خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ بنو قریظہ کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍اکتوبر۲۰۲۴ء

٭… بنو قریظہ کے متعلق اس فیصلہ میں صاف طور پر خدائی تصرف کام کرتے ہوئے نظر آتا ہے اور اس لیے آپؐ کا جذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا

٭… اس موقع پر آپؐ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ اگریہود میں سے مجھ پردس با رَسُوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تو میں خدا سے امید رکھتا تھا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی

٭…اُس وقت جس شخص کی بھی سفارش آپؐ کے پاس کی گئی آپؐ نے اُسے فوراً معاف کر دیاجو اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ حضرت سعدؓ کے فیصلے کی وجہ سے مجبور تھے ورنہ آپؐ کا قلبی میلان اُن کے قتل کیے جانے کی طرف نہیں تھا

٭… اس غزوہ کے نتيجہ ميں جمع ہونے والے مال غنيمت کو بھي آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے صحابہؓ ميں تقسيم کيا اور بعض عورتوں کو بھي حصہ ديا گيا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍اکتوبر۲۰۲۴ء بمطابق۲۵؍اخاء ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۵؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

جنگ احزاب میں

بنو قریظہ کےعہد توڑنے پرجنگ احزاب کے بعداُن کےقلعوں کےمحاصرے

کا ذکر ہو رہا تھاتاکہ اُنہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور عہد شکنی کرنے کی سزا دی جائے۔اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ جب محاصرہ شدید ہو گیا تو بنوقریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلےپر قلعوں سے اُترآئے۔

محاصرہ کے بارے میں پندرہ، چودہ اور پچیس دن کی مختلف روایات ہیں

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخ کی روایات سےاخذ کرکے اس محاصرے کی مدت کم و بیش بیس دن بیان کی ہے۔ اس فیصلے میں حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حَکمبنایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہود کو قید کرنے کے حکم پر ان کو رسیوں سے باندھ دیا گیااور عورتوں اور بچوں کو علیحدہ کردیا گیا۔اُن کے قلعوں سے پندرہ سو تلواریں، تین سو زرہیں، دوہزار نیزے، پندرہ سو چمڑے کی ڈھالیں اور بہت سے برتن ملے۔اونٹ اور دیگر جانوربھی پائے گئےجو سب کے سب جمع کرلیے گئے۔

اوس قبیلے کے معززین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں۔آپؐ ان کوہماری خاطر بخش دیجیے۔

اُن کے اصرار پر آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ ان کے بارے میں فیصلہ تم میں سے ہی ایک شخص کے حوالے کر دیا جائے؟اُن کے قبول کرنے پر یہ معاملہ حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کردیا گیا۔ایک دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ میرے صحابہ میں سے جس کو چاہو اختیارکرلوتو انہوں نے حضرت سعد بن معاذؓ  کو اختیار کرلیا۔حضرت سعدؓ اوس قبیلے کے رئیس تھے اور بنو قریظہ کے حلیف تھے اس لیے اُن کا خیال تھا کہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور عرب دستور کے مطابق حضرت سعدؓ اپنے حلیف قبیلہ کےلیےرعایت کریں گےلیکن

حضرت سعدؓ  کا پاکیزہ اور مخلص دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سب رشتوں اور تعلقات پر مقدم کیے ہوا تھا۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ اوس کے بعض لوگوں نے حضرت سعدؓ سے اصرار کے ساتھ یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بنو قینقاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہ سے رعایت کا معاملہ کرنا اور انہیں سخت سزا نہ دینا۔ سعد بن معاذؓ پہلے تو خاموشی کے ساتھ اُن کی باتیں سنتے رہے لیکن اُن کے زیادہ اصرارپر کہا کہ

یہ وہ وقت ہے کہ سعداس وقت حق و انصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کر سکتا۔ یہ جواب سن کر لوگ خاموش ہو گئے۔

حضرت سعد بن معاذؓ نے دونوں اطراف سے اپنے فیصلے کو قبول کرنے کے عہد و پیمان کے بعد اپنا فیصلہ سُنایا کہ
ٍ
بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجو لوگ قتل کر دیے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیے جائیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایا:

لَقَدْ حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ یعنی تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیرہے۔

ان الفاظ سے آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ بنو قریظہ کے متعلق اس فیصلہ میں صاف طور پر خدائی تصرف کام کرتے ہوئے نظر آتا ہے اور اس لیے آپؐ کا جذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کے فیصلے کے بارے میں فرمایا:

اسی فیصلے کے متعلق مجھے فرشتےنے سحری کے وقت بتایا تھا۔

حضرت سعد ؓکے فیصلے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۹؍ذوالحجہ اور ایک روایت کے مطابق ۷؍ذوالحجہ بروز جمعرات مدینہ واپس تشریف لائے۔ آپؐ کے حکم کے مطابق قیدیوں کو مدینہ میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کے گھراور عورتوں اور بچوں کو حضرت رملہ بنت حارثؓ کے گھر لایا گیااور

صحابہؓ نے بنو قریظہ کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے

حضرت سعدؓ کے اس فیصلے پر غیر اور اعتراض کرنے والے اور بعض دفعہ لوگ ہمارے نوجوانوں کوبھی یہ کہہ کر زہر آلود کرتے ہیں کہ بنو قریظہ پر آپؐ نےظلم کیا۔ اس کا ایک بڑا واضح جواب ہے کہ

یہ فیصلہ آپؐ نے تو کیا ہی نہیں تھابلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اُن کے حلیف سے کروایا اور اس میں بھی آپؐ سے پختہ عہد لیا۔

اس موقع پر آپؐ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ لَوْ اٰمَنَ بِیْ عَشَرَۃٌ مِنَ الْیَھُوْدِ لَاٰمَنَتْ بِیَ الْیَھُوْدُ ۔یعنی اگر یہود میں سے مجھ پردس با رَسُوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تو میں خدا سے امید رکھتا تھا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی۔

دوسرے دن صبح کوحضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کا اجرا ہونا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قریب ہی ایک جگہ تشریف فرما ہو گئے تاکہ اگر فیصلے کے اجراکے دوران میں کوئی بات ایسی پیدا ہو جس میں آپؐ کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپؐ بلا توقف ہدایت دے سکیں۔ گوحضرت سعدؓ کے فیصلے کی اپیل عدالتی رنگ میں آپؐ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یا صدر جمہوریت کی حیثیت میں آپؐ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بنا پر رحم کی اپیل ضرور سن سکتے تھے۔

آپؐ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ مجرموں کو ایک ایک کر کے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس نہ ہوں۔

جب حیی بن اخطب رئیس بنو نضیر آیا تو آپؐ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ اے محمد !صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ افسوس نہیں ہے کہ میں نے تمہاری مخالفت کیوں کی لیکن بات یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑتا ہے خدا بھی اُسے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ اُسی کا حکم اور تقدیر ہے۔

اسی طرح کعب بن اسدرئیس قریظہ کو جب میدان قتل میں لایا گیا تو آپؐ نے اُسے اشارتاً مسلمان ہو جانے کی تحریک کی۔اُس نے کہا اے ابو القاسم! میں مسلمان تو ہو جاتا مگر لوگ کہیں گے کہ موت سے ڈر گیا ہے۔پس مجھے یہودی مذہب پر ہی مرنے دو۔

ایک اَور یہودی رفاعہ نامی کو آپؐ نے ایک رحم دل مسلمان خاتون کی سفارش پر معاف فرما دیا۔

غرض

اُس وقت جس شخص کی بھی سفارش آپؐ کے پاس کی گئی آپؐ نے اُسے فوراً معاف کر دیاجو اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ حضرت سعدؓ کے فیصلے کی وجہ سے مجبور تھے ورنہ آپؐ کا قلبی میلان اُن کے قتل کیے جانے کی طرف نہیں تھا۔

تاریخی روایات کے مطابق صرف ایک یہودی عورت کو قتل کیا گیا جس نے ایک مسلمان صحابی کوقلعہ پر سے ایک پتھر گِرا کر شہید کیا تھااور اس کی سزا میں اُس کو قتل کیا گیا تھا۔بعض سیرت نگاراس عورت کے قتل کی روایت سے اتفاق نہیں کرتے۔ واللہ اعلم

بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں ایک عورت ریحانہ بنت زید بھی تھیجسے آپؐ نے لونڈی کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اسی روایت کی بنا پر سرولیم میور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ ہ وسلم کے خلاف نہایت دل آزارطعن کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بالکل غلط اور بےبنیاد ہے۔ جن مورخین نے ریحانہ کے متعلق یہ روایت کی ہے کہ آپؐ نے ریحانہ کواپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اُن میں سے اکثر نے ساتھ ہی یہ صراحت کی ہے کہ آپؐ نے اُسے آزاد کر کے اُس کے ساتھ شادی کر لی تھی۔الغرض اوّل تو جیسا کہ بخاری کی روایت سے استدلال ہوتا ہے اور اصابہ میں تصریح کی گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ریحانہ کو اپنی سرپرستی میں لیا ہی نہیں بلکہ اُسے آزاد کر دیا تھا جس کے بعد وہ اپنے خاندان میں جا کر آباد ہو گئی تھی۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ریحانہ کے نام،حسب نسب اور قبیلہ وغیرہ کے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس کے وجود ہی کے متعلق شبہ کرنا غالباً غیر معقول نہیں سمجھا جا سکتا۔خصوصاًجبکہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اُسے ایک ایسے شخص کی بیوی کہا جاتا ہے جو دنیا میں یقیناًسب سے زیادہ تاریخی شخص ہے۔ واللہ اعلم

اس غزوہ کے نتیجے میں جمع ہونے والے مال غنیمت کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں تقسیم کیا اور بعض عورتوں کو بھی حصہ دیا گیا۔ قیدیوں سے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخی کتب سے بڑی تحقیق کرکے لکھا ہے کہ بعض روایات سے پتالگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجد کی طرف بھجوا دیا تھا جہاں بعض نجدی قبائل نے ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیا تھا اور اس رقم سے مسلمانوں نے اپنی جنگی ضروریات کے لیے گھوڑے اور ہتھیار خریدے تھے۔اگر ایسا ہوا ہو تو کوئی بعید نہیں کیونکہ نجدی قبائل اور بنو قریظہ آپس میں حلیف تھے لیکن صحیح روایات سے پتالگتا ہے کہ یہ قیدی مدینہ میں ہی رہے تھے اور آپؐ نے انہیں حسب دستور مختلف صحابیوں کی نگرانی میں تقسیم فرما دیا تھا۔ان میں سے بعض نے اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لی تھی اور بعض کو آپؐ نے یوں ہی بطور احسان کے چھوڑ دیا تھا۔

یہ لوگ بعد میں آہستہ آہستہ بطیب خاطر خود مسلمان ہو گئے۔

ان میں سے عطیہ قرظی،عبدالرحمٰن بن زبیر بن باطیا، کعب بن سُلیم اور محمد بن کعب کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ان میں مؤخر الذکر شخص محمد بن کعب توبڑے پائے کے مسلمان گزرے ہیں۔بہرحال یہ قیدی عورتیں تقسیم ہوئی ہوں یا فروخت کی گئی ہوں۔اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا حکم دیا جو آپؐ کی وسعت رحمت اور عورتوں کےمحسن کے طور پر آبِ زَر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ

جو بھی کوئی عورت تقسیم کی جائے یا فروخت کی جائے اگر اُس کے ساتھ چھوٹا بچہ یا بچی ہو تو اُس کو اُس کی ماں سے الگ نہ کیا جائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔

اور ایسا ہی اگر دو چھوٹی بہنیں ہوں تو اُنہیں بھی بالغ ہونے تک جدا نہ کیا جائے۔

یہ تھا رحمۃ للعالمین کا عمل اور آپؐ کا عورتوں،قیدیوں اور اپنے مخالفین پر احسان۔

اور آج کل مسلمانوں کا کیا حال ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے نام پر لوگوں کو گھروں سے بے گھر کر رہے ہیں،نکال رہے ہیں،قتل کر رہے ہیں اور پھر اس کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ مسلمانوں کی اپنی عزت ختم ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بھی عقل اورسمجھ عطا فرمائے۔(آمین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button