شوال کے روزے پہلے رکھے جاسکتے ہیں اور فرض روزے بعد میں
نفلی روزوں کے بارے میں حضورﷺکی ایک تفصیلی ہدایت کا ذکر حدیث میں یوں ملتا ہے۔ حضرت ابوقتادہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺسے صوم دہر ( یعنی ساری عمر کے روزہ) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایسے شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا(گویا ایسے روزہ کو آپ نے ناپسند فرمایا)۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپؐ سے ایک دن روزہ رکھنےاور دو دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی طاقت عطا فرمائے۔ پھرآپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایایہ روزے میرے بھائی حضرت داؤد علیہ السلام کے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپؐ سے سوموار کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا، اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا اور اسی دن مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا ساری عمر کے روزوں کے برابر ہے۔ راوی کہتے ہیں آپؐ سے عرفہ کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا گزرے ہوئے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ سے عاشورہ کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا یہ روزہ رکھنا گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط۵۵ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مئی ۲۰۲۳ء)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دارالافتاء کے اس فتویٰ پر کہ یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو ماہ شوال کے ابتدائی چھ ایام کے نفلی روزے رکھے اور پھر دوران سال جب چاہے روزوں کی تعداد پوری کرے۔اور چاہے تو ماہ شوال کے ابتدائی چھ ایام کے نفلی روزوں کی بجائے ان ایام میں اپنے فرض روزے پورے کرے۔ اپنے خط محررہ 08-02-05 میں تحریر فرمایا:
’’آپ کا خط 124-L/20-12-04 ملا۔شوّال کے چھ روزوں کے متعلق آپ کا فتویٰ ٹھیک ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد سے جو آپ نے نتیجہ اخذ کیا ہے وہی ٹھیک ہے۔ آپ کا ارشاد شوال کے روزوں پر زور دینے کے لئے ہے نہ کہ فرض روزوں کے پورے کرنے کی اہمیت کے بارہ میں۔ محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب کے فتویٰ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شوال کے روزے پہلے رکھے جاسکتے ہیں اور فرض روزے بعد میں۔ اس ضمن میں احادیث بھی واضح ہیں۔ ان کی روشنی میں فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍نومبر تا ۱۷؍نومبر ۲۰۰۵ء صفحہ ۲۔ زیر عنوان شوّال کے چھ روزے)