ ٹیسٹ یہ ہے کہ لَایَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ (الفرقان:۷۳) جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ گواہی کے متعلق فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِالۡوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقۡرَبِیۡنَ (النساء:۱۳۶)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے۔
پس دیکھیں یہ خوبصورت تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ ہم دنیا کو بتانے کے لئے تو یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے اور اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم ہےاور جماعت احمدیہ دنیا میں انصاف اور محبت کا پرچار کرتی ہے لیکن اگر ہمارے عمل ہمارے قول کے خلاف ہیں تو ہم اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور دنیا کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ اب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ انسان اپنے خلاف گواہی دے۔ صلح بھی کرلی، توبہ بھی کر لی، عملِ صالح بھی کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد اگرکہیں ایسا موقع آئے کہ جہاں سچ بول کر اپنے خلاف گواہی دینی پڑے تو دل کو ٹٹولیں کہ کیاہم ایسے ہیں جو سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے خلاف گواہی دینے والے بنیں گے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ تو جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر اپنے گھروں میں امن قائم کرنا چاہتی ہو یا اپنے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتی ہو تو کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لویہاں تک کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔ اپنے والدین کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اگر اس ایک بات کو ہر احمدی عورت اور مرد پلّے باندھ لے تو گھروں کے فساد ختم ہو جائیں۔ قضا میں معاملات آتے ہیں، اکثر میں نے دیکھا ہے، بات کو طول دینے کے لئے اپنے حق میں فیصلے کروانے کے لئے جھوٹ پر بنیاد ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ عورت کی طرف سے بھی اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جا رہا ہوتاہے اور مرد کی طرف سے بھی اپنے معاملے کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جارہاہوتا ہےاور پھر وکیل اور مشورہ دینے والے دوسرے لوگ جو اس کام پر مقرر کئے جاتے ہیں، وہ اس پر سونے پر سہاگہ، اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے بڑا اچھا کیس لڑا جھوٹ کی ترغیب دلاتے ہیں یا جھوٹے کیس بنا لیتے ہیں یا اپنے پاس سے بھی خود کچھ نہ کچھ addکرلیتے ہیں۔ وکیل تو اپنی برتری اس لئے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کیس ہم جیت گئے تو ہماری بڑی واہ واہ ہو جائے گی اور ہمارا کام چمکے گا۔ گویا انہوں نے یہاں شرک شروع کر دیا اور جھوٹ کو اپنا رازق بنا لیا۔ لوگ کہیں گے بڑا اچھا وکیل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہو تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء)
قناعت اور توکّل علی اللہ کی کمی
گھروں کے ٹوٹنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :’’ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے، اپنے دوستوں، سہیلیوں یاہمسایوں کی طر ف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں اور پھر خرچ کرلیتی ہیں پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتاہے کہ اور دو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اور اس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتاہے اور اگر خداتعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں، اس سے دعا بھی نہیں کرتے۔ تو یہ ایک سلسلہ جب چلتاہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتاہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتاہے۔ تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کردیتی ہیں۔ خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر جیساکہ میں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ اگست ۲۰۰۳ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ء)
عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے۱۵؍اپریل ۲۰۰۶ء کوجلسہ سالانہ آسٹریلیا میں مستورات سے خطاب میں عورتوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔ کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہواور روحانی نقصان بھی نہ ہو۔ اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال، اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کردیتا ہے۔ عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں۔ خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہےاور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بےسکونی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہےاور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھرمریض بن جاتا ہے۔ کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اگر خاوند نہیں مانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔ لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کی مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت توُ تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنارہی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہوتی ہے۔
اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی، نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کررہی ہوتی ہے۔
پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍جون۲۰۱۵ء)
( عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۳۴-۱۳۹)