انسان کی پیدائش کی علّت غائی عبادت ہے
انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات:۵۷) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت ، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے۔ عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہوکہ گویا رُوح ہی رُوح ہو اس کا نام عبادت ہے۔ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے۔ اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہوجاتے ہیں۔ پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری ،کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدانظرآئے گا۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہوکر نشوونما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں وطیب ان میں لگیں گے جو اُکُلُہَا دَآئِمٌ(الرعد:۳۶) کے مصداق ہوں گے۔ یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صُوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے۔ جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے۔ اس کا دل عرش الٰہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر نزول فرماتا ہے۔ سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہوجاتی ہیں کہ انسان کی حالتِ تعبددرست ہو جس میں رُوحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے۔ اسی مقام پر پہنچ کر انسان دُنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَاُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا(البقرہ:۲۶) کہنے کا حظ اور لُطف اُٹھاتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۶۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)