حاصل مطالعہ

زندہ اور کام کرنے والی جماعت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:در حقیقت کام کرنے والی جماعت کی علامت بھی یہی ہے کہ بغیر لوگوں کو بتانے اور ان کا علم دینے کے وہ خود بخود معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ… ایک پھول کسی گھر میں لگا ہوا ہو تو تمام گھر کے افراد کو اس کے وجود کا احساس ہو جاتا ہے اور ہر شخص کے ناک میں جب ہوا داخل ہوتی ہے وہ فورا ًناک سمجھ جاتا ہے کہ اس گھر میں گلاب لگا ہوا ہے یا موتیا لگا ہوا ہے یا چنبیلی کا پودا لگا ہوا ہے۔ تو زندگی کے آثار ہونے ضروری ہیں ۔ ان آثار کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں کہلا سکتا، چاہے بظاہر وہ زندہ ہی دکھائی دے۔ جب کوئی شخص اس دنیا میں آتا ہے تو اسے دنیا میں اپنی زندگی کا کوئی ثبوت دینا چاہیے اور ایسے نقوش چھوڑ نے چاہئیں جن سے دنیا اس کی زندگی کا احساس کر سکے اور اسے معلوم ہو کہ اس دنیا میں فلاں شخص آیا تھا۔ اور اس نے فلاں فلاں کام کیا۔ پس کام کرنے والی جماعت وہ نہیں ہو سکتی جو چند رپورٹیں شائع کر دے۔ بلکہ کام کرنے والی جماعت وہ کہلا سکتی ہے کہ جب کوئی غیر شخص قادیان میں آئے تو بغیر اس کے کہ اسے کوئی بتائے کہ یہاں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کی جماعتیں ہیں، اسے خود بخود محسوس ہونے لگے کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے۔ جب کوئی لاہور میں جائے یا امرتسر میں جائے یا اور کسی شہر میں جائے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہی اسے محسوس ہونے لگ جائے کہ وہ کسی ایسے شہر میں آیا ہے، جہاں کوئی نمایاں کام کرنے والی زندہ جماعت موجود ہے۔ مگر جہاں جا کر یہ پتہ نہ لگے اور دوسروں کو خود اس بات کی ضرورت محسوس ہو کہ وہ اسے بتائیں کہ یہاں انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کی جماعت ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ لوگ مردہ ہیں اور اپنے اندر زندگی کے کوئی آثار نہیں رکھتے۔یہ چیز ہے جو میں انصاراللہ میں پیدا کرنا چاہتا ہوں۔(سبیل الرشاد، جلد۱ صفحہ۸۱-۸۲)

(مرسلہ:میر انجم پرویز)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button