خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر 29؍ستمبر 2019ء بروز اتوار سیّدنا امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب

’’وہ وقت ضرور آئے گا کہ خدا تعالیٰ سب کی آنکھ کھول دے گا اور میری سچائی روز روشن کی طرح دنیا پر کھل جائے گی لیکن وہ وقت وہ ہو گا کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جاوے گا اور پھر کوئی ایمان سود مند نہ ہو سکے گا۔‘‘

جس کام کو اللہ تعالیٰ مکمل کرنا چاہے

اس میں روکیں ڈالنے کی نام نہاد عالموں یا مخالفین کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں

’ہر بندہ احمدیت میں آئے گا خواہ ابھی آئے یا بعد میں’

خوش نصیب ہیں وہ بیعت کرنے والے جو بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلے میں داخل ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ کی مدد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے

مخالفت کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ

جماعت احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ

جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر 29؍ستمبر 2019ء بروز اتوار سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکاجلسہ گاہ نزد بیت النور، نن سپیت، ہالینڈ میں اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب

(خطاب سے پہلے حضورِ انور نےفرمایا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ اس وقت یہاں ہالینڈ کی جماعت کے کتنے ممبر ہیں۔ ذرا ہاتھ کھڑے کریں۔ باہر سے زیادہ آئے ہوئے ہیں اور نعرے لگانے کا انہیں بھی شوق ہے اس لیے ہالینڈ والوں کو نعرے لگانے دیں۔ باقی بیچارے شاید باہر بیٹھے ہوں گے۔ )

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ (الصف: 9)

وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے چھوڑے گا خواہ کافر لوگ کتنا ہی ناپسند کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جب یہ دعویٰ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانے میں اسلام کے احیاء کے لیے بھیجے گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا میں پھیلانے کا کام اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سپرد کیا ہے تو پھر ضروری تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے بھی دکھاتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ نظارے دکھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے طفیل متعدد بار اس بات کی تسلی بھی کروائی گئی بلکہ 1882ء میں جبکہ ابھی آپؑ نے دعویٔ مسیحیت اور مہدویت بھی نہیں کیا تھا اور پھر اس کے بعد متعدد بار اور 1902ء تک یہ آیت آپ کو بھی الہام ہوئی۔

(تذکرہ صفحہ 38، 150، 230، 294، 549-550 ایڈیشن چہارم)

اس زمانے میں جب اسلام مخالف طاقتیں اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھیں آپؑ نے اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ فرمایا ہے کہ دشمن چاہے جتنا زور لگا لیں اب اسلام کا پھیلنا پھولنا اور پھلنا اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ آج بھی قائم ہے اور اپنی تمام تر شان و شوکت سے پورا ہونے والا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور اب یہ ترقی جس مسیح و مہدی کے ذریعے سے ہونی ہے وہ میں ہی ہوں اور اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ

’’یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہو گی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گا لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 290)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یہ شریر کافر اپنے منہ کی پھونکوں سے نور اللہ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے۔ کافر برا مناتے رہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا کسی نے دکاندار اور کافر و بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 186۔ایڈیشن1984ء)

اسلام مخالف طاقتیں تو اپنے کام کر ہی رہی تھیں لیکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ ہیں ان سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کی بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر ان میں سے بہت سے اپنے آپ کو عالم ِدین بھی کہتے ہیں یہ بدقسمتی ہے۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ کافروں کی اس کوشش پر جو اسلام کو مٹانے کے لیے کی جا رہی تھی مسیح موعودؑ کا ساتھ دیتے یا اب تک کی جا رہی ہیں مسیح موعودؑ کا ساتھ دیں آپ علیہ السلام کی مخالفت شروع کر دی اور کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن ان کی مخالفتیں اب کچھ نہیں کر سکتیں۔ جس طرح پہلے زمانے میں مخالفتیںکچھ نہیں کر سکیں یا پھر ایک ہزار سال کے اندھیرے زمانے کے بعد مخالفتیں اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور اسلام اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہا، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی اصلی حالت میں رہا۔ اسی طرح اب بھی یہ قائم رہنا ہے اور جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے آپؑ کے زمانے میں اور آپؑ کے ذریعے سے احیائے دین اور اسلام ہونا ہے۔ اب اسلام کی خوبصورت تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہی دنیا پر ظاہر ہونی ہے اور ہو بھی رہی ہے۔

جس کام کو اللہ تعالیٰ مکمل کرنا چاہے اس میں روکیں ڈالنے کی یہ نام نہاد عالموں یا مخالفین کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ یہ جو عالم کہلاتے ہیں وہ عالم کہاں مقتدرت رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو ٹال سکیں یا اس میں روکیں ڈال سکیں۔ پس آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے ان کے مقابلے میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا جو اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کے خلاف بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد فرمائے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے میں روکیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آپؑ کے خلاف فتوے دے رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کی قدر نہیں کی بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ نور نہ چمکے۔ یہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ

وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 179۔ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے۔‘‘بڑی وضاحت سے سمجھایا گیا ہے ’’کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہو گا کیونکہ اِتمام نور کے لیے چودھویں رات مقرر ہے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 124)

یعنی جب چاند پوری آب و تاب سے چمکتا ہے، جب مکمل چاند ہوتا ہے تو وہ چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ چودھویں صدی ہی اس کے لیے مقدر تھی جو مسیح موعود نے آنا تھا۔

پس جو سعید فطرت لوگ اس سِرّ کو، اس راز کو سمجھ رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپؑ کے سلسلۂ بیعت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

ظہورِ علامات مسیح موعود بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اس وقت صدی میں سے بیس سال گزرنے کو ہیں۔‘‘ اُس وقت جب آپؑ نے یہ فرمایا تو یہ 1903ء کی بات ہے۔ اب اس بات کو بھی کہے ہوئے تقریباً 116 سال گزر چکے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اور آخری زمانہ ہے۔ چودھویں صدی ہے کہ جس کی بابت تمام اہلِ کشف نے کہا کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں آئے گا وہ تمام علامات اور نشانات جو مسیح موعود کی آمد کے متعلق پہلے سے بتائے گئے تھے ظاہر ہو گئے۔ آسمان نے کسوف و خسوف سے اور زمین نے طاعون سے شہادت دی ہے اور بہت سے سعادت مندوں نے ان نشانوں کو دیکھ کر مجھے قبول کیا اور پھر اَور بھی بہت سے نشانات ان کی ایمانی قوت کو بڑھانے کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر کیے اور اس طرح پر یہ جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے۔‘‘

فرمایا کہ ’’کوئی ایک بات ہوتی تو شک کرنے کا مقام ہو سکتا تھا مگر یہاں تو خدا تعالیٰ نے ان کو نشان پر نشان دکھائے اور ہر طرح سے اطمینان اور تسلی کی راہیں دکھائیں لیکن بہت ہی کم سمجھنے والے نکلے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’حیران ہوتا ہوں کہ کیوں یہ لوگ جو میرا انکار کرتے ہیں ان ضرورتوں پر نظر نہیں کرتے جو اس وقت ایک مصلح کے وجود کی داعی ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد 5صفحہ 15۔ایڈیشن 1984ء)بلانے والی ہیں اس کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار یہ فرمایا کہ

’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کرو ں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے لوگ اس قدر گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔‘‘

فرمایا ’’اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔ چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 14۔ایڈیشن 1984ء)

لیکن جن کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، جن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا انہیں نہ سمجھ آتی ہے نہ نظر آتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان نام نہاد علماء کے اپنے مفادات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسیح موعودؑ کو مان لیا تو ہماری روٹی کے ذرائع ختم ہو جائیں گے۔ ہم نے جو لوگوں کو دین کی غلط تشریح کر کے اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے ہمارے راز فاش ہو جائیں گے اس لیے نئے نئے طریقوں سے یہ لوگوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں کبھی ختم نبوت کے نام پر کہ احمدی نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور کبھی کسی اَور بہانے سے جبکہ سب سے زیادہ اس بات پے یقین اور ایمان احمدیوں کا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی اَور شرعی نبی نہیں آ سکتا۔

سلسلے میں داخل ہونے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ حاجت نہیں ہے۔ ہم نماز روزہ کرتے ہیں۔‘‘ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ ہم تو نمازیں پڑھتے ہیں روزہ بھی رکھتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم سلسلے میں نہ بھی داخل ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں نہ بھی آئیں۔ فرمایا کہ ’’وہ جاہل ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ سب اعمال ان کے مردہ ہیں ان میں روح اور جان نہیں اور وہ آ نہیں سکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ پیوند نہ کریں اور اس سے وہ سیراب کرنے والا پانی حاصل نہ کریں۔ تقویٰ اس وقت کہاں ہے؟ رسم و عادت کے طور پر مومن کہلانا کچھ فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ خدا کو دیکھا نہ جائے اور خدا کو دیکھنے کے لیے اَور کوئی راہ نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 17۔ایڈیشن 1984ء)

پس اس زمانے میں یہ راہ جو خدا تعالیٰ تک لے جائے مسیح موعودؑ کے ساتھ جڑنے سے ہی ملتی ہے۔ میں کچھ واقعات بیان کروں گا جس سے پتہ چلے گا کہ آپؑ کی جماعت میں آنے کے لیے کس طرح اللہ تعالیٰ نے رہ نمائی فرمائی ہے اور(جماعت میں) شامل ہو کر کس طرح ایمانوں کو ترقی دینے کے لیے نشانات دکھائے ہیں۔ یا کس طرح مخالفین کے سر اللہ تعالیٰ نیچے کرتا ہے۔ ایک اور اقتباس پہلے پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت میں حق سے محبت اور اہل حق کی عظمت ہوتی ہے جس کی فطرت سلیم ہے وہ دور سے اس خوشبو کو جو سچائی کی میرے ساتھ ہے سونگھتا ہے اور اسی کشش کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کو عطا کرتا ہے میری طرف اس طرح کھنچے چلے آتے ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف جاتا ہے لیکن جس کی فطرت میں سلامت روی نہیں ہے اور جو مردہ طبیعت کے ہیں ان کو میری باتیں سود مند نہیں معلوم ہوتی ہیں وہ ابتلا میں پڑتے ہیں اور انکار پر انکار اور تکذیب پر تکذیب کر کے اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔‘‘ فرمایا ’’میری مخالفت کرنے والے کیا نفع اٹھائیں گے؟ کیا مجھ سے پہلے آنے والے صادقوں کی مخالفت کرنے والوں نے کوئی فائدہ کبھی اٹھایا ہے؟ اگر وہ نامراد اور خاسر رہ کر اس دنیا سے اٹھے ہیں تو میرا مخالف اپنے ایسے ہی انجام سے ڈر جاوے کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں میرا انکار اچھے ثمرات نہیں پیدا کرے گا۔ مبارک وہی ہیں جو انکار کی لعنت سے بچتے ہیں اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہیں۔ جو حسن ظنی سے کام لیتے ہیں ا ور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کا ایمان ان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ برومند کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صادق کی شناخت کے لیے بہت مشکلات نہیں ہیں۔ ہر ایک آدمی اگر انصاف اور عقل کو ہاتھ سے نہ دے اور خدا کا خوف مدّنظر رکھ کر صادق کو پرکھے تو وہ غلطی سے بچا لیا جاتا ہے لیکن جو تکبر کرتا ہے اور آیات اللہ کی تکذیب اور ہنسی کرتا ہے اس کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 12-13۔ایڈیشن 1984ء)

خوش نصیب ہیں وہ بیعت کرنے والے جو بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اپنے تجربات بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی رہ نمائی فرمائی۔ جیسا کہ میں نے کہا میں چند واقعات ان کے پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ اپنی بات پوری کرنے کے لیے کہ یہ لوگ اس نور کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کرے گا، اسے پورا کرے گا اور کوئی نہیں اس کو روک سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پورا کرنے کے لیے کس طرح لوگوں کی رہ نمائی کرتا ہے۔اس بارے میں مالی کے ایک دوست محمد کونے صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جماعت کے ریڈیو کو سنا اور جو لوگ جماعت کے خلاف بولتے ہیں ان کی بھی باتیں سنیں اس کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں سیدھی راہ دکھائے اور اس کے بعد انہوں نے خواب میں ایک بزرگ دیکھے جو کہہ رہے تھے کہ ہر بندہ احمدیت میں آئے گا خواہ ابھی آئے یا بعد میں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے فعال رکن ہیں۔

اسی طرح مالی کے ہی ایک دوسرے ریجن کاسیلا (Kassela) کے ایک دوست عثمان فانے صاحب ہیں جن کی عمر اسّی سال ہے۔ کہتے ہیں پہلے وہ مسلمان تھے پھر مولویوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے اسلام کو چھوڑ دیا۔ ان مولویوں نے اسلام میں کیا لے کر آنا ہے۔ ان کے کردار کو دیکھتے ہوئے مسلمان نے بھی اسلام کو چھوڑ دیا اور وہ مشرک ہو گئے۔ شہر سے باہر کھیتوں میں جا کے بتوں کی پوجا کرنے کے لیے انہوں نے لکڑیوں کا گھر بنا لیا پھر چند روز بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص سادہ لباس میں امام مہدی علیہ السلام کی آمد پر تقریر کر رہا ہے۔ اس خواب کے بعد انہوں نے جماعت احمدیہ کا ریڈیو سننا شروع کر دیا۔ دوبارہ اسلام سے محبت شروع ہو گئی اور انہوں نے بتوں کی پوجا کرنے کے لیے جو گھر بنایا تھا اس کا بھی یہ حال ہوا کہ اس دوران میں اسے بھی ایک پاگل نے توڑ دیا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ گھر ٹوٹ گیا تو مجھے اپنی خواب یاد آئی جس میں آمد امام مہدی علیہ السلام کا ذکر تھا اور میں نے خیال کیا کہ جو گھر میں نے بتوں کی پوجا کے لیے بنایا تھا وہ تو ٹوٹ گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہے۔ عقل مند انسان تھے اس لیے کہتے ہیں اب جب میں نے احمدیت کا سنا اور مطالعہ کیا تومَیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوتا ہوں۔ انہوں نے بیعت کی اور باقاعدگی سے مالی قربانیاں بھی شروع کر دیں۔ پس نیک فطرت جو دور دراز کے علاقے میں رہنے والےہیں، بوڑھے بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام بخیر کرنا تھا اس لیے ان کو خود ہی اس طرف رہ نمائی فرمائی اور ان کو دوبارہ توحید پر واپس لے آیا۔

پھر آئیوری کوسٹ سے بندوکو ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں شہر کی صدر لجنہ میگا آمیناتا صاحبہ ہیں۔ ایک نیک خاتون ہیں۔ ان کے خاوند نہ صرف غیر احمدی تھے بلکہ جماعت کے مخالف بھی تھے۔ ایک طرف جماعت کی شدید مخالفت کرتے تھے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے تھے کہ جماعت کے ساتھ جڑ کے میری اہلیہ کا رویہ بہت اچھا ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ صدر صاحبہ نے بڑی دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا دل پھیرے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے بھی کہا۔ میں نے بھی ان کے خاوند کو تبلیغ شروع کی۔ یہ جو خاتون ہیں وہاں کی صدر بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی کسی نیکی کی وجہ سے ہدایت دینا چاہتا تھا تو ان کے خاوند خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میری اہلیہ ایک سفر پر جا رہے ہیں۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے ہیں کہ پولیس چوکی آتی ہے جہاں پولیس والے ہم سے کاغذات چیکنگ کے لیے مانگتے ہیں۔ میری اہلیہ کے پاس کاغذات ہوتے ہیں جبکہ میرے پاس نہیں ہوتے اور وہ مجھے اتار دیتے ہیں اور میری اہلیہ کو جانے دیتے ہیں۔ اس خواب کے بعد میں نے خاص طور پر احمدیت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور تحقیق بھی شروع کر دی۔ کہتے ہیں پھر میں نے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ کھیتوں سے واپس گھر پہنچا ہوں تو میرا کمرہ بند ہے جبکہ مبلغ صاحب کمرے میں موجود ہیں اور کمرے کو نئی ترتیب دے رہے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد مبلغ کمرے سے باہر نکلے اور میرے ہاتھ میں چابی دے دی اور کہا کہ اب چونکہ تم ایک نئی اور صاف زندگی شروع کرنے لگے ہو اس لیے ہر چیز میں تبدیلی لانا ضروری تھی لہٰذا کہتے ہیں میں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں کہ کمرے میں تقریباً ہر چیز نئی ہے اور صاف ستھری پڑی ہے اور کمرے میں نور ہی نور ہے۔ کہتے ہیں اسی روز میں نے احمدیت میں شامل ہونے کا پختہ ارادہ کر لیا اور پھر بیعت بھی کر لی۔ پہلے صرف سوچا تھا پھر بیعت بھی کر لی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مخلص اور فعال احمدی ہیں۔

پھر تنزانیہ کے ایک معلم بیان کرتے ہیں کہ ایک خاندان میں ایک نیک فطرت خاتون سبیرا (Subira) صاحبہ ہیں ان کے والد بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ نے دوسری شادی کر لی۔ ان کے سوتیلے والد شراب بنا کر بیچتے تھے اور یہ ان کی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ بعد میں ان کا شراب کی دکان میں مقررہ حصہ بھی تھا۔ ایک دن وہ جماعت کے ایک بک سٹال کے سامنے سے گزریں تو انہوں نے جماعتی کتب دیکھ کر کچھ سوالات کیے اور جماعت احمدیہ کے بارے میں پوچھا۔ جوابات ملنے پر انہوں نے کہا کہ اگر اسلام یہ ہے تو مَیں تو بہت بھٹکی ہوئی ہوں۔ میں اسلام احمدیت میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔ انہیں بیعت فارم دیا گیا تا کہ گھر جا کر اس پر غور کریں۔ بیعت فارم پڑھنے کے بعد اگلے دن ہی شراب بنانے کا سارا سامان انہوں نے اپنے والدین کے حوالے کر دیااور کہا اب اس کام سے میرا کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ سب کچھ آپ لے لیں۔ میں اصل اسلام میں داخل ہونا چاہتی ہوں اور اس طرح انہوں نے بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور دوسرے ذرائع سے انہوں نے اپنا گزارہ کرنا شروع کیا۔

سینیگال سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ٹبگوری (Tabghori) ایک گاؤں ہے وہاں کی ایک خاتون میمونہ صاحبہ ہیں۔ جب ریڈیو سے احمدیت کا پیغام سنا تو بڑی مشکل سے مشن ہاؤس کا پتہ کر کے مشن پہنچیں اور کہا کہ میں احمدیت میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔ میرا خاوند اس بات سے خوش نہیں ہے اور نہ وہ احمدیت میں داخل ہونا چاہتا ہے مگر میں نے احمدیت کو ہی حقیقی اسلام پایا ہے اور میں اپنی ساری اولاد کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوتی ہوں اور ساتھ ہی ہر ماہ اپنا اور اپنے بچوں کاچندہ دینے کا بھی وعدہ کیا۔ شامل ہونے کے دن سے بلا مطالبہ خود ہی یہ ہر ماہ خود بھی اور اپنے بچوں کا بھی چندہ دیتی ہیں اور جو ان کی معاشی حالت ہے اس سے بہت بڑھ کر دیتی ہیں۔

پھر بینن سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک علاقہ ٹگنیٹی (Tigniti)ہے جہاں ایک گھرانہ احمدی ہوا۔کہتے ہیں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اس سال وہاں جماعت کا پیغام پہنچا۔ان احباب سے رابطہ رکھا گیا۔ ان کو تفصیل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور آپ علیہ السلام کے نبی اللہ ہونے کا بتایا گیا۔ اس گھرانے کے سربراہ نے تمام تفصیل سننے کے بعد اس بات کا اقرار کیا کہ وہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور ان کا گھرانہ بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ مزید انہوں نے اپنے دو بیٹوں کو مشن ہاؤس بھیجا تا کہ وہ قرآن کریم پڑھیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے ایک سال نہیں گزرا کہ اب ان کا بڑا بیٹا قرآن شریف پڑھ سکتا ہے۔ نمازیں اور جمعہ بھی پڑھا سکتا ہے۔ وصیت کے نظام میں بھی شامل ہو چکا ہے اور باقاعدہ سے چندوں کی ادائیگی کر رہا ہے اور جو میرے خطبات ہیں ان کو باقاعدگی سے سنتا ہے اور یہ بھی اس کی خواہش ہے کہ جامعہ احمدیہ میں داخل ہو کر جماعت کی خدمت کرے۔ یہ روحانی تبدیلی ہے جو آنے والوں میں پیدا ہو رہی ہے۔ یہ کون پیدا کر رہا ہے؟ یہ خدا تعالیٰ پیدا کر رہا ہے۔ کسی انسان کی کوشش نہیں ہے۔

میکسیکو کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک خاتون ارمہ (Irma) صاحبہ ہیں۔ ایک بک فیئر سے جماعت کا تعارف ہوا۔ وہ جماعت کے سٹال دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد وہ آج کافی عرصے کے بعد گھر سے دعا کر کے نکلی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے۔ چنانچہ میں آپ کے بک سٹال پر آ گئی ہوں۔ اس کے بعد دو جماعتی پروگراموں میں بھی شامل ہوئیں اور دو ماہ بعد پھر بیعت بھی کر لی۔ اب جب بھی مسجد آتی ہیں تو ہر دفعہ بے شک تھوڑی سی رقم ہی کیوں نہ ہو چندہ ضرور دیتی ہیں۔ اسی طرح بیعت سے قبل ہی انہوں نے قرآن کریم بھی خرید لیا جسے وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہیںا ور ہر وقت پڑھتی رہتی ہیں اور اب ان کو قرآن کریم سے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ کہتی ہیں یہ میرا خزانہ ہے۔ جب کبھی انہیں موقع ملے کسی پروگرام میں کوئی دنیاوی باتیں شروع ہو جائیں تو وہ فوراً قرآن کریم نکال کے پڑھنے لگ جاتی ہیں۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ ان کا قرآن کریم سے محبت اور لگاؤ کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ جمعے پر آئیں اور حسب معمول قرآن کریم ان کے ساتھ تھا۔ جمعے کی ادائیگی کے بعد گھر جاتے ہوئے وہ اپنا قرآن جو تھا بُک سٹینڈ پے بھول گئیں۔ یاد آنے پر واپس آئیں اور مربی صاحب کو فون کیا۔ میسیجز کیے لیکن مربی صاحب نے مصروفیت کی وجہ سے نہ فون اٹھایا نہ میسجز دیکھے۔ ایک گھنٹے کے بعد جب مربی صاحب نے میسج دیکھا تو جلدی سے مسجد کا دروازہ کھولا۔ موصوفہ مسجد کے دروازے پر دھوپ میں کھڑی مربی کا انتظار کر رہی تھیں۔ کہنے لگیں کہ میں نے آپ کو تنگ کیا ہے اس کے لیے معذرت ہے لیکن قرآن کریم کے بغیر گھر نہیں جا سکتی۔ میں اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ایسی ایسی عورتیں اب اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا فرما رہا ہے جن کی قرآن کریم سے محبت کا یہ حال ہے اور یہ ہماری پرانی عورتوں کے لیے بھی سبق ہے۔

بینن بوہیکوں ریجن کے لوکل مشنری کہتے ہیں کہ ایک روز ریڈیو تبلیغ کے بعد ایک صاحب اجافوں آگستن صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ میں ایک عرصے سے جماعت کی تبلیغ سن رہا ہوں اور میں ملنے کا خواہش مند ہوں۔ چنانچہ خاکسار ان کے گھر چلا گیا۔ انہوں نے بعض سوالات لکھ رکھے تھے۔ جن کے تسلی بخش جوابات ان کو دیے گئے تو انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی اور جماعت میں داخل ہو گئے۔ کہتے ہیں کچھ روز کے بعد مَیں کچھ کتب بھی اپنے ہمراہ ان کے لیے لے گیا اور یہ کتب پڑھنے کے بعد مجھے دوبارہ ملے اور کہنے لگے کہ جماعت کی سچائی مجھ پر روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے اور میں نے اپنی دلی خواہش سے یہ وصیت کی ہے کہ میرے گھر کے سامنے والی زمین (جو ان کی زمین تھی) جماعت کے لیے وقف ہے اور جماعت جیسے چاہے اس زمین کا استعمال کرے اور انہوں نے بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کی ہے۔

لائبیریا افریقہ کا ایک اَور ملک ہے۔ وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ تبلیغ کی غرض سے وارفلے (Warflay) جانے کا پروگرام بنا۔ وہاں کے لوکل افراد نے کافی اہتمام سے اسلام کا پیغام سنا۔ سب نے بیعت کر کے احمدیہ مسلم جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا اور یہاں نئی جماعت قائم ہوئی۔ سب نے یک زبان ہو کر جماعت سے درخواست کی کہ ہمارے پورے گاؤں میں سے کسی کوقرآن پڑھنا نہیں آتا۔ یہ چھوٹی سی مسجد خدا کی عبادت کرنے کے لیے بنا رکھی ہے مگر کسی کو مکمل نماز بھی یاد نہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ تھا۔ مسجد بھی چھوٹی سی بنائی ہوئی تھی لیکن نماز نہ کسی کو پڑھنی آتی نہ پڑھانی آتی۔ لہٰذا جماعت اگر مناسب سمجھے تو ہمیں قرآن اور صلوٰة کی تعلیم دے۔ بے شک اس کے لیے کوئی لوکل مشنری دے دیا جائے۔ ہم اس کو رہنے کے لیے گھر بھی فراہم کریں گے۔ اس پر مربی صاحب نے کہا کہ جونہی گھانا سے مشنری پڑھ کے آئیں گے، وہاں مشنری ٹریننگ کالج گھانا میں ہے، تو وہاں سے آپ کو دے دیا جائے گا۔ بہرحال تحریر کرتے ہیں کہ اگلی صبح اس گاؤں کا جوچیف امام تھا وہ اپنے دو لڑکوں کو لے کر وہاں حاضر ہو گیا اور کہنے لگا کہ میرے یہ دو بیٹے مجھے بہت عزیز ہیں۔ میں ان کو اپنے ساتھ اس لیے لایا ہوں کہ آپ دونوں میں سے جسے مناسب سمجھیں اسلامی تعلیم دلوانے کی غرض سے اپنے پاس رکھ لیں تا کہ گاؤں میں نماز اور قرآن پڑھا کر لوگوں کو بتا سکے کہ اگر کوئی اسلام کی سچی خدمت کر رہا ہے تو وہ احمدیہ مسلم جماعت ہی ہے۔ ان کا ایک بیٹا اس وقت زیرِ تربیت ہے اور امام کا جو ابتدائی کورس ہے وہ اس نے کر لیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جلدی وہ قرآن کریم پڑھنا سیکھ لے گا اور جماعت کو سنبھال لے گا۔

آئیوری کوسٹ کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ گبرگے (Gbegy) گاؤں کے امام حماد صاحب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال قبل انہوں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک سفید رنگ کا انسان اترا ہے اسی طرح ایک اَور خواب میں انہوں نے ایک سیاہ فام بزرگ انسان کو دیکھا جو انہیں ایک فقرہ سکھاتا ہے جو انہیں یاد نہیں رہا۔ یہ سیاہ فام بزرگ ایک مرتبہ پھر خواب میں آئے اور ان سے کہا

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ ان دو خوابوں کے ایک سال کے بعد ان کی مسجد تعمیر ہوئی جس کے دو سال بعد انہوں نے دو مرتبہ خواب میں مسجد پر ’ماشاء اللہ‘ لکھا ہوا دیکھا۔ اسی عرصے میں جماعت کے مقامی مبلغ ان کے پاس تبلیغ کے لیے گئے۔ انہیں جماعت کی تعلیم سے آگاہ کیا اور امام صاحب نے بیعت کر لی۔ جس کے کچھ عرصے بعد امیر جماعت آئیوری کوسٹ وہاں گئے اور جمعہ پڑھایا اور جمعہ پر انہوں نے

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ

کی تلاوت کی۔ گاؤں کے امام صاحب کہتے ہیں کہ یہ آیات سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ خواب میں انہوں نے یہی دیکھا تھا کہ ایک سفید رنگ کا انسان ان ہی آیات کی تلاوت کر رہا تھا۔

نائیجیریا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست راجی صاحب بتاتے ہیں کہ میں ایک لمبے عرصے سے مختلف مسلمان فرقوں میں شامل ہوتا اور پھر ان کی بُری حالتوں اور ان کے عمل کو دیکھ کر بددل ہو جاتا۔ ایک دن ایم ٹی اے پر احمدیوں کا پروگرام دیکھا تو بہت اچھا لگا۔ لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ پتہ نہیں یہ لوگ کیسے ہیں؟ یہ کہیں دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ کہتے ہیں میں نے ایم ٹی اے کے پروگرام اور میرے خلیفۂ وقت کے جو جمعے کے خطبات تھے وہ باقاعدہ دیکھنے شروع کر دیے اور ساتھ استخارہ بھی کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ میری رہ نمائی کرے۔ چنانچہ چند دن کے استخارے سے میری دلچسپی خطبات کی طرف بڑھنے لگی اور کہتے ہیں میں نے یہی حقیقی اسلام پایا اور خلیفۂ وقت کے خطبات کے ذریعہ سے ہی مجھے پتہ لگ گیا کہ یہ حقیقی اسلام ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور پیروی اسی میں پائی جاتی ہے اور آج میں بیعت کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔

مالی کے ریجن کولی کورو کے ایک ممبر جیالو صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان سے کہا تھا کہ جب دجال کا ظہور ہو گا تو اس وقت امام مہدی بھی آئیں گے اور تم ان کی لازمی بیعت کرنا۔ اس کے بعد ان کے والد صاحب کی وفات ہو گئی اور یہ اپنے کاموں میں مصروف رہے۔ پھر ایک وقت میں انہوں نے دوبارہ سے تمام اسلامی فرقوں پر غور کرنا شروع کیا اور ہر ایک کی مسجد اور امام سے مل کر معلومات حاصل کرتے۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے گھر بیٹھے ریڈیو لگایا اور وہ جماعتی ریڈیو ‘نور ایف ایم’ تھا جس پر مبلغ کی امام مہدی کے ظہور کے متعلق تقریر چل رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ پہلے تو میں نے اس سوچ سے ریڈیو بند کر دیا کہ سنا ہوا تھا کہ یہ احمدی لوگ کافر ہیں۔ یہ کافر ہیں ان کا پیغام نہیں سننا ہے۔ پھر بعد میں مَیں نے سوچا کہ ایک دفعہ ان کو بھی سننا تو چاہیے۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے امام مہدی اور دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق تقریر سنی تو اس کے بعد سے ریڈیو بند نہیں کر پایا اور ساتھ ہی مجھے اپنے والد کی کہی ہوئی بات بھی یاد آ گئی۔ چنانچہ انہوں نے اسی دن اس ریڈیو کا پتہ کیا اور پھر مشن میں آ کر بیعت کر لی۔

مالی کے ایک شہر جیما (Diema)سے تعلق رکھنے والے ایک دوست ہیں شیغنے (Chekhne) صاحب کہتے ہیں میری پیدائش 1962ء میں ہوئی اور میں نے کبھی بھی احمدیت کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ ایک دن میں اپنے گاؤں سے شہر جا رہا تھا کہ راستے میں کچھ دیر کے لیے ایک دکان دار کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس وقت اس کی دکان میں جماعت کا ریڈیو چل رہا تھا۔ جب ریڈیو سنا تو میرے لیے ایک نئی چیز تھی۔ چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا اور سنتا رہا۔ پھر میں نے اس دکان دار سے اجازت مانگی کہ اگر وہ اجازت دے تو میں کچھ دن اس کی دکان میں آ کر یہ ریڈیو سن لیا کروں۔ لہٰذا مسلسل پانچ دن اس دکان پر جا کر جماعتی ریڈیو سنتا رہا اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں احمدیت قبول کر لوں گا۔ اس پر اس دکان دار نے کہاکہ یہ لوگ تو کافر ہیں ان میں نہ جانا لیکن میں نے دل میں سوچا کہ احمدیت قبول کرنے میں تو پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکا ہوں اب مزید دیر نہیں کرنی چنانچہ وہ شہر میںآئے اور مشن کا پتہ کر کے وہاں بیعت کر لی۔

مالی سے ہمارے مبلغ عمر معاذ صاحب لکھتے ہیں کہ مالی شہر کے ایک عمر رسیدہ امام الحاج بیر سودیہ ہیں جو جیما شہر میں تیس سال اور ایک اور گاؤں میں پینتالیس سال سے امامت کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر سو سال کے قریب ہے۔ وہ ہمارے ایف ایم ریڈیو پر جماعتی پروگرام باقاعدگی سے سنتے ہیں۔ ایک دن وہ اپنے گاؤں سے جیما مشن ہاؤس تشریف لائے اور سب لوگوں کے سامنے بتایا کہ امام مہدی سچے ہیں اور میں بیعت کر کے امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوتا ہوں۔ کہنے لگے کہ میں نے حج کیا ہوا ہے اور میں پچہتر (75)سال سے امام ہوں۔ تعلیم یافتہ ہوں اور قوم سیراکولے (Serakole) سے تعلق رکھتا ہوں۔ کہنے لگے حقیقت یہی ہے کہ امام مہدی تشریف لا چکے ہیں اور یہی ان کی جماعت ہے۔ کہنے لگے کہ میری عمر اس وقت سو سال کے قریب ہے۔ خدا تعالیٰ نے میری زندگی میں مجھے سب کچھ دیا ہے لیکن حق حق ہی رہتا ہے اس لیے میں کوشش کر کے یہاں پہنچا ہوں ورنہ یہاں جس جگہ وہ آئے تھے میرا کوئی جاننے والا نہیں ہے صرف امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق اور صداقت کے لیے اور امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور یہ تمام باتیں انہوں نے اپنی زبان سیرا کولے میں ریڈیو کے اوپر لائیو بیان بھی کیں۔ تو یہ نہیں کہ اپنے آپ کو چھپا کے رکھا بلکہ کھل کے بتایا۔ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے طریقے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کرواتا ہے۔

پھر احمد آباد انڈیا سے ہمارے مبلغ کہتے ہیں وہاں بک فیئر کے موقع پر ایک صاحب محمد سعید صاحب ہمارے سٹال پر آئے، ان سے تبادلہ خیال ہوا۔جماعتی عقائد کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ احمدیت کے بارے میں کافی علم رکھتے ہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کسی فرد کی طرف سے احمدیت کا پیغام ان کو نہیں ملا لیکن ایم ٹی اے سے لمبے عرصے سے ان کا تعارف تھا اور ایم ٹی اے پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے سوال و جواب کی جو مجالس تھیں ان کو سن سن کے ان کو پوری تسلی ہو گئی تھی اور کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کو سچی تسلیم کرتا ہوں اور میرے دل میں یہ تڑپ تھی کہ کبھی کوئی احمدی ملے تو میں اس سے مل کے جماعت میں شامل ہو جاؤں اور بیعت کر کے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ماننے والا بن جاؤں۔ لہٰذا اس بک فیئر کے موقع پر ملاقات ہو گئی ہے اور پھر انہوں نے مشن ہاؤس آ کے بیعت کر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص سے اس پر قائم ہیں۔

انڈونیشیا سے مبلغ محمد احمد صاحب لکھتے ہیں کہ سات مہینے کے عرصے میں میری جماعت میں نئی بیعت کوئی نہیں ہوئی تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔اس مبارک مہینے میں مَیں نے بہت دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی راستہ دکھا دے جس کے ذریعے سے یہاں پر نئی بیعت ہو جائے۔ کہتے ہیں ایک دن مجھے یاد آیا کہ چار مہینے پہلے کسی مبلغ نے مجھے ایک غیر احمدی دوست کا فون نمبر دیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ جماعت کے بارے میں کچھ معلومات جاننا چاہتا ہے۔ ان کا گھر میری جماعت سے قریب ہی تھا۔ کہتے ہیں میں نے وٹس ایپ کے ذریعہ سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چند دنوں کے بعد ان کی طرف سے پیغام آیا اور وٹس ایپ پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ گفتگو کے آخر پر انہوں نے مشن ہاؤس کا پتہ دریافت کیا اور چند روز کے بعد وہ مشن ہاؤس آئے اور بیعت کی اہمیت اور امام زمان پر ایمان لانے کی ضرورت اور مالی قربانی وغیرہ کے بارے میں طویل گفتگو ہوئی۔ ان پر احمدیت کی صداقت واضح ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اس سال جون میں بیعت کر لی۔

پھر مبلغ انچارج بیلیز لکھتے ہیں کہ ایک خاتون خدیجہ صاحبہ نے بیلیز میں سب سے پہلے بیعت کی تھی اور ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو احمدیت کا تعارف ہوا اور کئی لوگ جماعت میں داخل بھی ہوئے۔ آج کل وہ لجنہ کی سیکرٹری تبلیغ کے طور پر خدمت انجام دے رہی ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ جہاں بھی جاتی ہیں لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جنوری 2019ء میں جلسہ بیلیز سے چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ وہ گاڑی ڈرائیو کر کے کسی ممبر کو پِک کرنے جا رہی تھیں کہ غلطی سے کسی دوسری گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ کسی گھر کے سامنے پارک ہوئی گاڑی تھی جس سے ان کی گاڑی جا کے لگ گئی۔ گاڑی کی مالکہ کارلا (Carla)صاحبہ باہر آئیں تو خدیجہ صاحبہ نے مالکہ سے معذرت کی اور کہا کہ بہتر ہے کہ ہم پولیس کو اطلاع کر دیں۔ انہوں نے کارلا صاحبہ کو جماعت کا تعارف بھی کروایا اور اس دوران میں جلسہ بیلیز میں آنے کی دعوت بھی دی جو ہونے والا تھا۔ چند دن بعد کارلا صاحبہ جلسے پہ آئیں اور جلسے کے بعد بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ جماعت میں کیوں شامل ہوئی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں کچھ عرصے سے آپ لوگوں کے بارے میں میڈیا پر سن رہی تھی اور خواہش رکھتی تھی کہ میں بھی تمہارے ساتھ مل جاؤں لیکن میں کسی احمدی کو جانتی نہیں تھی لیکن اس دن جب ایکسیڈنٹ ہوا تو ایسا لگا کہ خدا تعالیٰ تم لوگوں کو خود میرے پاس لے آیا ہے۔ جلسے میں شامل ہو کر مجھے مزید تسلی ہو گئی کہ یہ مذہب میرے لیے ہے اور میں نے بیعت کر لی۔ اس طرح خود اللہ تعالیٰ دروازے کھولتا ہے۔

مراکش کے ایک عبداللہ صاحب ہیں کہتے ہیں مجھے اپنی منگیتر کے والد اور ان کے ہمسائے کی طرف سے مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ جماعت پہ الزام لگاتے تھے کہ یہ ایک گمراہ جماعت ہے۔ میرے ہونے والے سسر پڑھے لکھے نہیں ہیں اور میری منگیتر نے اس الزام کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ میں نے اس کے بعض سوالوں کے جواب بتائے تھے اور وہ بات کو سمجھ گئی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے شادی کی بات ختم کرنے کے بارے میں سوچا۔ کہتے ہیں لیکن آج اس نے فون کیا حالانکہ میں نے اسے کوئی کچھ نہیں کہا تھا۔ جواب نہیں دینا چاہتا تھا، مجھے بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ اس نے مہندی لگائی ہے اور سبز رنگ کا مراکشی چوغہ پہنا ہے۔ ایسے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ایک کتاب دی جس میں اتنا نور ہے کہ اس مکتوب میں جو کچھ ہے، جو کچھ بھی لکھا ہوا ہے وہ اس تیز نور کی وجہ سے پڑھا نہیں جاتا۔ حضور کا چہرہ مبارک بڑا منور تھا۔ کہتے ہیں حضور علیہ السلام نے خاکسار کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ پھر میری منگیتر کے کندھے پر ہاتھ پھیرا اور تشریف لے گئے۔ اب میری منگیتر بڑی خوشی اور شرح صدر سے کہتی ہے کہ اس کی تسلی ہو گئی ہے اور امام الزمان پر ایمان لاتی ہے۔ اسے بڑی شدت سے بیعت فارم پُر کرنے کا انتظار ہے۔

پھر مصر سے ایک دوست احمد صاحب ہیں۔ کہتے ہیں بیعت سے سات سال قبل خواب میں ایک نوجوان کو انڈین لباس میں ملبوس دیکھا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ یہ امام مہدی ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ امام مہدی تو اہل بیت میں سے ہونا چاہیے۔ یہ انڈین کیسے امام مہدی ہو گیا۔ پھر اچانک میں نے اس شخص کو گلے لگا لیا اور رونے لگا۔ بیدار ہونے پر اہلیہ کو خواب سنایا۔ پھر اس کے سات دن بعد مجھے ایم ٹی اے العربیہ مل گیا اور میں اور اہلیہ چھ سال ایم ٹی اے دیکھتے رہے اور آخر بیعت کر کے مومنین کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ بیعت کے بعد میں نے اپنی شخصیت میں نمایاں تبدیلی محسوس کی۔ میں وہ نہ رہا جو بیعت سے پہلے تھا۔ قرآن کریم کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرتا ہوں۔ لوگوں سے بڑے حلم اور بردباری اور نرمی سے معاملہ کرتا ہوں۔ میرے اس سلوک کی وجہ سے لوگ بھی مجھ سے خوش ہیں لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے حتیٰ کہ میرے والد صاحب نے بھی میرے اندر اخلاقی تبدیلی دیکھ کر کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیشہ اسی جماعت سے چمٹے رہو تاہم ہمیں قائل کرنے کی کوشش نہ کرنا وہ یہ نہیں چاہتے۔کہتے ہیں کہ یہ نہیں جانتے کہ میرے اندر یہ ساری تبدیلی اس امام کی پیروی کی برکت سے ہی ہے۔ بہرحال اب کہتے ہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے ثبات قدم عطا فرمائے۔

فرانس کی مومنی نجیبہ صاحبہ ہیںکہتی ہیں دو سال پہلے ایم ٹی اے کے ذریعے سے تعارف ہوا تو میری بہن نے بیعت کر لی لیکن میں نے بیعت نہیں کی تھی۔ اس وقت ہم سب گھر والے کہتے تھے کہ یہ جماعت جھوٹی ہے لیکن پھر درج ذیل خوابوں کے بعد میں نے بیعت بھی کر لی۔ کہتی ہیں جب میری یہ بہن جلسہ یوکے پر گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جھوٹی جماعت کے ساتھ ہوں اور میں گھر والوں سے کہتی ہوں کہ میں اس جماعت کا کذب ثابت کروں گی۔ خواب میں ہی قرآن کریم دیکھتی ہوں اور کہتی ہوں کہ ٹھہریں میں ابھی آپ کو دکھاتی ہوں۔ پھر مَیں صفحات الٹنے لگتی ہوں لیکن سارے صفحات نے مجھے ہی جھٹلایا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس جماعت کا سچ دکھایا جس کا جھوٹ میں ثابت کرنا چاہتی تھی۔ کہتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں۔ اور جماعتی تفاسیر بہت عمدہ ہیں کیونکہ ایسی اعلیٰ تفسیر خدا تعالیٰ ہی سکھا سکتا ہے۔ قبل ازیں میں ایک مصری شیخ عبدالحمید اور بعض اَور عرب علماء کی تفسیر پسند کرتی تھی لیکن جماعتی تفسیر جیسی میں نے کوئی تفسیر نہیں دیکھی۔ پھر کہتی ہیں میرا دوسرا خواب یہ ہے کہ میرا بڑا بیٹا مجھے پریشان کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے عصر کے وقت میں روتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے ذرا لیٹی تو دیکھا کہ میں نماز پڑھ رہی ہوں اور جب سجدہ کرتی ہوں تو کہتی ہیں انہوں نے بار بار مجھے دیکھا کہ آپ سامنے آ جاتے ہیں۔ اس پر میں نے بیعت کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کہتی ہیں میں بڑی خوش قسمت ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس منظم جماعت سے خود متعارف کروایا۔

پھر مبلغ انچارج ہیٹی پہلی مسجد کی تعمیر کی رپورٹ بھجواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 2016ء میں یہاں ایک گاؤں بوشاں (Beauchamps) میں پہلی دفعہ احمدیت کا پودا لگا اور سات احباب کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی جن میں وہاں کے ایک لوکل غیر احمدی سنی مسجد کے امام عبدالسلام بھی شامل تھے۔ غیر احمدیوں کا یہ نماز سینٹر ہیٹی میں یواین او (UNO)امن مشن کے تحت موجود پاکستانی آرمی نے لوکل مسلمانوں کو کرائے پر لے کر دیا ہوا تھا۔ پاکستانی آرمی وہاں گئی ہوئی تھی۔ جب ان پاکستانی فوجیوں کو اس بات کا علم ہوا جو وہاں گئے ہوئے تھے ان میں سے کوئی متعصب قسم کا ہوگا کہتے ہیں کہ لوکل امام دوسرے مسلمانوں کو لے کے احمدی ہو گیا ہے تو پہلے تو انہوں نے اس کو سمجھایا کہ احمدیت کو چھوڑو۔ ڈرایا دھمکایا لیکن یہ سب نومبائعین جو تھے وہ ثابت قدم رہے۔ اس پر فوجیوں نے ان کو نماز سینٹر سے نکال دیا۔ جماعت نے وہاں دو کمرے کا ایک مکان کرائے پر لے کر نماز سینٹر بنا لیا۔ پھریہاں مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا گیا۔ اس پر یو این او (UNO)والوں نے خود ان فوجیوں اور لوکل غیر احمدیوں سے مل کر ایک جگہ خرید کر مسجد بنا دی اور ایک دوسرے شہر سے آدمی بلا کر امام مقرر کر دیا۔ اسی دوران جماعت نے بھی وہاں مسجد تعمیر کی اور مسجد کی تعمیر کے لیے ایک پلاٹ خرید لیا۔ مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دوسرے جتنے بھی غیر احمدی مسلمان تھے انہوں نے بھی احمدیت قبول کرلی۔اس طرح اس گاؤں بوشاں میں چھیالیس احباب کی جماعت قائم ہو گئی اور ان یو این او (UNO)والوں کی طرف سے مقررہ امام جو انہوں نے باہر سے لا کے (مقرر) کیا تھا وہ بھی مسجد کی چابیاں لے کر وہاں سے دوڑ گیا اور اب وہاں کوئی بھی نمازی نہیں۔

امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہمیں یہاں کی کیانگ سینٹرل ڈسٹرکٹ (Kiang Central District) کے یوروجولا (Yoro Jola)گاؤں میں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد سے گاؤں میں ملاں آ رہے ہیں اور احمدیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں اور اس مسجد سے الگ ہو جائیں کیونکہ احمدی غیر مسلم ہیں اور اگر ان میں سے کوئی فوت ہو گیا تو اسے دفنانے نہیں دیا جائے گا۔ ایک ناخواندہ اَن پڑھ احمدی خاتون نے ملاؤں سے پوچھا کہ کیا احمدی اس مسجد میں اپنی نمازوں میں قرآن مجید کی سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے ؟ اگر کوئی فرق نہیں ہے تو پھر ہم کیوں احمدیت کو چھوڑیں اور کیوں احمدیوں کی مسجد کو چھوڑیں۔ ہم احمدی ہیں اور احمدی رہیں گے جو تم نے کرنا ہے کر لو اور اس طرح ان کو دوڑا دیا۔

امیر صاحب کانگو بیان کرتے ہیںکہ اس سال بگاٹا (Bagata) شہر میں جماعتی سینٹر قائم کیا گیا۔ جماعت کی تنظیم اور تعلیمات کو دیکھتے ہوئے اکثر مسلمانوں نے احمدیت قبول کر لی جس کی وجہ سے وہاں جماعت کی شدید مخالفت شروع ہو گئی اور ہمارے معلمین کو دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ نیز حکومتی اداروں میں بھی جھوٹی رپورٹس کی گئیں۔ نومبائعین کو احمدیت ترک کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے اس مخالفت کے باوجود سب ثابت قدم ہیں اور وہ ان مخالفین کو جواب دیتے ہیں کہ ہم سالہا سال سے مسلمان تھے تم لوگ کبھی ہمارے پاس نہیں آئے۔ آج جب جماعت احمدیہ ہمیں حقیقی اسلام سکھا رہی ہے تو تم نے مخالفت شروع کر دی ہے۔ اب تو ہم احمدی مسلمان ہیں اور ان شاء اللہ اس پر قائم رہیں گے۔

بیننسے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوکل پاراکو کے مبلغ نے بتایا کہ وہاں کے ایک ریجن کے ایک صاحب رحمان صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے جب احمدیت قبول کی تو میں بہت غریب تھا۔ صرف دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی۔ مولویوں نے بہت مخالفت کی مگر میں اپنے خاندان کے ساتھ احمدیت پر قائم رہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی وجہ سے ایسی چندے کی عادت پڑی خواہ تھوڑا خواہ زیادہ ہر ماہ باقاعدگی سے چندہ دیتا ہوں۔ اب میرے کھیت پہلے سے زیادہ پیداوار دیتے ہیں اور اب میرے پاس موٹر سائیکل بھی ہے اور گھر بھی پختہ ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدیت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمائے ہیں۔

پھر مخالفین کی جو مخالفتیں ہیں ان کے ذریعہ سے بعض بیعتیں تو ہر جگہ ہی نظر آتی ہیں۔ ایک دو اَور واقعات ہیں۔ مالی کے ریجن کولی کورو کے ایک گاؤں میں عبدالسلام صاحب ہیں وہ بتاتے ہیں کہ پہلی دفعہ ان کو جماعت کا تعارف ریڈیو سے ہوا۔ تب وہ کسی احمدی کے گھر میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنا ذاتی ریڈیو خریدا اور اس دن سے لے کر آج تک انہوں نے کبھی جماعت کے ریڈیو کے علاوہ کوئی ریڈیو نہیں سنا اور کہا کہ وہ ریڈیو کے تمام پروگرام نہایت انہماک سے سنتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے گاؤں میں جماعت کافی مضبوط ہو چکی ہے۔ گذشتہ سال گاؤں کے امام نے دوسرے مولویوں کے کہنے پر مخالفت شروع کر دی اور احمدیوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا۔ اس پر ساتھ ہی گاؤں کے ایک احمدی نے جن کا اس قصبے میں پلاٹ تھا فوری طور پر جماعت کے نام یہ پلاٹ کر دیا۔ اس پر جماعت نے اپنی مدد آپ کے تحت چار دیواری تعمیر کی اور اس کے کھلے صحن میں نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں۔ اس مخالفت کے بعد گاؤں کے چیف اور علاقے کے میئر اور ان کے نائبین اور چند فیملیز کے 210 افراد نے احمدیت قبول کر لی۔ مولوی تو وہاں مخالفت کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ علاقے کے چیف اور میئر نے بھی احمدیت قبول کر لی اور وہاں اس سال جماعت اپنی مسجد تعمیر کر رہی ہے اور جو اس مولوی کے پیچھے مخالفت کرنے والے تھے ان میں سے بھی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہو چکی ہے۔

پھر لائبیریا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ تبلیغی دورے کے دوران کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کے ایک گاؤں ماکانڈور (Makandor) پہنچے اور تبلیغی پروگرام منعقد کیا۔ جس میں ان کو جماعت احمدیہ کا تعارف، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف اور بعثت کی غرض بتائی گئی اور سوالات کے جوابات دیے گئے۔ پروگرام کے اختتام پر گاؤں کے امام فواد کمارا صاحب نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل یہاں شیعہ فرقہ کے لوگ آئے تھے جنہوں نے احمدیوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسیؓن کو شہید کیا تھا۔ کیونکہ گاؤں کے رہنے والے اَن پڑھ ہوتے ہیں تو اس طرح بھی مولوی ان بیچاروں کو غلط طریقے سے تاریخ سے ورغلاتے ہیں کہ احمدیوں نے امام حسنؓ اور امام حسیؓن کو شہید کیا تھا نعوذ باللہ اور ہمیں احمدیوں کے خلاف کیا ہے اور احمدیوں سے بدگمان کر دیا تھا لیکن آج آپ لوگوں نے جماعت احمدیہ کا جو تعارف پیش کیا ہے اسے سن کر ہم افسوس کرتے ہیں کہ ہم نے ان کی بات سنی اور خود کو جماعت سے دور رکھا۔ لیکن آج ہم جماعت احمدیہ سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گاؤں کے تمام 195؍افراد جو تھے ان سب نے بیعت کی اور جماعت میں شامل ہو گئے۔

تو مولویوں کے پراپیگنڈے کا یہ بھی اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جو مکر ہیں کس طرح توڑتا ہے کہ انہی کے مکر ان پر الٹا دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس نور کو پھیلا رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’جب مامور مامور ہو کر آتا ہے تو بے شمار فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور دلوں میں اسی طرح نیک اور پاک خیالات کو پیدا کرتے ہیں جیسے اس سے پہلے شیاطین برے خیالات پیدا کیا کرتے ہیں اور یہ سب مامور کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اسی کے آنے سے یہ تحریکیں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ……

خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہوتا ہے کہ مامور کے زمانہ میں ملائک نازل ہوں۔کیا یہ کام بغیر امداد الٰہی کہیں ہو سکتا ہے؟‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 305۔ایڈیشن 1984ء)

پس اللہ تعالیٰ کی مدد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے اور یہ واقعات جو میں نے سنائے ایسے بے شمار واقعات آتے ہیں ان میں سے چند سنائے۔ یہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔

’’میں بصیرت اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں اور میں وہ قوت اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہوں مگر افسوس میں اس دنیا کے فرزندوں کو کیونکر دکھا سکوں۔‘‘ یہ دنیا والے جو دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں ان کو کیا دکھا سکوں کہ وہ دیکھتے ہی نہیں۔ ’’میں اس دنیا کے فرزندوں کو کیونکر دکھا سکوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے‘‘ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے ’’اور سنتے ہوئے نہیں سنتے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ خدا تعالیٰ سب کی آنکھ کھول دے گا اور میری سچائی روز روشن کی طرح دنیا پر کھل جائے گی لیکن وہ وقت وہ ہو گا کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جاوے گا اور پھر کوئی ایمان سود مند نہ ہو سکے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 12۔ایڈیشن 1984ء)

پس ہم علیٰ وجہ البصیرت اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اور اس نور کو پھیلانے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لیا ہے اور وہ پھیلا رہا ہے۔ مخالفین چاہے جتنی بھی کوشش کرلیں اب کوئی نہیں جو اس ترقی کو روک سکے۔ یہ سلسلہ پھلنا ہے اور پُھولنا ہے اور پھیلنا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اور یہ خدا تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسیح موعودؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے ہمارا یہ بھی کام ہے کہ جہاں ہم اپنی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دیں وہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے اس فیصلے سے فیض پانے کے لیے اور اس سے کچھ حصہ دار بننے کے لیے ہم بھی اپنا حصہ ڈالیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو خود دنیا میں پھیلائے گا اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم تبلیغ کی طرف بھی کچھ توجہ کریں اور اس سے جہاں ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے ہوں گے وہاں دنیا کو بھی صحیح راستہ دکھانے والے بن سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔(دعا)

(دعا کے بعد حضورانور نے فرمایا)

السلام علیکم ورحمة اللہ۔ اس وقت جو حاضری کی رپورٹ ہے وہ بھی سن لیں۔ رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کی جماعت کے افراد کی جو حاضری ہے کُل 1,576 ہے۔ اس میں سے 795 مرد ہیں اور 781 خواتین ہیں۔ مجموعی حاضری 5,839 ہے جس میں سے 3,495 مرد، 2,344 خواتین اور غیر از جماعت مہمان 132 ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی جو رپورٹ ہے اس کے مطابق سترہ ممالک کے افراد یہاں بھی جلسے پہ شامل ہوئے۔ تو تقریباً نصف سے زیادہ تعداد باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی ہے اور اس کی وجہ سے ان کا جلسہ بھی پُررونق ہو گیا ہے۔ جزاک اللہ۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button