رمضان المبارک کی اہمیت و برکات (حصہ سوم۔ آخری)
نفسِ امارہ کے تزکیہ واصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ فرض فرمایا تاکہ مومن تقویٰ کےبلند اور ارفع مقام کو حاصل کرسکیں۔ انسان حیوانات اور درندوں کی صفت سے نکل کرفرشتہ خصلت بن جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ(البقرۃ:۱۸۶)سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا درواز ہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ۲۵۶-۲۵۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
رمضان کے مہینہ میں بعض لوگ بیماری ،سفر یا ضعیفی کے باعث روزے نہیں رکھ سکتے۔ تو ان کو بعد میں روزوں کی گنتی کو پورا کرلینا چاہیے ۔بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جس بنا پر وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے تو ایسی صورت میں ان کو فدیہ دینا چاہیے۔
ایسے لوگوں کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روزے سے محرومی کے نتیجے میں اگر درددل ہو تو ایک بہت ہی اعلیٰ نشان ہے اس بات کا کہ واقعۃً تمہاری روزوں سے محرومی تمہیں ثواب سے محروم نہیں رکھے گی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے درد دل والے کو عام روزہ رکھنے والے کے ثواب سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے… جبکہ حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں۔‘‘
’’جو شخص کہ روزہ سے محروم رہتاہے مگر اس کے دل میں نیت دردِ دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍جنوری۱۹۹۶ء)
رمضان کے مہینے کو کس قدر دوسرے مہینوں پر فوقیت حاصل ہے بیان کرتےہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آنحضرت ﷺ نے ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان ہونے والے گناہوں کی معافی کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہونے والے چھوٹے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے گناہوں سے معافی کے جو ذرائع بتائے ہیں وہ آپ ایک ترتیب سے بیان فرمارہے ہیں۔ پہلے نماز، پھر جمعہ، پھر رمضان۔ پس اس ترتیب سے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہئے کہ صرف سال کے بعد رمضان کی عبادتیں ہی گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہیں۔ بلکہ یہ ترتیب اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ نمازوں کی پانچ وقت روزانہ ادائیگی اپنے حصار میں لئے ہوئے ساتویں دن جمعہ میں داخل کر کے جمعہ کی برکات سے حصہ دلائے گی۔ اور سال بھر کے جمعے رمضان میں داخل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے فیض سے فیضیاب کریں گے۔ روزانہ کی پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گی کہ یہ تیرا بندہ تیرے خوف اور تیری محبت کی وجہ سے بڑے گناہوں سے بچتے ہوئے پانچ وقت تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ ہر جمعہ عرض کرے گا کہ تیرا یہ بندہ سات دن اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچاتے ہوئے جمعہ کے دن جس میں تیرے پیارے نبی ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اس میں ایک قبولیت دعا کا لمحہ بھی آتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات حدیث6400) اپنی دعاؤں کی قبولیت کی آرزو لے کر تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ رمضان کہے گا کہ اے خدا! یہ بندہ رمضان کا حق ادا کرنے کے بعد گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیکیاں بجالاتے ہوئے اس رمضان میں اس امید پر داخل ہوا کہ تو اسے بھی اپنی رحمت، بخشش اور آگ سے بچانے کے عشروں سے فیضیاب کرے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍جون ۲۰۱۷ء)
یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی دیگر مہینوں سے ممتاز اور خصوصی مقام و اہمیت کا حامل ہے، لیکن آخری دس دن کے فضائل باقی دو عشروں سے زیادہ اور ممتاز ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکرہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتےتھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وفات دی۔پھر آپؐ کے بعد آپؐ کی ازواج معتکف ہوتی تھیں۔(حدیث نمبر ۲۸۸ماخوذاز حدیقة الصالحین صفحہ ۲۶۵)
ایک اور جگہ حدیث شریف میں ملتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث: ۱۹۰۳)
لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات یعنی اپنی فضیلتوں اور خصوصیات کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات میں بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالیٰ نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومرتبہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۱۸۷۸)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى (اے اللہ تومعاف کرنے والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے ) (سنن ترمذی ، حدیث : ۳۵۱۳، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث : ۱۶۳۴، معجم الکبیر للطبرانی، حدیث: ۱۵۰۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’پس اے مسیح محمدیؐ کے غلامو! آپ کے در خت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت سنتا ہوں، تمہیں خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔ …خداتعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خداتعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔
خداتعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔ اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍ستمبر ۲۰۰۸ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۶؍ستمبر۲۰۰۸ءصفحہ۷)
یہ صبر و استقامت کے ساتھ شکر گزاری کا بھی مہینہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو اس قدر مقدس بابرکت اور فضیلتوں سے بھر پور مہینہ سے نوازا کہ ہم اس کی رحمتوں کو سمیٹتے ہوئے اس کے فضلوں کے وارث بنیں۔ خدا ہم کو اور ہماری نسلوں کو ہمیشہ ہمیش اپنے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین