نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ …اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ بلکہ مجھے چاہیے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے اگر میرا بھائی ساد ہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیےکہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برجبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دُور نہ ہو جائیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘۔ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر6صفحہ 395-396)
(مشکل الفاظ کے معانی: حیف: افسوس، تاسف۔ چیں برجبیں: تیوری پر بل، پیشانی پر شکن یا سِلوٹ جس سے غصہ یا ناراضگی ظاہر ہو۔ مَشِیخَت: شیخی، غرور، جھوٹا دعویٰ)