عیسائیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام کا جواب
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۲؍جنوری ۲۰۲۴ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام عیسائیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ عیسائیوں نے یہ الزام لگایا کہ آپؐ نے جھوٹ بولنا یا غلط بیانی کرنا جائز قرار دیا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی ؐکی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم دیا۔ توریہ کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ زبان پر کچھ کہنا اور دل میں کچھ ہونا یعنی ایسی بات کرنا جو دو معنی بھی رکھتی ہو۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے توریہ کے لفظ کو مزید تفصیل سے بیان کیا ہے۔ لغوی معنی تو میں نے بیان کیے۔ وضاحت اس طرح فرمائی کہ فتنہ کے وقت خوف سے ایک بات کو چھپانے کے لیے کسی اَور غرض سے یا کسی اَور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں بیان کیا جائے کہ عقلمند ان باتوں کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے۔ یعنی حکمت سے اس طرح بات کرنا کہ جھوٹ بھی نہ ہو اور اس کے معنی جو عقلمند ہے وہ سمجھ جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور بیوقوف آدمی نہ سمجھ سکے۔ اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے۔ لیکن آپؑ نے فرمایا کہ یہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے خلاف ہے۔ یہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ یہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے خلاف ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پہ کھل کے بیان فرمایا۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسائیوں کے مطابق جس شخص کو وہ خدا کہتے ہیں اس کا تو یہ حال ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر غلط بیانی کی ہے۔
بہرحال اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپؑ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کا نہ کر سکے۔ جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیرِببر کی طرح دنیا میں آنا چاہیے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کرکے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہو کر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (جس کو تم خدا کہتے ہو وہ تو ساری عمر توریہ سے کام لیتا رہا ہے۔ جو خدا ہے بلکہ خدا کے نبی بھی نہیں کرتے۔) فرمایا اور جو اللہ پہ توکل کرنے والے ہوتے ہیں کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے۔ مجھے تو ان باتوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے کہ میں محمدؐ ہوں، میں نبی اللہ ہوں۔ میں ابن عبد المطلِب ہوں اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا تو میں دریائے حیرت میں غرق ہو جاتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ میں دریائے حیرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الٰہی یہ شخص بھی نبی ہی کہلاتا ہے جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے۔(ماخوذ از نور القرآن نمبر۲روحانی خزائن جلد۹صفحہ۴۰۵تا ۴۰۷)(ماخوذ از اردو دائرہ معارف جلد۶صفحہ ۷۳۷ زیر لفظ ’’توریہ‘‘)
یہ حیرت کا اظہار حضرت عیسیٰ کے لیے آپؑ نے الزامی جواب کے طور پر کیا ہے۔ یہ نہیں کہ آپؑ سمجھتے تھے کہ وہ نبی نہیں ہے اور نہ آپؑ کا یہ مطلب تھا کہ حضرت عیسیٰ نبی نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں جس نبی کو تم پیش کرتے ہو اور پھر اس کو خدا کا بیٹا کہتے ہو اس کا تو تمہاری کتابوں کے مطابق یہ حال ہے۔ پھر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہو کہ آپؐ نے جھوٹ بولنا یا بزدلی دکھانا جائز قرار دیا ہے۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ رَجُلٌ يَشْرِيْ لَنَا نَفْسَهٗ؟ کون شخص ہے جو ہمارے لیے خود کو بیچ دے گا تو زِیَاد بن سَکَن ؓپانچ انصاری صحابہؓ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عُمَارہ بن یزید بن سکنؓ تھے۔
تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دادِشجاعت دیتے دیتے ایک ایک کر کے شہید ہوتے رہے حتی کہ ان میں سے آخری زِیَاد یا عُمارہ تھے یہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کو کئی زخم لگے۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت لَوٹ آئی اور مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھکیل دیا۔ تو اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زِیَاد بن سَکَن کو میرے پاس لاؤ۔ انہیں لایا گیا تو وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو میرے اَور قریب کرو تو صحابہ کرامؓ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر دیا۔ آپؐ نے اپنا قدم مبارک ان کی طرف کیا انہوں نے اپنا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر رکھ دیا اور حضرت زیادؓ کی موت اس حالت میں ہوئی کہ ان کا رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم آئے تھے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد۴ صفحہ۲۰۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک وقت جب قریش کے حملہ کی ایک غیرمعمولی لہر اٹھی تو آپؐ نے فرمایا‘‘کون ہے جو اس وقت اپنی جان خدا کے رستے میں نثار کردے؟ ’’ایک انصاری کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ اورچھ اَورانصاری صحابی دیوانہ وارآگے بڑھے اوران میں سے ایک ایک نے آپؐ کے اردگرد لڑتے ہوئے جان دے دی۔ اس پارٹی کے رئیس زیاد بن سکن تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھاوے کے بعد حکم دیا۔ ’’وہ کفار کا ایک زبردست حملہ تھا جب وہ ذرا کم ہوا اور دوسرے صحابہؓ آ گئے اور جگہ ذرا صاف ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ’’کہ زیادؓ کواٹھا کرمیرے پاس لاؤ‘‘۔ زخمی پڑے تھے‘‘ لوگ اٹھا کر لائے اورانہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیا۔ اس وقت زیادؓ میں کچھ کچھ جان تھی مگروہ دم توڑ رہے تھے۔
اس حالت میں انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ۴۹۶)