اب اسلامی شریعت کی رُوسے لونڈی یاغلام رکھنے کا قطعاً کوئی جوازنہیں ہے
قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا یہی موقف ہے کہ جو لونڈیاں جنگوں کے بغیر کسی اور ذریعہ سے مسلمانوں کی ملکیت میں تھیں ان کے ساتھ نکاح کے بغیر تعلقات قائم کرنا منع ہوتا تھا۔ لیکن دشمنان اسلام کی جو عورتیں اپنے لشکر کی معاونت کے لیے دشمن کے لشکر کے ساتھ آئی ہوتی تھیں اور دشمن کی شکست کے نتیجہ میں دیگر جنگی قیدیوں کے ساتھ قیدی بنتی تھیں۔ ایسی عورتوں کے ساتھ ان مسلمان مجاہدین کا جن کے حصہ میں وہ مال غنیمت کے طور پر آتی تھیں، جسمانی تعلقات کے لیے باقاعدہ کسی ایسے رسمی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، جس میں اس لونڈی کی رضامندی ضروری ہو یا اسلامی دستور کے مطابق اس کے ولی کی رضامندی ضروری ہو، بلکہ جس طرح بہت سے قبائل اور معاشروں میں یہ طریق رائج رہاہے اور اب بھی بعض ممالک میں یہ طریق موجود ہے کہ معاشرہ میں صرف یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ہم میاں بیوی ہیں اور یہی ایک قسم کا اعلان نکاح ہوتا ہے، اسی طرح مذکورہ بالا ان دوسری قسم کی لونڈیوں کا جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں کسی مجاہد کے حصہ میں آنا ان دونوں کا ایک طرح کا اعلان نکاح ہی ہوتا تھا۔ لیکن اس قسم کے نکاح کے نتیجہ میں مردکے لیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ بالا قسم کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ البتہ اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔
پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اورآنحضرت ﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزادکرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سےحسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی رُوسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہے۔بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے موجودہ حالات میں اس کوحرام قراردیاہے۔چنانچہ حضور علیہ السلام لونڈیوں کے مسئلہ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رہا یہ امر کہ کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جو لڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بناکر اُن سے ہم بستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھیرائے گا۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۵۷، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍جون ۲۰۲۳ء)