ایک عظیم چیلنج کی عظیم حقیقت

(آصف محمود باسط)

کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے انوکھے سلسلے شروع ہوئے۔ہر ملک کے ہر شہر کے اربابِ اختیار اور باسی سب اس فکر میں لگ گئے کہ اس ناگہانی آفت سے کیونکر جان بچائی اور چھڑائی جائے۔ لیکن ساری دنیا میں ایک طبقہ ایسا تھا جو انسانیت کو درپیش اس عجیب و غریب ابتلا سے بے نیاز اسی فکر میں گھلا جارہا تھا کہ احمدیت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے اور کیا کیا جائے۔

احمدیہ  مخالفت طاقتیں چونکہ  یوں بھی اس مخالفت کو ایک کُل وقتی پیشہ کے طور پر لیتی ہیں، لہذا ان ایام میں فراغت میسر آئی تو اس طرف تمام تر طاقت اور وقت کے ساتھ سرگرم ہوگئے۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر’’جواب آپ بھی دیں‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس میں مخالفین کو آئینہ دکھانا مقصود تھا۔ طرز یہ رکھی گئی کہ اُن سے اُن کے عقائد کے بارہ میں پوچھیں تا کہ خود ان کے جوابوں کے ذریعے ان کے عقائد اور نظریات کے تضادات سطح پر آجائیں۔

میں ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دفتری ملاقات کے لیے حاضر ہوتا، تو حضور نے پروگرام کا جس قدر حصہ دیکھا ہوتا، ازراہِ شفقت اس پر تبصرہ بھی فرماتے اور زریں ہدایات سے بھی نوازتے۔یہ ہدایات ہر احمدی کے لیے رہنمائی کا موجب ہوں، میں اس خیال سےان میں سے کچھ یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس پروگرام میں جہاں ناظرین کو سقم نظر آئے ہوں، وہ ان بصیرت افروز ہدایات کو سمجھنے میں میری کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔

پہلے پروگرام کے بعد فرمایا :

’’بعض موقعوں پر تمہارا لہجہ درشت ہوگیا۔ ایک طرف کہتے ہو کہ ہم اپنے امام سے گفتگو کے اسلوب سیکھتے ہیں اور دوسری طرف لہجے میں درشتی  بھی لے آتے ہو۔ ہمارے مخالفوں نے کیسا کیسا ظلم نہیں کیا۔ لیکن میں نے تو کبھی اپنا لہجہ درشت نہیں کیا۔ میں نے تو آواز تک اونچی نہیں کی۔ نرم لہجے میں بات کا زیادہ اثر ہوتا ہے‘‘۔

فطری طور پر میں سخت تاسف کا شکار ہوا۔ کوئی بھی پروگرام پیش کرتے وقت میرے لیے ہمیشہ تمام دنیا کے ناظرین ایک طرف رہے ہیں، اور یہ خیال کہ شاید کسی لمحے میں حضور کی نظر سے پروگرام کا کوئی حصہ گزرے، یہ خیال ایک طرف رہا ہے ۔ اور ہر دوسرے خیال پر حاوی رہا ہے۔ اس پر یہ احساس کہ میرا کوئی بھی فعل حضور کے لیے کوفت کا سامان کر گیا، قیامت خیز تھا۔اس افسردگی میں دھنستا جاتا تھا، کہ اچانک پیغام موصول ہوا:

’’لیکن کبھی ڈرنا بھی نہیں ۔ کھل کر بات کرنا!‘‘

وہ جو کہتے ہیں کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ میں اس حالت میں بیٹھا تھا۔ یہ ایک جملہ میرے بدن میں خون پیدا کرنے کا باعث ہوا۔ میں دوبارہ زندہ ہوگیا۔ میرے سب اندیشے کافور ہوگئے۔ مگر یہ جملہ کوئی عام جملہ نہیں۔ الفاظ تو اس میں سات یا آٹھ ہیں، مگر توازن کی ایک ایسی تعلیم اس میں بیان فرمادی کہ کیا ہی کوئی طویل مضمون اسے اس خوبصورتی سے بیان کرے گا۔

ایک پروگرام میں ہم نے اس اعتراض کا جواب دینا تھا کہ اسرائیلی فوج میں احمدی بھرتی ہیں اور اسلامی اقوام کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ یہ اعتراض تو ہمارے مخالفین پہلے بھی کرچکے ہیں اور اُس وقت کی پاکستانی حکومت کے وزرا خود اس کی تردید بھی کرچکے ہیں، مگر جب فساد کھڑا کرنے کو کچھ نہ ملے تو ہمارے مخالفین پرانے اعتراضات کو ری سائیکل کرلینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ سو اب ایک صحافی نے ایک کالم لکھ دیا اور یہی بے بنیاد الزام لگا دیا۔ اس کے اس الزام کو پاکستانی چینل لے اڑے اور خوب تشہیر کی۔

پروگرام کی تیاری کے دوران خیال آیا کہ کیوں نہ اس صحافی کا انٹرویو کیا جائے اور اسے پوچھا جائے کہ تمہارے پاس اس اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ اگر نہیں ہے تو ایسا فساد کھڑاکرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اس کا انٹرویو کیا گیا۔ وہ کافی دیر کج بحثی کرتا رہا۔ جواب تو تھا نہیں سو وہ اپنی بات پر اڑا رہا کہ تم ثابت کردو کہ نہیں ہیں تو میں مان لوں گا۔ میں اس بات پر اَڑا رہا کہ دعویٰ تم نے کیا ہے۔ بارِ ثبوت تم پرہے۔ یہ کج بحثی طول پکڑ گئی اوربات ذرا لمبی ہوگئی۔

اس پروگرام کے بعد ایک ملاقات میں فرمایا:

’’تم نے بلاوجہ بات کو بہت لمبا کیا۔ جب پتہ چل گیا کہ آدمی کج بحث ہے تو اس نے تمہاری بات کو ماننا ہی نہیں ہے۔ پھر لمبی بات کا کیا فائدہ۔ مجھے پتہ ہے آج کل لوگ ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ کر اس طرح کی بحث کو پسند کرنے لگے ہیں، مگر مجھے تو بہت لمبی بحث کبھی پسند نہیں آئی۔ اپنا موقف بتاؤ، اس کا پوچھو اور لوگوں پر چھوڑ دو۔ اس کی بات میں وزن تھا ہی نہیں۔لوگ خود ہی فیصلہ کرلیتے‘‘۔

ایک پروگرام میں شریکِ گفتگو ایک مہمان سے سوال پوچھا تو انہوں نے تمہید اتنی لمبی کردی کہ اصل بات کی طرف آتے آتے پروگرام کا آدھا وقت گزر چکا تھا۔ اس پروگرام کے حوالہ سے فرمایا:

’’سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ کس سوال پر کتنا جواب دینا ہے۔ یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس وقت کتنا ہے۔ اس کے حساب سے تمہید لمبی یا چھوٹی کریں۔ اصل بات تک پہنچنے میں ہی اتنا وقت لگ گیا کہ پھر باقی کے پروگرام میں تمہیں جلدی پڑی رہی اور تیز تیز بول کرپروگرام وقت کے اندر اندر ختم کرنا پڑا‘‘۔

پھر فرمایا: ’’سب کو اچھی طرح ان کے جواب کے لیے معین وقت بتایا کرو۔ اور پھر خود بھی آہستہ آہستہ بولا کرو۔ اگر کسی کو بات سمجھ ہی نہ آئی تو فائدہ؟‘‘

یہاں بھی حکمت کے موتی ملاحظہ ہوں۔ میں جو خوش تھا کہ چلو ایک دوست کے لمبے جواب کے باوجود پروگرام کو وقت کے اندر اندر ختم کرلیا، تو مجھے بھی ایک مرتبہ پھر توازن کی حسین تعلیم سے نوازا۔

ایک پروگرام کے بعد فرمایا:

’’سب سے کہو اچھی طرح تحقیق کر کے آیا کریں۔ پروگرام کی طرز نئی رکھی ہے تو مواد اور اسے پیش کرنے کا انداز بھی نیا ہونا چاہیے۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات جواب میں پرانی باتیں جو سنی ہوئی ہیں دہرا دی جاتی ہیں۔ سب سے کہو کہ پروگرام کے موضوع پراچھی طرح تحقیق کیا کریں‘‘۔

یوں ہم سب کو یہ یاددہانی بھی فرمادی کہ کبھی تساہل سے کام نہیں لینا۔ کہ تیارشدہ مواد اٹھا کر پیش کردیا جائے۔ نئے مواد، نئے حوالوں کی جستجو ہمیشہ رہنی چاہیے۔

اس سلسلہ میں ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا۔تحقیق اور مواد کے حصول کے معاملہ میں جو حوصلہ افزائی حضور فرماتے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سلسلہ میں حضور سے زیادہ کشادہ دل کوئی نہیں ہوسکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا کوئی بھی ثبوت ، جماعتی تاریخ کے لحاظ سے اہم کوئی بھی دستاویز جہاں ہے، جیسے ہے کی بنیاد پر حاصل کرنے کے لیے حضور کی طرف سے نہ صرف ہمیشہ اجازت دیکھی بلکہ وہ حوصلہ افزائی اور دریادلی دیکھی ہے کہ اگر اس سے مستفید ہوتے ہوئے ہم نئے سے نئے مواد کی تلاش میں نہ رہیں اور اس کے حصول کے لیے تڑپ نہ اٹھیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے۔

ایک مرتبہ ہمارے مخالفین نے یوٹیوب پر جماعت کی مقدس ہستیوں کے خلاف سخت غلیظ قسم کے اعتراضات پر مبنی وڈیوزڈالیں۔ موقع ملا تو عرض کی کہ حضور احمدیوں کے دل ایسے اعتراضات سے سخت دکھے ہوئے ہیں۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ ان کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جو انقلاب آیا ہے وہ آپؑ کی تعلیمات اور آپ کی تحریرات کے ذریعے سے آیا ہے۔ علمی اعتراض ہوں تو علمی جواب دے دینے چاہئیں۔ تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہو تو تاریخی حقائق پیش کردینے چاہئیں۔ اخلاق سے گرے ہوئے اعتراضات پر بحث کرنا تو کیچڑ میں پتھر پھینکنے والی بات ہے۔ کیا ضرورت ہے؟‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کی بزرگ ہستیوں پر گھٹیا اعتراضات پر حضور سے زیادہ بھلا کس کا دل دکھ سکتا ہے؟ مگر حضور تو ان اخلاقِ فاضلہ کے نہ صرف داعی ہیں بلکہ خود ان پر کارفرما ہیں جو آنحضور ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتارے۔ تاکہ انسان اور حیوان میں تمیز ممکن ہو۔ پھر ان اخلاقِ حسنہ کو آنحضورﷺ کے غلامِ کامل اور عاشقِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا اور ان کا کامل نمونہ دکھایا۔ اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین ہیں، ان اخلاقِ فاضلہ کا بہترین نمونہ ہیں۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر دکھ کا بیان ضروری نہیں۔ یہ دکھ بھی انہی دکھوں میں سے ہے جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا:

’’مجھے مخالفین کی طرف سے کیسے کیسے خط ملتے ہیں، تمہیں دکھاؤں تو تم پڑھ بھی نہ سکو۔ آدمی انہی کو لے کر بیٹھ جائے تو کام کیسے کرنا ہے؟‘‘

اب یہاں توازن کی تعلیم میں آتا ہوا نکھارکیا ہی رنگ رکھتا ہے! لہجہ درشت نہ ہو۔ ڈرنا بھی کسی سے نہیں ہے۔ مگر ایسی بحث سے دور رہنا ہے جس کا نتیجہ بجائے خودمنفی اثررکھتا ہے۔

ناموس رسالتﷺ کے نام پر غیر احمدی مولویوں کی طرف سے چلائی جانے والی تحریکات جن میں قتل و غارت گری ہوتی ہے اور اس کی ترغیب بھی دلائی جاتی ہے، اس میں ایک شخص کو بطور ہیرو کے پیش کیا جاتا ہے۔ بیانیہ یہ ہے کہ اس نے گستاخِ رسولﷺ کو قتل کیا اور بڑا ہی اچھا کام کیا اور ہر کسی کو اس کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ بیانیہ 1978 سے پہلے تک کہیں موجود نہیں تھا۔ ضیا الحق کی نام نہادIslamisation  کی تحریک کا آغاز ایسے ہی سیاہ کارناموں سے ہوا۔  اس سے پہلے تک اسے کوئی جانتا بھی کم ہی تھا۔ پھر اس کا مزار بھی بن گیا اور وہاں عرس بھی منایا جانے لگا۔

خاکسار کو تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جس شخص کو  ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس نے لاہور ہائی کورٹ میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ گستاخِ رسول ﷺکو قتل کرنے کا محرک اصل میں اس کا اپنا ایک ذاتی مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ اخلاق کی ہر تعریف سے گرا ہوا تھا۔ وہ خودکشی کرنا چاہتا تھا لیکن ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ ایسی گھٹیا وجہ سے خودکشی کروگے تو ہمیشہ کے لیے بدنامی اپنے نام لکھ جاؤ گے۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ فلاں گستاخِ رسول کا قتل کردو۔ پھانسی لگ جاؤ گے اور نیک نامی کے ساتھ دنیا سے جاؤ گے۔

یہ چونکا دینے والابیان دیکھ کر میں بہت چونکا۔ مجھے لگا کہ اسے بیان کردیا جائے تو ناموسِ رسالت ﷺ کے نام پر چلائی جانے والی قتل و غارت کی تحریکوں کی بنیاد ہی ہل جائے گی اور یوں ہمارا موقف زیادہ بہتر طور پر سامنے آئے گا کہ ناموسِ رسالتﷺکے تحفظ کے لیے سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ آنحضورﷺ کی سیرت سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔

میں نے خوشی خوشی تمام ماجرا حضور کے سامنے بیان کیا۔ حضور کا جواب سن کر مجھے احساس ہوا کہ میں جوش میں ہوش نہ کھونے کی ہدایت سے چوک گیا تھا۔ فرمایا:

’’ایسی باتیں جو اس کی ذاتی زندگی کی ہیں، انہیں بیان کرنے سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟ یہی ہوگا کہ اس کی شخصیت کا ایک شرمناک پہلو دنیا کے سامنے آجائے گا۔ یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے۔ تم نے وہ واقعہ نہیں  پڑھاجب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عدالت میں ایک مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی۔ مولوی محمد حسین بٹالوی آپؑ کے خلاف گواہی دینے آیا تھا۔ حضورؑ کے وکیل نے جج کو کہا کہ میں مولوی صاحب کی زندگی کی ایسی بات بتانا چاہتا ہوں جو بہت شرمناک ہے۔ ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے وکیل کو ٹوک دیا اور کہا کہ ذاتی زندگی جیسی بھی ہے، اسے بے نقاب کرنے کی ضرورت نہیں!

’’دیکھو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے۔ ہمیں بھی  یہی طریق اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے رہنے دو!‘‘

سچ پوچھیں، تو جماعت کی بزرگ ہستیوں پر ناپاک حملے کرنے والوں کو لاجواب کرنے کو حضور کا یہی جواب کافی ہے۔ آج ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا سب سے بڑا علمبردار وہ شخص نہ ہو تو اور کون ہو جو انسانیت کے ناطے ہر انسان کی عزت کا خیال کرتا ہے۔ جو اپنے دشمن کی ذاتی زندگی سے شرمناک پہلووں پر سے پردہ ہٹانا نہ خود پسند فرماتا ہے اور نہ اپنے پیروؤں کوایساکرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ناموسِ رسالت ﷺ کے سب سے بڑے محافظ تو خود اخلاقِ رسول ﷺہیں۔ اور اس دور میں ان اخلاقِ عالیہ پر عمل کرنے والا ہی اس مقدس امانت کا امین ہے۔ اور یہ دعویٰ نہیں بلکہ حقائق بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

کچھ روز سے ہمارے مخالفین کو ایک نئی بات سوجھی۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر انٹرنیٹ کے کسی بھی search engine پر خلیفہ یا خلیفۂ اسلام کی اصطلاح ڈالی جائے تو نتائج میں سرِ فہرست جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا نام آتا ہے۔ یوں دنیا میں یہ غلط فہمی پھیل رہی ہے کہ ’’قادیانیوں کا خلیفہ‘‘ ہی اسلام کا خلیفہ ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ مخالفین کی طرف سے بڑی سرگرم تحریک شروع کی گئی کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی ’’ دینی غیرت ‘‘ کا مظاہرہ کریں اور انٹرنیٹ کے تمام search engines  پر جاکر رپورٹ کریں کہ یہ بات درست نہیں۔

جانے کیوں ہمارے مخالفین یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ہر کوشش ہمیشہ جماعت احمدیہ کے حق میں نہایت مفید ثابت ہوئی ہے۔ وہ اپنی کوششوں  میں لگےرہے اور ان کی یہ کوشش حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو دنیا بھر کے لوگوں سے متعارف کرواتی چلی گئی۔ جنہیں نہیں بھی معلوم تھا، انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام کا علم اٹھائے اس وقت صرف ایک وجود ہے اور وہ ہے سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح  الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔

جب ناپاک عزائم پر مبنی یہ تحریک ہمارے مخالفین کی طرف سے شروع ہوئی تو انہی دنوں میں مجھے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع میسر آیا۔ اس کے ذکر پر فرمایا:

امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز

’’خلیفہ تو خدا بناتا ہے۔ کوئی سرچ انجن تو نہیں بنادیتا۔ اور میں نے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں امتِ مسلمہ کا خلیفہ ہوں۔ میری مہر پر لکھا ہے خلیفۃ المسیح۔ دنیا کے لیڈروں کو بھی جو خط لکھیں ہیں، وہ  میرے اسی  letterhead  پرلکھ کر بھیجیں ہیں جس پر لکھا ہے خلیفۃ المسیح۔ وہ مجھے خلیفہ کے طور پر جانتے ہیں۔ اور مجھ سے ہمیشہ انہوں نے اسلام کا پیغام سنا ہے۔ جو میرا کام ہے وہ میں کررہا ہوں۔ مخالفوں نے جو کرنا ہے کر لیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

جب مخالفوں کی یہ تحریک زور پکڑ گئی تو ایک عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ ہم سب کو معلوم تو ہے کہ ہر احمدی حضرت خلیفۃ المسیح سے بے حد محبت کرتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ محبت عشق کے درجہ پر فائز ہے۔مگر جماعت کا بچہ بچہ خلافت کے لیے ننگی تلوار ہے، یہ ان دنوں میں دیکھنے کو ملا۔

دنیا بھر میں مجالس خدام الاحمدیہ حرکت میں آگئیں۔ مجھے مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کی طرف سے جو کارروائی ہوئی اسے دیکھنے کا موقع ملا۔ سو میں اس کا عینی شاہد ہوں۔ یہ تو اس جہاد کے لیے بلاوا تھا جس کے ہم قائل ہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کا گویا ہر طفل اور ہر خادم بلکہ ہر فرد خلافت کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔جماعتی ذرائع ابلاغ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب کے ہاتھ میں دلیل کی تلوار تھی۔ مخالفوں کی طرف سے خلافتِ احمدیہ نے جو اعتراض کیا، احمدی ذرائع ابلاغ نے ٹھوس دلیل سے اس کا جواب دیا۔ایسا کہ مخالفین کو خوداپنی صف لپیٹتے ہی بنی۔ یہ مظاہرہ تھا اس حقیقت کا کہ خلیفۃ المسیح اور جماعت احمدیہ مسلمہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ الحمدللہ علی ذالک۔

ایم ٹی اے پر بھی پروگرام کی تیاری شروع کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ  مخالفین کی کارروائیوں سے قطع نظریہ بتایا جائے کہ خلافت دراصل ہے کیا؟ یہ کیسا مقدس ادارہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے پیغام کو عام کرنے کا عظیم فریضہ ادا کرتا ہے۔اور یہ بھی کہ خلیفہ خدا بناتا ہے نہ کہ انسان یا دنیوی ادارے۔

جس روز پروگرام ہونا تھا، اس روز صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ بڑا نادر موقع تھا سو حضور کی خدمت میں عرض کی کہ آج شام پروگرام ہے، دعا کی درخواست ہے۔ حصولِ برکت و رہنمائی کی غرض سے پروگرام کا خاکہ بھی پیش کیا۔ جو سوالات آخر پر مخالفین کوپوچھنے تھے، وہ بھی عرض کیے۔

میں اپنی طرف سے بات ختم کرچکا تھا۔ ملاقات اپنے اختتام پر تھی۔ حضور کچھ فرمانے لگے تو مجھے لگا کہ اب ملاقات برخاست ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ فرمایا:

’’تم انہیں کھل کے چیلنج کیوں نہیں دیتے؟ ان کو اچھی طرح کھول کر بتاؤ کہ اب خلافت صرف اور صرف خاتم الخلفأ، مسیح ومہدیٔ موعود علیہ السلام کی خلافت ہی کی شکل میں ممکن ہے۔ بے شک کہہ دینا کہ ہماری طرف سےچیلنج ہے کہ

اگر مسلم دنیا کے تمام ممالک کے سربراہان، اور امتِ مسلمہ کے تمام مسالک کے تمام افراد متفقہ طور پر کسی ایک شخص کو بطور خلیفہ تسلیم کرلیں اور اس کی بیعت میں شامل ہوجائیں، تو جماعت احمدیہ بھی اُس خلیفہ کو تسلیم کرنے اور امت کے باقی مسالک کے ساتھ اس کی بیعت کرنے پر ضرور غور کرے گی!‘‘

اس کے بعد کچھ دیر کا توقف تھا۔ میں ان مبارک الفاظ کو اپنے قلم سے سمیٹ کرمحفوظ کررہا تھا۔ پھر ارشاد ہوا:

’’یہ بھی ان کو اچھی طرح بتادینا کہ تم ایسا نہیں کرسکو۔نہیں کرسکو گے۔ ایسا تم کر ہی نہیں سکتے‘‘۔

اس لمحہ کی کیفیت کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کے الفاظ میں کیا شان تھی۔ کیا جلال تھا۔ کیا تیقن تھا۔ کیا ایمان تھا۔

میں نے یہ الفاظ پروگرام کے آخر پر پیش کیے۔ میں دراصل اپنے پیارے امام کے الفاظ کو دہرا رہا تھا۔ میں تو کیا کوئی بھی انسان ان الفاظ کو اس طرح نہیں پیش کرسکتا جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ادا فرمایا تھا۔

مجھے اس لمحے میں یہ احساس ہوا کہ خلافت واقعی ایک ڈھال ہے۔ وہ ڈھال جس کے پیچھے ہم ہر حملہ سے تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ جس سے ٹکراکر ہر طوفان پلٹ جاتا ہے۔

ان الفاظ کی برکت دیکھیے۔ ہمارے مخالفین جو بڑے زوروں سے خلافتِ احمدیہ پر حملہ آور ہونے نکلے تھے، اس چیلنج میں بھرے ایمان اور یقین کے آگے ڈھیر ہوگئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا یہ چیلنج آئندہ آنے والے ہرزمانے کے لیے خلافتِ احمدیہ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت بن کر موجود رہے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح خلافتِ احمدیہ تاقیامت قائم رہے گی۔ اور اس کے مخالفین کوئی خلافت قائم نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ ’’وہ ایسا کرہی نہیں سکتے۔ کر ہی نہیں سکتے۔ کر ہی نہیں سکتے‘‘!

          خلافتِ احمدیہ زندہ باد!!

(مورخین کی سہولت کے لیے بتاتے چلیں کہ خلافتِ احمدیہ کی طرف سے یہ چیلنج 20 دسمبر 2020 بروز اتوار تمام امتِ مسلمہ کے لیے پیش کیا گیا)

(اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ملاحظہ فرمانے کے لیے درج ذیل لنک پر جائیں:

انگریزی میں یہی مضمون درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں:

متعلقہ مضمون

تبصرے 6

  1. السلام علیکم ورحمتہﷲوبرکاتہ
    محترم ﷲکریم آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین
    یہی دعا ہے کہ ﷲ کرے دونیاں ترقیاں وے آصفا آمین
    خدا کرے ذور قلم اور ذیادہ
    آمین ثم آمین الہم آمین یارب العالمین

  2. السلام علیکم ورحمتہ اللہ کیا بات ہے حضور پر نور کی الحمدللّٰہ کہ احمدی قوم کو ایسا عظیم لیڈر ملا ہے باسط صاحب ماشاللہ بہت خوب لکھتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔جب غیر احمدی جواب دیں تو اس کے بارہ میں بھی ضرور بتائیں۔

    1. اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ
      بہت ہی ایمان افروز مضمون ہے باسط صاحب اللہ تعالی آپ کو صحت و سلامتی دے ۔مخالفین احمدیت کے پاس جواب نہی ہے صرف ہنسی اور ٹھٹھ ہے جو پہلی قومیں بھی انبیاء کے ساتھ کرتی آئی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو عملی طور پر خلافت احمدیہ کا وفادار اور سچا خادم بننے کی توفیق دے ۔آمین

  3. ھر چیز شعور اور منطق سے ثابت نہیں ھو سکتی۔ ایمان اور یقین کا تعلق روحانیت سے بھی ہے ۔ خلیفہ المسیح الخامس (اید ہ اللہ بنصرہ العزیز) کو خدا نے مقرر کیا اور غیر احمدی جو مرضی زور لگا لیں ، اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے ۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button