اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ کینیڈا۔ اکتوبر،نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ ہفتم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
احمدیوں کے جذبات
شام کوحضورِانور نے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ حضورِانور سے ملاقات کے بعد ملک شام سے تعلق رکھنے والی ایک نومبائعہ خولہ الزید صاحبہ سےمجھے ملاقات کا موقع ملا۔ موصوفہ کے ساتھ ان کے شوہر تشریف لائے تھے، جو غیر احمدی تھے۔ کینیڈا میں مذہبی آزادی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے موصوفہ نے بتایا کہ مجھے کھل کر یہ بتانے میں کہ مَیں ایک احمدی ہوں، کئی سال لگے کیونکہ شام میں اگر میں کھلے طور پر یہ بتا دیتی تو ہمیں خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ یوں میرے کینیڈا آنے کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ میں پوری دنیا کو بتا سکتی ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا ہے۔
اس شام میری ملاقات ایک نو سالہ بچی سے ہوئی جو شام میں شہید ہونے والے ایک احمدی کی بیٹی تھی۔ کسی وجہ سے میں اس بچی کا نام نہیں لکھ سکالیکن ہماری گفتگو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ نہایت جذباتی انداز میں اس بچی نے مجھے بتایا کہ اسے اس بات کو تسلیم کرنے میں بہت مشکل درپیش تھی کہ اس کے والد کی شہادت ہو گئی ہے اور وہ ان کو خوابوں میں دیکھتی رہی۔
اس نے بتایا کہ وہ انہیں بہت زیادہ یاد کرتی تھی اور یوں حضورِانور سے ملاقات کے دوران اس نے پوچھا کہ اللہ اس کے والد کو اپنے پاس کیوں لے گیا ہے؟ اس بچی نے مجھے کہا کہ حضورِانور نے مجھے بتایا کہ میرے والد ایک اچھے اور نیک آدمی تھے اور اس وجہ سے لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان پر ظلم کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے والد کو جنت میں بلا لیا تاکہ انہیں تکلیف سے نجات ملے اور ان مشکلات سے بھی جن کا انہیں سامنا تھا۔ یہ سننے پر مجھے بہت اچھا لگا اور مجھے سمجھ آئی کہ میرے والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کیوں اپنے پاس بلا لیا ہے۔
اس گفتگو کے دوران میں خود بھی یہ سوچ کر کہ حضورِانور نے کس خوبصورتی سے اس بچی کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا ہے بے حد جذباتی ہو گیا۔ اس چھوٹی بچی نے مزید بتایا کہ حضورانور نے مجھے یہ بھی فرمایا کہ اب یہ میرا فرض ہے کہ اپنے والد کی طرح اچھی اور امانت دار بنوں اور ان کے نقش قدم پر چلوں۔ ان شاءاللہ، میں اس بات پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کروں گی۔
Certainly کے لفظ کا استعمال
۲۶؍اکتوبر کی شام خاکسار کو حضورانور کے ساتھ چند بابرکت لمحات گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کی کہ ایک نوجوان خادم نے مجھے بتایا کہ انہیں حضورانور کا certainly کا لفظ استعمال کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ سماعت فرمانے پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا: جب میں گھانا میں رہتا تھا،وہاں ایک افریقن آدمی تھا جو certainly کا لفظ بہت زیادہ استعمال کرتا تھا اور جس انداز سے وہ بولتا تھا مجھے اچھا لگتا تھا۔ ممکن ہے کہ نا دانستہ طور پر میں نے یہ لفظ اس سے لے لیا ہو اور اب اس کو اکثر استعمال کرتا ہوں۔ میں اکثر obviously اور of course بھی استعمال کرتا ہوں۔
ایک شہید کے بیٹے سے گفتگو
۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو حضورِانور نے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ ایک نوجوان جس کو حضورِانور سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی وہ عزیزم سعد احمد خان (بعمر۲۴؍سال) تھا۔ وہ ڈاکٹر اصغر یعقوب صاحب شہید کا بیٹا تھا جن کی ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ءکے واقعہ میں لاہور میں شہادت ہو گئی تھی۔
سعد نے ایک سال قبل کینیڈا ہجرت کر کے ایک بینک میں ملازمت اختیار کر چکے تھے اور اب بہت اچھی گزر بسر کررہے تھے۔ اس صبح حضورِانور سے زندگی میں پہلی مرتبہ ملاقات کرنے پر سعد نے بتایا کہ حضورِانور کے دفتر میں داخل ہونے سے قبل مجھے بہت زیادہ گھبراہٹ تھی۔ بلکہ کچھ ڈر بھی رہا تھا لیکن جونہی میں نے حضورِانور کو دیکھا مجھے انتہائی خوشی اور سکون کا احساس ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے اور میری فیملی کو جن مشکلات کا سامنا تھا وہ اپنے خلیفہ کے ساتھ گزرے چند لمحات کے باعث دور ہوگئیں۔ یہاں کینیڈا میں رہنے کے اپنے مسائل ہیں کیونکہ یہ ایک مادہ پرست اور دنیاوی معاشرہ ہے لیکن جب ہم حضورِانور کو دیکھتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا پرستی کی کوئی وقعت نہیں ہے اور ہماری ترجیح ہمیشہ ہمارے ایمان کی حفاظت ہونی چاہیے۔
پھر سعد نے مجھے اپنے والد صاحب کی شہادت کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہاکہ ۲۸؍ مئی کے واقعہ کے دو ہفتہ بعد ان کے اے لیول کے امتحان تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ ذہنی طور پر امتحان میں بیٹھنے کے قابل نہ تھے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے حضور کی خدمت میں خط لکھا اور حضور کی طرف سے فوری جواب موصول ہوا کہ انہیں نارمل طریق پر امتحان میں بیٹھنا چاہیے۔ اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
اس وقت کے بارے میں سعد نے بتایا کہ اب جب میں ماضی کو دیکھتا ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اس امتحان کے وقت سے کیسے گزر گیا۔ مجھے کالج میں بھی کوئی خاص سپورٹ حاصل نہ تھی کیونکہ احمدی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے تھے۔ تاہم محض حضورِانور کے ارشاد کی اطاعت کے نتیجے میں الحمدللہ، میں پاس بھی ہو گیا اور اچھے نمبر بھی حاصل کیے۔ خاص طور پر اس وقت نے مجھے باور کروایا کہ خلیفہ وقت کی دعائیں دنیا کی کسی بھی قوت سے زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔
اپنی فیملی کے لیے حضورِانور کی محبت اور خیال رکھنے کے بارے میں سعد نے بتایا کہ میں اس حقیقت کو کبھی بھلا نہیں سکتا کہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد حضورِانور نے بذات خود ہم سے فون پر گفتگو فرمائی اور پھر ۲۸؍ مئی کے حملہ کے بعد پہلی عید پر بھی دوبارہ ہمیں فون کیا۔ یہ فون کالز تھوڑے دورانیہ کی نہیں تھیں بلکہ قدرے طویل تھیں۔ میں نے ایک فون کال کا وقت نوٹ کیا تھا اور حضورِانور ازراہِ شفقت آٹھ منٹ تک ہماری فیملی سے گفتگو فرماتے رہے۔
سعد نے مزید بتایا کہ میں حقیقتاً حیرت زدہ تھا کہ ہمارے خلیفہ نے ہمیں اس قدر وقت عطا فرمایا تھا۔ آپ پر پوری دنیا کی ذمہ داریاں ہیں اور پھر بھی آپ نے مجھ سے گفتگو فرمائی جبکہ میں ابھی نوجوان تھا اور نہایت محبت اور شفقت سے میری راہنمائی فرمائی۔ حضورِانور نے مجھ سے میری پڑھائی کے بارے میں استفسار فرمایا اور فرمایا کہ کیا میرے والد صاحب کی شہادت کے بعد میرے گریڈزمیں کوئی فرق آیا ہے؟آپ نے دعا سے نوازا کہ اللہ تعالیٰ میری تعلیم میں برکت دے۔
پھر موصوف نے بتایا کہ میرے والد صاحب کی شہادت کے بعد سے حضور انورہمیں ذاتی طور پر عیدی بھجواتے ہیں اور آپ نے ہمیں ایک فریم کی ہوئی تصویر بھی بھجوائی جس پر لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے ۔
اب جبکہ ہم کینیڈا میں ہیں،ابھی بھی حضورِانور ہمیں عیدی عطا فرماتے ہیں۔ آپ کی شفقت ناقابلِ یقین ہے اور ہم خود گواہ ہیں کہ خلافت کی محبت ایک منفرد نعمت ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ہماری گفتگو اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی جب سعد نے اپنے شہید والدِ محترم کا ذکر کر کے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے نمونہ سے اپنی اولاد کے لیے ایک مثال قائم کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد صاحب کی قربانی( شہادت)مجھ پر اور میری فیملی پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔اپنی زندگی میں، میرے والد صاحب میرے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ وہ ڈاکٹر تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دوسروں کو آرام اور راحت پہنچانے کے لیے ہمیشہ اپنے تئیں مشکل اور بے آرامی میں ڈالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
سعد نے بتایا کہ ایک مرتبہ کسی نے میرے بھائی سے کچھ مدد چاہی لیکن چونکہ اس کے امتحان چل رہے تھے میری والدہ نے کہا کہ اسے اس وقت اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ سننے پر میرے والد صاحب نے میرے بھائی کو کہا کہ امتحان تو آتے جاتے رہیں گے، لیکن اس وقت وہ ضرورت مند ہے اس لیے تمہیں جانا چاہیے اور اس کی مدد کرنی چاہیے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)