خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ جولائی 2024ء

غزوہ بنو مُصْطَلِقْ کےحالات و واقعات کابیان نیز جلسہ سالانہ برطانیہ اور شاملین جلسہ کے لیے دعاؤں کی تحریک

صحابہؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقاؐ نے بنومصطلق کی رئیس زادی کو شرفِ ازدواجی عطا فرمایا ہے توانہوں نے اس بات کو خلافِ شانِ نبوی ؐسمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والوں کواپنے ہاتھ میں قید رکھیں اور اس طرح ایک سوگھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلافدیہ یک لخت آزاد کردیے گئے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بنو مصطلق سے مظفر و منصور، کامیاب و کامران مدینہ واپس تشریف لائے

اگلے جمعہ انشاءاللہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو گا۔ اس کے لیے بھی دعا کریں

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور تمام کارکنان کو اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے اور قربانی کے جذبے سے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے

مکرمہ سلیمہ بانوصاحبہ اہلیہ مکرم محمد حمید کوثر صاحب ناظر دعوت الی اللہ شمالی ہند قادیان، مکرم نورالحق مظہر صاحب آف لاہور اور مکرمہ امة الحفیظ نگہت صاحبہ اہلیہ مکرم محمد شفیع صاحب مرحوم آف ربوہ کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جولائی 2024ء بمطابق 19؍وفا 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

غزوۂ بنو مصطلق

کا ذکر گذشتہ خطبہ میں ہوا تھا۔ اس کی مزید تفصیل احادیث اور تاریخ میں ملتی ہے۔

صحیح بخاری میں اس حملے کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق پر حملہ کیا تو وہ غافل تھے اور ان کے مویشیوں کو چشمے پر پانی پلایا جا رہا تھا اور آپؐ نے ان میں سے لڑائی کرنے والوں کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قید کر لیا اور اسی روز جُوَیْرِیَہ ؓ آپؐ کو ملیں۔ راوی نے کہا یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مجھے بتایا اور وہ اس لشکرمیں تھے۔

(صحیح بخاری کتاب العتق باب من ملک من العرب رقیقا حدیث :2541)

مؤرخین اور سیرت نگار غزوۂ بنو مُصْطَلِق میں اس حملہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دونوں روایات کو اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ گویا بخاری کی روایات میں بنو مصطلق کے حملہ کی کیفیت کے بیان میں اختلاف ہے کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق مسلمانوں نے اچانک غفلت کی حالت میں حملہ کیا تھا اور روایات کا یہ اختلاف بخاری کی شرح کرنے والے علامہ ابن حجر کے سامنے بھی تھا۔ چنانچہ علامہ ابن حجر نے دونوں طرح کی روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ جب اسلامی لشکر نے چشمہ پر اچانک انہیں آ گھیرا تو وہ کچھ دیر ڈٹے رہے پھر ان کے مابین صف بندی بھی ہوئی، جنگ بھی ہوئی۔ مسلمان غالب آ گئے اور بنو مصطلق شکست کھا گئے۔ (ماخوذ از فتح الباری جلد7 صفحہ 547 قدیمی کتب خانہ کراچی) یعنی پہلے جب حملہ ہوا تو وہ غفلت کی حالت میں تھے جیسے امام بخاری نے بیان کیا ہے لیکن پھر انہوں نے صف بندی وغیرہ کی اور فریقین کے مابین جنگ ہوئی جیسا کہ سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے۔

اس حوالے سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان دونوں واقعات کی سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی تطبیق کی ہے جو اس طرح ہے۔ آپ سیرت نگاروں اور صحیح بخاری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’اسی غزوہ کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنو مصطلق پرایسے وقت میں حملہ کیا تھا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔ مگر غور سے دیکھاجاوے تویہ روایت مؤرخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت دو روایتیں دومختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی واقعہ یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنو مصطلق کے قریب پہنچا تواس وقت چونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں۔ (گوانہیں اسلامی لشکر کی آمد آمد کی اطلاع ضرور ہوچکی تھی) وہ اطمینان کے ساتھ ایک بے ترتیبی کی حالت میں پڑے تھے اوراسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں اشارہ ہے لیکن جب ان کو مسلمانوں کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق ۔‘‘پہلے انہوں نے جنگ کرنے کی تیاری کی ہوئی تھی۔ ’’فوراً صف بند ہوکر مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اوریہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے۔ اس اختلاف کی یہی تشریح علامہ ابن حجر اوربعض دوسرے محققین نے کی ہے اوریہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 559)

اس غزوہ میں ایک صحابی حضرت ھِشام بن صُبَابہؓ شہید ہوئے تھے۔

ان کے واقعہ میں لکھا ہے کہ یہ صرف ایک صحابی شہید ہوئے اور یہ بھی غلطی سے ایک مسلمان کے ہاتھ ہی شہید ہوئے تھے۔ ان کا نام حضرت ھِشَام بن صُبَابہؓ تھا۔ انہیں ایک انصاری صحابی حضرت اوسؓ نے مشرکین میں سے سمجھا اور غلطی سے شہید کر دیا۔ھِشام ؓحضرت عُبَادہ بن صَامِت ؓ کے قبیلہ میں سے تھے۔

ھِشام بن صُبَابہ ؓکی شہادت کا واقعہ

اس طرح پیش آیا کہ یہ دشمن کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آ رہے تھے تو اس وقت تیز آندھی چل رہی تھی اور فضا گردوغبار سے اَٹی ہوئی تھی۔ اس حالت میں ان کا سامنا انصاری صحابی حضرت اوسؓ سے ہوا۔ وہ انہیں پہچان نہ سکے ۔ وہ سمجھے کہ یہ مشرکین میں سے ہیں اور ھِشامؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔ ھِشام ؓکا بھائی جو کہ مکہ میں مقیم تھا اور اس کا نام مِقْیَس بن صُبَابہَ تھا وہ مدینہ آیا اور اسلام قبول کر لیا اور اپنے بھائی کے قتل ِکی جو کہ قتل خطا تھی ،غلطی سے قتل ہوا تھا اس کی دیت کا مطالبہ کیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ھِشامؓ کے بھائی مِقْیَس بن صُبَابہ کو حضرت اوسؓ سے دیت دلوا دی جو اس نے لے لی لیکن دیت لینے کے بعد مقیس نے حضرت اوسؓ کو اپنے بھائی کے قتل کی وجہ سے قتل کر دیا اور مرتد ہو کر قریش سے جا ملا۔ لگتا ہے یہ پلاننگ کر کے آیا تھا۔ اس باغیانہ روش پر جو کہ عرب کے عام دستور کے بھی خلاف تھی کہ دیت لینے کے باوجود پھر قتل کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناحق قتل کے قصاص میں اس کو قتل کرنے کا فیصلہ دیا۔ چنانچہ ایک صحابی نُمَیْلَہ نے فتح مکہ کے روز مقْیَس کو قتل کیا۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 248مطبوعہ دار المعرفہ بیروت 2000ء)

(کتاب المغازی للواقدی جلد 1صفحہ 407-408 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)

اس جنگ کے دوران فرشتوں کے ذریعہ تائید

کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اُمّ المؤمنینؐ حضرت جویریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم مُرَیْسِیع پر تھے۔ میں نے اپنے والد کو سنا وہ کہہ رہے تھے اتنا بڑا لشکر آ گیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کی سکت ہم میں نہیں اور میں خود اتنے زیادہ لوگ، ہتھیار اور گھوڑے دیکھ رہی تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ حضرت جویریہؓ کہتی ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کرلی اور ہم واپس آ گئے تو میں مسلمانوں کو دیکھنے لگی۔ وہ مجھے پہلے کی طرح زیادہ تعداد میں نظر نہیں آئے جو جنگ کے دوران نظر آ رہے تھے۔ تو میں نے جانا کہ

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رعب تھا جو وہ مشرکین کے دلوں میں ڈالتا ہے۔

بنو مصطلق میں سے ایک شخص جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ کہتا تھا ہم نے سفید مرد دیکھے جو اَبْلَق یعنی سیاہ و سفید گھوڑوں پر سوار تھے۔ ہم نے نہ انہیں پہلے اور نہ بعد میں دیکھا۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 164-165 دار السلام ریاض)

مالِ غنیمت

کے ضمن میں لکھا ہے کہ غنیمت کے اونٹوں کی تعداد دو ہزار تھی۔ بکریوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور قیدیوں کی تعداد دو سو گھرانوں پر مشتمل تھی۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 346 دار الکتب العلمیہ بیروت)

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قیدیوں کی تعداد سات سو سے بھی اوپر تھی۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد 2صفحہ 379دارالکتب العلمیہ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْبؓ کو ان قیدیوں کا نگران مقرر کیا۔ ان کے پاس جو مال و متاع اور اسلحہ تھا اسے جمع کر لیا گیا۔ جانوروں کو ہانک کر لایا گیا۔ آپؐ نے ان پر اپنے غلام حضرت شُقْرَانؓ کو نگران مقرر کیا۔ خمس اور مسلمانوں کے حصوں پر حضرت مَحْمِیَہ بن جَزءؓ کو نگران مقرر کیا۔ آپؐ نے سارے مال غنیمت میں سے خُمس نکالا۔خُمس اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مال غنیمت میں سے وہ پانچواں حصہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسولؐ کے قریبی رشتہ داروں اور مشترک اسلامی ضروریات کے لیے الگ کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اور سامان جانوروں اور بھیڑ بکریوں کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔

(کتاب المغازی واقدی جلد 1 صفحہ 410 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ88)

حضرت جویریہؓ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے کا بھی واقعہ

لکھا ہے جیسا کہ پہلے میں نے بیان کیا۔

’’قبیلہ بنو مصطلق کے جو قیدی گرفتار ہوئے تھے ان میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بَرَّہ بھی تھی‘‘ جن کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے جُوَیْرِیَہ رکھ دیا تھا ’’جومُسَافِعْ بن صَفْوَان کے عقد میں تھی جو غزوہ مُرَیسیع میں مارا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب دستور مسلمان سپاہیوں میں تقسیم فرما دیا تھا اور اس تقسیم کی رو سے بَرَّہ بنتِ حَارِث ایک انصاری صحابی ثابت بن قیسؓ کی سپردگی میں دی گئی تھی۔ بَرَّہ نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ثابت بن قیسؓ کے ساتھ مکاتبت کے طریق پر یہ سمجھوتہ کیا۔‘‘

مکاتبت کہتے ہیں کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم ادا کر کے آزاد ہو جائے گی۔ بہرحال انہوں نے سمجھوتہ کیا ’’کہ وہ اگر اسے اس قدر رقم‘‘ جو رقم مقرر تھی وہ 9 اوقیہ سونا تھا جو تین سو ساٹھ درہم بنتے ہیں۔ ’’فدیہ کے طور پر ادا کردے تو آزاد سمجھی جاوے۔ اس سمجھوتہ کے بعد بَرَّہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارے حالات سنائے۔ اور یہ جتلا کر کہ میں بنومصطلق کے سردار کی لڑکی ہوں فدیہ کی رقم کی ادائیگی میں آپ کی اعانت چاہی۔اس کی کہانی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت متاثر ہوئے اور غالباً یہ خیال کرکے کہ

چونکہ وہ ایک مشہور قبیلہ کے سردار کی لڑکی ہے شاید اس کے تعلق سے اس قبیلہ میں تبلیغی آسانیاں پیدا ہو جائیں آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرما لیں۔

چنانچہ آپؐ نے اسے خود اپنی طرف سے پیغام دیا اور اس کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر آپؐ نے اپنے پاس سے اس کے فدیہ کی رقم ادا فرما کر اس کے ساتھ شادی کر لی۔ صحابہؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقاؐ نے بنومصطلق کی رئیس زادی کو شرف ازدواجی عطا فرمایا ہے توانہوں نے اس بات کو خلاف شانِ نبویؐ سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والوں کواپنے ہاتھ میں قید رکھیں اور اس طرح ایک سوگھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلافدیہ یک لخت آزاد کردئے گئے۔

اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ

جویریہؓ …اپنی قوم کے لئے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔ اس رشتہ اور اس احسان کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو مصطلق کے لوگ بہت جلد اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 570-571)

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت جویریہؓ کے والد حضرت حارثؓ اپنی بیٹی کا فدیہ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیہ دے کر حضرت جویریہ ؓکو آزاد کروانے کے بعد وہ خود بھی اسلام لے آئے اور پھر اس کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔

سیرت ابن ہشام میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بنو مصطلق سے مدینہ واپس آئے تو حضرت جویریہؓ  کا باپ حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کا فدیہ دینے کے لیے آپؐ کے پاس آیا۔ جب وہ وادی عقیق میں پہنچا تو اس نے وہ اونٹ جو اپنی بیٹی کے فدیہ میں دینے کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا ان میں سے دو اونٹ اسے بہت پسند آئےتھے۔ اس نے انہیں وادی عقیق کی ایک گھاٹی میں چھپا دیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے میری بیٹی کو گرفتار کر لیا ہے ۔یہ اس کا فدیہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم نے عقیق کی فلاں فلاں گھاٹی میں چھپائے تھے؟ وہ اس بات سے متاثر ہوا حارث نے کہا :میں گواہی دیتا ہوں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اللہ ہی ہے جس نے آپ کو اس سے آگاہ کیا ہے کیونکہ اس وقت ان اونٹوں کےپاس سوائے حارث کے اَور کوئی بھی نہ تھا۔ پھر حارث نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی ان کے دو بیٹوں نے اور ان کی قوم کے کچھ لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ ۶۷۴،۶۷۳ دار الکتب العلمیہ بیروت)

ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت جویریہؓ کے بھائی عبداللہ بن حارث اپنی قوم بنو مصطلق کے قیدیوں کا فدیہ لے کر آئے تھے مگر راستہ میں انہوں نے اونٹوں اور حبشہ کی ایک باندی کو ایک مقام پر چھپا دیا۔ اس کے بعد عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قیدیوں کے فدیہ کے متعلق بات کی۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے مگر تم فدیہ کے لیے کیا لے کر آئے ہو۔ اس نے کہا میں تو کچھ بھی نہیں لایا۔ آپؐ نے فرمایا تو وہ جوان اونٹ اور سیاہ فام باندی کہاں ہے جن کوتم نے فلاں فلاں جگہ چھپادیا ہے؟ یہ سنتے ہی عبداللہ نے کہا: مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور کہا کہ اس وقت میرے ساتھ کوئی نہیں تھا جبکہ میں نے فدیہ کے اس مال کو چھپایا تھا اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد مجھ سے پہلے آپ تک کوئی دوسرا شخص پہنچا ہے۔ غرض اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ20 دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی لکھا ہے کہ

’’حضرت جویریہ کی شادی کے متعلق ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب ان کے والد انہیں چھڑانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ کے فیض صحبت سے مسلمان ہو گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پیغام ملنے پر‘‘یعنی رشتہ کا جو پیغام بھیجا تھا ’’انہوں نے خود برضا ورغبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کردی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 571)

حضرت جویریہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے تین روز پہلے میں نے خواب میں دیکھا یعنی جب وہ وہاں بنو مصطلق کی طرف گئے تھے۔ کہتی ہیں

مَیں نے خواب میں دیکھا کہ چاند یثرب سے چلا ہے اور میری آغوش میں آ گرا ہے۔

میں نے ناپسند کیا کہ کسی کو اپنا خواب بیان کروں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جب ہمیں قیدی بنا لیا گیا تو مجھے اس خواب کے پورا ہونے کی امید ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کیا اور مجھ سے نکاح کر لیا تو بخدا! میں نے آپؐ سے اپنی قوم کے بارے میں بات نہ کی تھی۔ میں نے قوم کی رہائی کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی۔ حتی کہ مسلمانوں نے خود ہی انہیں آزاد کر دیا۔ مجھے علم نہ ہوا یہاں تک کہ میری ایک پھوپھو زاد بہن نے مجھے بتایا تو اس پر میں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد4صفحہ 347 دار الکتب العلمیہ بیروت)

ابن ہشام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہؓ کا حق مہر چار سو درہم مقرر کیا۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ674 دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہرحال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے مظفر و منصور کامیاب و کامران مدینہ واپس تشریف لائے

اور کل اٹھائیس روز مدینہ سے باہر رہے۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 354 دارالکتب العلمیہ بیروت)

غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبَی بن سلول کے نفاق کا اعلانیہ اور باغیانہ اظہار جو اس نے کیا تھا اس کا بھی تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔

اس کی تفصیل یوں ہے کہ بنو مصطلق سے لڑائی ختم ہو گئی اور مسلمان ابھی مریسیع کے کنویں پر موجود تھے اس کنویں کا پانی بہت کم تھا۔ ڈول ڈالا جاتا تھا تو آدھا بھر کر آتا تھا۔ کنویں پر سِنَان بن وَبَر جُہَنی آیا جو بنو خزرج کا حلیف تھا۔ اس وقت پانی پر مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت موجود تھی۔ سِنَان بن وَبَر جُہَنی نے اپنا ڈول ڈالا اور عمر بن خطابؓ کے نوکر جَھْجَاہ بن مسعود غِفَارِی نے بھی پانی نکالنے کے لیے اپنا ڈول ڈالا۔ سِنَان اور جَھْجَاہ کے ڈول ٹکرا گئے جس پر یہ دونوں شخص آپس میں الجھ پڑے۔ پانی تھوڑا تھا کسی کو پورا پانی نہ ملا۔ جَھْجَاہ نے سِنان کو مارا اور اس کا خون بہنے لگا تو سِنَان نے مدد کے لیے آواز دی۔ اے انصار! اور جَھْجَاہ نے آواز دی اے مہاجرین! اور ایک روایت میں ہے اے قریش!تو دونوں قبیلوں کی ایک جماعت آ گئی اور ہتھیار نکال لیے۔ قریب تھا کہ بڑا فتنہ برپا ہو جاتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فوراً اطلاع ملی تو آپؐ نے اس معاملے کو ختم کروایا۔ بہرحال اس کی تفصیل کی بعض روایات ہیں۔

صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق جھگڑے کا سبب یہ بیان ہوا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار میں سے ایک شخص کی پشت پر ٹانگ ماری۔ اس پر اس انصاری نے کہا اے انصار! مدد کے لیے آؤ اور اس مہاجر نے کہا اے مہاجرین !مدد کے لیے آؤ۔ ان دونوں کے درمیان لڑائی کا سبب پانی کا حوض تھا جس سے انصاری کی اونٹنی نے پانی پیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا :یہ جاہلیت کی صدا کیسی ہے ؟کیا باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟ یہ جاہلوں والی باتیں ہیں۔ آپؐ کو سارا حال بتایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا :

تم ایسی بات کو چھوڑ دو۔یہ بھائی چارے کو ختم کرنے والی ہے۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اگر وہ ظالم ہو تو اس کو ظلم سے روک دے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے۔

مہاجرین کی ایک جماعت نے حضرت عُبَادہ بن صامِت ؓ سے بات چیت کی اور انصار کی ایک جماعت نے سِنَان سے بات چیت کی تو سِنان نے اپنا حق چھوڑ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری باتیں ان تک پہنچائیں۔ بات کی اور سمجھایا تو سِنان نے اپنا حق چھوڑ دیا۔

عبداللہ بن اُبَی اپنے دس منافق ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں حضرت زید بن ارقم ؓبھی تھے لیکن وہ ابھی کم عمر تھے یا بعض روایات کے مطابق ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے جبکہ بعض روایات کے مطابق وہ بالغ تھے۔ عبداللہ بن اُبَی کو جہجاہ کی یہ صدا سنائی دی کہ اے قریش کے لوگو! اسے شدید غصہ آیا۔ اس نے کہا بخدا !میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ کہنے لگا بخدا !مجھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے وقت سے ہی یہ دین سخت ناپسند تھا لیکن میری قوم نے مجھ پر غلبہ پا لیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ قریش کے لوگ ہم پر حاکم ہو گئے اور ہمارے شہر میں ان کی کثرت ہو گئی اور ہمارے احسانات کی ناقدری کی۔ اس نے بڑی گندی مثال دی کہ یہ قریش کے افراد ایسے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا کرو تا کہ وہ تمہیں کھا جائے۔ کہنے لگا میرا تو گمان تھا کہ میں اس طرح کی پکار کی صدا آنے سے قبل مر گیا ہوتا جیسی صدا جہجاہ نے دی تھی۔ میں یہاں موجود ہوں مجھ سے تو یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی قسم !اگر ہم مدینہ پہنچ گئے تو سب سے زیادہ عزت والا شخص سب سے زیادہ ذلیل آدمی کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔ پھر اس نے اپنی قوم کے موجودہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ یہ تم لوگوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں ٹھہرایا اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ تم نے اپنے اموال میں سے ان کے حصے مقرر کیے یہاں تک کہ وہ مالدار ہو گئے۔ بخدا! اب بھی تم اپنے ہاتھ روک لو تو وہ تمہارا شہر چھوڑ کر کسی اور شہر چلے جائیں گے۔ وہ لوگ پھر بھی اس پر راضی نہ ہوئے جو تم لوگوں نے ان کے لیے کیا تھا۔ اس نے بڑا بھڑکانے کی کوشش کی کہ مہاجرین تو اس پہ راضی نہیں ہوئے جو تم نے ان پہ احسان کیا یہاں تک کہ تم نے اپنی جانوں کو موت کا نشانہ بنایا۔ تم لوگ اس یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قتل ہوئے اور تم لوگوں نے اپنی اولادوں کو یتیم کیا۔ اس کے نتیجہ میں تم تھوڑے ہو گئے اور وہ لوگ بڑھ گئے۔

حضرت زید بن ارقم ؓنے جب عبداللہ بن اُبَی کی یہ بات سنی کہ اگر ہم مدینہ پہنچ گئے تو سب سے زیادہ عزت والا شخص سب سے زیادہ ذلیل شخص کو اس سے باہر نکال دے گا تو انہوں نے وہیں کھڑے ہوکے اسے کہا کہ

اللہ کی قسم !تُو ہی اپنی قوم میں ذلیل ہے۔ تو ہی کمتر ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمان خدا کی طرف سے غلبہ اور شان رکھنے والے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے طاقت رکھنے والے ہیں۔ غیرت دکھائی انہوں نے۔

اس پر ابنِ اُبَی نے اسے کہا تُو خاموش ہو جا۔ میں تو صرف ہنسی مذاق اور کھیل تماشے کی باتیں کر رہا تھا۔ خوف بھی آیا اس کو۔ ڈر گیا۔ زید بن ارقمؓ یہ ساری باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور اس وقت آپ کے پاس مہاجرین اور انصار صحابہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی۔ زید نے آپؐ کو ابنِ اُبَی کی ساری بات بتا دی۔

بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ زید بن ارقم نے اپنے چچا سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور چچا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً زید کو طلب کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کی بات کو ناپسند کیا اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپؓ نے فرمایا: اے لڑکے !شاید تجھے ابنِ اُبَی پر غصہ ہے۔ زید نے کہا نہیں۔ یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کی قَسم! میں نے یہ بات اس سے سنی ہے۔ آپؐ نے فرمایا :شاید تمہارے سننے میں غلطی ہو گئی ہو۔ زید نے کہا اللہ کی قسم! یا رسول اللہ !ایسا نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا :شاید تم پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہو۔ زید نے کہا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہے۔

لشکر میں ابنِ اُبَی کی بات پھیل گئی اور لوگوں کا موضوع بحث یہی بات تھی اور انصار کے لوگ زید کو ملامت اور تنبیہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ تُو نے اپنی قوم کے سردار پر یہ الزام لگایا ہے۔تُواس کے خلاف ایسی بات کہتا ہے جو اس نے نہیں کہی۔ زید کے چچا نے بھی خفگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا تمہیں کیا سوجھی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھوٹا قرار دیا اور تم سے ناراض ہو گئے۔ زید ؓنے کہا :اللہ کی قسم!جو اس نے کہا میں نے خود سنا ہے۔

اللہ کی قسم !خزرج میں عبداللہ بن اُبَی سے زیادہ مجھے کوئی شخص محبوب نہیں تھا۔ اگر میں یہ بات اپنے باپ سے بھی سنتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاتا۔

اگر ایسی بات جو عبداللہ بن اُبَی نے کہی تھی۔ مجھے تو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ان کا ایمان بڑا پختہ تھا۔ کہتا ہے کہ اگر میرا باپ بھی کہتا تو میں یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاتا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کرے گا جو میری بات کی تصدیق کرے گی۔ زید اس صورتحال سے سخت مغموم ہوئے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایسا غم پہنچا کہ ایسا غم مجھے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھا رہا۔یہاں گھر سے مراد ان کی بیرونی قیام گاہ ہے جہاں انہوں نےکیمپ لگایا ہوا تھا۔ مدینہ والا گھر نہیں ہے کیونکہ یہ سارا واقعہ ہی مدینہ سے باہر کا ہے۔ زید نے لوگوں سے بچنے کے لیے ان کے سامنے آنا چھوڑ دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ لوگ انہیں دیکھ کر کہیں کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔

دوسری طرف مجلس میں موجود انصار نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اور زید کو دیا گیا جواب سنا تو ان میں سے چند لوگ وہاں سے اٹھے اور عبداللہ بن اُبَی کے پاس آ کر اس کو خبر دی اور اوس بن خَوْلِی نے کہا اے ابو حُبَاب! یہ اس کی کنیت تھی کہ اگر تُو نے یہ بات کہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دے تا کہ وہ تیرے لیے استغفار کریں اور تُو اس کا انکار نہ کر۔ کہیں تیرے بارے میں کوئی وحی نازل ہو کر تیری تکذیب نہ کردے۔ اور اگر تُو نے یہ بات نہیں کہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ اور ان کو عذر بیان کر اور قَسم کھا کہ تُو نے یہ نہیں کہا تھا۔ تو اس نے اللہ کی قسم کھائی کہ اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ پھر ابنِ اُبَی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے ابن اُبَی! اگر یہ بات تُو نے کہی تھی تو توبہ کر لے تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ زید نے جو کچھ کہا میں نے وہ نہیں کہا تھا۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عبداللہ بن اُبَی کو خبر ہوئی تو وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ زید نے جو بات آپ کو بتائی ہے وہ میں نے نہیں کہی اور ایک تیسری روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عبداللہ بن اُبَی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا تو انہوں نے قسم کھائی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ اس پر حاضرین میں سے انصار صحابہ کرام ؓنے کہا امید ہے بچے کو بات میں وہم پیدا ہو گیا ہو اور وہ بات یاد نہ رہی ہو جو ابنِ اُبَی نے کہی تھی۔ یہ بات انہوں نے ابنِ اُبَی کے دفاع میں کہی کیونکہ وہ اپنی قوم میں معزز اور مرتبہ والاتھا۔ کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ زیدؓ سچ کہہ رہا ہے اور کچھ نے اس کے بارے میں بدگمانی کی۔ کچھ نے تو یقین کر لیا کہ زیدؓ چاہے چھوٹی عمر کا ہے لیکن سچ بات ہی کہہ رہے ہیں۔ بہرحال اکثر جو بڑے تھے وہ اس کو غلط سمجھتے تھے۔

حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ابنِ اُبَی کا واقعہ ہوا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے اور آپؐ کے پاس ایک سیاہ فام غلام آپؐ کی پیٹھ دبا رہا تھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !شاید آپ کی کمر میں درد ہے ۔ آپؐ نے فرمایا کہ گذشتہ رات مجھے اونٹنی نے گرا دیا تھا۔

ان باتوں کے بعد پھر میںاصل بات کی طرف آیا۔ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیں کہ میں ابنِ اُبَی کی گردن مار دوں۔ اسے قتل کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر میں صحابہ کو اس کےقتل کا حکم دوں تو وہ اس کو قتل کر دیں گے تو مدینہ میں بہت سے لوگوں کو یہ ناگوار گزرے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ محمد بن مَسْلَمَہ کو حکم دیں کہ وہ اس کو قتل کر دے۔ آپؐ نے فرمایا: لوگ یہ باتیں نہ کرتے پھریں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کر رہا ہوں ۔ میں نے عرض کیا پھر آپؐ لوگوں کو روانگی کا حکم دیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔

ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپؐ نے خود حضرت عمر ؓسے فرمایا کہ کوچ کرنے کا اعلان کرو۔ یہ دن کا وہ وقت تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموما ًسفر نہیں کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ خیال تھا کہ اس نے بات ضرور کی ہے اور اسی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے کہا اچھا پھر یہ کہتا ہے کہ ذلیل آدمی کو نکال دے گا تو چلو سفر کرتے ہیں۔ واپس مدینہ جاتے ہیں دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے۔ بہرحال حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں روانگی کا اعلان کیا۔ اس وقت شدید گرمی تھی اور آپؐ کی عادت یہ تھی کہ ٹھنڈے وقت سفر کرتے تھے لیکن جب ابنِ اُبَی کی خبر آئی تو اس وقت کوچ کیا اور سب سے پہلے آپؐ کو سعد بن عُبَادہؓ ملے اور بعض نے کہا کہ اُسَید بن حُضَیر ؓملے۔ انہوں نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وبَرَكَاتُهٗ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے اس گرمی میں اس وقت میں روانگی اختیار کی ہے جس میں آپ کی عادت روانگی کی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھ تک وہ باتیں نہیں پہنچیں جو تمہارے ساتھی نے کہی ہیں؟ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ !کون سا ساتھی؟ آپؐ نے فرمایا :عبداللہ بن اُبَی نے کہا ہے کہ جب وہ مدینہ واپس لوٹے گا تو زیادہ عزت والا شخص مدینہ سے زیادہ ذلت والے کو نکال دے گا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !اگر آپ چاہیں تو اس کو مدینہ سے نکال دیں کیونکہ وہ ذلیل ترین اور آپ بہت عزت والے ہیں اور عزت اللہ کے لیے اور آپؐ کے لیے اور مؤمنین کے لیے ہے۔ پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس پر نرمی کریں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو مدینہ میں لایا اور اس کی قوم اس کے لیے تاج پوشی کی تیاری کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو مدینہ لے آیا تو اس کا خیال ہے کہ آپ نے اس کی بادشاہت چھین لی۔

(صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن حدیث4904، 4905)

(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ 468قدیمی کتب خانہ کراچی)

(سیرت الحلبیہ جلد2 صفحہ389 دار الکتب العلمیہ بیروت)

(فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد8 صفحہ645المکتبہ السلفیہ)

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7 صفحہ182 دار السلام ریاض)

(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4 صفحہ 348-350 دارالکتب العلمیہ بیروت)

(سبل الہدیٰ (مترجم) جلد 4 صفحہ 782 ، زاویہ پبلشرز لاہور)

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 670-671 دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زید ؓکی بات کا یقین آ گیا تھا کہ اس نے صحیح کہا ہے اور عبداللہ جھوٹ بول رہا ہے لیکن اس وقت آپؐ مصلحتاً خاموش رہے اور آپؐ نے کہا چلو مدینہ جا کر دیکھتے ہیں کون ذلیل ہے اور کون عزت والا ہے۔ لیکن بہرحال آخر میں پھر یہی ثابت ہوا کہ اس کا قصور تھا اور اس نے یہ باتیں کہی تھیں۔ اس کی تفصیل جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے وہ بھی انشاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔

اگلے جمعہ انشاء اللہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو گا۔ اس کے لیے بھی دعا کریں

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور تمام کارکنان کو اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے اور قربانی کے جذبے سے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو مہمان آئے ہیں ان کو بھی اپنی حفاظت میں یہاں رکھے۔ جو سفر میں ہیں، آنے کی تیاری میں ہیں، سفر شروع کرنے والے ہیں یا جنہوں نے بھی آنا ہے سب پر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ان کو حفاظت سے لے کر آئے۔

کچھ

مرحومین کا ذکر اور جنازہ

میں ان کا پڑھاؤں گا۔

ان میں پہلا جنازہ ہے

سلیمہ بانو صاحبہ

جو حمید کوثر صاحب ناظر دعوت الی اللہ شمالی ہند کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ محمد حمید کوثر صاحب لکھتے ہیں کہ یہ عبدالغنی صاحب مرحوم بھدروہ جموں کشمیر کی بیٹی تھیں جنہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کے ذریعہ 1935ء میں بیعت کی تھی۔ جلسہ سالانہ قادیان میں پہاڑی اور برفیلی راستوں پر پیدل چل کر اور کچھ حصہ ٹانگے پر سوار ہو کر تقسیم ملک تک قادیان میں حاضر ہوتے تھے۔ بڑا شوق تھا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطاب سنتے تھے۔ اپنی اہلیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو ہمیں واقف زندگی کو گزارہ الاؤنس ملتا تھا بہت معمولی تھا لیکن انتہائی کفایت شعاری سے گزارہ کرتی تھیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی بھی کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ

اللہ تعالیٰ نے اس الاؤنس میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی ہے۔ قناعت تھی کبھی شکوہ نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی سبق ہے جو بعض دفعہ شکوے کرتے ہیں۔

پھر کوثر صاحب کہتے ہیں کیونکہ سری نگر میں پہلی پوسٹنگ تھی وہاں سے میرا تبادلہ بمبئی میں ہو گیا تو وہاں بمبئی میں بطور صدر لجنہ خدمت بجا لاتی رہیں۔ پھر کبابیر میں تبادلہ ہو گیا۔ وہاں انہوں نے کہا کہ عربی سیکھنا میرے لیے تو مشکل ہے تو میں عورتوں سے جو بول چال کی عربی ہے وہ سیکھ لیتی ہوں اور پھر وہ سیکھی اور بڑی جلدی سیکھی اور ان کی تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

86ء سے 97ء تک گیارہ سال صدر لجنہ اماء اللہ کبابیر کے طور پر خدمت بجا لاتی رہیں۔ لجنہ اماءاللہ کو از سر نو منظم کیا۔ اجتماع کے انعقاد کا سلسلہ شروع کروایا۔ اجتماع ہو رہا تھا تو اس ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی ان کی تعریف کی تھی کہ لجنہ اماء اللہ جماعت کبابیر کا اجتماع ہو رہا ہے اوربتایا کہ ان کا پانچواں اجتماع ہے۔ پھر فرمایا کہ لجنہ اماء اللہ کبابیر ساری عرب خواتین پر مشتمل لجنہ ہے۔ صرف ایک ان میں ہندوستان سے گئی ہوئی کشمیر کی خاتون بھی ہیں مگر وہ بھی اب بالکل عربوں کی طرح بن چکی ہیں۔ گھل مل کے انہوں نے ان کی تربیت کی۔ پھر کہتے ہیں 1998ء میں مَیں واپس آگیا تو انڈیا میرے ساتھ آ گئیں اور جب تک صحت اور حالات نے اجازت دی، مرحومہ تقریباً روزانہ بیت الدعا اور مسجد مبارک اور بیت الذکر اور بہشتی مقبرہ میں نوافل اور دعا کے لیے جایا کرتی تھیں۔

شریف عودہ صاحب امیر کبابیر لکھتے ہیں کہ مرحومہ کو پہلی صدر لجنہ مقرر کیا گیا۔ مسلسل چھ سال تک یہ ذمہ داری ادا کرتی رہیں۔ کوثر صاحب نے تو زیادہ لکھا ہے۔انہوں نے چھ سال لکھا ہے۔بہرحال آخر تک وہ رہیں جب تک وہاں تھیں۔ مرحومہ نے مختلف دینی درسوں اور دینی سرگرمیوں کے ذریعہ لجنہ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ مرحومہ اپنے حسن سلوک اور خوش اخلاقی کے ذریعہ جماعت کبابیر کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ جلد ہی عربی بول چال سیکھ لی اور جماعت کے بیٹوں اور بیٹیوں میں یوں ضم ہو گئیں جیسے وہ ان میں سے ایک ہوں۔ اور کہتے ہیں پچھلے بیس سالوں میں قادیان واپسی کے بعد سے وفات تک کبابیر کی خواتین کے ساتھ پھر بھی انہوں نے تعلق رکھا اور جب وہاں تھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ مہمان نوازی میں خاص وصف تھا ۔اسی طرح جماعتی سینٹر کی صفائی کی طرف بھی بہت توجہ دیتی تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔ ایک بیٹے ان کے مربی ہیں عطاء المجید مبشر کوثر۔ یہ ایم ٹی اے العربیہ میں یہاں یوکے میں خدمت انجام دے رہے ہیں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ بیٹی ان کی بشریٰ کوثر صاحبہ ہالینڈ میں ہیں ڈاکٹر ایمن عودہ کی اہلیہ ہیں۔ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ میں نیشنل سیکرٹری خدمت خلق کے طور پر خدمت کر رہی ہیں۔ چھوٹے بیٹے شریف کوثر جو ہیں یہ قادیان میں نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھی ہیں۔ مربی بھی ہیں اور اس کے علاوہ ایڈیشنل انچارج شعبہ سمعی بصری بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولاد میں جاری رکھے۔

دوسرا ذکر

نورالحق مظہر صاحب

کا ہےجو راغب ضیاء الحق صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ کے والد تھے۔ لاہور کے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔

راغب ضیاء الحق صاحب لکھتے ہیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا منشی محمد دین صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی جو 1905ء میں اپنے چچا کے ہمراہ بیعت کا شوق لیے قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ بیعت کی درخواست کی لیکن اعلان کیا گیا کہ حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز ہے۔ بیعت نہیں ہو گی۔ اس دن بیعت نہیں ہوئی۔ واپس آ گئے پھر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے ہاتھ پہ بیعت کی۔ 1974ء میں یہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ مخالفین نے اس مکان کو آگ لگا دی۔ گھر کا سارا سامان جل گیا۔ کوئی پناہ نہیں دیتا تھا۔ پھر ایک احمدی نے اپنے گھر میں پناہ دی اور کہتے ہیں میرے والد نے بڑے صبر اور شکر سے اس چھوٹے سے گھر میں گزارا کیا۔ کبھی ان کی زبان پہ کوئی شکوہ نہیں آیا اور یہ نہیں کہا کہ سب کچھ جل گیا ہے اس کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ بعد ان کو اپنا مکان بنانے کی توفیق دی اور یہ یہی کہا کرتے تھے کہ 1974ء کی قربانی کا صلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ 1974ء میں مسجد مغل پورہ کی حفاظت کر رہے تھے تو غیر احمدی احباب نے مسجد پہ حملہ کر دیا۔ انہوں نے ایک لوہے کی سلاخ آپ کے سر پہ ماری جس سے زخمی ہوئے اور ساری عمر یہ نشان ان کے سر پہ رہا۔ کہتے ہیں میں نے والد صاحب کو ہمیشہ تہجد میں گریہ و زاری کرتے دیکھا ہے اور نمازوں کی خاص پابندی تھی۔گھر نماز سینٹر تھا۔ پانچ وقت نماز کی امامت کرایا کرتے تھے۔ قرآن کریم پڑھنے اور نمازوں کی طرف گھر والوں کو تلقین کرتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ محلے کی مسجد کے مولوی نے تقریر کی کہ یہ احمدی جو ہیں ان کا قرآن الگ ہے۔ نماز اور طرح پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس دوران مسجد میں ہی ہمارا ایک غیر احمدی ہمسایہ تھا وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا مولوی صاحب! آپ غلط کہہ رہے ہیں کیونکہ پوری گلی میں صرف ایک گھر ہے جہاں قرآن پڑھنے کی آواز آتی ہے اور وہ نور الحق کا گھر ہے اور وہی قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں۔ آجکل تو مولوی کا خوف اتنا ہے کہ یہ بات کوئی نہیں کہہ سکتا۔ بہرحال اپنے محلے میں انتہائی شریف النفس بزرگ مشہور تھے۔ آخری بیماری میں بھی غیراحمدی جو لوگ تھے، سخت مخالفین وہ بھی آپ کا حال پوچھنے گھر آتے تھے۔ انتہائی سخی دل اور غریب پرور تھے۔ بغیر کسی کو بتائے ضرورتمندوں کو راشن بھجوادیاکرتے تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹی امةالمتین علیم محمود صاحب مربی سلسلہ کی اہلیہ ہیں۔ وہ بھی گھانا میں ہونے کی وجہ سے جنازہ میں شرکت نہیں کر سکیں۔ وفات کے وقت وہاں نہیں تھیں۔ بیٹے راغب ضیاءالحق تنزانیہ میں مربی ہیں وہ وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں وہ بھی میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

اگلا ذکر ہے

امة الحفیظ نگہت صاحبہ

جو محمد شفیع صاحب مرحوم ربوہ کی اہلیہ تھیں۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں اور مبارک تنویر صاحب مربی سلسلہ جرمنی کی ساس تھیں ۔ان کی بیٹی امة الجمیل غزالہ ہیں جو جرمنی کی نائب صدر لجنہ بھی ہیں۔

امة الجمیل صاحبہ لکھتی ہیں کہ میری والدہ صوم و صلوٰة کی پابند تھیں۔ اعلیٰ صفات کی حامل، نیک شخصیت تھیں۔ کوئی دعا کے لیے کہتا تو اپنے اوپر لازمی سمجھ لیتیں اور پوری فکر اور لگاؤ سے درد دل کے ساتھ اس کے لیے دعاؤں میں لگ جاتیں۔ خلافت سے انتہائی درجہ کا وفا کا تعلق تھا۔ بچوں کو بھی اس کا درس دیا کرتی تھیں۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں اور ہمیں عملی طور پہ سکھایا کہ دین کی خدمت ہی اصل سرمایہ ہے۔ لجنہ کے مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق رکھتی تھیں۔ پیدل ہی دور دراز علاقوں میں تبلیغ کے لیے نکل جاتی تھیں۔ جب تک وہاںتبلیغ کی اجازت تھی اتنی زیادہ مخالفت نہیں تھی۔ مقدمے زیادہ نہیں بنتے تھے اس وقت تبلیغ کرتی رہیں۔ میڈیکل کیمپس لگاتی تھیں ہومیو پیتھک دوائیاں تقسیم کیا کرتی تھیں۔ ان کی مساعی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پچاس کے قریب پھل بھی عطا فرمائے۔ یعنی لوگوں کو بیعت کروانے کی ان کو توفیق ملی۔ دنیوی لحاظ سے تعلیم کم تھی مگر علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ دینی کتب پڑھ کے ہی بڑی مدلل گفتگو کیا کرتی تھیں اور ہر شخص کے ذہنی معیار کے مطابق اس سے بات کیا کرتی تھیں۔ کبھی کوئی سوالی گھر سے خالی ہاتھ نہیں گیا۔ خواتین کو ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ بجائے مانگنے کے روزگار حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ مختلف غریب بچیوں کو اپنے گھر رکھ کر انہیں تعلیم بھی دلوائی اور پھر ان کی شادیوں کے اخراجات خوش دلی سے برداشت کیے اور ہمیشہ ان سے بہت حسن سلوک رکھا۔ غزالہ صاحبہ کہتی ہیںکہ میں جب ان کو ملنے گئی تو انہوں نے کہا کہ تم وقف زندگی ہو اس لیے میں تمہیں روکتی نہیں۔ تم اپنی رخصت گزار کے واپس جاؤ۔ جب بیماری شدید تھی تو بھائی نے بھی کہا کہ ان کو بلا لیں تو انہوں نے کہا نہیں وہ وقف ہے۔ اس کو رہنے دو۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور بہت سی نواسیاں، پوتے پوتیاں ہیں جن سب کو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ بڑا نیک ماحول انہوں نے اپنے گھر میں قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں داماد بھی جماعتی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی نیکیاں آگے نسل میں بھی جاری فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۹؍ اگست ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button