جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کی مفصل رپورٹ (پہلا اجلاس)
جلسہ گاہ ميں کارروائي کا آغاز ۴ بجےہوا۔ مکرم حافظ فرید احمد خالد صاحب افسر جلسہ گاہ نے افتتاحی کلمات کہے اور حسبِ منظوری حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ کے پہلے اجلاس کي صدارت کے لیے محترم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی کو دعوت دی۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم حافظ اویس قمر صاحب نے سورة الاحزاب کی آيات ۴۱تا۴۸کی تلاوت کی جبکہ مکرم Jacinto Munoz Nunez صاحب نے جرمن ترجمہ اورمکرم ڈاکٹر محمد نغمان صاحب نے اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعدازاں درثمين سے منظوم اردو کلام
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
کے چند اشعار مکرم رانا شیراز صاحب نے ترنم کے ساتھ پيش کیے۔
اجلاس اول کی پہلی تقریر محترم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج جرمنی نے بعنوان آنحضرتﷺ روحانی ارتقاء کا معراج کی۔ (اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)
اس تقریر کے بعد جناب Alexander Bartz ممبر آف پارلیمنٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں مکرم عبد النور خواجہ صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی نظم
غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں
اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں
کے چند اشعار ترنم کے ساتھ پیش کیے۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم شرجیل احمد خالد صاحب مربی سلسلہ جرمنی نے جرمن زبان میں کی جس کا عنوان
’’انصاف سے عاری دنیا میں قیامِ انصاف‘‘
تھا۔موصوف نے کہا کہ یہ ایک بے رحم اور ناانصافی سے بھری ہوئی دنیا کی داستان ہے۔ غربت، بھوک اور جنگ نے ایک ملک کو برباد کر دیا ہے۔ ہر طرف آگ، خون اور بکھرے ہوئے جسموں کا تکلیف دہ منظر ہے۔ لوگوں کے چہروں پر موت کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔
اسی ہنگامے میں ایک سات افراد پر مشتمل خاندان، بمباری کے خوف سے فرار ہو رہا تھا، ان میں پانچ بچے بھی شامل تھے اور وہ یقین رکھتے تھے کہ بچوں پر حملہ نہیں ہوگا۔ لیکن وہ غلط تھے، ان پر بے دردی سے فائرنگ کی گئی اور صرف ایک بچی زندہ بچی۔ اس بچی نے انتہائی پریشانی میں ریسکیو سروس کو فون کیا، مگر رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس بچی کا نام ہند رَجب تھا، جو اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہو رہی تھی، ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ اسرائیلی فوج نے ان کی گاڑی پر ۳۵۵؍گولیاں برسائیں اور ۳۵۵؍ بار دنیا کے سامنے ایک ظالمانہ ناانصافی کا ارتکاب ہوا اَور دنیا نے بے بسی سے تماشا دیکھا نیز ہند کی والدہ نے پوری دنیا سے مدد کی اپیل کی، لیکن کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔
جدید دنیا کی مہذب سوسائٹی کہاں تھی؟ جمہوریت اور انسانی حقوق کے محافظ کہاں تھے؟ جب ایک بے بس ماں نے فریاد کی؟ جب اس نے اس ناانصافی سےبھری دنیا میں انصاف کے لیے انصاف کی فریاد کی۔
آج کی ناانصافی کی وسعت دل دہلا دینے والی ہے، کیونکہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ایک صدی کی ہولناک جنگوں کے بعد یہ امید تھی کہ دنیا امن اور انصاف کے لیے اقدامات کرے گی، لیکن دو عالمی جنگوں کے بعد بھی بدستورحقیقی انصاف پر سوالات برقرار ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں سائنسی اور تکنیکی ترقی کے ذریعے ایک منصفانہ دنیا کی توقع تھی، مگر عالمی جنگوں نے اس یقین کو شکستِ فاش دی۔
جدید دَور میں انصاف کے دو اہم تصورات نے فروغ پایا،ایک تو یہ کہ لبرل جمہوریت کی بنیاد پر نئے ادارے اور ڈھانچے بنائے جائیں اور دوسرا یہ کہ مختلف نکتۂ نظر کے ذریعے انصاف کو سمجھا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت اور تنوع کو انصاف کے کلیدی تصورات قرار دیا گیااور تنوع کے ذریعے اتحاد کا نعرہ لگایا گیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ تنوع واقعی معاشرتی انصاف کو فروغ دینے میں کامیاب ہوا؟ لبرل جمہوریتیں تنوع کے ذریعے اتحاد کا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب رہی ہیں یا نہیں؟ جنگ نے، جو سب سے بڑی اور وَاضح ناانصافی ہے، امریکہ جیسی مثالی جمہوریتوں کے جنگی جرائم کے ذریعے انصاف کے تصور کی نام نہادحقیقت کو بےنقاب کردیا۔
۱۹۶۴ء کے ٹونکن (Tonkin)واقعے میں امریکی بحریہ نے شمالی ویتنام کی کشتیوں کے حملے کا دعویٰ کیا، لیکن پینٹاگون پیپرز نے ثابت کیا کہ ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا تھا اور امریکی حکومت نے جنگ کے جواز کے لیے جھوٹ بولا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں خلیجی جنگ کے دوران عراقی فوجیوں کے ہاتھوں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے قتل کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا، جو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کہانی PR ایجنسی نے جنگ کے جواز کے لیے گھڑی تھی۔ ۲۰۰۳ء کی عراق جنگ میں بھی عراق کے پاس کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں کا جھوٹا دعویٰ کر کے حملہ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں۔
یہ چند مثالیں جدید جمہوریتوں کے جنگی جرائم کی ہیں۔ نیٹو ممالک نے ۱۹۵۳ء کے بعد سے تیرہ غیر قانونی جنگیں لڑی ہیں۔ اس بات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ مغرب کو مجرم ثابت کیا جائے یا آمرانہ حکومتوں کی ناانصافیوں سے توجہ ہٹائی جائے۔ آمرانہ حکومتیں بھی شایدجمہوریتوں سے زیادہ جنگی جرائم اور ظلم میں ملوث رہی ہیں۔ لیکن جمہوریتوں کو غیرمعمولی تعریف اور آمرانہ حکومتوں کو مجرم ثابت کرنا تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔
اسی تناظر میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر معاشیات پروفیسر جیفری ساکس کا حوالہ دیا، جنہوں نے کہا کہ مغرب کا بے لگام بیانیہ کہ مغرب عظیم ہے جبکہ روس اور چین مجرم ہیں، سطحی اور غیر معمولی حد تک خطرناک ہے۔
جدید جمہوریتیں تقدیس یا دیانت داری کی علامت نہیں ہیں۔ جنگی جرائم اور جھوٹ ہر نظام میں پائے جاتے ہیں اور سب سے تباہ کن بات یہ ہے کہ جھوٹ اب نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پومپیو (Mike Pompeo)کے مطابق جھوٹ بولنے، دھوکا دینے اور چوری کرنے کے لیے مکمل تربیتی کورسز فراہم کیے جاتے ہیں۔ جب فیصلہ ساز اخلاقی طور پر اتنے زوال پذیر ہوں تو جمہوریت، لبرل ازم اور تنوع کی حیثیت محض ایک سوالیہ نشان بن کر باقی رہ جاتی ہے۔
یہ اخلاقی انحطاط پذیری کی شدت خاص طور پر غزہ میں ہونے والے مصائب کے بارے میں شدید بے حسی کی صورت میں مزید واضح ہوتی ہے۔ اکثر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں ہم غزہ کے بارے میں اتنی بات کرتے ہیں؟ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بڑی تکلیفیں ہیں۔ شام، یمن اور افغانستان بھی بری طرح متاثر ہیں۔ہمیں الزام دیا جاتا ہے کہ ہم ان کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کبھی بھی ناانصافی کے خلاف خاموش نہیں رہی۔ خلیفۃ المسیح کی قیادت میں جماعت نے ہمیشہ واضح طور پر موقف اختیار کیا ہے اور حقیقت کو بغیر کسی مصلحت کے بیان کیاہے۔
تاہم غزہ کی انسانی تباہی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ غزہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے، جیسا کہ یونیسف (UNICEF)نے درست کہا کہ غزہ کے حق میں بولنا صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے،یہ انسانیت اور انصاف کا مسئلہ ہے، اسی لیے جماعت احمدیہ ہمیشہ غزہ کے ناقابل تصور مصائب کو اجاگر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ متعدد تقریبات میں غزہ کی موجودہ ہولناک صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے اس میں بہتری پر زور دیا ہے۔ کبھی بھی ناانصافی اتنی واضح نہیں تھی جتنی کہ غزہ کے خلاف جنگ میں،کبھی بھی ہم نے عصرِحاضر میں اتنے بڑے انسانی بحران کا مشاہدہ نہیں کیا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ناانصافی کو کھل کر بیان کیا جائے۔ دنیا غزہ میں ناانصافی پر خاموش ہے اور آنکھیں بند کر رہی ہے، لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم انصاف کے لیے آواز اٹھائیں گے اور لوگوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں گے۔
غزہ میں تقریباً دس ماہ کی جنگ میں چالیس ہزارسے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ تباہی برپا کی ہےاور ستّر ہزارٹن بم گرائے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ صحافی اور اقوام متحدہ کے کارکنان ہلاک ہوئے ہیں اور اسّی فیصد زمین تباہ ہوچکی ہے، جبکہ پچاس فیصد ہلاکتیں محض بچوں کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہم دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے شدید قحط سالی کی حالت میں ہیں۔ غزہ میں لوگوں کو بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے اور وہ انتہائی غربت وافلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
غزہ کےمجد نامی ایک احمدی نے صورتحال کی شدت کو بیان کرتے ہوئے بتایاکہ جو لوگ ابھی تک زندہ ہیں، وہ موت کا سامنا کر رہے ہیں، یہاں نہ گیس ہے، نہ پانی، نہ روٹی اور تمام بیکریاں تباہ ہو چکی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں پتھر کے دَور کی زندگی جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور یہاں صرف بھوک، غربت اور تباہی ہے۔مجد کی یہ فریاد دنیا کے بیشتر حصوں میں نظر انداز کی گئی کیونکہ میڈیا میں بھی ایسی چیزوں کو کم ہی جگہ ملتی ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت آزاد رپورٹنگ کو روکتی ہے۔ جولائی ۲۰۲۴ء میں فارن پریس ایسوسی ایشن نے اسرائیل کی معلوماتی پابندی پر تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ اسرائیل آخر چھپانا کیا چاہتا ہے؟
جرمنی میں ریاستی اصولوں کی تنگ نظری کی وجہ سے انسانی حقوق کے مسائل پر سوالات کم اٹھائے جاتے ہیں، کیونکہ ریاست خود کو انصاف کا پابند نہیں سمجھتی۔ جدید دَور میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے ادارے موجود ہیں، لیکن ناانصافی اور جنگیں برقرار ہیں کیونکہ توجہ نظاموں اور ڈھانچوں پر مرکوز ہے، اخلاقیات اور کردار پر نہیں۔
یہ فرق دو نظریات پر مشتمل ہے۔عمل کا نظریہ جو انسان کی اقدار اور اعمال پر زور دیتا ہےاور اسٹرکچر کا نظریہ جو سماجی سٹرکچر کو اہمیت دیتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انصاف کو اسی سے جوڑا گیا، لیکن اسلامی نکتہ ٔنظر میں نظام کی بجائے انسانی اقدار اور اخلاقیات پر توجہ دی جاتی ہے۔ اسلام حکومتی نظاموں کی بجائے حکمرانوں کی اصلاح پر زور دیتا ہے، کیونکہ بہترین نظام بھی بدعنوان قیادت کے تحت ناکام ہو سکتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف کی طرف سے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ (Gallant)کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کے ردعمل نے جمہوری دعووں اور عملی اقدامات کے درمیان تضاد کو واضح کیا۔ چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے بتایا کہ بعض سرکردہ منتخب راہنماؤں نے عالمی عدالت انصاف کو افریقہ اور پوٹن(Putin) جیسے لوگوں کے لیے مخصوص عدالت قرار دیا۔ یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ انصاف قائم کرنا مشکل ہوتا ہے جب اپنےاصولوں کے ساتھ دوہرے معیار اپنائے جائیں اور اپنی اقدار کے ساتھ کھلا تضاد موجود ہو۔
جدید ادارے جس حد تک بار بار اپنے ہی معیاروں سے متصادم ہوتے ہیں، اس کی وضاحت حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحالیہ نیشنل پیس سمپوزیم یوکے۲۰۲۴ءمیں اقوام متحدہ کے ویٹو کے حق کی مثال دیتے ہوئے بیان کی۔جب حضورانور نے فرمایا کہ کیسے امن قائم کیا جا سکتا ہے کہ جب اکثریت کی رائے کو اتنی آسانی سے مسترد کر دیا جاتا ہے؟ یہ انصاف نہیں ہے بلکہ جمہوریت اور مساوات کے اصول کی نفی ہے۔
جدید دَور نے صرف نظاموں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انصاف کی اصل روح کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مختلف حالات میں انصاف کی تعریف مختلف ہوتی ہے، جیسا کہ غزہ کے لیے ایک تعریف ہے اور یوکرین کے لیے دوسری، جبکہ اسرائیل کے لیے انصاف کی تعریف پھر بدل جاتی ہے۔ یوں انصاف ایک کھوکھلا لفظ بن کر رہ گیا ہے۔حالیہ انتخابات میں یورپ بھر میں دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج نے مضبوط جمہوریتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجودجمہوریت کو فروغ دینے اور سیاسی شعور پر اصرار کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ انصاف فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں، اصل مسئلہ سیاسی شعورکا نہیں بلکہ دلوں کی اصلاح کا ہے۔ اور اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔
سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلامی کے خلاف اسلام نے اخلاقی اور قانونی دونوں طریقوں سے اصلاح کی۔ اسلام نے غلاموں کو برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کیے، ان کے دلوں کو بدلنے کی کوشش کی اور جب معاشرتی تبدیلی مکمل ہو گئی تو قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ کیا۔ امریکہ نے قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ تو کیا، لیکن معاشرتی اور روحانی سطح پر غلامی کی روح باقی رہی، جیسا کہ بلیک لائیوز میٹر تحریک ظاہر کرتی ہے۔ اسلام نے پہلے دلوں کو صاف کیا، پھر نظام میں تبدیلی کی، جبکہ امریکہ نے صرف قانونی اصلاحات کیں لیکن دلوں کی تبدیلی میں ناکام رہا۔ اسلام عالمی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے، نفسانی خواہشات پر قابو پا کر انصاف کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
کچھ جدید نظریات، جیسا کہ برطانوی سوشیالوجسٹ سٹورٹ ہال (Stuart Hall)، عالمگیر اقدار کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تجویز دیتے ہیں کہ پہلے شناخت، جنس اور مذہب جیسے مسائل حل کیے جائیں تاکہ بعد میں عالمگیر اقدار قائم کی جا سکیں۔ ان نظریات کے مطابق اقلیتی گروہوں کی بہتر نمائندگی سے زیادہ منصفانہ فیصلے ممکن ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد چھ اعشاریہ چار فیصد ہے، لیکن پارلیمان میں صرف ایک اعشاریہ ایک فیصد مسلم نمائندے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی نمائندگی واقعی زیادہ بہتر انصاف کی طرف لے جاتی ہے؟ چھپن مسلم ممالک یا جرمن پارلیمان میں موجود مسلمانوں نے غزہ کے لیے کیا کیا؟ حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مغربی ممالک کی جانب سے غزہ کی امداد بند کرنے کے بعد مسلم ممالک کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہوں نے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ عالمگیر اقدار اور مطلق انصاف کی طرف توجہ دی جائے، جو ذاتی تجربات کی حدود سے آزاد ہوتی ہیں، جبکہ جدید نظریات اکثر عملی طور پر ناکام رہتے ہیں۔
اسلام ان سابقہ عالمگیر نظریات کی کمزوریوں کو دُور کرتا ہے اور ایک واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ ہر انسان کس طرح عالمگیر سچائی اور انصاف تک پہنچ سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں انصاف کی تمام سطحوں کا مکمل احاطہ کیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت ۱۳۶؍ میں ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کرگئے تو یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔
آیت ِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے انصاف کی ایسی اعلیٰ ترین سطح کی وضاحت فرمائی ہے کہ انسان کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور ذاتی تعلقات کے خلاف بھی سچائی کی گواہی دینے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا تعلق انسان سے اتنا قریبی ہے کہ وہ زندگی کے سب سے قریب ترین تعلقات سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس اعلیٰ انصاف تک پہنچنے کے لیے، انسان کو اپنے ذہن میں اللہ تعالیٰ کے تصور کو واضح کرنا ہوگا تاکہ وہ ہر حال میں انصاف کر سکے۔ یہ مشکل خواہشات اور جنسی محرکات کی وجہ سے ہوتی ہے، جسے فلسفیوں نے عقل کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اسلام اس مسئلے کو جڑ سے حل کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ خواہشات اور اخلاقیات کے درمیان ہم آہنگی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔
قرآن مجید کے احکام انسانی فطرت کی تربیت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ کا علم انسان کوکامل بنانے کی طاقت رکھتا ہے اور قرآن مجید صالحین کے لیے مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے، جو انہیں انسانی فطرت کی اعلیٰ ترین چوٹی تک پہنچاتی ہے۔
یہ تکمیل قرآن کریم کے احکام کے ذریعے انسانی فطرت کے تین طبعی حالات کی راہنمائی کرتی ہے:۱)نفس امّارہ: جہاں انسان کی خواہشات بے قابو ہوتی ہیں اور انسان برائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔۲)نفس لوّامہ: جس میں انسان نے خواہشات پر قابو پا لیا ہے، لیکن کبھی کبھار ان کا شکار ہو جاتا ہے۔۳)نفس مطمئنہ: اعلیٰ ترین روحانی حالت، جہاں انسان نے اپنی خواہشات کو مکمل تربیت دے دی ہے اور خدا کے ساتھ گہرا تعلق قائم کر لیا ہے۔
اسلامی اخلاقیات، فلسفیوں کے نظریات سے مختلف، خدا کی صفات کو اپنانے پر مبنی ہیں۔ یہ موضوعیت اور معروضیت کے درمیان انصاف کا بنیادی حل فراہم کرتی ہیں۔ اسلام کانٹ(Kant) یا افلاطون(Plato) کے نظریات کی بجائے ایک عالمگیر ریاست کی نمائندگی کرتا ہے جو انسانی فطرت سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت، جو اسلامی معرفت کا بنیادی ڈھانچہ ہے، اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ نہیں نہیں!سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے۔ اور اُن (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(البقرہ:۱۱۳)
انسان کی روحانی ترقی کے تدریجی مراحل قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات میں درج ذیل ہیں: ۱)فنا: خودی کا خاتمہ اور اللہ کے سپرد ہونا۔۲)بقا: روحانی زندگی کی دوبارہ پیدائش اور اللہ کی صفات کا جذب کرنا۔۳)لقا: خدا کی صفات میں مکمل طور پر ڈھلنا اور اللہ کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنا۔یہ مراحل انسان کو روحانی کمال تک پہنچاتے ہیں، جہاں وہ اللہ کی صفات کو اپناتا ہے اور عالمگیر حقیقت کی ریاست میں داخل ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله کے مطابق جیسے ماں کے قریب ہونے پر وہ سب پسند آتا ہے جو ماں کو پسند ہے، اسی طرح اللہ کے قریب ہونے پر اس کی مخلوقات کے ساتھ محبت پیدا ہوتی ہے۔
خدا کی صفات کو حاصل کرنا فنکار کے اپنے فن پاروں کی طرف رجوع کرنے کی طرح ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان خدا کے قریب ہو اور اس کی تخلیق سے دُور رَہے۔ جیسے ایک ماں اپنے تمام بچوں سے محبت کرتی ہے اور ان کے درمیان انصاف کرتی ہے، اسی طرح مومن بھی لقاکے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام انسانوں کے لیے ایک ماں کی طرح کی نظر پیدا کرتا ہے۔یہی وہ اہم نکتہ ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے، جو ہر جمعہ کے خطبہ ٔثانیہ میں تلاوت کی جاتی ہے کہ یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباءپر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔ (النّحل:۹۱)
یہ اصول اخلاقیات کی تین سطحوں کو بیان کرتے ہیں، اسلام میں عدل سب سے اعلیٰ درجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مومن کے لیے اخلاقیات کا کم از کم معیار ہے۔انسان کی فطرت میں عدل کا احساس خدا تعالیٰ نے ودیعت فرمایاہے، جیسا کہ قرآن مجید میں راہنمائی کی گئی ہے کہ وہ جس نے تجھے پیدا کیا۔ پھر تجھے ٹھیک ٹھاک کیا۔ پھر تجھے اعتدال بخشا۔ (الانفطار: ۸)خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ انسان فطرتاً انصاف کی طرف مائل ہے۔ لہٰذا عالمگیر انصاف تک پہنچنا آخری مرحلہ نہیں بلکہ سفر کا آغاز ہے۔ اگرچہ بعض فلسفی حضرات جیسا کہ رالز(Rawls)، کانٹ(Kant) اورافلاطون(Plato)، اس نظریے کو محض نظریاتی قرار دیتے ہیں، نبیوں نے عملی طور پر دکھایا ہے کہ وہ خدا کی صفات سے رنگین ہو کر عالمگیر انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا اپنے کسانوں سے ایک درخت کاٹنے کے معاملے پر تنازعہ ہوا۔ آپؑ کو ان کے والد نے گورداسپور بھیجا تاکہ وہ عدالت میں ان کے حق کی حمایت کریں۔ دو ساتھیوں کے ساتھ جانے پر حضرت صاحب ؑنے کہا کہ میرے والد بلاوجہ اس مسئلے کو بڑھا رہے ہیں۔ درختوں کو کھیت کا حصہ سمجھا جا سکتا ہےاور یہ کسان غریب ہیں، اگر وہ ایک درخت کاٹ دیں تو اس میں کیا ہرج ہے؟اس کے بعد حضرت صاحب ؑنے عدالت میں بھی وہی بات کہی اور فیصلہ ان کے والد کے خلاف ہوا۔اس واقعے پر ان کے والد ناراض ہو گئے اور انہیں گھر سے نکال دیا۔ حضرت مرزا صاحب ؑکچھ عرصہ تک قادیان میں مشکل حالات میں رہے اور بعد میں بٹالہ منتقل ہو گئے۔ کچھ وقت کے بعد ان کے والد نے انہیں واپس بلا لیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی نہیں تھے، بلکہ وہ اللہ کی صفات میں رنگے ہوئے تھے اور انہوں نے انصاف کے لیے اپنے خونی رشتے سے بھی بالا تر ہو کر سوچا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے سب سے اُوْلیٰ ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات تمام رشتوں سے بڑھ کر ہیں۔
جب نبی اپنے خالق حقیقی کے پاس واپس جاتے ہیں، تو یہ ذمہ داری ان کے خلیفہ کو سونپ دی جاتی ہے، جو پھر انصاف کا روشن مینار بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس نعمت سے نوازا ہے کہ ہم اپنے درمیان خلیفہ وقت کی ذاتِ بابرکات کو رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے پیارے خلیفہ سے اپنے بچوں، والدین بلکہ تمام لوگوں سے بڑھ کرمحبت کریں۔ ہمیں اس محبت میں اتنا مگن ہونا چاہیے کہ ہم آپ کی تنبیہ کو اس انصاف سے عاری دنیا کے سامنے بھرپور عزم اور بغیر کسی تردد کے پیش کریں۔خلیفۂ وقت نےبارہا خبردار کیا ہے کہ دنیا ایک بڑی عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اور آج ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا ایک اور عالمی جنگ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے،جو بات دنیا نے اَب سمجھی ہےوہ ہمارے پیارے خلیفہ دنیا کو گذشتہ دو دہائیوں سے بتا رہے ہیں۔مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کو ایک بے مثال بصیرت عطا کرتا ہے اور اسے دنیا کی بے انصافیوں کے ظاہر ہونے سے قبل ہی آگاہ کر دیتا ہے کہ دنیا کس ظلم کے دائرے میں داخل ہونے والی ہے۔ اس دائرے کا عروج غزہ میں جنگ ہے۔
لیکن اس کے باوجودغزہ کی جنگ کے اندھیرے میں امید کی ایک کرن بھی روشن ہوئی ہے۔ مجد، جو غزہ میں رہنے والا ایک احمدی مسلمان ہے، اس نے دنیا کی ناانصافی کا سامنا کیا ہے، لیکن اس نے اس اندھیری صورتحال میں انصاف کی روشنی کو پایا۔ اس نے احمدی بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے غزہ کے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہیں اور ان کا ساتھ دیں۔ حضور انور کو مخاطب فرماتے ہوئے مجد کہتا ہے کہ ہمارے پیارے خلیفہ! مَیں یہاں اپنے پیارے غزہ کی پٹی کے بھائیوں کی طرف سے آپ کو سلام پیش کرتا ہوں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ غزہ کے مظلوموں، ان بے آواز لوگوں کی آواز بنیں، جو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں۔ ہماری یہ بات اس غیر منصفانہ دنیا تک پہنچائیں جو نہ ہماری سنتی ہے اور نہ ہی ہماری اپیلوں پر کان دھرتی ہے۔ شاید وہ آپ کی بات سنیں، ہمارے پیارے خلیفہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازےنیز مسلمانوں اور تمام اقوام کے دلوں کو آپ کے ہاتھوں سے کھول دے۔ آمین
ہم نے اپنے بھائی مجد کا پیغام سنا ہے اور اسے پوری یقین دہانی کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا خلیفہ انصاف کی آواز ہے۔ نہ تو روشن خیالی اور نہ ہی جدید جمہوریتیں اس ظلم کے دائرے کو توڑ سکی ہیں۔ انصاف کا فارمولا تنوع میں اتحادنہیں ہے، بلکہ خلافت کے ذریعے اتحادہے، آئیے ہم سب اپنے پیارے خلیفہ کے پیچھے متحد ہو کر امن کے علمبردار بنیں۔ آئیے ہم سب مل کر اس انصاف سے عاری دنیا میں انصاف کی آواز بنیں۔
اس کے ساتھ پہلے اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔
(خلاصہ تقریر: قمر احمد ظفر، جرمنی )