کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں تواللہ تعالیٰ یہ فرماتاہے کہ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ(البقرۃ:۱۸۸) یعنی رمضان کے ایام میں سحری کاوقت اس وقت تک ہے جب تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظرنہ آنے لگے۔مگر پنجاب میں بہت سے زمینداررمضان کی راتوں میں سفید اورسیا ہ تاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اورچونکہ تاگااچھی روشنی میں ہی نظر آتاہے اس لئے و ہ اس وقت تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں۔جب تک انہیں سیاہ اور سفید تاگا الگ الگ نظر نہ آنے لگے۔اسی طرح تشبیہ اوراستعارہ کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اگر خداتعالیٰ کے ہاتھ کاذکر آجائے توبعض لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ خداکاہاتھ بھی نعوذ باللہ اسی طرح گوشت پوست کا ہے جس طرح ہماراہے۔اوراگر انہیں کہاجائے کہ ہاتھ سے مراد خداتعالیٰ کی طاقت ہے تووہ کہیںگے کہ تم تاویلیں کرتے ہو۔ جب خدانے ہاتھ کالفظ استعمال کیا ہے تو تمہاراکیا حق ہے کہ تم اس کی تاویل کرو۔یا خداتعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کے الفاظ پڑھ لیں توجب تک وہ خداتعالیٰ کو ایک سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہو اتسلیم نہ کریں انہیں چین ہی نہیں آئے گا۔حالانکہ دنیا کی ہرزبان میں تشبیہ اور استعارہ کا استعمال موجود ہے۔ہمارے ملک میں محاور ہ ہے کہ ’’آنکھ بیٹھ گئی ‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ آنکھ کی ٹانگیں تھیں یاوہ بیٹھی ہے توکس پلنگ پر اورکرسی پر بیٹھی ہے۔کیونکہ ہر شخص جانتاہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنے یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہوگئی۔ اورپھوٹ گئی۔اسی طر ح اورکئی قسم کے استعارات ہماری زبان میں استعمال کئے جاتے ہیں اورکوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ان استعارات کو زبان کی خوبی اور اس کاکمال سمجھاجاتاہے۔
غرض جس طرح دنیا کی ہرزبان میں مجازاوراستعارات کا استعمال پایاجاتاہے اسی طرح الہامی کتابیں بھی ان استعارات کو استعمال کرتی ہیں۔مگر وہ لو گ جو استعارہ اورمجاز کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ انہیں ظاہرپر محمول کرلیتے ہیں اوراس طرح خو د بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۱۰صفحہ۵۵-۵۶، ایڈیشن ۲۰۲۳ء)