حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قبیلہ بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍ مئی ۲۰۲۴ء)

قبیلہ بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ کا ذکر ہو گا۔ سریہ اس کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک نہیں ہوتے تھے لیکن آپؐ دوسروں کو مہم کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ان میں بھی آپؐ کی سیرت کے پہلوؤں پرروشنی پڑتی ہے۔ ان سرایا سے آپؐ کی حکمت اورآپؐ کے اس اُسوہ پر بھی روشنی پڑتی ہےکہ کس طرح آپؐ نےمسلمانوں کا دفاع کرنا ہے اور پھر دوسروں یعنی دشمن کے لیے بھی کتنی ہمدردی کا اظہار ہے۔ بہرحال یہ سریہ محرم ۴ہجری میں ہوا اس کی قیادت حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومیؓ نے کی۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد۶صفحہ۴۲۴مطبوعہ دار السلام ریاض ۱۴۳۴ھ)

ابو سلمہؓ کا نام عبداللہ تھا اور کنیت ابوسلمہ تھی۔ ان کی والدہ برّہ بنت عبدالمطلب تھیں اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور حضرت حمزہؓ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ انہوں نے ابولہب کی لونڈی ثُوَیْبَہ کا دودھ پیا تھا۔ حضرت ام المومنین ام سلمہؓ پہلے انہی کے نکاح میں تھیں۔(اسدالغابہ جلد ۳صفحہ۲۹۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت ابو سلمہ ؓغزوۂ بدراور اُحد میں شامل ہوئے۔ غزوۂ اُحد میں یہ زخمی ہوئے۔ ایک ماہ تک اس کا علاج کرتے رہے بظاہر وہ زخم اچھا ہو گیا اور وہ زخم ایسا مندمل ہو گیا کہ اسے کوئی پہچانتا نہ تھا۔(الطبقات الکبری جلد۳ صفحہ۱۸۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت)اس سریہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ مدینہ میں رہنے والے منافقین اور یہود جنگِ اُحد کے حالات و واقعات کی وجہ سے خوشیاں منانے لگے اور ایک بار پھر ان کے دل میں یہ خیالات آنے لگے کہ مسلمانوں کو جلد ختم کرنے کے لیے پلاننگ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مدینہ کے ارد گرد رہنے والے وہ قبائل جو جنگِ بدر میں مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کی وجہ سے خوفزدہ ہو گئے تھے ان کے دلوں میں بھی یہ خیال انگڑائیاںلینے لگا کہ اُحد میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہو چکا ہے اس لیے موقع ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کو مزید نقصان پہنچایا جائے اور لُوٹ مار کے نتیجہ میں ان کے اموال اور دولت حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ جنگِ اُحد کو گزرے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان قبیلوں میں سے جس قبیلے نے سب سے پہلے مسلمانوں پر حملے کا پروگرام بنایا وہ بنو اسد بن خُزَیْمَہ تھا۔ یہ لوگ نجد میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے رئیس طُلَیْحَہ بن خُوَیْلَد اور اس کے بھائی سلمہ بن خویلد نے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک لشکر تیار کر لیا۔

بنو اسد کے ایک آدمی قیس بن حارث بن عمیر نے اپنی قوم کو مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم! یہ عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ ہمیں مسلمانوں کی طرف سے کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

مسلمان ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے اور نہ ہی ہم پہ مسلمانوں نے لوٹ مار کے لیے حملہ کیا ہے۔ ہمارا علاقہ یثرب سے دُور ہے یعنی مدینہ سے دُور بھی ہے۔ ہمارے پاس قریش جیسا لشکر بھی نہیں ہے۔ قریش خود ایک عرصہ تک اہلِ عرب سے ان کے خلاف مدد مانگتے رہے۔ انہیں تو ان سے بدلہ بھی لینا تھا پھر وہ اونٹوں پر سوار ہو کر گھوڑوں کی باگ ڈور سنبھال کر نکلے تھے۔ وہ تین ہزار جنگجوؤں اور اپنے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ بہت سا اسلحہ بھی لیا تھا۔ اس کے مقابلے میں تمہاری کیا حیثیت ہے؟ صرف یہ ہے کہ تم بمشکل تین سو افراد لے کر نکلو گے اس طرح تم لوگ اپنے آپ کو فریب میں ڈال دو گے اپنے علاقے سے دُور نکل جاؤ گے اور مجھے ڈر ہے کہ تم مصیبت میں پھنس جاؤ گے لیکن انہوں نے قیس کی نصیحت نہ مانی۔ ادھر بنو اسد کے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے منصوبہ کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس طرح پہنچ گئی کہ قبیلہ طَے کا ایک شخص ولید بن زُھیر مدینہ آیا۔ وہ اپنی بھتیجی زینب سے ملاقات کے لیے آیا تھا جو طُلَیب بن عُمَیر بن وَہْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی تھیں۔ اس نے بنو اسد کے مذکورہ بالا منصوبے کی اطلاع دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ بنو اسد مدینہ پر حملہ کریں خود مسلمان اپنے تحفظ کے لیے ان کے علاقے پر چڑھائی کریں۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ کو طلب فرمایا اور انہیں ارشاد فرمایا کہ اس مہم پر روانہ ہو جاؤ۔ مَیں نے تمہیں اس کا نگران مقرر کیا ہے۔ اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے جھنڈا باندھا اور یہ ہدایت فرمائی کہ بنو اسد کے علاقے تک اپنا سفر جاری رکھو اس سے پہلے کہ ان کے لشکر تمہارے خلاف اکٹھے ہو جائیں۔ وہاں پہنچ کر ان پر حملہ کر دو۔

ایک سو پچاس اصحابِ کرامؓ پر مشتمل لشکر ابوسلمہ ؓکی قیادت میں ان قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ قبیلہ طے کا وہ شخص یعنی ولید بن زُھیربطور گائیڈ ان کے ساتھ تھا، رہبر ان کے ساتھ تھا۔(ماخوذ از سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد ۶ صفحہ ۴۲۲تا۴۲۵ مطبوعہ دار السلام ریاض ۱۴۳۴ھ)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد ۶ صفحہ ۳۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس سریہ میں شامل ہونے والے چند صحابہ کرامؓ کے اسماء یہ ہیں۔اَبُوسَبْرَہ بن ابی رُھْم، عبداللّٰہ بن سُہَیل بن عمرو، عبداللّٰہ بن مَخْرَمَہ عامری، مُعَتِّبْ بن فضل، ارقم بن ابی ارقم، ابوعبیدہ بن جرّاح، سہیل بن بَیْضَاء، اُسَید بن حُضَیر انصاری، عَبَّاد بن بِشْر انصاری، ابونائلہ انصاری، ابوعَبْس، قتادہ بن نعمان ، نَضِْر بن حارث، ابوقتادہ انصاری، ابوعَیَّاش زُرَقِی، عبداللّٰہ بن زید انصاری، خُبَیْب بن یَسَافْ، سعد بن ابی وقاص ، ابوحذیفہ بن عُتْبہ، سالم مولیٰ ابوحذیفہ۔(کتاب المغازی للواقدی جلد۱ صفحہ ۳۴۱ عالم الکتب بیروت ۱۹۸۴ء)(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد۶ صفحہ۴۲۴مطبوعہ دار السلام ریاض ۱۴۳۴ھ)

صحابہ کرامؓ اپنی اس مہم کو خفیہ رکھتے ہوئے تیز رفتاری سے عام رستے سے ہٹ کر چلے تا کہ جلدازجلد دشمن تک پہنچ جائیں۔ انہوں نے دن رات مسلسل یہ سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق دن کا ایک حصہ یہ چھپ جاتے اور رات کو سفر کرتے۔ یوں چار دن کے سفر کے بعد وہ قَطَن پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔ قَطن کے متعلق لکھا ہے کہ یہ فید کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے اور فَیْد کوفہ کے رستے پر ایک منزل کا نام ہے جہاں بنو اسد بن خُزیمہ کا چشمہ تھا۔ مسلمانوں نے وہاں پہنچتے ہی حملہ کرکے ان کے مویشیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے چرواہوں میں سے تین کو پکڑ لیا اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان بھاگنے والوں نے بنو اسد کے پڑاؤ میں پہنچ کر مسلمانوں کے لشکر کے پہنچ جانے اور ان کے حملے کی خبر دی اور ابوسلمہؓ کے لشکر کی تعداد بہت بڑھا چڑھا کر بیان کی۔

ان چرواہوں نے بھی بہت مبالغے سے کام لیا کہ اتنا بڑا لشکر ہے جس سے ان میںاَور خوف پیدا ہو گیا۔ جس سے بنو اسد خوفزدہ ہو گئے اور مسلمانوں کے اچانک پہنچ جانے کی وجہ سے ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔

حضرت ابوسلمہؓ جب بنو اسد کے پڑاؤ کے مقام پر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ دشمن بھاگ گیا ہے تو انہوں نے ان کی تلاش میں اپنے ساتھیوں کو بھیجا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ ان کے ساتھ ٹھہرا۔ باقی دونوں کو دو مختلف اطراف میں بھیجا اور ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے زیادہ دُور تک نہ جائیں اور اگر دشمن سے تصادم نہیں ہوتا تو واپس آ کر رات انہی کے پاس قیام کریں اور یہ بھی تاکید کی کہ منتشر نہ ہوں، اکٹھے ہی رہیں لیکن دشمن سراسیمہ ہو کر اتنی تیزی سے بھاگا تھا کہ مسلمانوں کا کسی سے بھی سامنا نہ ہوا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے تمام مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ جو شخص بطور راہنما ساتھ گیا تھا وہ ساتھ ہی واپس لوٹا۔ ایک رات کا سفر طے کرنے کے بعد حضرت ابوسلمہؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس علیحدہ کیا۔ رہبر شخص کو اس کی خوشی کے مطابق مال دیا اور بقیہ مالِ غنیمت صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا۔ ہر صحابی کو سات سات اونٹ اور کئی کئی بکریاں ملیں اور یوں باقی سفر طے کرتے ہوئے یہ لوگ خوشی کے ساتھ قریباً دس دن کے بعد واپس مدینہ پہنچ گئے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد ۶ صفحہ ۳۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد۶صفحہ ۴۲۵-۴۲۸مطبوعہ دار السلام ریاض ۱۴۳۴ھ)( سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۵۱۱-۵۱۲)(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ ۲۵۳مطبوعہ دار السلام ریاض ۱۴۲۴ھ)

یہ جو مَیں نے بتایا ہے اور اس میں جو حوالہ دیا تھا یہ بیان مختلف تاریخوں سے اخذ کیا گیا ہے، سیرت خاتم النبیینؐ کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل ہے۔ بہرحال حضرت ابوسلمہؓ کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوسلمہؓ اس سریہ کے لیے مدینہ سے دس سے کچھ زائد راتیں باہر رہے۔ جب مدینہ واپس آئے تو ان کا وہ زخم جو غزوۂ اُحد میں ان کو لگا تھا دوبارہ تازہ ہو گیا جس سے وہ بیمار پڑ گئے اور اسی سال تین جمادی الآخر کو انتقال کر گئے۔(الطبقات الکبری جلد3 صفحہ182 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بنو اسد کے جس رئیس طُلَیحہ بن خُوَیلَدکا ذکر ہوا ہے یہ انتہائی بہادر انسان تھا اور مشہور تھا کہ ملک عرب میں اسے ایک ہزار شہسوار کے برابر سمجھا جاتا ہے اور یہ بہت فصیح اللسان تھا۔ نو ہجری میں بنواسد کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے اسلام قبول کیا تھا لیکن پھر مرتد ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کا جھوٹا مدعی بن کر فتنہ و فساد کا موجب بنا تھا اور آخر کار شکست کھا کر عرب سے بھاگ گیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد مدینہ آ کر حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آخر دم تک اسلام پر ثابت قدمی دکھائی۔ جنگِ قادسیہ اور دوسری کئی اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور اکیس ہجری میں ایک جنگ میں شہادت کا مقام پایا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد6صفحہ 430-431مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 511-512)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button