خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍ مارچ 2024ء

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم رمضان کے اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن جائیں

اصل مقصد تو تقویٰ پیدا کرنا ہے اگر یہ نہیں توروزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے

رمضان میں تو قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے، سننے، سنانے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ ذکر الٰہی کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ عبادات کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے لیکن بجائے اس کے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ مختلف قسم کے کام کر رہے ہیں وہ اپنے کاموں سے آ کر افطاریوں کی دعوتیں کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں

ہمیں چاہیے کہ رمضان میں روزے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ تقویٰ جو اصل مقصود ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں

شیطان کو کوئی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے اس نے بڑے چیلنج سے یہ بات کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اکثریت میرے بہکاوے میں آکر میرے پیچھے چلے گی۔ پس ہم نے رمضان میں اس کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے

خدا تعالیٰ کا اس سے یعنی روزے سے منشا یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ … روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پرنہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اورتہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جائے۔ (حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام)

تسبیح کریں۔ اس کے لیے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بتائی ہوئی یہ دعا جو الہامی دعا بھی ہے یعنی ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ ایک بہت اہم دعا ہے۔

’’جو شخص قرآن مجید کی ہدایت پر کار بند ہوگا وہ معرفت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے گا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام)

’’خوب یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی کسی کی مصیبت میں کام نہیں آسکتا اور کوئی شریک ہمدردی نہیں کر سکتا جب تک خدا خود دستگیری نہ کرے اور اپنے فضل سے آپ اس مصیبت کو دُور نہ کرے

یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امّت کے مریضوں اور مسافروں کے لیے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ وہ تم سے کسی کو کوئی چیز تحفہ دے پھر وہ اس چیز کو تحفہ دینے والے کو واپس لوٹا دے۔(الحدیث)

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس رمضان سے حقیقی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیار کو اس مقام پر لانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے

اسیرانِ راہِ مولیٰ کی رہائی، مسلمان ممالک اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے اور جنگوں کے بداثرات سے بچنےکے لیے دعا کی تحریک

رمضان المبارک کے فضائل اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں حصولِ تقویٰ کا پُر معارف بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍ مارچ2024ء بمطابق 15؍ امان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (البقرہ:185)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بہت عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے۔

(سنن النسائی کتاب الصوم باب ذکر الاختلاف علی معمر فیہ حدیث 2108)

اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے فضلوں سے نوازنے کے لیے بہت مہربان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو عام دنوں میں بھی اپنے بندوں کو اس طرح نوازتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس مہینے میں جب خاص طور پر شیطان کو جکڑ کر اس کے پنجے سے نکلنے کے سامان کرتا ہے تو اس کے لیے تو ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں کہ کس طرح مثال دی جائے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہم بڑھیں تو اس کے احسان کے دروازے پہلے سے زیادہ کھلے ہوئے پاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اپنے احسانوں سے نوازنے کا مقرر کیا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذشتہ دنوں سستیاں ہم دکھا چکے ہیں، نوافل کی ادائیگی میں سستیاں دکھا چکے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرنے پڑھنے سمجھنے میں سستیاں دکھا چکے ہیں، قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے میں سستیاں دکھا چکے ہیں ان کے لیے اس مہینے میں سامان کر دیا کہ اس مہینے میں فرائض بھی اور نوافل بھی خاص طور پر ادا کرنے کا ماحول ہے۔ اس لیے فائدہ اٹھاؤ۔

درس کا مساجد میں بھی انتظام ہوتا ہے اور ایم ٹی اے پر بھی انتظام ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو تلاش کرنا چاہیے ۔

اور پھر اس ماحول کے اثر کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ ہمیں بنانا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے مستقل وارث بنتے چلے جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس ماحول سے بہترین فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے میری طرف بڑھو اور اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کی جتنی خوشی ہوتی ہے اس کا اندازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو خوشی ماں کو اس کے گمشدہ بچے کے ملنے کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی اپنے گمشدہ بندے کے ملنے سے ہوتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الأدب باب رحمۃ الولد … حدیث 5999۔ نیز صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ التَّوْبَةِ 6308)

یعنی جو لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے نہیں ہیں یا اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا نہیں کر رہے، اس میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ جب حقیقت میں یہ حق ادا کرنے والے بن جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جب وہ اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے تو اس کو اس قدر نوازتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ پس

ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم رمضان کے اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن جائیں۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے جہاں تقویٰ پر چلتے ہوئے ہمیں اپنے حکموں پر چلنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں روزے سے متعلقہ بعض احکام کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی پُرحکمت کتاب ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عطا فرمائی ہے تا کہ ہم اس کی قربتوں کے حاصل کرنے والے بن جائیں، ان رستوں پر چلنے والے بن جائیں جو اس کی قربت کے راستے ہیں۔ یہ پہلی آیت ہے۔اس کے پہلے ارشاد میں ہی ہمیں عاجزانہ راہوں پر چلنے کی طرف توجہ دلا دی اور ہمیں عاجزی کی تلقین یہ کہہ کر فرما دی کہ تم روزے رکھ کر کوئی ایسا کام کرنے لگے ہو جو صرف تمہارا ہی امتیاز ہے، یہ نہیں ہے بلکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے۔ ٹھیک ہے ان کے روزوں کے طریق میں شاید کچھ فرق ہو گا لیکن روزے ان پر بھی فرض کیے گئے تھے اور مقصد یہ تھا کہ وہ تقویٰ پر چلیں اور یہی روزوں کا مقصد تمہارے لیے بھی ہے کہ تم تقویٰ پر چلو یعنی تم غلط باتوں سے بچو اور نیک باتوں کو اختیار کرو اور گناہوں اور غلط باتوں سے اس طرح اپنے آپ کو بچاؤ جس طرح ایک جنگجو ڈھال کے پیچھے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور ڈھال کو سامنے رکھنے والا جنگجو صرف اپنے آپ کو ہی نہیں بچاتا بلکہ وہ دشمن پر وار بھی کرتا ہے۔ پس

تم بھی اگر تقویٰ پر چل رہے ہو تو نہ صرف اپنے آپ کو بچاؤ گے بلکہ شیطان پر اور شیطانی خیالات پر حملہ کر کے اس کو بھی مار دو گے اور یہی طریق ہے جس سے تقویٰ پر چلتے ہوئے روزے کا حق ادا ہوتا ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بھوکا رکھنے کا اللہ تعالیٰ کو کوئی شوق نہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور … حدیث 1903)

اصل مقصد تو تقویٰ پیدا کرنا ہے اگر یہ نہیں توروزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

آج کل تو مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد میں بھوکا رہنے والی بات بھی نہیں رہی۔ اکثر خاص طور پر جو امیر لوگ ہیں سحری بھی بڑے اہتمام سے کھاتے ہیں اور افطاری بھی بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ ہاں بیچارہ غریب ہے جسے سحری اور افطاری بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے لیکن ان کا بھی روزے میں بھوک کے ساتھ پانی پینے سے رکنا اللہ تعالیٰ کی نظر میں تب مقبول ہو گا جب تقویٰ کے راستوں کی بھی تلاش کریں گے۔ اپنی عبادتوں کو سنوارنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں یہ بھی بیان کر دوں کہ امیروں کو چاہیے کہ اپنے علاقے کے غریبوں کی رمضان میں خاص طور پر خبرگیری کریں۔ افطاریوں میں صرف امراء کو ہی جمع کر کے افطاریوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ غریبوں کی افطاریوں کا بھی انتظام کریں اور یہ جو دعوتوں کے رنگ میں بڑی بڑی افطاریاں ہوتی ہیں، ان کے حق میں تو ویسے بھی مَیں نہیں۔ یہ اب دکھاوے اور بدعت کا رنگ اختیار کر گئی ہیں۔

رمضان میں تو قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے، سننے، سنانے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ ذکر الٰہی کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ عبادات کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے لیکن بجائے اس کے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ مختلف قسم کے کام کر رہے ہیں وہ اپنے کاموں سے آ کر افطاریوں کی دعوتیں کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں

اور جنہوں نے افطاریوں کی دعوت کی ہوتی ہے وہ بھی اس طرف توجہ دینے کی بجائے کہ قرآن و حدیث پڑھیں، ذکر الٰہی کریں، عبادت کی طرف توجہ دیں اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح اچھے سے اچھا انتظام ہو، افطاری کا سامان ہو، کیسی اچھے سے اچھی افطاری تیار ہو تاکہ ان کی واہ واہ ہو کہ افطاری میں بہت کمال کر دیا۔ تو یہ چیزیں رمضان کا مقصد نہیں ہیں۔ یہ تو تقویٰ سے دُور لے جانے والی باتیں ہیں۔

پس ڈھال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ڈھال کا صحیح استعمال کرنا بھی ضروری ہے ورنہ شیطان تو دائیں بائیں، آگے پیچھے سے حملہ کرے گا، کس طرح بچائیں گے؟ اور پھر یہ شیطان انسان کو کاری زخم لگا کر زخمی بھی کر سکتا ہے۔ پس

ہمیں چاہیے کہ رمضان میں روزے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ تقویٰ جو اصل مقصود ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز باتوں سے بھی رکیں تو پھر یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نظر ہم پر ہو گی اور اللہ تعالیٰ ہمارے شیطان کو بھی جکڑ دے گا اور نیکیاں کرنے کا وسیع میدان بلا روک ٹوک ہم پار کرتے چلے جائیں گے۔ عبادتوں اور ذکر الٰہی کا حصار ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیطانی حملوں اور روکوں سے بچاتا چلا جائے گا۔

شیطان کو کوئی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے اس نے بڑے چیلنج سے یہ بات کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اکثریت میرے بہکاوے میں آکر میرے پیچھے چلے گی۔ پس ہم نے رمضان میں اس کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے

اور پھر یہ کوشش کرنی ہے کہ ہم عبادتوں اور قرآنی احکام پر عمل کرنے کے ہتھیار سے شیطان کا ہمیشہ مقابلہ کرتے چلے جائیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام روزے کی حقیقت کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں:روزے کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالَم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا ایک اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل تو روزہ کھانے پینے کا نام ہے۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں۔

خدا تعالیٰ کا اس سے یعنی روزے سے منشا یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔

ہمیشہ روزے دار کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو اور دنیا سے بے رغبتی ہو۔ پس

روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پرنہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اورتہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جائے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 122-123۔ایڈیشن 1984ء)

پس رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ عبادت اور ذکر الٰہی بھی بہت ضروری ہے۔ دل اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہے۔

تسبیح کریں۔ اس کے لیے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بتائی ہوئی یہ دعا جو الہامی دعا بھی ہے یعنی ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ ایک بہت اہم دعا ہے۔

(بحوالہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 208)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اسی طرح تہلیل ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار ہے۔ یہ بھی بہت ضروری ہے۔ پس یہ ذریعے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتے ہیں اور قبولیت دعا کے لیے بھی اہم ہیں۔ پس اس طرف ہمیں خاص طور پر توجہ دینی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں تقویٰ پر چلنے کی بےشمار جگہ تلقین فرماتا ہے۔ ہر نیکی کے حصول کے لیے تقویٰ شرط رکھی ہے۔

پس اس کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف بےشمار جگہ بلکہ قریباً ہر مجلس میں ہی توجہ دلائی ہے۔ آپؑ کا ایک مصرعہ ہے۔

’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے‘‘

تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً اگلا مصرعہ فرمایا کہ

’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 48 ایڈیشن 1984ء)

پس تقویٰ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ تقویٰ ہی ہے جو ہر نیکی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ تقویٰ ہی ہے جو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرتا ہے۔ تقویٰ ہی ہے جس سے انسان کی جسمانی اور روحانی ہر قسم کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ پس تقویٰ کا حصول ایک مومن کا اوّلین فرض ہونا چاہیے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تقویٰ کے مضمون کو مختلف پیرایوں میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام کے بعض ارشادات بھی اس سلسلہ میں پیش کرتا ہوں۔آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف نے شروع میں ہی فرمایا۔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ(البقرہ:3) پس قرآن شریف کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لئے تقویٰ ضروری اصل ہے۔ ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا۔ لَا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ:80) دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں۔ ریاضی، ہندسہ و ہیئت وغیرہ ‘‘ دوسرے مضامین ہیں ان ’’ میں اس امر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والا ضرور متقی اور پرہیز گار ہو بلکہ خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو وہ بھی سیکھ سکتاہے۔‘‘ بلکہ آج کل تو یہ لوگ اس مضمون میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں۔ فرمایا ’’مگر علمِ دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی نہیں کر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے۔ جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتاہے کہ علومِ دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہر گز ہرگز اسے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں ملتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لیے متقی ہونا شرط ہے جیساکہ یہ فارسی شعر ہے۔

عَروسِ حضرتِ قرآں نَقَاب آنگہ بَرْدَارَد

کہ دَارُالملک معنے را کُنَد خَالِی زِہرَ غَوغا‘‘

کہ فرقان کی دلہن تب نقاب اٹھاتی ہے جب باطن کی بستی کو ہر قسم کے شور و غوغا سے خالی کر لیا جائے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب تک یہ بات پیدا نہ ہو اور دارالملک معنی خالی نہ ہو۔‘‘ یعنی دل کی بستی جو ہے وہ دنیاوی گندگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ ان سے خالی نہیں ہے تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔فرمایا ’’وہ غوغا کیا ہے؟‘‘ یہ شور شرابہ کیا چیز ہے۔ ’’یہی فسق و فجور۔‘‘ غوغا جو گندگیاں ہیں، کیا ہے؟ یہی فسق و فجور ہے، ’’دنیا پسندی ہے۔ ہاں یہ جدا امر ہے کہ چور کی طرح کچھ کہلائے تو کہہ دے۔‘‘ یعنی جو نیکی کی باتیں اگر کبھی کوئی شخص کہہ بھی دیتا ہے تو وہ دوسروں کی چوری کی ہوئی باتیں ہوتی ہیں، اپنی نہیں ہوتیں ’’لیکن جو روح القدس سے بولتے ہیں وہ بجز تقویٰ کے نہیں بولتے۔

یہ خوب یاد رکھو کہ تقویٰ تمام دینی علوم کی کنجی ہے۔ انسان تقویٰ کے سوا ان کو نہیں سیکھ سکتا۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الٓـمّٓ۔ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ:2-3) یہ کتاب تقویٰ کرنے والوں کو ہدایت کرتی ہے اور وہ کون ہیں ؟ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ (البقرہ:4)جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ یعنی ابھی وہ خدا نظر نہیں آتا‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ پر ان کا ایمان ہے کہ خدا ہے اور تجربہ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ایمان لاتے ہیں کہ خدا ہے۔ ’’اور پھر نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ کھڑی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا۔’’تاہم بے لطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ متقی کے ابتدائی مدارج اور صفات ہیں۔‘‘ یہ باتیں تو ایک متقی کے ابتدائی مدارج ہیں، درجے ہیں اور صفات ہیں۔ یہ ایمانی باتیں ہونی چاہئیں۔ ایمان بالغیب اور نماز کا قیام یہ سب ابتدائی باتیں ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’…یہاں اعتراض ہوتا ہے کہ جب وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں ۔ خرچ کرتے ہیں اور ایسا ہی خدا کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر اس کے سوا نئی ہدایت کیا ہوئی؟‘‘ یہ تو پہلے ہی کر رہے ہیں تو پھر اب اس سے آگے کیا بڑھنا ہے۔ ’’یہ تو گویا تحصیلِ حاصل ہوئی۔‘‘ یعنی جو پہلے ہے اسی کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ فرمایا ’’…اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ عبارتیں اور یہ الفاظ اسی حد تک جو بیان کی گئی ہیں انسان کے کمال سلوک اور معرفتِ تامہ پر دلالت نہیں کرتے۔‘‘ یہ جو عبادتیں ہیں بیشک یہ ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کرو لیکن یہ اس کا کمال نہیں ہے۔ اس کا آخری مقصد نہیں ہے۔ یہ تو ابتدائی چیزیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر، غیب پر ایمان لانا، نمازیں پڑھنا، نمازیں گر جائیں پھر توجہ دینا، تھوڑا بہت خرچ کر لینا، یہ تو نیکیوں کی طرف لے جانے کے لیے ابتدائی چیزیں ہیں۔ فرمایا ’’اگر ہدایت کا انتہائی نقطہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ہی تک ہو تو پھر معرفت کیا ہوئی؟‘‘ اگر ہدایت یہی ہے کہ غیب پر ایمان لے آؤ تو پھر معرفت کیا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کس طرح ہو گی۔ ’’اس لیے

جو شخص قرآن مجید کی ہدایت پر کار بند ہوگا وہ معرفت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے گا۔‘‘

معرفت حاصل کرنی ہے تو قرآن مجید کی ہدایت کو پڑھو۔ ان پر عمل کرو۔ پھر معرفت کے مقام حاصل ہوں گے۔ انسان غیب کے علم سے باہر آئے گا ’’اور وہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ سے نکل کر مشاہدہ کی حالت تک ترقی کرے گا گویا خدا تعالیٰ کے وجود پر عین الیقین کا مقام ملے گا۔‘‘ عمل ہو گا تو تبھی عین الیقین کا مقام ملے گا۔

پس يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ سے نکلنے کے لیے قرآن کریم کے حکموں پر عمل ضروری ہے۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ غیب پر ایمان کیوں لائیں آج کل تو کیوں کا سوال نوجوانوں میں، بچوں میں بہت اٹھتا ہے۔ جس چیز کا ہمیں پتہ ہی نہیں اس پر ایمان کیوں لائیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:غیب پر ایمان تو ابتدائی شکل ہے۔ یہ کتاب جو دی گئی ہے اس پر عمل کرو۔ ایمان لانے کے بعد اس پر عمل ضروری ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان دلائے گا۔ تو غیب سے باہر نکل کر مشاہدے کی حالت پیدا ہو گی۔ صرف غیب سے نہیں ہوگا بلکہ خود آدمی مشاہدہ کرے گا کہ کون خدا ہے۔ یہ تو دنیا کا اصول بھی ہے جو سائنٹسٹ(scientist) ہیں، ریسرچر(researcher) ہیں وہ جانتے ہیں کہ تجربات میں بھی پہلے ایک hypothesis بنتا ہے، اس پر بنیاد کر کے ریسرچ ہوتی ہے اور پتہ نہیں کہ وہ سچ ثابت ہو یا نہ ہولیکن اس پہ تصور میں ایک بنیاد بنائی جاتی ہے اور اس پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایمان بالغیب کی بنیاد بنا کر پھر قرآنی احکامات پر عمل کرو، محنت کرو، غور کرو، پھر دیکھو تم مشاہدہ بھی کر لو گے۔

سائنسدان تو صرف اپنی ریسرچ کے لیے، ایک تسلی کے لیے وہ ریسرچ کرتے ہیں اور ان کی تسلی ہوتی ہے تو پھر لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن یہاں جو ایک تصورباندھا اور اس کے بعد ریسرچ کی اس سے ہر انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ ہے اسلام کی خوبی۔ یہ ہے ایمان بالغیب کی اصل حقیقت۔

فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح پر نماز کے متعلق ابتدائی حالت تو یہی ہو گی جو یہاں بیان کی کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں‘‘ قیام کا مطلب کھڑی کرنا۔’’یعنی نماز گویا گری پڑتی ہے۔ گرنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں ذوق اور لذّت نہیں۔ بے ذوقی اور وساوس کا سلسلہ ہے۔ اس لئے اس میں وہ کشش اور جذب نہیں کہ انسان جیسے بھوک پیاس سے بیقرار ہوکر کھانے اور پانی کے لئے دوڑتا ہے اسی طرح پر نماز کے لئے دیوانہ وار دوڑے لیکن جب وہ ہدایت پاتاہے تو پھر یہ صورت نہیں رہے گی۔ اس میں ایک ذوق پیدا ہو جائے گا۔‘‘ نماز میں بھی ایک لذت آئے گی۔ ’’وساوس کا سلسلہ ختم ہو کر اطمینان اور سکینت کا رنگ شروع ہو گا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’کہتے ہیں کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوگئی تو اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ نماز میں یاد آجائیگی۔ یہ نماز کاملوں کی نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں تو شیطان انہیں وسوسہ ڈالتا ہے۔‘‘ یعنی چیز گم ہو گئی اس نے کہا اچھا ویسے تو یاد نہیں آرہی چلو نماز پڑھتے ہیں۔ نماز میں میرے خیالات اِدھر اُدھر جاتے رہیں گے اور آخر شاید اس میں یہ بات یاد آجائے کہ مَیں نے کہاں وہ چیز رکھی تھی تو یہ نماز کاملوں کی نماز نہیں ہے، یہ شیطانی وسوسے ہیں ’’لیکن جب کامل کا درجہ ملے گا تو ہر وقت نماز ہی میں رہے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر وقت یاد رہے گا۔ ’’اور ہزاروں روپیہ کی تجارت اور مفاد بھی اس میں کوئی ہرج اور روک نہیں ڈال سکتا۔‘‘ دنیا کے کام بھی ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا خوف بھی رہے گا، خدا تعالیٰ یاد بھی رہے گا۔ فرمایا ’’اسی طرح پر باقی جو کیفیتیں ہیں وہ نرے قال کے رنگ میں نہ ہوں گی۔ ان میں حالی کیفیت پید اہو جائے گی اور غیب سے شہود پر پہنچ جاوے گا۔ یہ مراتب نرے سنانے ہی کو نہیں ہیں۔‘‘ یہ مرتبے جو مَیں نے بیان کیے ہیں یہ صرف سنانے کے لیے نہیں ہیں ’’کہ بطور قصّہ تم کو سنا دیا اور تم بھی تھوڑی دیر کے لئے سن کر خوش ہو گئے۔ نہیں یہ ایک خزانہ ہے اس کو مت چھوڑو۔ اس کو نکال لو۔ یہ تمہارے اپنے ہی گھر میں ہے اور تھوڑی سی محنت اور سعی سے اس کو پا سکتے ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 151تا 154۔ایڈیشن 1984ء)

پس آج یہ ہمارا کام ہے کہ اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خزانے کو نکالنے کے لیے محنت کریں اور کوشش کریں تا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار نہ کرو۔ تقویٰ کی دو قسمیںہیں۔ ایک علم کےمتعلق دوسرا عمل سےمتعلق۔ علم کے متعلق تو بیان کردیا ہے کہ علومِ دین نہیں آتے اور حقائق معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو۔ اس بات کو بھی خوب یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کے دوحکم ہیں۔ اوّل یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں، نہ عبادات میں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نوع انسان سے ہمدردی کرو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد9صفحہ 164۔ایڈیشن 1984ء)اللہ کا حق ادا کرو۔ بندوں کا حق ادا کرو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَّـتَّقِ اللّٰہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4) پس

تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہو اسے گویا تمام جہان کی نعمتیں حاصل ہو گئیں۔‘‘

تقویٰ اختیار کرو گے تو ایسے ایسے سامان اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور ایسی جگہوں سے رزق دے گا جہاں تمہارا گمان بھی نہیں ہو گا۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے۔‘‘ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی کو دنیاوی رزق بھی دیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’مَیں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا۔ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا۔

جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو

پس یہ وہ نسخہ ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء و اولیاء و صلحاء کا آزمایا ہوا ہے۔‘‘ تم بھی آزماؤ۔

فرماتے ہیں ’’…ہماری جماعت کو چاہئے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور اپنے دشمن کی ہلاکت سے بیجا خوش نہ ہوں۔ تورات میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے دشمنوں کے بارے میں ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مَیں نے ان کو اس لئے ہلاک کیا کہ وہ بد ہیں‘‘ اس لیے ان کو ہلاک کیا ’’نہ اس لئے کہ تم نیک ہو۔‘‘ تمہاری نیکی کی وجہ سے دشمن ہلاک نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنی بدی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ’’پس نیک بننے کی کوشش کرو۔‘‘ فرمایا ’’میرا ایک شعر ہے

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

پھر آپؑ فرماتے ہیں

’’…تقویٰ ایک تریاق ہے جو اسے استعمال کرتاہے تمام زہروں سے نجات پاتا ہے۔ مگر تقویٰ کامل ہونا چاہئے۔

تقویٰ کی کسی شاخ پر عمل پیرا ہونا ایسا ہے جیسے کسی کو بھوک لگی ہو اور وہ ایک دانہ کھالے۔ ظاہر ہے کہ اس کا کھانا اور نہ کھانا برابر ہے۔ ایسا ہی پانی کی پیاس ایک قطرہ سے نہیں بجھ سکتی۔ یہی حال تقویٰ کا ہے۔ کسی ایک شاخ پر عمل موجبِ ناز نہیں ہو سکتا۔ پس تقویٰ وہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالی فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا (النحل:129)خدا تعالیٰ کی معیت بتا دیتی ہے کہ یہ متقی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد9صفحہ 260تا 262۔ایڈیشن 1984ء)یعنی اگر حقیقی تقویٰ ہے تو خدا تعالیٰ خود اپنے فضل سے بتا دیتا ہے اور اس کے فضل کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ پس یہ تقویٰ ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’گواعادہ کلام کا ہوتاہے‘‘ بار بار وہی باتیں آ رہی ہیں ’’مگر چونکہ غفلت لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف وعظ و نصیحت سنی جاتی ہے اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے مگر پھر غفلت ہو جاتی ہے۔ اس لئے

ہماری جماعت کو یہ بات بہت ہی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے۔ ہر وقت اسی سے مدد مانگتے رہنا چاہئے۔ اس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔

خوب یاد رکھو کہ وہ ایک دم میں فنا کر سکتا ہے۔ طرح طرح کے دکھ اور مصیبتیں موجود ہیں۔ بے خوف اور نڈر ہونے کا مقام نہیں۔ اس دنیا میں بھی جہنم ہو سکتاہے اور بڑے بڑے مصائب آسکتے ہیں۔ خوب یاد رکھنا چاہئے۔‘‘ اب آج کل تو ایٹمی جنگوںکی باتیں ہو رہی ہیں تو وہ بھی تو ایک جہنم ہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو بم ہیں وہ آگ کے گولے ہی ہیں۔ فرمایا

’’خوب یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی کسی کی مصیبت میں کام نہیں آسکتا اور کوئی شریک ہمدردی نہیں کر سکتا جب تک خدا خود دستگیری نہ کرے اور اپنے فضل سے آپ اس مصیبت کو دُور نہ کرے۔

اسی واسطے ہر ایک کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشیدہ علاقہ رکھے۔‘‘ یعنی پوشیدہ تعلق رکھے۔ ’’جو شخص جرأت کے ساتھ گناہ، فسق وفجور اور معصیت میں مبتلا ہوتاہے وہ خطرناک حالت میں ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا عذاب اس کی تاک میں ہوتا ہے۔ اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہوتو تقویٰ اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو۔ جب تک خوفِ الٰہی کی حالت نہ ہو۔‘‘

یہ بڑی اہم، ضروری چیز ہے۔ فرمایا کہ

’’جب تک خوف الٰہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔

کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ۔ جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچا لئے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔ ایسے وقت ان کی نافرمانی انہیں ہلاک کر دیتی ہے اور ان کا تقویٰ انہیں بچا لیتا ہے۔ انسان اپنی چالاکیوں، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہر گز نہیں بچ سکتا۔ کوئی انسان بھی نہ اپنی جان کی حفاظت کر سکتاہے نہ مال اور اولاد کی حفاظت کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اَور کامیابی حاصل کر سکتاہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشید ہ طور پر ضرور تعلق رکھنا چاہیے۔‘‘ عبادتوں اور ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر کے یہ پوشیدہ تعلق قائم ہوتا ہے۔ فرمایا کہ

’’خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشید ہ طور پر ضرور تعلق رکھنا چاہیے اور پھر اس تعلق کو محفوظ رکھنا چاہئے۔‘‘

یعنی پھر یہ مستقل رہے۔

’’عقلمند انسان وہی ہے جو اس تعلق کو محفوظ رکھتاہے اور جو اس تعلق کو محفوظ نہیں رکھتا وہ بے وقوف ہے

جو اپنی چترائی پر نازاں ہے وہ ہلاک کیا جائے گا اور کبھی بامراد اور کامیاب نہیں ہو گا۔ دیکھو! یہ زمین و آسمان اورجو کچھ ان میں نظر آرہا ہے اتنا بڑا کارخانہ، کیا یہ خدا تعالیٰ کے پوشیدہ ہاتھ کے سوائے چل سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔

یاد رکھو جو امن کی حالت میں ڈرتا ہے وہ خوف کی حالت میں بچایا جاتاہے اور جو خوف کی حالت میں ڈرتا ہے۔ تو وہ کوئی خوبی کی بات نہیں۔ ایسے موقعہ پر تو کافر مشرک بے دین بھی ڈرا کرتے ہیں۔ فرعون نے بھی ایسے موقعہ پر ڈر کر کہا تھا اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (یونس:91)‘‘ یعنی مَیں ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مَیں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ فرمایا ’’اس سے صرف اتنا فائدہ اسے ہوا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا بدن تو ہم بچالیں گے مگر تیری جان کو اب نہیں بچائیں گے۔ آخر خدا تعالیٰ نے اس کے بدن کو ایک کنارے پر لگا دیا۔ ایک چھوٹے سے قد کا وہ آدمی تھا۔ غرض جب گناہ اور معصیت کی طرف انسان ترقی کرتا ہے تو پھر لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۔(الاعراف:35) والا معاملہ ہوتا ہے۔‘‘ یعنی نہ اس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پس ’’جب اجل کی بلا آجاتی ہے تو پھر آگے پیچھے نہیں ہواکرتی۔ انسان کو چاہئے کہ پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھے۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 369تا 370۔ایڈیشن 1984ء)

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس رمضان سے حقیقی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیار کو اس مقام پر لانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

پھر اگلی آیت روزے سے متعلق ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بعض بنیادی احکامات دیے ہیں۔ فرمایا کہ ان گنتی کے چند دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ تم پر روزے فرض کرنے کے باوجود تمہیں سہولت مہیا کرتا ہے لہٰذا جو مریض اور مسافر ہیں وہ اپنے اوپر بلا وجہ کا بوجھ نہ ڈالیں اور بعد میں صحت یاب ہونے کے بعد یا سفر ختم ہونے کے بعد روزے مکمل کر لیں۔ پس فرمایا فرض پورا ضرور کرنا ہے لیکن غیر ضروری بوجھ بھی نہیں ڈالنا۔ فطری اور ہنگامی مجبوریوں کا خیال بھی اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے تقویٰ کی قدر کرتے ہوئے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں سے اپنے آپ کو روکا انسان کی مجبوریوں میں اسے سہولت بھی مہیا فرما دی۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بہت بوجھ ہم پر ڈال دیا ہے بعض احکام ایسے ہیں جن کا انجام دینا بہت مشکل ہے۔ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ایسا نہیں جو مشکل ہو۔ سہولتیں ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ یا مذہب ہم پر بوجھ ڈالتا ہے یا لامذہب جو ہیں یا مذہب کے مخالفین جو ہیں مذہب کے ماننے والوں میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ کیا مذہب کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہو یہ تو تمہارے انسانی حقوق چھین رہا ہے۔ اس آیت میں بھی ان لوگوں کا جواب ہے کہ

روزے فرض ہیں۔ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بناتا ہے لیکن اس کے باوجود فطری تقاضوں اور ضرورتوں کا خدا تعالیٰ خیال رکھتا ہے اور تمہیں سہولت مہیا کرتا ہے۔

سال کے دوران کسی وقت بھی اپنے روزے مکمل کر لو اور صاحبِ حیثیت اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کا کچھ فدیہ بھی دے دیں۔ ہر ایک پہ فرض نہیں، جو صاحب حیثیت ہیں وہ دے دیں۔ اس سے دوہرا ثواب ہے۔ یہ زائد نیکی ہے جو تم کرو گے۔ تو اللہ تعالیٰ تو اس طرح نوازنے کے سامان کرتا ہے اور پھر دودھ پلانے والی مائیں ہیں یا مستقل بیمار ہیں ان کو حسب توفیق فدیہ کا ارشاد فرما دیا اور کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، نیتوں کو جانتا ہے اس لیے فرمایا کہ تمہارا فدیہ روزوں کے متبادل ہے۔ اگر تم نیک نیتی سے یہ دے رہے ہو۔ فدیہ سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے۔ گویا یہاں پھر حقوق العباد کو بھی عبادت کے ثواب کا درجہ دے دیا۔ اب فدیہ سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ غریب لوگ۔ لیکن ثواب اس کا عبادت کے برابر ہو گیا۔ یہ ہے اسلام کا خدا جو سوائے رحم کے اَور کچھ نہیں۔ پھر بھی انسان اس کا رحم حاصل کرنے والا نہ بنے تو اس کی بدقسمتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔

خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے۔ میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ۔ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ 258-259۔ایڈیشن 1984ء)

پس روزوں کے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور فدیہ بھی اس نیت سے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور روزوں کی بھی توفیق بخشے لیکن بہرحال جہاں اللہ تعالیٰ نے رخصت دی ہے اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی تقویٰ ہے۔

اصل تقویٰ یہی ہے کہ خداتعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی جائے

چنانچہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ مَیں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔‘‘ گناہ ہے ’’کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے۔ جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘ اپنی خود ساختہ تشریحیں نہ کی جائیں۔ جیسے آج کل کے علماء اپنے علم کے زعم میں کرتے رہتے ہیں۔ اور اب سوشل میڈیا پر تو جو پلیٹ فارم ان کو مل گیا ہے اس میں تو فقہ کے حوالے سے عجیب و غریب مضحکہ خیز باتیں اور فتوے ان لوگوں نے جاری کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بہرحال آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۔ (البقرہ:185)‘‘ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تووہ اتنے روزے دوسرے دنوں میں پورے کرے۔ ’’اس میں کوئی قید اَور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 72-73 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ رمضان میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات‘‘ اس کے ’’فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے … مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 431 ایڈیشن 1984ء)

ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں سوال کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تُو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ فرمایا:

یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امّت کے مریضوں اور مسافروں کے لیے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ وہ تم سے کسی کو کوئی چیز تحفہ دے پھر وہ اس چیز کو تحفہ دینے والے کو واپس لوٹا دے۔

(کنز العمال جزء 8 صفحہ 611 حدیث 24384 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

پس تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو۔ جس نیکی کو بھی وہ کہے اس وقت کرو اور جس وقت کہے وہ اس وقت کرو اور جسے کہے چھوڑ دو تو چھوڑ دو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلتے ہوئے تقویٰ سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے تقویٰ کےمعیار اونچے کرنے کی توفیق دے۔ نہ ہی روزوں سے بچنے کے بہانے ہم تلاش کرنے والے ہوں اور نہ بلا وجہ سختی اپنے اوپر وارد کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں ہم اللہ تعالیٰ کی بےشمار برکات حاصل کرنے والے ہوں۔ ہر دن ہمارے لیے برکتوں اور رحمتوں کے سامان لے کر آئے۔ رمضان سے ہم حقیقی فیضیاب ہونے والے ہوں۔ یہ رمضان ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب تر کرنے والا ہو۔ مقبول دعاؤں کی ہمیں توفیق ملے۔ تمام دنیا کے احمدی جماعتی ترقیات اور تمام مشکلات دُور ہونے کے لیے بھی دعا کریں۔ حکومتوں اور ہر شریر کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے رکھے۔

اسیران کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔

بعض ان میں سے بڑی مشکل میں گرفتار ہیں اور یہ دعا کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا دامن ایسا پکڑیں کہ کبھی ہماری کسی لغزش کی وجہ سے یہ دامن نہ چھوٹے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہمیشہ ہم پر برستی رہے۔

مسلمان دنیا کے لیے بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ انہیں عقل اور سمجھ دے اور وہ آنے والے مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کو ماننے والے ہوں۔

جنگوں کے بداثرات سے بچنے کے لیے بھی دعا کریں۔

مسلمان ممالک میں اقتدار کی خاطر جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو معصوم عوام ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم کرتے ہوئے ان ظالموں سے نجات دے۔

دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ جنگ اور اس کے خطرناک نتائج سے بچائے۔ جنگ کی صور ت میں ظاہر ہے کہ احمدی بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی ہر احمدی کو اپنے تقویٰ کا معیار اونچا کرنا ہو گا یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بھی ہر ایک کو توفیق دے۔

یہاں یوکے میں بھی لگتا ہے مسلمانوں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک قانون شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے لایا گیا ہے لیکن عمومی تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے، کیا ارادے ان لوگوں کے ہیں لیکن

دعا کرنی چاہیے کہ

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور یہاں کے باقی مسلمانوں کو بھی اس کے شر سے محفوظ رکھے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۵؍ اپریل ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button