سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سےمقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کو دیے جانے والے تفسیر نویسی کے چیلنج کو بنیاد بنا کر ہمارے مخالفین بالخصوص نام نہاد علماء نفی پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ اور اس بات کا چرچا کرتے ہیں کہ گویا حضور علیہ السلام نے پیر صاحب کے مقابلہ سے اعراض کیا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔حالانکہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ اصل واقعات اس کے بالکل بر عکس ہیں۔

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے۔

لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ (یوسف:112)

کہ انبیاء کے واقعات میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچی تاریخ اہل قلب و نظر کے لیے سبق اور نصیحت ہوتی ہے۔ خدا کے ہر فرستادے کے ساتھ جو الٰہی تائید ونصرت کی تاریخ اس زمانہ کے مامور مسیح و مہدی کے عہد میں دہرائی گئی ایسے بے شمار واقعات میں سے ایک پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مقابل پر تفسیر نویسی کا عظیم الشان اور زندہ جاوید نشان ہے،جسے مٹانے کی مذموم سعی کرنے والے آج بھی یہ کہتے ہیں کہ پیر صاحب تومقابلہ کے لیے لاہور پہنچ گئے مگر مرزا صاحب نہ پہنچے اور یوں گویا انہیں شکست ہوئی۔ مگر حقائق اور اصل واقعات اس کے بالکل برعکس ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نےخدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی اور جس کے ذریعہ آخری زمانہ میں دین ِحق کا غلبہ مقدر تھا ۔آپ نے اپنے دعویٰ کے حق میں قرآن و حدیث سے روشن دلائل پیش فرمائے ، کامیاب مناظرے اور مباحثے کیے اور مخالف علماء کے تمام اعتراضات کے کافی و شافی جوابات پیش فرمائے۔ لیکن مخالف علماء کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے خصوصاً مباحثوں اور مناظروں میں شرارتوں اور شرانگیز کارروائیوں اور بعض قانونی وجوہات کی بنا پر آپؑ نے 1896ء میں اپنی کتاب ‘‘انجام آتھم’’ میں یہ عہد کیا کہ آئندہ آپ مناظروں اور مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گے۔

البتہ صوفیا او ر اہل اللہ کہلانے والوں کے لیے روحانی مقابلہ کا میدان کھلا رکھا،یعنی مخالف علماء کے سامنے حق و صداقت میں فیصلہ کے لیے مباہلہ کا طریق پیش فرمایا۔چنانچہ آپ نے جن علماء اور سجادہ نشینوں کو اسی کتاب میں مباہلہ کی طرف بلایا، ان میں گولڑہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور پیر مہر علی شاہ صاحب بھی تھے۔

(اس مقابلہ کی تفصیل ساتھ کےساتھ اخبار الحکم میں شائع ہوتی رہی۔یکجائی معلومات تاریخ احمدیت جلد دوم اور حیات طیبہ از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمَل میں درج ہیں۔ تفصیلی معلومات پر مبنی اصل حقائق اُسی وقت نومبر1900ء میں جبکہ ابھی ‘‘اعجاز المسیح’’تصنیف نہیں ہوئی تھی اورنہ ہی اُس وقت تک پیر صاحب کی طرف منسوبہ کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’منظر عام پر آئی تھی،حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نےکتاب ‘‘واقعات صحیحہ’’میں درج کر کے اصل اشتہارات اور خطوط شائع کردیے تھے۔درج ذیل مضمون بھی بنیادی طور پر انہیںکتب سے لیے گئے ہیں۔)

پیر مہر علی شاہ صاحب کا مختصر تعارف

پیر صاحب کے سوانح نگار مکرم فیض احمد فیض صاحب کے مطابق پیر مہر علی شاہ صاحب یکم رمضان 1275ھ بمطابق 4؍اپریل 1859ء بروز سوموار پیدا ہوئے۔اور اُن کی وفات 29؍صفر1356ھ بمطابق 11؍مئی 1937ءکو ہوئی۔

(مہر منیر ۔سوانح حیات پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی۔تألیف فیض احمد فیض۔پیدائش صفحہ 61۔وفات صفحہ335۔بار ہشتم ۔مقام اشاعت گولڑہ شریف ،ضلع اسلام آباد۔تاریخ اشاعت۔اگست 1997ء)

پیر صاحب صوفیا کے چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پیر صاحب ابتداءً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حُسن ظنی اور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے ۔چنانچہ آپ کے ایک مرید بابو فیروز علی صاحب اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے) 1896ءیا1897ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں دریافت فرمایا تو پیر صاحب نے بلاتامل جواب دیا کہ
‘‘امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک میں ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح اور مہدی بن جاتے ہیں ۔بعض ان کے ہم رنگ ہوجاتے ہیں۔یہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ شخص منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے۔جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے۔ مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر براں کا کام کر رہا ہے اور یقینا ًتائید یافتہ ہے’’

(الحکم 24؍جون 1904ء صفحہ5کالم 2تا3)

اس بات کی مزید تائید کہ اس زمانہ میں پیر صاحب حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت نیک خیالات رکھتے تھے ،اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ موصوف کی سیرت وسوانح پر مبنی کتاب ‘‘مہر منیر’’ میں لکھا ہے کہ
‘‘مرزا غلام احمد…قریباً چار سال ملازمت کرتے رہے۔ بعدہ ملازمت چھوڑ کر اپنے والدِمحترم کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھااور مذہبی مناظرات وغیرہ میں حصہ لیتےرہے۔جہاں تک معلوم ہوسکا ہے اُن کے آباواجداد حنفی المذہب مسلمان تھے اَور خُود مرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں اُنہی کے قدم بہ قدم چلتے رہے۔ 1879ءمیں اُنہوں نے ایک اشتہار شائع کیا کہ مَیں ایک کتاب ‘‘براہین احمدیہ ’’لکھنے کا ارادہ رکھتا ہُوں جو پچاس جلدوں پر مشتمل ہوگی اَور جس میں اسلام کی حقانیت اَور دیگر مذاہب کی تردید میں قوی اَور محکم عقلی دلائل پیش کیے جائیں گے…1886ء میںمرزا صاحب نے اپنی دوسری کتاب‘‘سُرمہ چشم آریہ ’’تصنیف کی اور ہوشیار پور میں آریہ سماجیوں کے ساتھ مناظرہ بھی کیا۔اس طرح ایک مناظرِاسلام اَور مُدّعی الہام کی حیثیت سے شہرت حاصل کرکے انہوں نے اپنے گرد عقیدت مندوں کا ایک گروہ پیدا کیاجس میں حکیم نوردین شاہی طبیب ریاست جمّوں وکشمیر جیسے بارسُوخ مشیر ومعاون شامل تھے’’

(مہر منیر صفحہ 165-166)

گویا دوسرے لفظوں میں وہی اظہار ہے جو حضرت صالح علیہ السلام کو اُن کی قوم نے کہا تھا کہ

قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا

انہوں نے کہا اے صالح! ىقىناً تُو اس سے پہلے ہمارے اندر امىدوں کا مرجع تھا (هود :63)

پیر صاحب کا مخالفانہ روّیہ

کچھ عرصہ کے بعد پیر صاحب لوگوں کی باتوں میں آکر مخالفانہ ڈگر پر چل پڑے اورجنوری 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اُردو میں ایک کتاب ‘‘شمس الھدایہ فی اثبات حیات المسیح’’شائع کی۔ جب پیر مہر علی شاہ صاحب نے یہ کتاب شائع کی اورحضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے ان سےاس کتاب میں درج محوّلہ کتب کے بارہ میں بعض استفسار کیے تو پتا چلا کہ دراصل یہ کتاب اِن کے مرید مولوی محمد غازی کی تالیف ہے جسے پیر صاحب سے منسوب کردیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ نے پیر صاحب کے نام 18؍ فروری 1900ءکو ایک خط میں یہ دریافت فرمایاکہ
‘‘کیا آپ نے اپنی کتاب شمس الھدایہ میں لکھے گئے حوالہ جات اصل کتب سے چیک کیے ہیں اور کیا یہ کُتب آپ کے کُتب خانے میں موجود ہیں؟’’

اس پر پیر صاحب نے 28؍ مارچ 1900ء کو جو جواب لکھا اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ کتاب ان کے مرید مولوی محمد غازی کی تالیف کردہ ہے اور مرید نے یہ کتاب پیر صاحب کی طرف منسوب کر دی ہے۔ چنانچہ پیر صاحب نے لکھا کہ

‘‘مولوی محمد غازی صاحب کتب حدیث و تفسیر اپنی معرفت سے پیدا کر کے ملاحظہ فرماتے رہے ہیں مولوی صاحب موصوف آجکل دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں…مولوی صاحب نے اپنی سعی اور اہتما م سے کتاب شمس الہدایت کو مطبوع اور تالیف فرمایا۔ ہاں احیاناً اس بے ہیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین میں ہوا۔ جس وقت مولوی صاحب واپس آئیں گے کیفیت کتب مسئولہ اور جواب سرافرازنامہ اگر اجازت ہوئی تو لکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جانبین کو صراط مستقیم پر ثابت رکھے۔’’

(الحکم 24؍اپریل 1900ءصفحہ7)

پس پیر صاحب نے اپنے اس خط میں نہایت سادگی سے حقیقت کھول دی کہ یہ کتاب ان کی تالیف کردہ نہیں بلکہ ان کے مرید مولوی محمد غازی کی ہے۔مزید اسی الحکم کے شمارہ میں مولوی صاحب کے اپنے مریدوں کے نام جو خطوط اس کتاب کے بارے لکھے تھے وہ بھی شائع کردیے گئے تھے۔مثلاً موصوف اپنی ساخت بچانے کےلیے میاں غلام محمد کو لکھتے ہیں کہ

‘‘…اور کتاب کے بارہ میں مولوی محمد غازی صاحب جب واپس آئے تو لکھیں گے کیونکہ کتابوں کی تجسس اور دیکھنا ان کے متعلق تھا میں مضامین غیر مرتبہ بسا اوقات اُن کو دیتا رہا اور تالیف یعنی جمع وترتیب و طبع کرانا یہ سب ان کے متعلق تھی۔ جناب مولوی نور الدین صاحب نے تالیف سے جو منسوب مولوی محمد غازی صاحب کی طرف کی گئی تھی اور فی الواقع یونہی تھا ،یہ سمجھ لیا کہ موجد مضامین اور مصنف مولوی صاحب ہیں۔ فلاں نے یعنی میں نے اس کی تصنیف اور ایجاد سے انکار کیا محباً کبھی مؤلف اور موجد ایک ہی ہوتا ہے اور کبھی مختلف۔ میں نے بباعث کم فرصتی کے جمع اور ترتیب بمعہ مطالعہ کتب ان کے ذمہ پر رکھا تھا۔ الغرض جو مطلب تھا یعنی لوگوں کا دھوکا نہ کھانا وہ تو بفضل خدا بخوبی حاصل ہو گیا ،بذریعہ خطوط روزمرہ مقبولیت کتاب معلوم ہوتی رہتی ہے۔ باقی زید و عمر سے کچھ غرض نہیں۔’’

(الحکم 24؍ اپریل 1900ء صفحہ7۔نیز واقعات صحیحہ۔از مفتی محمد صادق صاحبؓ ۔صفحہ 8-9۔بمطابق طبع دوئم 2011ء)

قارئین غور کریں کہ پیر صاحب مولوی صاحب کو تو یہ لکھتے ہیں کہ کتاب مولوی غازی نے تالیف کی ہے ہاں احیاناً اس بے ہیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین ہوا اور میاں غلام محمد کو لکھتے ہیں کہ میں مضامین غیر مرتبہ بسا اوقات اُن کو دیتا رہا۔

نیز ‘‘مہر منیر’’میں اس اعتراض کا یہ جواب دے کر بری ہونے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ

‘‘افسوس اِن لوگوں نے حضرت کی تصانیف کو آپ کے تلامذہ اور مستفیدین کے ساتھ منسوب کرتے وقت یہ بھی خیال نہ کیا کہ اس منطق کا نتیجہ تو خود ان کے خلاف جاتا ہے۔یعنی جب حضرت کے بحر علم وعرفان سے پیاس بُجھانے والوں کی تحریرات نے عالم مرزائیت میں اِس قدر تہلکہ مچا دیا تو اگر آپ بنفس نفیس قلم اٹھاتے تو کیا حشر برپا ہوتا۔اور یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب حضرت قبلۂ عالم قدس سرّہ ٗکے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے’’

(مہر منیر صفحہ 256طبع ہشتم)

گویا کس قدر بدحواسی کے عالم میں تراشا ہوا یہ جواب ہے۔ پیرصاحب کی اس دو رخی چال پر نہایت مناسب ریمارکس کے ساتھ ،حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے ایک زبر دست مضمون اخبار الحکم میں اسی وقت شائع کر دیا تھا۔

کتاب شمس الھدایہ کا جواب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی حضرت سید محمد احسن صاحب امروہویؓ نے پیر صاحب کے نام سے شائع شدہ کتاب ‘‘شمس الھدایہ’’کے ردّ میں ایک معرکہ آراء کتاب لکھی جس کا نام ‘‘شمس بازغہ’’رکھا جس میں مولوی محمد غازی صاحب کے پیش کردہ دلائل کا بودا ہونا ثابت کیا۔

چونکہ کتاب شمس الھدایہ کے مصنف نے اس کے آخری صفحہ پر حضرت اقدس اور دیگر احباب کو ان الفاظ میں دعوت عام دی تھی کہ ‘‘مرزا صاحب یا ان کا کوئی رفیق رسالہ ہٰذا کا جواب لکھنا چاہے تو بے شک لکھے’’اس لیے سید محمد احسن صاحبؓ نے بتاریخ 9؍ جولائی 1900ء پیر صاحب کو بذریعہ اشتہار اطلاع دے دی کہ میں مباحثہ کے لیے تیار ہوں آپ اپنی طرف سے آمادگی کا اعلان فرمائیں۔

(الحکم 9؍جولائی 1900ء صفحہ10)

پیر مہر علی شاہ صاحب نے حضرت سید محمد احسن صاحب امروہویؓ کی طرف سے مباحثہ کی دعوت کا کوئی جواب نہ دیا اور چپ سادھ لی ۔

تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج

کتاب شمس الہدایہ کی عبارت غیر سلیس تھیں ۔چنانچہ جب اس پر توجہ دلائی گئی تو ‘‘دعویٰ’’پیر صاحب کی سیرت وسوانح ‘‘مہر منیر’’میں یہ لکھا ہے کہ

‘‘حضرت قبلۂ عالم قدس سرّہٗ کے ملفوظات ،محاورات اَور انداز تحریر سلف ِصالحین کے رنگ میں ہیں۔آپ سوچتے ہی عربی میں ہیں ۔اَور یہی آپ کا اصل اور حقیقی فضل وکمال ہے۔پھر اپنی عربی کی سوچ کو حسب ضرورت اُرود یا فارسی کے ترجمہ کا لباس پہناتے ہیں۔’’

(مہر منیر صفحہ 256طبع ہشتم)

جبکہ دوسری طرف کتاب شمس الھدایہ میں ان (پیر صاحب)کا یہ دعویٰ درج ہے کہ قرآن مجید کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے۔چنانچہ 20؍جولائی 1900ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ پیر صاحب کو براہ راست مخاطب کر کے لکھا کہ یہ امور کہاں تک درست ہیں؟ چنانچہ اس کے فیصلہ کے لیے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ طریق پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ

‘‘قرآن شریف کی کوئی سورۃنکالیں اور اس میں سے چالیس آیات یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو)لے کر فریقین یہ دعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں اسی جلسہ میں لکھنے کے لیے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما…اس تفسیر کے لکھنے کے لیے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی۔ زانو بہ زانو لکھنا ہوگا…ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ اپنی تسلی کے لیے فریق ثانی کی تلاشی کرے…جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ کے ذمہ ہوگا سنائی جائیں گی …وہ تینوں مولوی صاحبان حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر…تائید روح القدس میں سے لکھی گئی ہے…پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اورمجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے ہو سکا اور انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسے ہی کر دکھایا…تو میں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہے…اپنی تمام کتابیں جو اس دعویٰ کے متعلق ہیں جلا دونگا۔ اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھون گا…لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا…تو… وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ325تا 331)

مقابلہ تفسیر نویسی سے پیر صاحب کا فرار

پیر صاحب کو چونکہ علمی میدان میں مقابلہ کی تاب نہ تھی اور انکار کر کے اپنی حقیقت بھی واضح نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے پیر صاحب نے 25؍جولائی 1900ء کو ایک اشتہار دیا جس میں حضرت مسیح موعود ؑکی پیش کردہ تجویز مقابلہ تفسیر نویسی کو قبول کیا لیکن یہ شرط عائد کر دی کہ قبل از بحث تحریری مذکورہ مجوزہ مرزاصاحب ایک بحث تقریری دعویٰ مسیحیت و مہدویت وغیرہ عقائد مرزا صاحب پر جو تعداد میں تخمیناً 136 کے قریب ہیں اور ان کے الہامی کتب میں درج ہیں بپابندی امور ذیل ہو جائے۔ اور اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے دو ساتھیوں نے یہ رائے ظاہر کر دی کہ اس بحث میں وہ حق پر نہیں تو انہیں میری بیعت کرنا ہوگی اس کے بعد مقابلہ تفسیر نویسی کی اجازت ہوگی۔

(واقعات صحیحہ صفحہ25تا26از مفتی محمد صادق صاحب انوار احمدی لاہور نومبر1900ء)نیز(مہر منیر طبع ہشتم صفحہ 219تا 221)

پیر صاحب کا یہ اشتہار مقابلہ تفسیر نویسی سے گریز کی محض ایک چال تھی۔ جس کا پول کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جولکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بھلا بیعت کر لینے کے بعد اعجازی مقابلہ کرنے کے کیا معنی؟ نیز فرمایا کہ انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت قبول کرتاہے۔ میں انجام آتھم میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے۔ لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے۔ اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کر کے توڑا ۔

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ88تا 90)

پیر صاحب کی لاہور میں اچانک آمد

مولوی محمد احسن صاحب امروہوی ؓنے اپنے اشتہار مؤرخہ 14؍ اگست 1900ء میں پیر صاحب کی اور آپ کے شاگرد مولوی غازی کی تمام باتوں کا مفصل جواب دے کر پیر صاحب پر آخری حجت اس طرح سے قائم کر دی کہ یہ طریق پیر گولڑوی کے فرار اور انکار کا ثبوت ہے۔اور اگر یہ اس کا بھاگ جانا نہیں تو وہی تین علماء جو تفسیر قرآن کے واسطے حکم مقرر کیے گئے تھے اُن کے پاس جائیں اور اُن سے اسی طرح کی قسم کے ساتھ جس کا ذکرحضرت مرزا صاحبؑ نے کیا ہے یہ شائع کرا دیں کہ پیر صاحب گولڑوی تفسیر لکھنے سے ہراساں و ترساں نہیں ہیں۔ اور انکار کا یہ طریق اُن کی طرف سے بہ سبب اُس خوف کے نہیں ہے کہ وہ مرزا صاحب کے مقابل تفسیر لکھنے سے عاجز ہیں۔ تو ایسی قسم کے بعد اگر ایک سال کے اندر مرزا صاحب کی تائید میں کوئی نشان ظاہر نہ ہوا تو پھر بھی ہم ہی مغلوب سمجھے جائیں گے۔

(واقعات صحیحہ ۔بعنوان فرار و انکار پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی۔صفحہ 31،30)

حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے مندرجہ بالا وضاحت کے باوجود پیر صاحب مباحثہ پر اصرار کرتے رہے۔ اور 21-22؍اگست 1900ءکو ایک اشتہار دیا جس میں مقابلہ تفسیر نویسی کو ٹالنے کے لیے سارا زور مباحثہ پر دیا اور خود ہی مباحثہ کی تاریخ 25؍ اگست 1900ء مقرر کر لی۔ پیر صاحب کی ہوشیاری دیکھیے کہ انہوں نے21-22؍ اگست کو یہ اشتہار دیا اور حضرت اقدسؑ کے جواب کا انتظار کیے بغیر دو تین روز بعد ہی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جمعیت کے ساتھ 24؍ اگست بروز جمعہ لاہورپہنچ گئے۔

اس حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے پیر صاحب کی سیرت وسوانح‘‘مہر منیر’’ میں لکھا ہے کہ

‘‘ان کے ایک حواری سیّد محمد احسن امروہی نے تاریخ مباحثہ سے صرف چار یوم پہلے ایک مطبوعہ خط گولڑہ شریف پہنچایا، جس میں لکھا تھا کہ اُنہیں تقریری مباحثہ کی شرط منظور نہیں۔اگر تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنا ہوتو پیر صاحب آجائیں۔اس پر حضرت قبلۂ عالم قدس سرّہٗ کی طرف سے آپ کے ایک مخلص حکیم سُلطان محمود سکنہ راولپنڈی نے 21 یا 22؍اگست کو یہ اعلان شائع کرادیا کہ حضرت قبلۂ عالم قدس سرّہٗ 25؍اگست کو مرزا صاحب کی اپنی شرائط کے مُطابق تحریری مباحثہ کے لیے لاہور تشریف لے جارہے ہیں ۔اِس اعلان کی ایک کاپی بذریعہ رجسٹر ڈ پوسٹ اُنہوں نے قادیان بھی بھجوادی۔مگر وقت کی تنگی کے باعث تمام ملک میں اس کا پوری طرح اعلان نہ ہوسکا’’

(مہر منیر صفحہ 230-229۔ہشتم)

ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ اطلاع بھجوادی اور دوسری طرف یہ بھی اقرار ہے کہ اُس وقت تار گھر کا انتظام قادیان میں نہ تھا۔چنانچہ لکھا کہ

‘‘24 اگست کو گولڑہ شریف سے روانگی پر حضرت نے مرزا صاحب کو ایک تار کے ذریعہ پہلے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے اَور پھر اثنائے سفر لالہ موسیٰ جنکشن سے اطلاع دی کہ میں لاہور پہنچ رہا ہوں ۔جب آپ کی ٹرین لاہور پہنچی تو پہلا سوال جو آپ نے دریافت فرمایا مرزا صاحب کی آمد کے متعلق تھا۔’’

(مہر منیر صفحہ 231)

پیر صاحب کو میدان تفسیر نویسی میں لانے کے لیے مخلصانہ کوشش

لاہور کے مخلص احمدیوں نے پیر صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی یہ مخلصانہ سعی اور جدوجہد شروع کر دی کہ پیر صاحب مقابلہ تفسیر نویسی کے لیے تیار ہو جائیں اور فوراًایک اشتہار دیا کہ

‘‘ہم لاہور جماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب (موسومہ بہ انجمن فرقانیہ لاہور) اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر صحیح اقرار کرتے ہیں کہ اگر پیر مہر علیشاہ صاحب گولڑوی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے مقابل ایک جگہ بیٹھ کر بغیر مدد دیگرے بعد دعا سات گھنٹہ کے اندرحضرت مرزا صاحب کے مجوزہ اشتہار کے موافق تفسیر عربی لکھ کر اپنا غلبہ دکھائیں تو ہم ایک ہزار روپیہ نقد بلا عذر اُن کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پیر مہرعلیشاہ صاحب کے مرید خصوصاً حافظ محمد الدین صاحب تاجر کتب ضرور پیر صاحب کو آمادہ کریں گے۔ کیونکہ دعا کی قبولیت کے دیکھنے کا یہ بے نظیر موقع انہیں دیا گیا ہے۔ اب اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا ان کا اختیار ہے۔ بر رسولاں بلاغ باشد وبس۔

(ازجماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہودؑ از لاہور 19؍اگست 1900ء)
(واقعات صحیحہ بعنواں اتمام حجت۔صفحہ 31)

اس کے علاوہ 25؍اگست کو پیر صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے ایک دستی خط بھیجا تا وہ تفسیر نویسی کےلیے تیار ہوں۔

یہ خط لے کر چار غیر از جماعت افراد پر مشتمل ایک وفد پانچ بجے ان کی قیام گاہ پہنچا تو ان کے مریدوں نے وفد کو اندر نہ جانے دیا اور باہر ہی سے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ پیر صاحب اس خط کا کوئی جواب نہیں دیتے۔

(واقعات صحیحہ صفحہ 40تا47)

افہام و تفہیم کی یہ سب صورتیں جب یکسر ناکام رہیں تو حکیم فضل الٰہی صاحب اور میاں معراج الدین صاحب نے دوسرے دن (26؍ اگست 1900ء)کو پیر صاحب کے نام ایک رجسٹری خط میں یہ درخواست کی کہ وہ اپنی دستخطی تحریر سے اشتہارات شائع فرماویں کہ مجھے 20؍جولائی 1900ء کی دعوت تفسیر نویسی بلا کم و کاست منظور ہے۔ لیکن افسوس پیر صاحب نے رجسٹری لینے سے صاف انکار کر دیا۔

(واقعات صحیحہ صفحہ42)

غرضیکہ لاہور کے احمدی احباب کی مسلسل کوششوں کے باوجود پیر صاحب مقابلہ تفسیر نویسی کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لیے 25؍ اگست کو صبح شاہی مسجد میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اپنے مریدوں کو گفتگو کرنے سے پرہیز کی تلقین کی۔

(اشاعۃ السنہ جلد 19 صفحہ132)

نیز ایک خود ساختہ اتفاق رائے بیان کیا گیا ۔اور بعد میں پھر اسی اتفاق رائے کی خود ہی خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔

‘‘آئندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی اَور اُس کے حواریوں کی کِسی تحریر کی پروا نہ کریں ۔اور نہ اِن سے مخاطب ہوں،اور نہ ہی کچھ جواب دیں ۔’’

(مہر منیر صفحہ 237)

بعد ازاں پیر صاحب لاہور میں اپنے قیام کے پروگرام کو مختصر کر کے واپس چلے گئے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button