اگر کوئی نجات اور حیات طیّبہ کا طلبگار ہے تو اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اُسے سُنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے۔ اور حیات طیّبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے۔ اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح اُس کی رُوح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ(البقرۃ:132) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔
پس تُم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف مَیں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اِس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 100۔ ایڈیشن1984ء)
(مشکل الفاظ کے معانی: ابدی زندگی: ہمیشہ کی زندگی۔ ترجمہ آیت: میں تو تمام جہانوں کے ربّ کے لئے فرمانبردار ہو چکا ہوں۔)