قبولیت دعا کے لیے دو شرائط
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالی فرماتا ہےفَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں جس پکار کو میں سنُتا ہوں اس کے لیے دو شرطیں ہیں اول میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے (۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بد ظنّی نہ ہو۔اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں؟ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جائیں گی وہی قبول ہوگی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیںجو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سُنے اور مجھ پر یقین رکھے۔ یعنی وہ دُعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو ناجائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعاؤں کو سنوں گا…پس فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دُعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔اول فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ تم میری باتیں مانو (۲) وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ اور مجھ پر یقین رکھو۔جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دین دار نہیں۔وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعا سُنوں گا۔بے شک میں ان کی دُعاؤں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں۔(تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۰۸)
(مرسلہ:عثمان مسعود جاوید۔ سویڈن)