الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

شہیدکا درجہ

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں شہید کے درجے کے حوالے سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی بھی واپس آنے کی کوشش نہیں کرتا سوائے شہید کے جو شہادت کے رُتبے کا اعزاز و اکرام دیکھ کر خواہش کرتا ہے کہ بار بار خدا کی راہ میں مارا اور قتل کیا جائے۔ (بخاری و مسلم)

………٭………٭………٭………

مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ امۃالرؤف صاحبہ اور مکرمہ فرزانہ ندیم صاحبہ کے قلم سے محترم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 4؍جولائی 2014ء اور 12؍اکتوبر 2018ء کے شماروں کے ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں تفصیل سے کیا جاچکا ہے۔ ذیل میں صرف اضافی امور پیش ہیں۔

مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب 31؍دسمبر 1954ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ غرباء کی ہمدردی آپ کی طبیعت کا حصہ تھی۔ گھر کے سامنے ایک غریب گھرانے میں کسی کی وفات ہوئی تو آپ نے اس کی تدفین کے لیے پیسے جمع کرکے انتظامات کروائے۔ ایسے کئی مواقع پر مالی مدد کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ کئی غرباء کی باقاعدہ امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہت صائب الرائے تھے۔ چونکہ انگریزی میں .M.A کے علاوہ .L.L.B بھی کیاہوا تھا اس لیے کئی قانونی معاملات آپ نے حل کروائے اور مظلوموں کی دعائیں لیں۔

بہت دعاگو تھے اور خداتعالیٰ کے فضل سے اعجازی نشانات بھی دیکھتے۔ آپ کے ہاں شادی کے چھٹے سال تک اولاد نہ تھی لیکن کبھی اپنی اہلیہ کو اس کا احساس نہ دلایا۔ پھر خداتعالیٰ نے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا۔ ایک اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن روزوں کے ایّام میں کہیں گئے ہوئے تھے اور دیر سے آنا تھا لیکن خلافِ توقع افطاری سے پانچ منٹ پہلے آگئے تو مَیں پریشان ہوگئی۔ آپ نے کہا کہ پانی اور کھجور دے دو، کھانا بعد میں تیار کرلینا۔ اسی وقت باہر دستک ہوئی اور کسی نے پوری ٹرے پُرتکلّف افطاری کی بھجوادی۔

تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ مولانا طاہرالقادری صاحب سے بھی گفتگو ہوئی تو مولانا صاحب نے کچھ دیر بعد کہا کہ اُن کے پاس ابھی وقت نہیں، پھر بات کریں گے۔ گھر میں جب خاندان کے کچھ لوگ اکٹھے ہوتے تو جماعت کا ہی ذکر ہوتا۔ احمدی ہونے کی وجہ سے جو مصائب آپ کو پیش آتے اور پھر خدا کا جو فضل ہوتا اُس کا بیان بڑے جوش سے کرتے۔ کبھی ترقی روکی گئی تو بعد میں مل گئی۔ اگر الاؤنسز روکے گئے تو بعد میں سارے مل گئے۔ گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے اور بیوی بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کے لیے باقاعدہ کلاس لیتے۔

آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے۔ کوئی سالن دو دن بھی کھانا پڑتا تو خوشی سے کھا لیتے۔ اگر کھانا وقت پر تیار نہ ہوپاتا تو بھوک کے باوجود کچھ نہ کہتے۔ اگر کبھی ناراض ہوتے تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتے۔

اسیر ساہیوال مکرم محمد الیاس منیر صاحب کہتے ہیں کہ شہید مرحوم سیلف میڈ انسان تھے۔ کلرکی سے نوکری کا آغاز کیا۔ 1986ء میں جب نمرودِ وقت کی طرف سے ہمیں سزائے موت سنائی گئی تو شہید مرحوم پنجاب سیکرٹریٹ کے جیل سیکشن میں متعیّن تھے جس کی وجہ سے اُن کے لیے جیل میں آنا بہت آسان تھا۔ چنانچہ ہر دو تین ہفتے بعد ہمارے پاس آتے اور مسلسل آٹھ سال ہمارا خیال رکھتے رہے۔ اُن کا ہمارے پاس آنا جیل حکّام کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہوتا۔ آپ احمدیت کے حوالے سے بڑے دلیر اور جرأت مند تھے اور اپنے احمدی ہونے کو کبھی پوشیدہ نہ رکھا۔

آپ کو کسی کی وفات کی اطلاع ملتی تو بارہا نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے ربوہ کا سفر کرتے اور کہتے کہ یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ کبھی یہ سفر ہفتے میں دو بار بھی ہوتا۔

آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ آپ کی شہادت سے دو ماہ قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ جیسے میری زندگی کا وقت کم ہو۔ بچے چھوٹے تھے اس لیے بہت پریشانی تھی لیکن کسی سے ذکر نہ کیا۔ شہادت سے دو ہفتے قبل شہید مرحوم کچھ پریشان نظر آئے اور جلدی جلدی اپنے کام سمیٹنے لگے۔ پوچھا تو کہنے لگے کہ ایک خواب دیکھا ہے مگر بتاؤں گا نہیں۔ مگر پھر باجماعت نمازوں میں اکثر شہادت کی مخصوص آیات (البقرۃ:154) کی تلاوت کرنے لگے۔

سانحہ لاہور کے دوران آپ اُس وقت شہید ہوئے جب دہشت گردوں نے افواہ پھیلائی کہ اب کوئی خطرہ نہیں۔ اُن کی آواز سُن کر آپ باہر نکلے اور اُن کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ اسی سانحہ میں آپ کے بڑے بھائی محترم عبدالشکور صاحب زخمی ہوئے۔

شہید مرحوم کی شہادت سے قبل اور بعد میں کئی عزیزوں نے خواب میں آپ کا انجام بخیر دیکھا۔ شہادت کے دو روز بعد شہید مرحوم کی چھوٹی بیٹی اپنی روتی ہوئی والدہ سے کہنے لگی کہ ’’پاپا کا صرف جسم ختم ہوا ہے اور وہ خود زندہ ہیں۔ جب آپ روتی ہیں تو وہ آپ کو دیکھتے ہیں اور ان کو بھی دکھ ہوتا ہے اس لیے آپ اب نہ رویا کریں‘‘۔ اسی طرح شہید مرحوم کے چودہ سالہ بیٹے نے ایم ٹی اے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ میرے پاپا شہید ہوگئے ہیں لیکن مجھے دکھ ہے کہ مَیں اُن کے ساتھ شہید کیوں نہیں ہوا‘‘۔

………٭………٭………٭………

مکرم ولید احمد صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرمہ ولید احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 28؍فروری 2014ء کے شمارے کے اسی کالم ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں بھی کیا جاچکا ہے۔

مکرمہ ساجدہ چودھری صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ عزیزم ولید احمد ابن مکرم منور احمد صاحب میری بہن آنسہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جب ٹی وی سے دہشتگردوں کی کارروائی کا علم ہوا تو فون کرنے پر پتہ چلا کہ ولید احمد میڈیکل کالج سے سیدھا دارالذکر چلا گیا تھا۔ وہاں سے اُس کا رابطہ صرف اپنی امّی کے ساتھ ربوہ میں ہوا جس میں اُس نے حملے کی اطلاع دی اور دعا کے لیے کہا۔ پھر اُس کی شہادت کی اطلاع آئی تو مَیں اور ولید کے تین چچا صاحبان پاکستان روانہ ہوگئے۔ مَیں سوچ رہی تھی کہ اپنی بہن کو تسلّی کیسے دوں گی جس کا اکلوتا بیٹا اس دہشت گردی کا شکار ہوگیا تھا۔ وہ ایک شہید (محترم چودھری عبدالرزاق صاحب شہید بھریاروڈ سندھ 1985ء) کی بیٹی اور ایک شہید (محترم چودھری عبدالحمید صاحب شہید محراب پور سندھ 1984ء) کی بہو تھی اور اب وہ ایک شہید کی ماں بھی تھی۔ وہ صبر اور ہمّت سے سب کو مل رہی تھی۔ لب پر دعا تھی، دل خون کے آنسو روتا تھا مگر آواز نہ تھی۔ جنازے سے پہلے تین چار بار پیشانی کو چوما اور سرہانے کھڑی دعائیں کرتی رہی۔ اُس کی بیٹیاں بھائی کے بچھڑنے پر تڑپتی تھیں تو اُن کو بھی سمجھاتی تھی کہ وہ خدا کے ہاں زندہ ہے۔ جب اپنا دل بھر آتا تو نوافل یا قرآن کریم پڑھنا شروع کردیتی۔

ولید گیارہ سال کا تھا جب ایک اجلاس میں سب سے پوچھا گیا کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے۔ ولید نے جواب دیا کہ مَیں اپنے دادا کی طرح شہید بنوں گا۔ صرف چھ سال بعد اُس نے اپنے مقصد کو حاصل کرلیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس کی اپنے تعلیمی ادارے میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تدفین والے دن اُس کے اساتذہ اور طلباء نے ایک ہی دن میں تین دفعہ تعزیتی تقریب منعقد کی۔ ایک استاد نے بتایا کہ چند اساتذہ اور طلباء نے تدفین میں شامل ہونے کا پروگرام بنایا تھا لیکن بعض طلباء کے بلک بلک کر رونے کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ربوہ جاکر ولید کا چہرہ دیکھ کر غم کی شدّت سے بے حال نہ ہوجائیں اس لیے مجبوراً یہ پروگرام مُلتوی کردیا۔

………………………………………………………………………………………

شہید مرحوم کی چچی مکرمہ راشدہ ناصر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ولید جب ڈیڑھ دو ماہ کا تھا تو بہت زیادہ بیمار ہوگیا۔ سارا گھر اس کے لیے فکرمند تھا۔ماں نے اپنا آپ بھلادیا تھا کیونکہ دوائی ہر دو گھنٹے بعد دینی تھی لیکن ایسے میں بھی وہ نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرتی اور بعد میں انہماک سے تسبیح کرتی۔

ولید کو رمضان میں اعتکاف کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ وہ نمازوں کا پابند تھا اور موصی بھی تھا۔وہ ہمارے خاندان میں پہلا بچہ تھا اس لیے سب کا پیار پایا اور سانجھا پُتّر کہلاتا تھا۔ ہم اُس کو کہتے کہ تم نے بہت اچھا اور دوسروں کے لیے مثال بننا ہے۔ اُس نے واقعی ایسا ہی بن کر دکھایا۔

………………………………………………………………………………………

شہیدمرحوم کی والدہ مکرمہ آنسہ منور صاحبہ لکھتی ہیں کہ ولید میرا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا لاڈلا بھائی تھا۔ اُس نے فون پر حملے کی اطلاع دی اور پھر رابطہ نہ ہوسکا۔ اُس کے والد اُسی وقت ربوہ سے لاہور روانہ ہوگئے۔ راستے سے فون پر بتایا کہ کسی نے بتایا ہے کہ وہ زخمی ہے۔ پونے آٹھ بجے انہوں نے اُس کی شہادت کی اطلاع دی۔ رات ڈیڑھ بجے اُسے لے کر ربوہ پہنچے۔ سارا وقت مَیں روتی رہی اور خداوند کریم سے صبر مانگتی رہی کہ میرے جسم کو طاقت دے کہ مَیں اپنے شہزادے کو دیکھ سکوں۔… خون میں لت پت۔ اوپر کی چادر بھی خون سے بھری ہوئی۔

وہ بہت سی صفات کا مالک تھا۔ اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ نماز پر جاتے ہوئے محلے کے بچوں سے بھی کہتا کہ چلو نماز کا وقت ہوگیا ہے۔

………٭………٭………٭………

مکرم کامران ارشد صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ فرزانہ ندیم صاحبہ کے قلم سے اپنے چچازاد مکرم کامران ارشد صاحب شہید ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

شہید مرحوم پانچ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ایک بہن ہے جو سب سے چھوٹی ہے۔آپ مسجد دارالذکر کے بالکل سامنے رہتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ صرف تین جگہوں پر ہی مل سکتے ہیں: گھر، دفتر یا مسجد۔ آپ کی مسجد میں موجودگی اور خدمت دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ تو واقف زندگی ہیں۔ اگر کوئی کہتا کہ دنیاداری کی طرف بھی توجہ دیں تو جواب دیتے کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا ہے اور یہ بھی کہ ہمارا تو مرنا جینا مسجد میں ہی ہے۔

مکرم کامران ارشد صاحب بہت سادہ مزاج، خوش اخلاق اور دوسروں کا خیال رکھنے والے انسان تھے۔ آپ ایم ٹی اے میں خدمت کرنے کے علاوہ شعبہ کتب کے انچارج بھی تھے۔ ایم ٹی اے کے انچارج محمود خان صاحب کہتے ہیں کہ جب گولیاں چلنے کی آواز آئی تو ہم تین دوست ایم ٹی اے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کامران صاحب نے کہا کہ چلیں مینار پر چڑھ کر ویڈیو بنالیتے ہیں۔ ہم کیمرے اٹھاکر باہر نکلے تو سیڑھیوں پر سامنے سے آتے ہوئے دہشت گرد نے فائرنگ کردی جس سے مکرم کامران ارشد صاحب اور مکرم آصف فاروق صاحب موقع پر شہید ہوگئے۔یہ دونوں میرے بازوؤں کی طرح تھے۔ مکرم کامران صاحب کو مَیں پچیس سال سے جانتا ہوں، وہ بے حد صاف گو انسان تھے۔ اتنے لمبے عرصے میں کبھی اُن کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا خواہ کتنا ہی نقصان ہوجائے۔

مکرم کامران شہید کے والدین اور بہن بھائی عرصہ نو سال سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ وہ آپ کو باہر آنے کا کہتے تو آپ جواب دیتے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو مَیں یہی کہوں گا کہ جماعتی حالات بہت خراب ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر کبھی دھمکی نہیں ملی۔ تو پھر مجھے باہر کون بلائے گا۔

شہید مرحوم اپنی اکلوتی بہن کو نمازوں کی ادائیگی اور پردے کی اہمیت کی اکثر قرآن کریم کی روشنی میں تلقین کرتے۔ آپ رحمی رشتوں کو نبھانے والے تھے۔ آپ کی والدہ کہتی ہیں کہ آپ کی شادی سے پہلے کچھ رشتہ داروں نے کہا کہ اگر فلاں عزیز کو بلایا گیا تو ہم بارات میں نہیں آئیں گے۔ مَیں نے کہہ دیا کہ جو نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے۔ لیکن جب آپ کو علم ہوا تو پریشان ہوگئے۔ اور کہنے لگے: امی جان! آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ کچھ رشتہ دار نہ آئیں۔ ہم اُن کو فون پر راضی کریں گے ورنہ اُن کے گھر جاکر منالیں گے، ہم ان رحمی رشتوں کو کیسے توڑ سکتے ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہوا ہے۔

اسی طرح ایک بار گھر والوں کی کسی عزیز کے ساتھ ناراضگی ہوئی تو دونوں خاندانوں کا آنا جانا موقوف ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد علم ہوا کہ دوسری فیملی میں ایک بزرگ بیمار ہیں۔ شہید مرحوم خاموشی سے ہسپتال گئے، اُن کی عیادت کی اور اُن کے لیے خون کا عطیہ بھی دیا۔

ہر ایک کی مدد پر آمادہ رہتے۔ آپ نے اپنے ایک خالو کو بیرونِ ملک جانے میں بہت مدد دی اور بعد میں اُن کے گھر کے امور ایک بیٹے کی حیثیت سے سنبھالتے رہے۔بچوں کو سکول لانے لے جانے میں مدد کرتے۔ وہ خالہ کہتی ہیں کہ کامران کی شہادت سے لگتا ہے کہ جیسے میرا بیٹا مجھ سے دُور چلاگیا ہے۔

لاہور کی لجنہ ایم ٹی اے کی انچارج کا کہنا ہے کہ شہید مرحوم ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے اور ایسے لگتا ہے جیسے اُن کے بعد کام کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

شہید مرحوم کی شادی کو چھ سال ہی ہوئے تھے۔ بوقت شہادت آپ کی ایک چار سالہ بیٹی اور ایک دو سالہ بیٹا تھا۔ آپ کی اہلیہ مکرمہ سدرہ کامران صاحبہ کہتی ہیں کہ مَیں چار پانچ سال کی عمر میں یتیم ہوگئی تھی۔خدا تعالیٰ نے کامران صاحب کی شکل میں مجھے زندگی کا مہربان ساتھی عطا کیا تھا۔ وہ ہر مشکل میں ساتھ دینے والے تھے۔بارہا لوڈشیڈنگ کے دوران ساری ساری رات بیٹی کو گود میں لے کر ٹہلتے رہتے۔میرے رشتہ داروں سے بھی بہت عزت اور محبت کا تعلق رکھا۔شادی کے وقت مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لیکن مَیں جو بھی بنادیتی وہ شوق سے کھالیتے۔کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے۔کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لَوٹاتے۔ اگر مانگنے والا کھانا مانگتا تو دکان پر لے جاتے اور اُسے پیٹ بھر کر کھلاتے۔ رحم کا سلوک جانوروں کے ساتھ بھی تھا۔ ایک روز ایک بلونگڑا کہیں سے آیا تو گلی کے بچے اُسے تنگ کرنے لگے۔ آپ اُسے اٹھاکر اندر لے آئے۔ گتے کے ایک بڑے ڈبّے کو خالی کرکے اُس میں نرم کپڑا بچھایا اور پھر فیڈر میں دودھ ڈال کر اُس کو پلاتے رہے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ آپ شہادت سے کچھ دن پہلے بالکل خاموش سے ہوگئے تھے۔ شام کو مجھے باقاعدگی سے سیر کے لیے لے کر جاتے اور زندگی کی مختلف ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے کہ بیٹی کو سکول میں داخل کروانے کے بعد تم نے اُسے لانا لے جانا ہے۔ مَیں کہتی کہ بیٹا ابھی چھوٹا ہے اس لیے صبح دفتر جاتے ہوئے بیٹی کو سکول چھوڑ جایا کرنا تو کہتے کہ نہیں اب یہ کام تم نے ہی کرنا ہے اس لیے ذہنی طور پر تیار ہوجاؤ۔ مَیں سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ وہ مہربان شوہر جو ہر وقت میری مدد کے لیے تیار رہتا ہے وہ سارے کاموں کی ذمہ داری مجھ پر کیوں ڈال رہا ہے۔ بہرحال خداتعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے میرے شوہر کو اپنے پیارے بندوں میں شامل کرلیا ہے۔حضورایدہ اللہ کے فون نے مجھے بہت حوصلہ دیااور میرا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ مَیں اُس شہید کی بیوہ ہوں جس کے لیے خلیفہ وقت اور دنیا کا ہر احمدی دعاگو ہے۔

………٭………٭………٭………

مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ فائزہ ماہم صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم شیخ محمد یونس صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

مکرم شیخ محمد یونس صاحب کی والدہ محترمہ تمیزہ خانم صاحبہ بنت حضرت چودھری عبدالسمیع صاحبؓ پیدائشی احمدی تھیں لیکن والد محترم شیخ جمیل احمد صاحب احمدی نہیں تھے۔ مکرم شیخ محمد یونس صاحب کی پیدائش امروہہ (بھارت) میں 1947ء میں ہوئی۔ 1950ء میں یہ فیملی قادیان منتقل ہوگئی جہاں ان کے والد محترم نے بیعت کی اور پھر درویشِ قادیان کے طور پر خود کو پیش کردیا۔ انہوں نے 14 سال قادیان میں گزارے لیکن 1955ء میں اپنے بیوی بچوں کو ربوہ بھجوادیا۔

مکرم شیخ محمد یونس صاحب نے تعلیم مکمل کرکے صدرانجمن احمدیہ میں ملازمت اختیار کی۔ 1976ء میں آپ کی شادی مکرمہ نرگس سعید صاحبہ سے ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ گھر میں بیوی بچوں سے مثالی سلوک تھا۔ اہلیہ کی بیماری کی صورت میں گھر کا سارا کام کردیتے اور شہادت سے چند ماہ قبل سے بچوں کو کثرت سے والدہ سے حسن سلوک کی تاکید کرتے۔بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھا اور عمدہ تربیت کی۔ جب بھی کوئی کہانی سناتے تو سچی سناتے۔

بہت دعاگو اور تہجدگزار تھے۔ تہجد میں گریہ و زاری سے دعائیں کرتے۔ نماز باجماعت کے اس قدر عادی تھے کہ ایک مسجد میں جماعت ہوچکی ہوتی تو دوسری مسجد میں چلے جاتے۔ہمہ وقت ہر ایک کی مدد پر آمادہ رہتے اور خود تکلیف اٹھاکر دوسروں کی تکلیف دُور کرتے۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی خدمت کرنے کا شوق تھا۔ متوکّل بہت تھے۔کہا کرتے تھے کہ جو کچھ میرے پاس ہوتا ہے وہ مَیں اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہوں اور جب بھی مجھے ضرورت ہوتی ہے تو خداتعالیٰ خود انتظام کردیتا ہے۔ یہ بھی کہا کرتے کہ اگر اپنی نیت کسی کے لیے بُری نہ رکھو تو خداتعالیٰ بھی تمہارا بُرا نہیں کرے گا۔

آپ اپنے والدین کے انتہائی فرمانبردار اور خدمت کرنے والے تھے۔ ساس سسر کو بھی والدین کی جگہ دیکھتے۔ کھانے کا وقت ہوتا تو پہلے بزرگوں کو دیتے، پھر بچوں کو اور آخر میں خود لیتے۔خاندان میں کسی کے ساتھ ناراضگی ہوتی تو صلح میں ہمیشہ پہل کرتے۔غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی معافی مانگتے۔

شہید مرحوم نے ساری عمر خدمت دین میں گزاری۔ دفاتر میں خدمت کے علاوہ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ اٹھارہ سال تک ربوہ میں اپنے محلّے کے سیکرٹری تبلیغ رہے۔آپ کی اہلیہ کو لجنہ کی طرف سے ایک گاؤں الاٹ ہوا تھا۔ شہید مرحوم نے اپنی اہلیہ کی بھرپور مدد کی اور دونوں سات سال تک متواتر اُس گاؤں میں جاکر تعلیم القرآن کلاسز لگاتے رہے۔ بعدازاں مخالفت کی وجہ سے مرکز کے حکم پر یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا۔ دیگر علاقوں میں بھی میڈیکل کیمپس اور تبلیغی دورہ جات کے لیے جاتے اور شدید گرمی میں دل کے مریض ہونے کے باوجود میلوں پیدل سفر کرکے تبلیغ کرتے۔ خداتعالیٰ نے بہت سے پھل آپ کو عطا فرمائے چنانچہ 1997ء میں آل ربوہ بہترین داعی الی اللہ کی شیلڈ آپ کو حضرت مرزا مسرور احمد صاحب امیرمقامی نے عطا فرمائی۔اپنے محلّے میں جماعت کے کئی شعبوں کے سیکرٹری ر ہے اور زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمت کی۔

2007ء میں ریٹائرمنٹ لی اور پھر لاہور شفٹ ہوگئے۔یہاں بھی خدمت دین کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ غالباً2009ء میں مجلس انصاراللہ پاکستان کے مقابلہ مقالہ نویسی بعنوان ‘‘ہستی باری تعالیٰ’’ میں حصہ لیا اور سوم آئے۔2010ء میں آپ نے مجلس کے لیے ‘‘تقویٰ’’ کے موضوع پر مقالہ تحریر کرنا شروع کیا۔ آپ کی شدید محنت کو دیکھتے ہوئے بعض دوست کہتے کہ اس کے لیے چھ ماہ دیے گئے ہیں اس لیے جلدی نہ کریں۔ لیکن آپ جواب دیتے کہ خداتعالیٰ کا جو کام بھی وقت سے پہلے ختم ہوجائے وہ اچھا ہے۔ 25؍مئی 2010ء کو آپ نے مقالہ مکمل کرلیا۔ اس کا مضمون پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ آپ نے تقویٰ کے لفظ کو ہر زاویے سے اپنے اوپر طاری کرکے پھر یہ مقالہ لکھا ہے۔ بہرحال مضمون کی تکمیل کے دو روز بعد آپ نے جام شہادت نوش کیا۔

ہمیشہ کی طرح آپ قبل از دوپہر گیارہ بجے مسجدالنور ماڈل ٹاؤن میں جاکر پہلی صف میں بیٹھ گئے اور نوافل ادا کرتے رہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ شروع ہوا تو ایک دہشتگرد نے کھڑکی سے پہلی تین صفوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا اور آپ اُس وقت سنّتیں ادا کررہے تھے کہ دہشتگرد کی گولی سے زخمی ہوکر گرگئے اور وہیں کچھ دیر بعد جام شہادت نوش کیا۔ حملے کے دوران خدام نے مسجد کے باہر موجود پولیس سے درخواست کی کہ اندر جائیں لیکن پولیس والوں نے نہ تو خود کوئی کارروائی کی اور نہ ہی خدام کی درخواست پر انہیں اپنا اسلحہ استعمال کے لیے دیا۔غرض پون گھنٹے بعد جب دہشتگردوں کو نہتے خدام نے قابو کرلیا تو پھر آپ کی شہادت کا علم ہوا۔

………٭………٭………٭………

سورج مکھی (Sunflower)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ستمبر 2011ء میں سورج مکھی کے پھول کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون عزیزم وجاہت احمد کامران ورک کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

روس، یوکرائن اور پیرو کا قومی پھول سورج مکھی ہے۔ یہ پودا سب سے پہلے امریکہ میں دریافت ہوا اور سورج سے مماثلت کی بِنا پر اسے یہ نام دیا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دن کے وقت اس کا رُخ سورج کی طرف ہی رہتا ہے۔ سولہویں صدی میں اس کے بیج یورپ میں لائے گئے جہاں اس کے بیجوں سے خوردنی تیل نکالا جانے لگا۔ اس کے بیج میں قریباً پچاس فیصد تک اعلیٰ قسم کا تیل اور بیس فیصد لحمیات پائے جاتے ہیں۔ اس کا تنا کاغذ بنانے میں کام آتا ہے ۔ اس کے کھیتوں سے شہد کی مکھیاں بہترین قسم کا شہد وافر مقدار میں تیار کرتی ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button