نظم

اپنے دیس میں اپنی بستی میں اِک اپنا بھی تو گھر تھا

اپنے دیس میں اپنی بستی میں اِک اپنا بھی تو گھر تھا
جیسی سُندر تھی وہ بستی ویسا وہ گھر بھی سندر تھا

سادہ اور غریب تھی جنتا۔ لیکن نیک نصیب تھی جنتا
فیض رسان عجیب تھی جنتا۔ ہر بندہ، بندہ پرور تھا

اس کے سُروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس میں ڈنکا باجا
اس بستی کا پیتم راجا، کرشن کنھیَّا مُرلی دھر تھا

چاروں اور بجی شہنائی بھجنوں نے اک دھوم مچائی
رُت بھگوان ملن کی آئی، پیتم کا درشن گھر گھر تھا

آشاؤں کی اس بستی میں، میں نے بھی فیض اُس کا پایا
مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا، جس کا میں ادنیٰ چاکر تھا

ہیں سب نام خدا کے سندر، واہے گرو، اللّٰہُ أَکْبَرْ
سب فانی ، اک وہی ہے باقی، آج بھی ہے جو کل اِیشَر تھا

(انتخاب کلام طاہر ایڈیشن 2004ءصفحہ68۔70)

(سندر: پیاری، جنتا: عوام۔ پیتم: نہایت پیارا،مرلی دھر: بانسری بجانے والا، آشا: امید)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button