پریس ریلیز: راولپنڈی میں مذہبی منافرت کی بنا پہ ایک احمدی کو دن دیہاڑے کلہاڑیوں سے وار کر کے بہیمانہ طور پر شہید کر دیا گیا
قاتل کلہاڑی سے وار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ”قادیانیو!تم لوگوں کو منع بھی کیا تھا کہ یہاں سے چلے جاؤ اور یہ جگہ چھوڑ دو“
جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دینے اور مناسب کارروائی نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک بھر میں احمدی کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں: ترجمان جماعت احمدیہ
چناب نگر: پریس ریلیز: آج راولپنڈی کے علاقے دھمیال کیمپ میں دو احمدی بھائیوں طاہر احمد قمر اور طیب احمد پہ دوپہر ایک بجے کے لگ بھگ قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ اپنی دکان پر موجود تھے کہ ایک نامعلوم شخص ہاتھ میں کلہاڑی لئے ہوئے آیا اور آتے ہی اس نے للکارتے ہوئے کہا کہ قادیانیو! تم لوگوں کو منع بھی کیا ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ اور یہ جگہ چھوڑ دو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کلہاڑی سے وار کرنا شروع کر دیے۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے طیب احمد موقع پہ شہید ہوگئے۔ قاتل کی عمر تقریباً ۳۰ سال تھی جو کہ جگہ چھوڑنے سے متعلق دھمکیاں دیتا ہوا فرار ہو گیا۔
شہید مرحوم طیب احمد کے بھائی طاہر احمد قمر راولپنڈی میں کولہو، آٹا چکی اور اناج کا کاروبار کر رہے تھے۔ طیب احمد اپنے بھائی سے ملنے چند روز قبل راجن پور سے راولپنڈی آئے تھے۔ انہوں نے حملہ آور سے کہا کہ وہ یہاں مہمان ہیں تاہم اس نے کلہاڑی سے جسم کے اوپری حصہ پر متعدد وار کیے۔ شہید مرحوم کی عمر ۴۰سال تھی۔ وہ ایک شریف النفس انسان تھے۔ قبل ازیں ان کے خاندان کو راجن پور میں شدید مذہبی مخالفت کا سامنا رہا۔ اسی طرح مذہبی مخالفت کی بنا پر راولپنڈی میں بھی شہید مرحوم طیب احمد کے بھائی کو مذہبی منافرت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں مسلسل مل رہی تھیں۔ چند روز قبل ان کی دکان سے کچھ دور ایک مذہبی اجتماع ہوا جس کے بعد شرکاء کی جانب سے ان کی دکان پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
ترجمان جماعت احمدیہ عامر محمود نے اس بہیمانہ قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک احمدی مسلمان کا دن دیہاڑے سر عام ایک مذہبی جنونی کے ہاتھوں شہید ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا نتیجہ ہے کہ آج احمدی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف شدت پسندی میں ملوث عناصر کی شناخت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حکومت ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ نفرت اور تشدد پہ اُکسانے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے تو مذہب کی بنا پر قتل و غارت گری کو روکا جا سکتا ہے۔ ترجمان جماعت احمدیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ مذہب کا مقدس نام استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں خوف اور دہشت کی علامت بنے جنونیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ پُرامن معاشرے کا قیام عمل میں آسکے۔