یادِ رفتگاں

محترم کرنل بشارت احمد صاحب

حالات زندگی

(پیدائش ۱۳؍نومبر ۱۹۳۰،وفات ۲۰؍جولائی ۱۹۹۸ء)

محترم کرنل بشارت احمد صاحب ۱۹۳۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد حضرت ملک رسول بخش صاحبؓ آف ڈیرہ غازی خان صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔آپ کی والدہ پیدائشی احمدی تھیں اور آپ کے نانا حضرت صوفی غلام احمد صاحبؓ بھی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ آپ شیخ محمد دین صاحب کے سب سے چھوٹے داماد اور شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ افریقہ و امریکہ کے بہنوئی تھے۔ آپ کے والد محکمہ انہار میں اوورسیئر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد قادیان میں رہائش اختیار کر لی۔ محترم کرنل صاحب نے ۱۹۴۷ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۷ء میں ہونے والے شدید مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا اور اسی اثر کے تحت پاکستان کی فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

قومی خدمات

کرنل بشارت احمد صاحب پاک فوج کے ان دلیر اور جانباز فوجیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ۱۹۷۱ء میں کشمیر کے محاذ پر شجاعت اور بہادری کی انمٹ داستانیں رقم کیں جو کہ پاک فوج کی قابل فخر روایات کا ایک تاریخی حصہ ہیں۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں آپ مغربی پاکستان کے محاذ چھمب جوڑیاں پر تعینات تھے۔ اور ۱۳ آزاد کشمیر بٹالین کی کمانڈ کررہے تھے۔یہ بٹالین ایک بریگیڈ کا حصہ تھی جس میں کُل تین بٹالین تھیں۔ چھمب جوڑیاں کے معرکے میں فوجی منصوبے کے مطابق اس بریگیڈ کی تینوں بٹالین نے مل کر دریائے توی کو عبور کر کے دشمن کے مضبوط گن ایریا یعنی توپوں کے مورچوں پر حملہ آور ہونا اور اس پر قبضہ کرنا تھا۔ تین اور چار دسمبر کی درمیانی رات کو حملہ ہونا طے پایا لیکن بدقسمتی سے باقی دو بٹالین اصلی منصوبہ کے برخلاف اور حکم ملنے کے باوجود باجوہ حملہ میں شامل نہ ہوئیں۔جب کرنل بشارت صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے بددل ہونے کی بجائے اپنی بٹالین کے جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ یہ حملہ ہم اپنی اکیلی بٹالین ہی سے کریں گے۔ چنانچہ آپ نے خدا کی ذات پر توکل کرتے ہوئے تین چار دسمبر کی درمیانی رات دشمن پر حملے کا آغاز کیا۔ یہ مغربی پاکستان کے محاذ سے دشمن پر پہلا حملہ تھا۔یہ حملہ اتنا شدید، اتنا اچانک اور اتنی جرأت سے کیا گیا کہ دشمن بالکل بوکھلا کر رہ گیا اور بھاری جانی نقصان اٹھاکر اپنی توپوں اور مورچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

کرنل بشارت صاحب کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ان کی اکیلی بٹالین نے ہی تینوں بٹالین کا کام کرنا ہے چنانچہ سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آپ خود اس جارحانہ حملہ میں سب سے آگے تھے جبکہ ایک کمانڈنگ آفیسر کے لیے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ چنانچہ آپ نے کئی گھنٹے کی شدید لڑائی کے بعد دریاکے اہم پل پر قبضہ کر لیا اور ٹارگٹ میں دی گئی پہاڑی کو فتح کر لیااور مزید کمک کے لیے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو اطلاع دی۔لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی مزید کمک نہ پہنچی۔ اب کرنل صاحب دشمن کے علاقہ میں بہت آگے نکل چکے تھے اور دونوں طرف سے توپوں کی شدید گولہ باری ہو رہی تھی۔ ہر طرف کشت وخون کا بازار گرم تھا۔ اس آگ اور خون کی ہولی میں ایک وقت ایسا آیاکہ آپ بالکل تنہا رہ گئے۔دشمن کی توپ کا ایک گولہ آپ کی بائیں ٹانگ پر لگا اور آپ زخمی ہوکر گر پڑے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں آپ تقریباً دس گھنٹے تک دشمن کے علاقے میں بہتے خون کے ساتھ پڑے رہے۔آخر کار اس شدید زخمی حالت میں دشمن نے آپ کو گرفتار کر کے ملٹری ہسپتال دہلی پہنچا دیا۔یہاں آپ کی زخمی ٹانگ کے کئی آپریشن ہوئے۔آخر کار ریڈ کراس کے زیرِ اہتمام شدید زخمی قیدیوں کے تبادلے میں اڑھائی ماہ بعد پاکستان آگئے۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس جنگی شجاعت اور بہادری کے کارنامے پر آپ کو ہلال جرأت دینے کی سفارش کی گئی (یہ اعزاز نشان حیدر کے بعد اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ہے) لیکن افسوس کہ آپ کے کمانڈنگ آفیسر جنرل افتخار جنجوعہ کی عین دورانِ جنگ شہادت کی وجہ سے کرنل صاحب کو یہ اعزاز نہ مل سکا۔لیکن اس سے بھی بڑا آپ کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ دشمن کی قید کے دوران ایک ملاقات میں ہندوستانی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل مانک شاہ نے یہ اعتراف کیا کہ مغربی محاذ پر ہندوستانی فوج کو سب سے زیادہ نقصان چھمب جوڑیاں کے محاذ پر ہوا۔ اور ۱۳ آزاد کشمیر کا حملہ انتہائی شدید اور تباہ کن تھا اور اسی خصوصیت کی بنا پر وہ اس بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر کو دیکھنے اور ملنے خود آئے۔

اس جنگی معرکے کی تفصیل کرنل صاحب نے اپنی ایک کتاب The Soldier with mission میں بیان کی ہے۔

خلیفہ وقت کا تبصرہ

آپ کی اس کتاب کو پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جو تبصرہ فرمایا اس میں سے کچھ حصےپیش کیے جاتے ہیں:’’آپ تو ماشاءاللہ بہت ہی قابل فوجی افسر ہیں۔جنہوں نے میدان جہاد میں عملاً اپنی قابلیت کو ثابت کر کے دکھایا ہے… آپ کی کتاب کے متعلق مختصرا ًتاثرات یہ ہیں کہ بلاشبہ یہ ایک بہت ہی بہادر اور صاف گو انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔جو جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے بہادر ہے۔ احمدیت کا آپ نے جس شان اور فخر سے بار بار ذکر کیا ہے یہ آپ کی روحانی بہادری پر دلالت کرتا ہے اور چھمب سیکٹر میں جس جرأت کا خود ہی مظاہرہ نہیں کیا گیا بلکہ تمام ماتحت افسروں اور فوجیوں کو بھی اس جرأت کے جذبہ سے سرشار کر دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ جسمانی فطرت میں بھی آپ ایک نڈر اور بے خوف انسان ہیں۔ ماشاءاللہ۔لیکن ساتھ ہی اپنے نفس کے متعلق سچائی کے اظہار میں بھی آپ خدا کے فضل سے بہت بہادر ہیں۔ کیونکہ آپ نے تسلیم کیا کہ کئی جگہ خوف نے آپ پر بھی حملے کیے اور جب خوف غالب آنے لگتا تو آپ خدا کے حضور جھک جاتے تھے۔ اس پہلو سے آپ نے پڑھنے والوں پر یہ اثر چھوڑا ہے کہ اصل غیر متزلزل بہادری خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی نصیب ہو سکتی ہے۔‘‘خط موصولہ مورخہ ۲۵۔ ۴۔ ۱۹۹۰ء

دینی خدمات

آپ انتہائی نڈر احمدی تھے۔ مختلف جماعتی عہدوں پر خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آخری وقت میں بھی حلقہ ڈیفنس سوسائٹی لاہور میں سیکرٹری امور عامہ کے عہدہ پر فائز تھے۔ اسی طرح آپ کو لاہور شہر میں مختلف جماعتی ذمہ داریاں بھی وقتاً فوقتاً دی جاتی رہیں۔ ان ذمہ داریوں کا زیادہ تر تعلق حفاظتی اور حساس سیکیورٹی کے امور سے ہوتا تھا۔مثلاً عیدین کے موقع پر مسجد کے حفاظتی انتظامات وغیرہ۔ اسی طرح ختم نبوت کے جلسہ کے موقع پر بھی حفاظتی امور کی نگرانی کے لیے ربوہ جایا کرتے تھے۔ عموماً پچھلی صفوں میں رہ کر کام کرنا زیادہ پسند فرماتے تھے۔

تمام جماعتی اور مرکزی عہدے داروں کا بے حد احترام کرتے تھے۔آپ کا وسیع حلقہ احباب تھا جس میں غیراز جماعت دوست بھی بھاری تعداد میں تھے۔ اسی طرح پاک فوج میں بھی آپ کے بے شمار دوست تھے۔ ۱۹۷۱ء کی تاریخ سے واقف کیافوجی افسر اور کیا فوجی جوان سبھی آپ کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے۔

شدید ترین مشکلات اور گھٹن کی فضا کے باوجود آپ نے اپنی ملازمت کے دوران کبھی اپنا احمدی ہونا نہیں چھپایا بلکہ ہمیشہ فخریہ اور تبلیغی رنگ میں اس کا برملا اظہار کرتے رہے۔ مزید یہ کہ کمزور احمدی افسروں کا ہمیشہ حوصلہ بلند کرتے رہے۔ تبلیغ کا تو گویا خاص ذوق و شوق تھا۔ ۱۹۷۱ء میں دورانِ اسیری شدید زخمی حالت میں بھی جہاں موقع ملا تبلیغ کرتے رہے۔الفضل اخبار بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے اور اس کے مستقل مضمون نگاروں میں سے تھے۔ اخبار پڑھ کر غیراز جماعت احباب میں بھی تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی جاری کردہ تحریک دعوت الی اللہ کا آپ کی طبیعت پر بڑا گہرا اثر تھا۔ کسی بھی وقت تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔اپنی عمر کے آخری سالوں میں آپ صاحبزادہ میاں عباس کی ہمراہی میں لاہور شہر کے گرد و نواح کے دیہات میں دعوت الی اللہ کے لیے اکثر جایا کرتے تھے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عشق تھا۔اکثر وقت زبان درود شریف سے تر رہتی اور ہم بچوں کو بھی مسلسل یہی تلقین تھی۔ خلیفہ وقت سے ہمیشہ انتہائی پیار اور عقیدت کا تعلق قائم رکھا۔ہمیں یہ حکم تھا کہ چاہے زندگی یا جماعت میں کیسے بھی حالات کیوں نہ آ جائیں ہمیشہ خلیفہ وقت کی اطاعت کرنی ہے۔ آپ پابند صوم وصلوٰۃ تھے۔نماز تہجد کا باقاعدہ التزام کرتے تھے۔اسی طرح نماز اشراق اور نوافل بھی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔اپنی طویل فوجی سروس میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یکساں طور پر بے شمار احمدی و غیراحمدی احباب کی نوکری کے سلسلہ میں مفید امداد کی۔ آپ کی طبیعت انتہائی سادہ اور منکسر المزاج تھی۔

دعا گو

اگر آپ کے دعا گو ہونے کا ذکر نہ کیا جائے تو آپ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔سینکڑوں لوگ عزیز و اقارب، دوست یار، واقف نا واقف آپ کی دعا کی لسٹ پر ہر وقت ہوتے تھے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ ذرا سی مشکل پر بھی ہم سب اہل خانہ کو فورا ًکہتے کہ چلو دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر آپ کا انتہائی غیر متزلزل ایمان تھا اور احمدیت کے شاندار مستقبل کا آپ کو اس طرح یقین تھا جیسے کہ آفتاب نصف النہارپر ہو۔

آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔آپ کی ساری اولاد خدا کے فضل سے جماعت سے تعلق رکھنے والی، صاحب اولاد اور صاحب روزگار ہے۔آپ کے دو پوتے اور ایک نواسی خدا کے فضل سے حضور کی بابرکت تحریک وقف نو میں شامل ہیں الحمدللہ۔

آخری وصیت

آپ نے وفات سے تقریباً دو ہفتے قبل یعنی ۷؍جولائی کو ایک وصیت تحریر کی۔ اس میں سے چند اقتباسات یہاں تحریر کیے جاتے ہیں:’’انسانی زندگی کا اعتبار نہیں۔ ہر شے سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے فنا ہونے والی ہے لہٰذا موت یا شہادت جب اور جن حالات میں بھی آئے اس پر حد سے زیادہ افسوس غم یا حیرانگی درست نہیں۔ ہاں فطری غم ایک طبعی امر ہے۔ میرے حق میں صرف اور صرف اتنی دعا کی جائے۔

’’الٰہی بشارت تیرے حضور خالی ہاتھ حاضر ہوا ہے۔ اے اللہ تو اس سے راضی ہو جا۔ ایسا راضی کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو۔آمین‘‘

میرے سارے بچے لڑکے اور لڑکیاں بہوئیں اور داماد ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا عمدہ نمونہ قائم کریں۔نیز فیشن اور بھڑکیلے پن کی بجائے قناعت پسندی کو اپنا شیوہ اور شعار بنائیں گے۔الفضل اخبار باقاعدگی سے پڑھیں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم رکھیں گے۔ انشاءاللہ تعالیٰ‘‘

احباب جماعت سے ہمارے والد کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی درخواست ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(’م۔احمد‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button