حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مبلغین سلسلہ جماعت احمدیہ امریکہ کی ملاقات

مورخہ۲؍جولائی ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ امریکہ کے مبلغین سلسلہ کی آن لائن ملاقات منعقد ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کی صدارت اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے فرمائی جبکہ مبلغینِ سلسلہ کو میری لینڈ، امریکہ میں واقع مسجد بیت الرحمٰن سے آن لائن شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔

السلام علیکم کہنے کے بعد حضور انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ ملاقات کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔

سب سے پہلے حضرت امیر المومنین نے امیر صاحب جماعت احمدیہ امریکہ سے مبلغین سلسلہ اور حال ہی میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ امریکہ۲۰۲۴ء کی تفصیلات کی بابت استفسار فرمایا۔

اس پر محترم امیر صاحب نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ امریکہ میں کل ۴۴؍مبلغین سلسلہ ہیں، جن میں سے ۴۱؍میدنِ عمل میں ہیں جبکہ دیگر دفاتر میں خدمات سر انجام دینے کی توفیق پا رہے ہیں۔ نیز عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کا انعقاد کامیاب رہا۔

حضورانور نے جلسہ سالانہ امریکہ کے حوالے سے بعض رپورٹس کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا کہ ایسا فیڈ بیک موصول ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کے انتظامات تو اچھے تھے لیکن لجنہ کی طرف آواز کا معیار کافی خراب تھا۔ جس پر امیر صاحب نے یقین دلایا کہ ان شاء الله آئندہ منعقدہ پروگراموں میں اسے بہتر کرنے کے لیے بھرپوراقدامات کیے جائیں گے۔

حضور انور نے ان انتظامات کی نگرانی کے ذمہ دار افسر جلسہ گاہ کے متعلق دریافت فرمایا۔نیز امیر صاحب کو ہدایت فرمائی کہ افسر جلسہ گاہ کو اس مسئلہ پر غور کر کے اسے مستقبل میں مزید بہتر بنانا چاہیے۔حضورانور نے تاکید فرمائی کہ مبلغین سلسلہ کو بھی جماعت کے ممبران کے تربیت کے معیار کو مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں جلسہ سالانہ پر افرادجماعت میں نظم و ضبط کا معیار بہتر ہو گا۔

حضورانور نے مزید راہنمائی فرمائی کہ عورتوں کو کچھ اپنا ڈسپلن بھی برقراررکھنا چاہیے ۔ تمہیں تبھی مَیں کہا کرتا ہوں کہ گھانا کا جلسہ ہوا ہے ،اس کو دیکھو کہ کس طرح ڈسپلن سے عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ تو یہ چیز ہے جو ان میں پیدا کرنے والی ہے اور یہ مربیان کا کام ہے کہ سارا سال اس بارے میں کام کرتے رہیں۔

یہ ایک شخص کا کام نہیں ہے، نہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے۔یہ مربیان کا کام ہے کہ افراد جماعت کو بتاتے رہیں کہ صبر اور حوصلے سے جماعتی functionsمیں کس طرح بیٹھنا ہے۔ مثال وہ دیکھیں جو صرف گرمی میں نہیں بلکہ scorching heat میں بھی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، بچے بھی بیٹھے ہوئے تھےاور ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سےبیٹھے ہوئے تھے ، اس کے بعد گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ میرے پروگرام کے دوران بھی بیٹھے رہے لیکن وہاں سے کوئی ہلا نہیں ۔ تو یہاں یورپ ، یوکے اور امریکہ والوں کو بھی، اکثر جو لوگ ملتے ہیں، مَیں یہی کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلہ بھی ضروری ہے۔ یہ چیز ڈسپلن پیدا کرتی ہے اور تربیت کاایک حصہ ہے۔ تو مربیان کو اس طرف توجہ دلانی چاہیے اور اس کے لیے پہلے خود اپنے اندر بھی صبر پیدا کرنے والی بات ہے۔

پھر حضورانور نے ازراہِ شفقت مبلغین کو ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں نبھانے کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے زرّیں ہدایات سے نوازا۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وقف کریں اور جامعہ میں پڑھیں اور پھر جماعت کی خدمت کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی حتّی المقدور کوشش کریں۔ اس لیےاس بات کو اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھیں اور جب اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھیں گے تو پھر کام کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی توفیق دی ہےکہ ہم خدمت کریں اور کسی قسم کے جو شکوے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ پھر کوئی demandنہیں رہتی۔ جب یہ تصور پیدا ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے،اور یہ تصور پیدا کرنا بڑا ضروری ہے، یہی کامیاب مربی اور مبلغ کی ایک خاص نشانی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میں کیا خاصیت تھی جو اللہ تعالیٰ کو ان میں پسند آئی؟وَاِبۡرٰھِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی۔یہ وفا تھی۔اور وفا کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ سے وفا۔ اب آپ کا کام ہے وہ وفا کا عہد جو آپ نے اللہ تعالیٰ سے کیا اس کو پورا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وفا، خلافت سے وفا، نظام جماعت سے وفا۔ یہ ساری وفا کا تصور جب آپ میں پیدا ہو گا تو تبھی اللہ تعالیٰ کے احسان بھی یاد رہیں گے، تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو شریعت ہے، تعلیم ہے، قرآنِ کریم ہے، اس کو پھیلانے کی طرف توجہ پیدا ہو گی، تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کی طرف توجہ ہو گی، تبھی خلافت سے تعلق بڑھے گا ، تبھی نظامِ جماعت کے ساتھ ایک تعلق پیداہو گا۔بجائے اپنی ضروریات کا خیال رکھنے کے یا اپنے مسائل کے بارے میں سوچنے کے یہ ایک لگن ہو گی کہ ہم نے کس طرح اس مشن کو پورا کرنا ہے؟ اس وفا کو پورا کرنا ہے، اس احسان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیاہوا ہے اور یہ بات ہو گی تو وہ کامیاب مبلغ اور مربی ہو جاتا ہے۔ پھر یہ سوچ نہیں ہوتی کہ ہمارے پاس یہ کمیاں ہیں، یہ کمزوریاں ہیں ۔ہم یہ تو کوئی نہیں کہتے کہ ہمارے سارے نظام میں بڑی perfection ہے۔کمزوریاں بھی ہیں، کمیاں بھی آ جاتی ہیں، لیکن ان کمیوں اور کمزوریوں کو دُور کرنا مربیان کا کام ہے، مبلغین کا کام ہے۔پہلے اپنے آپ میں دُور کریں، پھر اپنے ماحول میں دُور کریں۔جہاں جہاں ان کی پوسٹنگ ہے وہاں دُور کریں۔

جو لوگ فیلڈ میں ہیں وہ اپنی تربیت کے کام کو دیکھیں کہ کس حد تک انہوں نے جماعت کے اندر ایسی روح پھونک دی ہے کہ نظام ِجماعت سے ان کی وابستگی ہو جائے ۔وہ اسی صورت میں ہو گا جب خود ہمارے اندر وہ روح پیدا ہو گی کہ ہم نے اپنی حالتیں کس حد تک بہتر کرنی ہیں، کس حد تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی ہے، کس حد تک قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، ہمارے کیا مقاصد ہیں ۔ ہم سٹیج پر آکر تقریریں کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اچھے مقررین ہیں اور لوگ بڑے متأثر ہوتے ہیں ،لیکن ایسے مقرر کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک عمل نہ ہو۔ اس لیےکوشش یہ کریں کہ اپنے نمونے قائم کریں اور جب اپنے نمونے قائم کریں گے تو وہاں جماعت کی تربیت اور آپ کے تبلیغی پروگرام میں بھی آپ کو مدد ملے گی۔آپ کے کاموں میں برکت پڑے گی، اور جو pace of progressہے یہ کئی گنا بڑھ جائے گی۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ہمارے اندر شکوے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔کبھی انتظامیہ سے مسئلہ ہو گیا، کبھی کسی صدر جماعت سے مسئلہ پیدا ہو گیا ، کبھی امیر جماعت سے، ریجنل امیر سے، لوکل امیر سے، نائب امیر سے ، امیر سے مسائل پیدا ہونے لگ گئے کہ یہ نہیں ہوا اور وہ نہیں ہوا۔

یہ دیکھیں کہ مَیں نے کیا کرنا ہے؟ ان سارے نامساعد حالات کے باوجود مَیں نے کس طرح نئے نئے راستے exploreکرنے ہیں جو میرے کام میں تیزی پیدا کرنے والے ہوں، ان میں روک ڈالنے والے نہ ہوں ۔ وہ راستے آپ نے خود نکالنے ہیں۔اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمیشہ آپ کو یہ احساس رہے گا کہ میں نے وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے ان کو ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اب میرا کچھ نہیں، اب مَیں نے اپنی زندگی وقف کی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہی کی ہے، اس کے لیے مَیں نے جو کچھ میرے سے ہو سکتا ہے وہ مَیں نے کرنا ہے ۔ اس سے پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے علاقے میں ،آپ کے عمل سے، آپ کی باتوں سے، لوگوں کی تربیت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔

اگر ایک مشنری فجر کی نماز پربھی صحیح طرح نہیں آتا یا آتا ہے تو جلدی جلدی نماز پڑھا کے چلا جاتا ہے۔یا درس میں ایسے مضامین نہیں لیتا جو وہاں کی تربیت کے لیے ضروری ہیں یا ان باتوں پر جو کہہ رہا ہے خود عمل نہیں کرتا تو لوگوں پر اثر نہیں ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور مَیں بار بار آپ لوگوں کو کہتا ہوں، پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں، اب بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عاجزانہ راہیں اختیار کرنے کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا اور وہی عاجزانہ راہوں کی تعلیم ہمارے لیے ہے۔ ہم نے بھی اس پر چلنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں۔لیکن ذہن میں یہ خیال ضرور ہو کہ لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک نمونہ قائم کرنا ہے اور ان کے لیے ہمیں کسی بھی لحاظ سے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ پیار سے، محبت سے، شفقت سے، حکمت سے لوگوں کو سمجھانا ہے اور جو کمزوریاں ہیں ان کو حوصلے سے سنیں اور برداشت کریں۔ اگر آپ لوگ یہ سارے کام ایک نیک نیّت سے کر رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ باقی جو مسائل ہیں، ضروریات ہیں، وہ بھی خود بخود پوری کرتا رہتا ہے۔

ہم پرانے بزرگوں کی مثالیں دیتے ہیں، کہانیاں پڑھتے ہیں اور واقعات سناتے ہیں ۔ کیا وہ واقعات صرف ان بزرگوں کےلیے ہی مخصوص تھے ؟ آپ بھی وہی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ہاں! جیسے شاعر نے کہا تھا کہ

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

تو محنت کرنی پڑتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جہاد کرنا پڑے گا۔

پس ایک جہاد ہے جس کو ہر وقت ایک مربی یا مبلغ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اس کے لیے خود اپنے راستے متعین کرنے ہوں گے۔ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہی پھنس کر رہ گئے تو بڑے بڑے تعمیری کام آپ نہیں کر سکیں گے اور پھر اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے جو مقصد ایک مربی اور مبلغ بننے کا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں بے شمار نصائح فرمائی ہوئی ہیں۔ مَیں نے مربیان کو کہا تھا کہ وہ مربیان کے لیے زرّیں ہدایات ہیں، وہ کتاب [زرّیں ہدایات (برائے مبلغین)]میرا خیال ہے آپ لوگوں کے پاس بھی ہونی چاہیے، وہاں موجود بھی ہو گی۔ اگر کسی نے وہ کتاب نہیں خریدی توخریدے اور پڑھے۔اس میں آپ کی تربیت، روحانیت ، عملی کاموں کی طاقت اورجماعت کے ساتھ تعلق بڑھانے اور انتظامیہ کے ساتھ تعلق رکھنے کے لیے بھی بے شمار ہدایات ہیں۔

چھوٹے موٹے مسائل انتظامیہ کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں، اس لیے بعض مربیان مجھے شکایت کرتے ہیں۔بہت ساری رپورٹس آتی ہیں۔رپورٹوں میں بھی ذکر آتا ہے یا ڈھکے چھپے الفاظ میں یا کسی نہ کسی رنگ سے ذکر ہو جاتا ہے یا سوال اٹھتا ہے کہ یہ کس طرح کریں ؟ جو بھی سوال اٹھتے ہیں ان کو آپ نے خود ہی حل کرنا ہے۔یہ مسائل دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں اور جو اچھے مربیان ہیں وہ خود اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ آج کی بات نہیں۔مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں، یہ ہمیشہ سےہی جب سے یہ نظام جاری ہے، ہے اور ہوتا ہے ۔

اختلافات ہوتے ہیں، لیکن اختلافات کو ایک ایسی حد پرلے جانا جہاں آپس میں اتنی riftشروع ہو جائے کہ کاموں میں رکاوٹ پیدا ہونے لگ جائے وہ نہیں ہونا چاہیے۔

مَیں یہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ عبدالمالک خان صاحب نے مجھے خود بتایا تھا کہ حضرت مصلح موعود ؓنے ایک دفعہ مربیان کی میٹنگ میں کہا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کراچی کے امیر اور عبدالمالک خان کی آپس کی جو co-opration اورcollaborationہے وہ باقی جگہوں پر کیوں نہیں ہو سکتی؟

اس لیے یہ تو آپ کی سوچ کی بات ہے۔اگر درست سوچ ہو گی تو کام ہو جائے گا، نہیں تو پھر اسی بات میں الجھے رہیں گے کہ آپ کے فلاں سیکرٹری تربیت نے یہ کہہ دیا ، سیکرٹری تبلیغ نے یہ کہہ دیا ، امیر جماعت نے یہ کہہ دیا ، صدر جماعت نے یہ کہہ دیا، مجھے وہاں روک ڈال دی، مَیں پیچھے ہٹ گیا، مَیں کیا کروں ۔ یہ باتیں نہیں ہیں۔ ’مَیں کیا کروں ؟‘کا تو فقرہ ہی نکال دیں ۔ ’مَیں نے کرنا ہے‘ کا فقرہ صرف آپ کے دماغ میں ہونا چاہیے۔کس طرح کرنا ہے؟اس کےلیے نئے نئے راستے تلاش کریں۔ایک راستہ بند ہوتا ہے تو نیا exploreکریں۔ جب یہ بات ہو گی توپھر دیکھیں آپ کی کتنی زیادہ progressہوتی ہے۔

اب مَیں نے کئی سال پہلے، میرا خیال ہے زیادہ سے زیادہ پندرہ سال ہو گئے ہوں گے، کہا تھا کہ دس فیصد آبادی تک احمدیت کا پیغام پہنچا دیں۔ امریکہ اتنا بڑا ملک ہے، آبادی بھی زیادہ ہے، امیر صاحب نے بتایا ہے کہ آپ فیلڈ کے مربیان بھی شاید اکتالیس ہیں تو اس تعداد میں آپ کر بھی نہیں سکتے۔ لیکن اگر آپ کا نظام ٹھیک ہے، آپ نے ہر ایک کو involveکر لیا ہے تو پیغام ضرور پہنچ سکتا ہے۔

اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا ، لیکن اکیلا آدمی اپنی ایک ٹیم تو بنا سکتا ہے، ان میں وہ روح پھونک سکتا ہے۔اگر آپ کے اپنے اندر لیڈر شپ کی صلاحیتیں موجودہیں تو لوگوں کواپنے پیچھے چلا سکتے ہیں اور وہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ہمارا یہ مربی ، ہمارا لیڈر جو ہمیں کہہ رہا ہے اس کےلیے خود بھی ہر قربانی کے لیےتیار ہے۔ وفا سے اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے۔ لوگ یہ دیکھیں گے تو آپ کے مددگار بن جائیں گے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ کتنی جلدی احمدیت کا تعارف آپ کے ملک میں ہوتا ہے۔

ہم یہاں بعض دفعہ سمجھتے ہیں کہ مخالفت ہو رہی ہے، جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں تو کھاد کا کام دیتی ہے اور جہاں جہاںایک آدھ جگہ پر امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت ہوئی ہےوہاں جماعت کا تعارف بھی بڑھ جاتا ہے۔اور پھر اگرایک دفعہ دو تین سال پہلے تعارف ہو گیا تو ایک دفعہ تعارف کر کے یا ایک سال کے لیے اس کے اوپر ایکfunction کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہمارا فرض ادا ہو گیا ہے۔اس کام کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔اسے مستقل مزاجی سے قائم رکھنا بھی ضروری ہے، وہ مستقل مزاجی رہے گی تو ایک کے بعد دوسرا راستہ کھلتا چلا جائے گا، ایک کے بعد دوسرا تعارف ہوتا چلا جائے گا۔ پس یہ باتیں ہیں جو ایک مربی کو، ایک مبلغ کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں۔

اسی طرح جو دفتروں میں کام کرنے والے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں جہاں آپ کو لگایا گیا ہے وہ آپ کا میدانِ عمل ہے۔وہیں آپ نے کام کرنا ہے اور اس میں نئے نئے راستے نکالنے ہیں ، یہ نہیں ہے کہ دفتر میں کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں تو جب مرضی آئیں۔ اسی طرح مربیان بھی کہ جب مرضی اٹھ کے آئے ،جب مرضی چلے گئے ، ایک وقت مقرر کریں۔ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا اور اس پر کچھ دن چند لوگوں نے عمل کیا یا اب تک شاید چند ایک کر رہے ہوں لیکن عموماً نہیں۔ ٹائم ٹیبل بنائیں۔ صبح کتنے بجے اٹھنا ہے، نفل ادا کرنا تہجد پڑھنا ایک مربی کےلیے ضروری ہے۔آجکل اگر راتیں چھوٹی ہیں توکچھ رکعت تو پڑھے جا سکتے ہیں۔چاہے دو رکعت ہی پڑھیں۔لیکن اس کے بعد پھر فجر کے بعد کا پروگرام بنائیں، اپنا جائزہ لیں کہ کتنے گھنٹے آپ نے جماعت کے کام میں خرچ کیے، کتنے گھنٹے آپ کے عبادت میں لگے ، کتنے گھنٹے آپ کے مطالعہ میں لگے، مَیں آپ کے گھنٹوں کی بات کر رہاہوں ،منٹ نہیں، آپ نے گھنٹوں کا حساب لگانا ہے ۔ اور کتنے گھنٹے آپ سوئے، کتنے گھنٹے آپ نے اَور تعمیری کام کیے، کتنے گھنٹے آپ نے کوئی ایسے کام کیے جس سے جماعت کو عمومی طور پر فائدہ ہو، کتنے گھنٹے آپ کےتبلیغ میں گزرے؟

کہتے ہیں کہ تبلیغ کے راستے نہیں۔ یہاں تو تبلیغ کے مواقع نہیں ہم کس طرح تبلیغ کریں؟ آپ فیلڈ میں ہیں آپ کو تبلیغ کے راستے خود exploreکرنے چاہئیں۔ کہتے ہیں سوشل میڈیا پر ہم کریں تو یہ ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں اور بڑے اچھے پروگرام ہوتے ہیں۔ لیکن وہ دو تین سال پہلے ہوئے، اس کے بعد ختم ہو گئے، بعضوں نے ان کو جاری نہیں رکھا ۔بعض جنہوں نے آپ میں سےبھی اور دنیا میں بھی جاری رکھا ہوا ہے ان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ تو یہ سوچنے والی چیزیں ہیں جس کو ہر ایک مربی اور مبلغ کو سوچنا چاہیے۔ تو اگر آپ لوگ اس نہج پر کام کریں گے تو مجھے امید ہے کہ ان شاءاللہ تعالیٰ کامیابیاں بھی آپ کو ملیں گی، جہاں تربیت کے راستے بہتر ہوں گے، وہاں تبلیغ کے میدان بھی کھلیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے۔

حضور انور نے پھر ایک نوجوان مبلغ سےاستفسار فرمایا کہ کیا انہیں پچھلی گفتگو سمجھ آ گئی ہے؟موصوف نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیاکہ انہیں حضور انور کی نصائح کی روشنی میں نئے انداز سے تبلیغ اور تربیت کرنےکے طریقوں کی اہمیت کا ادراک حاصل ہوا ہے نیز یہ کہ ہم شکایات درج کروانے پر کم توجہ کریں۔

اس پر حضور انور نےمسکراتے ہوئے فرمایا کہ شکایت کرنے سے قبل اپنی اصلاح پر زور دیا کریں۔

نیز ہدایت فرمائی کہ پہلے اپنے آپ کو دیکھیں۔ آپ دیکھ لیں آپ میں وہperfectionپیدا ہو گئی ہے جو ایک مربی میں چاہیے۔ آپ کو روحانیت کا وہ مقام مل گیا ہے جو ایک مربی کوملنا چاہیے۔ آپ میں وہ تنظیمی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے جو ایک مربی میں ہونی چاہیے۔ آپ کے اخلاق اس اعلیٰ معیار کے ہو گئے ہیں جو ایک مربی میں ہونے چاہئیں۔ آپ نے اس سارے لائحۂ عمل پر عمل کر لیا ہے جو اتنی موٹی کتاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے ہمیں دے دیا۔اگر نہیں تو پھر اس طرف توجہ کریں، جب آپ یہ کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ باقی نظام بھی ٹھیک ہو جائے گا۔

اسی طرح حضور انور نےدعا کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ دعا بھی ضروری ہے۔ دعا کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ یہ کہنا کہ مَیں کر لوں گا۔ مَیں کوئی چیز نہیں۔ اپنی مَیں کو مارنا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

مَیں تھاغریب و بیکس و گمنام و بےہنر

اگر آپؑ کا یہ مقام تھا تو مَیں اور آپ کیا چیز ہیں!

بعد ازاں امیر صاحب نے حضور انور سے راہنمائی طلب کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ میں آٹھ یا نَو مربیان ہیں جو عاملہ میں شامل ہیں۔ ایک، دو جماعتوں کی طرف سے یہ concern ظاہر کیا گیا ہےکہ جب سے ذیلی تنظیم میں ان کو عہدے ملے ہیں ،اس کے بعد سے جماعت کی طرف ان کی تھوڑی کم توجہ ہے اور یہ دَورے زیادہ کر رہے ہیں ۔ اس کے متعلق حضور انورکا کیا ارشاد ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو ایک extraکام آپ کے سپرد کیا گیا تھا ، صدر خدام الاحمدیہ سمیت،کہ آپ لوگوں نے یہ کام کرنا ہے۔ لیکن اس سےیہ کہیں نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کے سپرد جو مربی اور مبلغ کی حیثیت سے یا کسی بھی دفتر میں کام کرنے کی حیثیت سے کوئی کام لگائے گئے ہیں وہ ختم ہو گئے یا ان میں کمی ہے۔ ربوہ میں تو اکثریت واقفینِ زندگی کی انصار الله کی عاملہ اور خدام الاحمدیہ کی عاملہ میں ہے۔ وہ اپنے دفتر کے کام پہلے کرتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کے کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اسی تناظر میں حضور انورنے ایک مخلص خادم سلسلہ حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی مثال پیش فرمائی جو کہ طویل عرصے تک بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ خدمت دین کی توفیق پاتے رہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ حضرت میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تھےاور ان کے جامعہ کے ایک پروفیسر صاحب مہتمم تھے۔ مہتمم صاحب نے اپنا دَورے کا پروگرام بنایا اور میر صاحب نے کہا نہیں تمہارا جامعہ کا ہرج ہوتا ہے اس لیے مَیں تمہیں رخصت نہیں دے سکتا ۔ کیونکہ میر صاحب اس وقت خدام الاحمدیہ میں بھی تھے اس لیے صدر نے کہا کہ میں صدر خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے آپ کو یہ حکم دے رہا ہوں کہ آپ یہ دَورہ کر کے آئیں۔ اب وہاں میر صاحب مجبور ہو گئے کہ ان کو دَورہ کرنا پڑا۔

تو ہمارے ہاں نظام اس طرح کا ہے کہ ہر ایک چیز کا ہر جگہ ایکcheck رکھا ہوا ہے۔خدام الاحمدیہ کا صدر اس کو ایک دَورے کے لیےکہہ تو سکتا ہے لیکن جو دوسرا نظام ہے جہاں آپ کام کر رہے ہیں اس کو بھی دیکھنا پڑے گا کہ وہ نظام آپ کو کام کی اجازت دے رہا ہے کہ نہیں دے رہا ۔

یہاں ٹھیک ہے کہ دونوں مثالیں انہوں نے قائم کر دیں۔ ایک جگہ تو پرنسپل نے حکم دے دیا کہ تم نہیں جا سکتے۔ دوسری جگہ صدر خدام الاحمدیہ نے پرنسپل کو حکم دے دیا کہ اچھا یہ نہیں جا سکتا تو تم جاؤ۔ تو یہ checkکا ایک نظام جماعت میں چل رہا ہے، لیکن اس سے کوئی کام متأثر نہیں ہونا چاہیے۔وہ بھی جب گئے تھے تو یہ نہیں تھا کہ ان کا جامعہ کا کام متأثر ہو گیا ۔ وہ بڑی محنت کرنے والے انسان تھےاور پھر آکر رات دن لگا کے اس کام میں جو کمی رہ جاتی تھی اس کو پورا کیا کرتے تھے۔

تو آپ لوگوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ کی جوجماعت کی ذمہ داری ہے وہ پوری کریں۔ اگر ایک عہدہ مل گیا ہے تو اتنا ہی زیادہ جھکنا چاہیے۔ ایک شاخ پر پھل زیادہ لگ گیا ہے ،آپ کو اس پھل سے لادا گیا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ آپ جماعتی کام پوری ذمہ داری سے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خدام الاحمدیہ کے کام بھی کریں گے ۔لیکن اگر مجھے یہ پتا لگتا ہے کہ جماعتی کام متأثر ہو رہے ہیں اور یہ بہانہ بنا لیا کہ ہم خدام الاحمدیہ کے کام کر رہے ہیں تو مَیں صدر صاحب کو کہوں گا کہ ساری عاملہ میں جتنےمربیان ہیں سب کوعاملہ سے نکال دیں۔

آخر جو دوسرے کام کرنے والے لوگ ہیں، وہ اپنے دنیا کے کام بھی کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر وہ جماعتی خدمت کے لیے بھی وقت دیتے ہیں۔ اگر وہ وقت دے سکتے ہیں تو آپ لوگ جنہوں نے وقفِ زندگی کیا ہوا ہے، چوبیس گھنٹے کا وقف کیا ہوا ہے، کوئی احسان نہیں کیا ہوا۔پہلے مَیں نے جس طرح شروع میں بات کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں وقفِ زندگی کی توفیق دی ۔ ان کے لیے تو یہ اوّل درجہ کی بات بنتی ہے کہ مشنری کا جو کام ان کے سپرد ہے اس کو پوری طرح انجام دیں اور پھر اس کے علاوہ extraوقت لگا کے اپنے خدام الاحمدیہ کے کام کو بھی کریں۔

حضور انور نے اپنی مثال بیان کرتے ہوئےفرمایا کہ مَیں بھی دفتر کام کرتا رہا ہوں۔یہ نہیں کہ چھ گھنٹے کے بعد بیٹھ جاتا تھا، بعض دفعہ مجھے دفتر میں رات کے دس بجے تک بھی بیٹھنا پڑتا تھا ۔لیکن اس کے باوجود بھی خدام الاحمدیہ کے جو کام سپردتھے ، میٹنگ بھی جا کے attendکرتا تھا ، وہ کام بھی کرتا تھا، دَورے بھی ہوتے تھے۔

حضور انور نے تاکید فرمائی کہ یہ چیزیں ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ ایک تو یہ عہدہ نہیں خدمت ہے۔ خدام کے تو نام کے ساتھ ویسے ہی خدمت لگ جاتی ہے ، تو اگر یہ خدمت مل گئی ہے تو اس کو ایک فضلِ الٰہی سمجھو۔ اس لیے ان مہتممین کے دماغوں میں،ذہنوں میں یہ اچھی طرح ڈال دیں اور جو بیٹھے ہوئے میری باتیں سن رہے ہیں وہ سن لیں کہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کا قطعا ًیہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے فیلڈ کے لوگ متأثر ہوں اور وہاں شکوہ پیدا ہو۔

جیسا کہ مَیں نے پہلے شروع میں ہی کہا تھا کہ آپ کی جماعت آپ کو دیکھ رہی ہے۔ اپنے آپ کو آپ نے عاجز سمجھنا ہے۔لیکن جماعت آپ کو role modelسمجھتی ہے۔جب وہ دیکھے گی کہ یہ خدام الاحمدیہ کے کام بھی کر رہا ہے، مربی بھی ہے، ہمیں بھی جماعت کے کاموں میں پورا وقت دے رہا ہے اور پھر خدام الاحمدیہ کی خدمت بھی کر رہا ہے تو پھر ان پرایک خاص اثر ہو گا اور جو وہ اثر ہو گا وہی اچھے نتائج پیدا کرنے والا ہو گا۔

اس لیے جماعتوں کی طرف سے آئندہ یہ شکایت نہیں آنی چاہیے۔ایک تو مَیں نے پہلے کہہ دیا نیز اکثریہ باتیں تو مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ جماعتوں کے ساتھ اگر شکوے پیدا ہوتے بھی ہیں تو آپ نے شکوہ پیدا نہیں ہونے دینا، اس کو دُور کرنا ہے۔یہ آپ کا بحیثیت مربی کام ہے اور اگر سمجھتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کی وجہ سے آپ کا جماعتی کام متأثر ہو رہا ہے تو صدر صاحب کو لکھ کر دے دیں کہ میری جماعت بڑی ہے، جماعت میں مجھے فلاں فلاں ذمہ داریاں اس طرح ادا کرنی پڑتی ہیں کہ مَیں خدام الاحمدیہ کو پورا وقت نہیں دے سکتا، اس لیے مجھے خدام الاحمدیہ کے کام سے رخصت دے دی جائے ۔

ایک مبلغ سلسلہ نے حضور انور کی خدمت میں اپنے حالیہ مشاہدہ کی روشنی میں عرض کیا کہ احباب ِجماعت میں کمزوریاں تو بہت ہیں ، لیکن ان کے دلوں میں خلافت کی جو محبت ہے اس کے نظارے ہم نے جب حضور کا میڈیکل پروسیجر ہوا اس وقت کیے۔دوستوں، احباب جماعت نے دعاؤں کا پُر خلوص اظہار کیاجس سے احباب جماعت کی خلافت کے لیے محبت عیاں ہوئی اَور سامنے آئی۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔

حضور انورنے اس پر تبصرہ فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہو گیا اور یہ محبت جو پیدا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارے میں بھی لکھا ہے کہ میرے ساتھ جو اتنے لوگ آ گئے، اتنے لاکھوں بیعت میں شامل ہو گئے ، تو یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔

حضور انور نے دوبارہ اس عملی حقیقت کا اعادہ فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس کے نتیجہ میں جہاں مَیں تو اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکرگزار ہوں اور جماعت کا بھی شکر یہ کہ وہ لوگ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ان چیزوں کو دیکھ کے ایک مربی کو اور زیادہ اپنے کاموں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہیے کہ اخلاص اور وفا کی روح جو ان میں ہے اس کو مزید اجاگر کرنا ، اس کو بہتر کرنا یا اس میں مزید چمک دمک پیدا کرنا مربی کا کام ہے اور مربی جب خود اپنی حالتوں کو اس نہج تک لے جائے گا، اس معیار تک لے جائے گا کہ وہ ظاہر ہوں تو پھر لوگوں میں اور زیادہ یہ بہتر ی پیدا ہو گی۔

اللہ تعالیٰ تو اپنے وعدے کے مطابق اپنا کام کر رہا ہے ۔ اب ہمارا بھی تو کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کام کی شکرگزاری کے طور پر کچھ کریں اور آپ لوگ جو بڑا عہد کرتے ہیں کہ ہم خلافت کے سلطانِ نصیر بنیں گے اور ہم دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، خدام الاحمدیہ والے آ کے ترانے بھی گا دیتے ہیں، تو دائیں بائیں لڑنے کے لیے تو پھربڑی محنت کرنی پڑتی ہے ۔ اس لیے وہ بننے کی کوشش کریں جو آپ کے نمونے دیکھ کے اور آپ کے عمل دیکھ کے اور آپ کی باتیں سن کے، ان اعمال کے مطابق پھر لوگوں میں اور زیادہ وفا اور اخلاص کی ایک روح پیدا ہو گی۔بہرحال اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جنہوں نے نیک جذبات کااظہار کیا اور آپ لوگوں کو بھی توفیق دے کہ پہلے سے بڑھ کر خلافت کے سلطان نصیر بنیں۔

حضور انور نے اس کے بعد مختلف دفاتر میں کام کرنے والے مبلغین کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا۔

مرکزی ویب سائٹ alislam.org میں خدمت سرانجام دینے والے ایک مبلغ سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ انہیں اپنے معمول کے کام سے متعلق مطالعے کے علاوہ اضافی تعلیم حاصل کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، جس سے ان کا علم بڑھے گا اور تبلیغ کے مواقع بھی وسیع ہوں گے۔ نیز اس بات پر زور دیا کہ موجودہ حالات میں جماعت کے فائدے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو کس طرح بہترین انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایک نوجوان مبلغ سلسلہ نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ عموماً مربیان کو تین سال کے لیے ایک جماعت میں خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پیارے حضور! جب یہ وقت ختم ہو جائے تو ایک مربی کیسے تعین کرسکتا ہے کہ اس کا وقت اس جماعت میں کامیاب رہا یا نہیں؟

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو جماعت والے بتائیں گے۔مجھے بعض جماعت والے بعض مربیان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس مربی نے ہمارے پاس بڑا اچھا کام کیا ہے، اس کو ہمارے پاس رہنے دیا جائے۔اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کام واقعی اچھا کیا یا کم از کم لکھنے والوں کو آپ کا کام پسند آ گیا۔

تو عمومی طور پر یہ دیکھیں کہ جب آئے تھے تو وہاں کی جماعت کی روحانی حالت،دینی حالت، مسجد سے تعلق، نمازوں کی حاضری کیسی تھی اور جب آپ کی ٹرانسفر ہو رہی ہے، چاہے وہ تین سال بعد ہو، چار سال بعد ہو، پانچ سال بعد ہو تو اب کیسی ہے؟ لہٰذایہ self assessment تو آپ کو اپنی خود کرنی پڑے گی۔

کبھی یہ نہ سمجھیں کہ مَیں نے بہت اعلیٰ کام کر لیا۔ایک مربی کو خوب سے خوب تَر کی تلاش ہونی چاہیے ، حد کوئی نہیں ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں نے یہ حاصل کرنا تھا کر لیا۔ میدان تو اتنا وسیع ہے کہ حاصل کرنے والی بات ہی کوئی نہیں ہے۔اس سمندر میں جتنا چلتے چلے جائیں گے فاصلے طے کرتے چلے جائیں گے۔ آپ لوگ پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق کتنا بڑھاہے۔اگر آپ کواحساس ہوتا ہے تو جہاں عاجزی پیدا ہو گی وہاں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور پھر آپ آئندہ یہ عہد بھی کریں گے کہ جہاں بھی جاؤں گامَیں نے اس سے بڑھ کے کام کرنا ہے۔

حضور انور سے ایک مبلغ سلسلہ نے راہنمائی طلب کی کہ اکثر جماعتوں میں ایک ہی خاندان کے کافی لوگ رہ رہے ہوتے ہیں اور ان کے آپس میں مسئلے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں تو ان میں سے اگر کوئی ایک عہدیدار بن جاتا ہے تو اس کی وجہ سے جو دوسرے لوگ ہیں جن کے ان کے ساتھ مسائل چل رہے ہوتے ہیں وہ پھر مسجد میں آنا بند ہو جاتے ہیں، ان کو سمجھانے کے باوجود بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔اس سلسلہ میں کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور نے اس بارے میں ہدایت فرمائی کہ ان لوگوں میں یہ روح پیدا کریں کہ تم نے کسی عہدیدار کی بیعت نہیں کی ہوئی۔ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے اور ان کے نظام کو مانا ہے اور خلافت کی اطاعت اور بیعت میں آئے ہو اور اس کا جو نظام ہے اس کو مانو قطع نظر اس کے کہ تمہارے اختلافات کیا ہیں؟

اختلافات ہوتے ہیں، نظریات ہوتے ہیں ، لیکن اس کو اس حد تک لے جانا کہ اس کے لیے مسجد میں آنا چھوڑ دے یہ چیز غلط ہے۔ ان کے پاس جائیں ،مستقل جائیں اور مستقل سمجھائیں۔ جب ان کو پتا ہوگا کہ مربی صاحب کا اپنا عمل ٹھیک ہے اور نیک نیتی سے ہمیں سمجھا رہے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی تو ہو گا جس کو سمجھ آئے گی۔یہ تو نہیں ہوتا سارا خاندان ہی ایک جیسا ہو جائے۔انہی خاندانوں میں سے نوجوانوں میں سے ایسے ہیں جو سمجھ جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے بڑوں کو بھی کہتے ہیں کہ یہ غلط بات ہے ہمیں مسجد سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے۔

یہ کام تو مستقل مزاجی سے کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ آپس میں رحم پیداکر لو۔ رُحَمَآءُ بَیۡنَھُمۡ۔تو دشمنوں کے لیے اگر اللہ تعالیٰ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌکہتا ہے تو جو ایک جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ آپس میں کیوں نہیں ایسے بن سکتے؟

ذاتی رنجشوں کو جماعتی نظام پر فوقیت نہ دو۔یہ روح پیدا کرنی ہے اور یہ تربیت کی کمی ہے کہ لوگوں کا دنیا داری کی طرف رجحان زیادہ ہو گیا ہےاور دنیا داری کی طرف رجحان کی وجہ سے یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اگر مستقل تربیت ہوتی رہے اور اگر ان میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ مربی ہمارا ہمدرد ہے، نہ اِس کے ساتھ ہے، نہ اُس کے ساتھ ہے۔ آپ کے بعض مربیان ماشاء اللہ ایسے تجربہ کار ہیں وہ سمجھاتے ہیں تو لوگ سمجھ بھی جاتے ہیں۔تو آپس میں مربیان کی جب میٹنگ ہوتی ہے تو وہاں بھی ایک دوسرے سے اپنے معاملات شیئر کیا کریں کہ ایسی صورتحال میں اگر کسی نے بہتر کام کیا ہو تو اس کا جو طریقِ کار ہے وہ آپ کے بھی کام آ سکتا ہے۔

اصل چیز یہی ہے کہ تربیت کی کمی ہے۔لوگوں کا دنیا کی طرف رجحان زیادہ ہے، لیکن ان کےاندر دین کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا خلافت کے ساتھ ایک تعلق بھی ہے ، جس کا ابھی ملہی صاحب نے اظہار بھی کیا ہے کہ میری بیماری کے دنوں میں لوگوں کے نیک جذبات کا اظہار ہوتا رہا ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ فطرت نیک ہے۔اس فطرت کی جو نیکی ہے اس کو باہر نکالنے کی ضرور ت ہے۔

امریکہ اور کینیڈا میں رمضان اور عید کی مختلف تاریخوں کے متعلق بات کرتے ہوئے ایک مبلغ سلسلہ نے اپنی جماعت کے کچھ احباب کی جانب سے اس تشویش کا اظہار کیا کہ ایک متحدجماعت ہونے کے باوجود تاریخوں میں یکسانیت کیوں نہیں ہوتی؟

حضور انور نے اس حوالے سے وضاحت فرمائی کہ یقیناً ہم ایک متحدجماعت ہیں لیکن اسلام رمضان اور عید کے آغاز کو چاند کی رؤیت پر مبنی قرار دیتا ہے، جو علاقہ کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے وسیع ممالک میں ایک ہی تاریخ کی توقع رکھنا معقول نہیں ہے، حتّیٰ کہ ایک ہی ملک کے اندر مختلف تاریخیں ہو سکتی ہیں۔ حضور انور نے یاد دلایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دَور میں اسی طرح کا ایک تجربہ کیا گیا تھا لیکن عملی مشکلات کی بنا پر اسے جاری نہیں رکھا گیا۔ حضور انور نےمبلغین کو نصیحت فرمائی کہ ایسے مسائل کو اپنی میٹنگز میں زیرِ بحث لایا کریں اور انہیں حل کیاکریں اور جب اور جہاں ضرورت ہو مرکز سے راہنمائی حاصل کیاکریں۔

حضور انور کی خدمت میں پیش کیا جانے والا اس ورچوئل ملاقات کا آخری سوال یہ تھا کہ جب ہم جماعت کی خدمت کرتے ہیں تو فیملی کے ساتھ وقت کس طرحbalanceکرنا چاہیے؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ جب مَیں نے تمہیں بتایا ہے کہ اپنا ایک پروگرام بناؤ۔ ایک ٹائم ٹیبل صبح اٹھنے کا، نمازوں کا، مطالعہ کا، دفتر کا، تبلیغ کا، تربیت کا ، کھانےکا اور فیملی کے وقت کابناؤ تو آپ ہی adjustmentہو جائے گی۔ فیملی کو کم از کم اور نہیں تو weekendپر کچھ گھنٹے دے سکتے ہو۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے واقفینِ زندگی کےلیے یہ شروع کروایا تھا کہ مہینے میں ان کو جو آخری ویک اینڈ ہے، اس میں ہفتے کو یا جمعرات کو چھٹی دیا کرتے تھے، کہ دو چھٹیاں ہوتی تھیں اور وہ long weekendکہلاتا تھا۔ اورحضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ میرا مقصد ہی یہ ہے کہ جو واقفین زندگی دفتروں میں کام کرنے والے ہیں وہ یہ ایک دن اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں۔

تو مہینے میں ایک دن اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے رکھ لو تو بچے بھی خوش ہو جائیں گے۔

دوسری سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر مربی کو اپنا اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھانا چاہیے۔اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنا چاہیے ۔ ان سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔ ہر بات پر چڑ کے جواب نہیں دینا چاہیے۔اگر آپ خوش اخلاقی سے پیش آ رہے ہیں، بچوں کا خیال رکھ رہے ہیں، بیوی کا خیال رکھ رہے ہیں، اس سے حُسنِ سلوک کر رہے ہیں ،عَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ پرعمل کر رہے ہیں تو وہ برداشت کر لے گی کہ آپ مہینے میں ایک دن یا دو، تین گھنٹے ہی مجھے دے دیں تو کافی ہے۔ لیکن اگر بیوی کے ساتھ سلوک ہی اچھا نہیں ہے تو وہ کہے گی ایک تو سارا دن میں تمہاری ڈانٹیں سنوں اوراس کے بعد پھر تم کہو کہ مَیں کام بڑا کر رہا ہوں ۔جو کام کر رہے ہو وہ پتا ہی ہے کہ کتنا کر رہے ہیں۔اس لیےاپنا جائزہ لیں تو آپ کو خود پتا لگے گا کہ آپ کتنے گھنٹے جماعت کا کام کر رہے ہیں۔

محنت کی عادت ڈالیں، صبح جلدی اٹھیں اور پھر اپنے سارے دن کا پروگرام بنائیں۔ یہ دیکھیں کہ مَیں نے زیادہ سے زیادہ اپنا وقت جماعتی کاموں میں کس طرحutilise کرنا ہے۔ پھر آپ بیلنس کر جائیں گے، اپنی فیملی کو بھی وقت دے دیں گے اور جماعت کو بھی وقت دے دیں گے۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے ایک مبلغ سلسلہ سے گفتگو فرمائی جو حال ہی میں کسی سپینش بولنے والے ملک کا دَورہ کر کے آئے تھےنیز ان کے تجربات اور مساعی کی افادیت کے بارے میں دریافت فرمایا۔ علاوہ ازیں امیر صاحب سے سپینش زبان میں مہارت رکھنے والےمبلغین کی تعداد کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔اسی طرح ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب کو بر اعظم امریکہ میں سپینش بولنے والے ممالک کے حوالے سے بعض ہدایات فرمائیں۔

حضور انورنے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا اوراس طرح سے یہ آن لائن ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button