حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

امام زمانہ کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا جہاں خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے۔ پس ہمیں ان ذمہ داریوں کی پہچان اور ان کی ادائیگیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا تھا۔ پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا کہ آپؑ کی بعثت کے مقاصد کیا تھے اور ہم نے ان کو کس حد تک سمجھا ہے اور اپنے پر لاگو کیا ہے۔ اور ان کو آگے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور‘‘ دوسری بات کہ ’’سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔ چوتھی بات یہ ‘‘اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ، نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے‘‘۔

پس اس اقتباس میں سات بنیادی اور اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانے کی ضرورت ہے جس کا خلاصۃً اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور جب آپ نے یہ فرمایا کہ اس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے ماننے والے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورتی اور زندہ مذہب ہونے کو دنیا کو دکھائیں۔ پس ہمارا پہلا فرض اور سب سے بڑا فرض جو ہمارا بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں اور اسے مضبوط کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے تعلق اور محبت اور اخلاص میں بڑھیں۔ دنیا کو بتائیں کہ مسیح موعود کی آمد کے ساتھ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک مقصد ہے۔ اور اب دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلامِ صادق ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجا۔ آپ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اس کی سچائی ہم نے دنیا پر واضح کرنی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا۔ روحانیت میں بڑھنے کے نمونے بھی ہمیں قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دور کرنا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ وہ خدا آج بھی اُسی طرح دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے خالص بندوں کو، اپنے فرستادوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے دیتا تھا۔ اپنے خالص بندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ صرف اُسی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پس ہماری بقا اس واحد و یگانہ اور ہمیشہ رہنے والے خدا سے جڑنے میں ہی ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍مارچ ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۶ء)

مزید پڑھیں: رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے بچانے کا عشرہ ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button