عمرِ خضر تُو کر مرے محبوب کو عطا
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍مئی ۲۰۲۴ء میں اپنی صحت کےحوالے سے احباب جمات کو دعا کی تحریک فرمائی۔ اس حوالے سےادارہ الفضل کو دنیا بھر کے احمدی شعراء کی طرف سے کثرت سے دعائیہ نظمیں اور قطعات موصول ہورہے ہیں جن میں وہ اپنے محبوب امام کے لیے اپنے پُر خلوص دعائیہ جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔اس منظوم کلام میں سے ایک انتخاب اس دعا کے ساتھ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شعرائے کرام کے ان جذبات کو جو کہ درحقیقت ہر احمدی کے دل کی آواز ہے اپنی جناب میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کو لمبی،فعّال اور پُر از فتوحات زندگی سے نوازے۔ آمین (ادارہ)
اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ کُنْ مَعَہٗ حَیْثُ مَا کَانَ وَانْصُرْہُ نَصْرًا عَزِیْزًا
میرے حضور آپ کو کامل شفا ملے
سجدوں کی سب دعاؤں کی یوں انتہا ملے
میرے حضور آپ کو کامل شفا ملے
کوئی بھی درد آپ کو پہنچے نہیں کبھی
ہر تازگی کی آپ کو آب و ہوا ملے
خوشبو سے آپ کی ہوں فضائیں یہ مشکبار
سارے ہی موسموں کو ادا یہ سدا ملے
ہو آپ کی سپاہ میں لشکر یہ جاوداں
بس آپ کی نگاہ کی ہم کو عطا ملے
دھڑکن کے سارے ساز ہوں تجھ پر ہی سب فدا
چلتی ہوئی ہر سانس کی تجھ کو دعا ملے
مجھ سی غریبِ شہر کی ہے آرزو یہی
قدموں کی تیری خاک کی مجھ کو وفا ملے
ہو زندگی کے سارے ہی چشموں میں تو رواں
تیری دعاؤں سے ہمیں رازِ بقا ملے
آئے نہ کوئی آنچ بھی ایمان پر کبھی
اے درد آشنا مرے تیری رضا ملے
جب بھی دیا جلاؤں میں اِک سوچ کا نئی
ہر اِک خیالِ ناز پر تُو جا بجا ملے
(دیا جیم۔ فجی)
پیارے آقا کے لیے دعائے سلامتی
تری رحمتوں کے رہیں اس پہ سائے
خدايا اسے غم نہ کوئی ستائے
کبھی درد کوئی نہ تکلیف آئے
که مرشد مرا عمرِ خضر ایسی پائے
خدا کا ہو فضل و کرم تجھ پہ ہر آں
سلامت رہے میرے مرشد تری جاں
رہے شاد و آباد مرشد ہمارا
زمانے میں ہے جو ہمیں جاں سے پیارا
چمکتا رہے آسماں پر وہ تارا
وه مرشد ہمارا ہمیں جاں سے پیارا
رہیں دور تجھ سے ہمیشہ بلائیں
کہاں تجھ کو تکلیف میں دیکھ پائیں
یہ عشاق تیرے یہ تیرے فدائی
کہ ہر ایک کی جان ہے کپکپائی
تجھے کچھ نہ ہو آنکھ بھر سب کی آئی
تجھی سے ہماری ہے سب دل ربائی
حضور آپ ایسے سدا مسکرائیں
یہی ہیں ہماری خدا سے دعائیں
(قدسیہ نور فضا)
شافی ہے تُو خدا! مرے دلبر کو دے شفا
جاری تھا اُس حسین کا معجز اثر بیاں
طاری تھا ہر کسی پہ عجب وجد کا سماں
اُس جانِ دلربا نے کچھ ایسا سخن کہا
بجلی گری دماغ پہ دل تھا کہ رُک گیا
کیونکر کھلے بھلا وہ مری حالتِ اَلم
ذکرِ خفیف سے بھی ہے قاصر مرا قلم
کانٹا بھی گر چبھے تو گزرتا ہے یہ گراں
دردِ صنم پہ ہوتے ہیں بے چین عاشقاں
حائل ہوا مرض نہ فرائض کی راہ میں
معشوق جلوہ گر ہوا پیاروں کی چاہ میں
آرامِ جاں بھلا دیا مردِ عجیب نے
محبوب اپنے یاد رکھے بس حبیب نے
فکروں سے اپنے پیاروں کی گھائل کیا جگر
پیاروں کو اپنے زخم کی ہونے نہ دی خبر
ایسا وجودِ ضبط کہ دیکھا نہیں کبھی
دُوجوں کے دکھ سمیٹے رکھے اپنا غم خفی
ہونے نہیں ہے دیتا غم اپنے کبھی عیاں
اک دافع البلاء سے ہی کرتا ہے دکھ بیاں
شافی ہے تُو خدا! مرے دلبر کو دے شفا
میری تمام عمر بھی اس کو ہی دے لگا
عمرِ خضر تُو کر مرے محبوب کو عطا
اتنی کہ ہو یہی مری نسلوں کا رہنما
(م م محمود ؔ)
ہر روز وشب یونہی رہے مسرور زندگی
(حضورانور نے اپنی صحت کے لیے دعا کی تحریک کی تو دل سے یہ نکلا)
یا رب تُو میری جان کو غم سے نجات دے
میرے حضور کو شفا والی حیات دے
روح القدس سے دے انہیں معمور زندگی
ہر روز و شب یونہی رہے مسرور زندگی
(مرزا محمد افضل۔ کینیڈا)
عاجزانہ التجا
مرے اللہ ہماری عاجزانہ التجا سُن لے
تو شافی ہے تو کافی ہے ہماری یہ دعا سن لے
مرے مولا تو کر تائید و نصرت میرے آقا کی
عطا کر زندگی فعّال اور کامل شفا سن لے
غلامانِ غلام احمد بہت بےچین ہیں مولا
تو اس دنیا کی ساری سجدہ گاہوں کی صدا سن لے
بدل دے بےقراری کو سکینت میں تو قادر ہے
دلِ مضطر کا اک تو ہی سہارا ہے دعا سُن لے
ہمارے مہرباں مشکل کشا غم خوار ہیں آقا
ہمارے سر پہ قائم رکھ ہمارا آسرا سُن لے
تو اپنی سمت اٹھے ہاتھ لوٹاتا نہیں خالی
عطا کر دے ہمیں خیرات اشکوں کی ندا سن لے
نہ ہی تکلیف پہنچے اور نہ کوئی غم قریب آئے
ترے فضلوں کے سائے میں رہیں صبح و مسا سُن لے
آمین اللّٰھم آمین
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)
تو اپنے خزانوں سے اسے عمر خضر دے
تو خالقِ کُل مالکِ کُل ارض و سماء ہے
ہر ایک مرض کی ترے ہاتھوں میں شفا ہے
سو سال سے جاری جو خلافت کی ردا ہے
یہ پانچواں مظہر بھی محض تیری عطا ہے
اس قلبِ مطہر کو جو تکلیف ہے پہنچی
دل خون ہوا جاتا ہے جب سے یہ سنا ہے
یا رب مرے آقا کو تُو جلدی سے شفا دے
ہر فردِ جماعت کی فقط ایک دعا ہے
روشن رہے وہ چہرۂ زیبا مرے مولا
گمراہی کے اس دور میں جو ایک دیا ہے
تُو اپنے خزانوں سے اسے عمرِ خضر دے
کشکول لیے در پہ سوالی یہ کھڑا ہے
(منصورہ فضل منؔ۔قادیان)
پیارے آقا کو خدایا دے مکمل تُو شفا
پیارے آقا کو خدایا دے مکمل تُو شفا
کام والی زندگی بھی ہو انہیں ہر دم عطا
ان کی بیماری کا سن کر دل کو اک دھچکا لگا
کوئی بھی تکلیف آقا کو نہ ہو میرے خدا
دیر تک آقا کا سایہ اے خدا قائم رہے
ان کا ہو دورِ خلافت فتح و نصرت سے سجا
میرے آقا امن کی جانب بلاتے ہیں ہمیش
ان کی سن لے کاش دنیا، آشتی کی یہ صدا
امن کے پرچم تلے آ جائیں سب قومیں اگر
جنگ کے شعلوں سے بچ جائیں نہ ہوویں وہ تباہ
پھولتا پھلتا رہے، بڑھتا رہے طیّب شجَر
اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھیں خدایا ہم سدا
سن لے مومن کی دعائیں اپنے فضلِ خاص سے
میرے آقا کو خدایا برکتیں دے بے بہا
(خواجہ عبدالمومن ۔ناروے)
تو چھاؤں چھاؤں شخص ہمارا رہے ہمیش
یہ دل خدا کرے کہ دھڑکتا رہے ہمیش
ہم اس کے اور وہ پیارا ہمارا رہے ہمیش
اے گل بدن تو ہے تو یہاں ہم ہیں جاوداں
یا رب ہماری جاں کا دلارا رہے ہمیش
تجھ بن کہاں ہے رونقِ کل کائنات سن
ہم بےکسوں کا مولیٰ سہارا رہے ہمیش
میں نے تری عطا سے فقط اس کو پا لیا
یا رب یہ میری نسلوں میں چشمہ رہے ہمیش
دلبر کی بارگاہ میں آنسو بہا دیے
ہم ہوں نہ ہوں یہ نور کا سایہ رہے ہمیش
عمرِ دراز تجھ کو عطا اس طرح سے ہو
تو چھاؤں چھاؤں شخص ہمارا رہے ہمیش
(م۔الف۔ قاہر)