حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ نبوت کے متعلق بعض اعتراضات کے جوابات۔ سنت انبیاء کی روشنی میں (قسط اوّل)
حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰﷺ خاتم النبیین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا ئے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے
خدا تعالیٰ نے ازل سے بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے سلسلۂ نبوت جاری فرمایا۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا میں جس قدر بھی انبیاء مبعوث ہوئے، وہ تمام نمود و نمائش سے پاک تھے، دنیا کی جاہ و حشمت سے دور بھاگتے تھے۔ ان کی پاکیزہ فطرت گوشہ نشینی کو پسند کرتی تھی، نیز انبیاء کو شہرت سے طبعاًبہت نفرت ہوتی ہے۔ مگر خدا اپنے ان مخفی خزانوں کو لوگوں کے سامنے لاتا رہا اور‘‘انا الموجود’’ہونے کا ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہا۔ خدا کے ان پہلوانوں نے بھی اپنا فرض منصبی خوب ادا کیا، یہ طائفہ اُسی ربّ کریم کے بلائے بولتا رہا، اور اسی کے حکموں کے منتظر رہتے۔ کسی بھی کام میں جلد بازی سے کام نہ لیتے بلکہ ہمیشہ اپنے قادر مطلق خدا کے حکم کا انتظار کرتے۔ خاص کر اپنے دعاوی کے متعلق کبھی جلد بازی سے کام نہ لیا۔ خود آنحضرتﷺ نے بھی اپنے تمام دعاوی میں نہایت محتاط انداز اپنایا۔ اور فی الفور یہ اعلان نہ فرما دیا کہ میں ‘‘خاتم النبیین’’اور‘‘سیّد ولد آدم’’ ہوں بلکہ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کےساتھ‘‘لا فخر’’ہی فرماتے رہے۔
بعینہٖ یہی حال آپﷺ کے عاشقِ صادق سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاہے۔ نادان مخالف ان کی ترقیات کوارتقائی کہہ کر ان کے جھوٹے ہونے کی دلیل گردانتا ہے، حالانکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔
قرآن اور اسوۂ رسولﷺ ہمارے اور مخالفین کے لیےنزاعی مسائل میں حاکم ہے
ہماری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کو پانا ہے، جس کا ذریعہ حسب ارشاد باری تعالیٰ اطاعت و محبت رسولﷺ ہے۔ فرمایا:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ۔
(آل عمران :32)
(اے نبی)تُو کہہ دے، اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو مىرى پىروى کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔
اس محبت کو حاصل کرنے کا ذریعہ رسول اللہﷺ کے اسوہ کی پیروی کرنا ہے۔ فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(الاحزاب:22)
ىقىناً تمہارے لئے اللہ کے رسول مىں نىک نمونہ ہےاورأُسْوَةٌ حَسَنَةٌاور سنت کی تفصیل یہ ہے کہ جو آپﷺ نے قرآن پاک کے احکامات کو عملی رنگ میں کر کے دکھایا وہ کیے جائیں اور جن سے منع فرما دیا اُن سے رُکا جائے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
(الحشر:8)
اور رسول جو تمہىں عطا کرے تو اسے لے لو اور جس سے تمہىں روکے اُس سے رُک جاؤ۔
اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
‘‘ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ مُّحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل وتوفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰﷺ خاتم النبیّین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا ئے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے’’۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 169تا170)
پس جس کام کی سند قرآن اور رسول اللہ سے ثابت ہوجائے وہی جماعت احمدیہ کے اعتقاد اور فعلی روش ہے۔ اور وہی جماعت احمدیہ کا اختلافی مسائل میں موقف ہے۔
کیا کسی نبی کا بتدریج دعاوی کرنا، منافی نبوت و رسالت ہے؟
بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ بتدریج دعاوی کذب کی دلیل ہے۔ مثلاً سوشل میڈیا پر موجود ایک مباحثہ کے دوران ایک غیر احمدی مولوی صاحب بار بار پُرجوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ ‘‘مرزا صاحب کیسے صادق ہوسکتے ہیں جبکہ وہ کبھی اپنے آپ کو مجدد کہتے ہیں، کبھی محدث، کبھی مسیح موعود اور کبھی مہدی موعود، مستزاد یہ کہ اپنے آپ کو ظلی و بروزی نبی تک کہتے ہیں’’۔ بلکہ ایک معترض کے بقول‘‘ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یکدم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے، بتدریج آہستہ آہستہ اس کو درجہ نبوت نہیں ملتا کہ پہلے وہ محدث پھر مجدد اور بعد میں نبوت کا دعویٰ کرے۔’’
یاد رہے درحقیقت انبیاء کی تکلّفات سے پاک کمال سادگی ان کے دعوے کی سچائی کی زبردست دلیل اور ان کی عدم بناوٹ پر بیّن گواہ ہوتی ہے۔ نیز قرآن و حدیث اور بزرگان سلف کی کتب میں کہیں بھی صداقت نبوت کا یہ معیار قبل ازیں بیان نہیں ہوا کہ نبی تمام دعاوی ایک ہی دن مکمل طور پر بیان کردیتا ہے۔ بلکہ اس قسم کی باتیں تو نزول قرآن کے وقت مخالفین کہا کرتے تھے کہ
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيْلًا
(الفرقان:33)
اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کىا وہ کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ىک دفعہ کىوں نہ اُتارا گىا اِسى طرح (اُتارا جانا تھا) تاکہ ہم اس کے ذرىعہ تىرے دل کو ثبات عطا کرىں اور (اسى طرح) ہم نے اسے بہت مستحکم اور سلىس بناىا ہے۔
پس اُسی طرز کا یہ نیا اعتراض بھی موجودہ دور کے ‘‘علماءھم ’’کی ایجاد ہےاور اُن اعتراضات میں سے ایک ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کو ہدف بنا کر تیار کیے گئے ہیں۔
چونکہ گروہ انبیاء کا خاصہ ہے کہ وہ خدا کے بُلوانے سے بولتے اورا س کی اطاعت میں مَحو رہتے ہیں۔ چنانچہ سرور کائناتﷺ کے متعلق احادیث میں لکھا ہے کہ حضورﷺ عام امور میں اہل کتاب سے موافقت رکھنے کو پسند فرماتے، جب تک آپﷺ بصراحت مامور نہ ہوتے تھے۔
كَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الكِتَابِ فِيْمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيْهِ بِشَيْءٍ
(بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّﷺ )
یعنی جب تک خدا تعالیٰ کی وحی صراحت کے ساتھ آپ کو کسی بات کے ماننے یا کرنے کا حکم نہ دیتی آپﷺ اپنے سے پہلے اہل کتاب کے طریق پر عامل رہتے تھے۔
اس بات کی گواہی خود خدا تعالیٰ نے بھی بیان فرمائی کہ
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهٖ
(يونس:17)
اے رسول تو کہہ دےکہ اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء نہ ہوتا تو مَیں یہ تعلیم تم کو نہ سُناتا، اور نہ اس پر مطلع کرتا۔
یعنی مَیں تو ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتا ہوں، اور جب جب اور جو جو حکم آتا ہے اس کی تعمیل کرتا ہوں، اِس میں میرا کیا قصورہے؟
اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام سے جب یہود نے پوچھا کہ کیا تُو موعود ایلیا ء ہے تو آپ نے انکار فرمادیا(یوحنا باب 1آیت 21)حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کے حق میں صاف فرمایا تھا کہ وہی موعود ایلیاء ہیں (متی باب 11آیات13تا16)حضرت یحیٰ علیہ السلام کا انکار یہود کی ٹھوکر کا موجب ہوا۔ مگر یہ سب واقعات اس حقیقت ثابتہ کو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نبی کس قدر محتاط اور بے نفس ہوتے ہیں۔
سابقہ انبیاء علیہم السلام کے دعاوی میں تدریجی ارتقاء!
اگر اس صورت ِمتذکرہ کو تدریجی مان بھی لیا جائے تب بھی مرزا صاحب علیہ السلام کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ نبی پر اپنے حقیقی مقام کے متعلق تدریجاًانکشاف ہونے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھی گئی تفاسیر و شروح میں نہ صرف دیگر انبیاء پر بلکہ خود حضرت نبی اکرمﷺ پر اپنے مقام و مرتبہ کے متعلق تدریجی انکشاف کا ذکر ہے۔
سورۃ الانبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے:
وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ۔ وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَ کَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ۔
(الانبیاء:73تا74)
اور اُسے ہم نے اسحاق عطا کىا اور پوتے کے طور پر ىعقوب اور سب کو ہم نے پاکباز بناىا تھا۔ اور ہم نے انہىں اىسے امام بناىا جو ہمارے حکم سے ہداىت دىتے تھے اور ہم انہىں اچھى باتىں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دىنے کى وحى کرتے تھے اور وہ ہمارى عبادت کرنے والے تھے۔
حضرت علامہ فخر الدین الرازیؒ (المتوفّی606ھ) اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں :
‘‘وَاعْلَمْ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَصَفَهُمْ أَوَّلًا بِالصَّلَاحِ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَرَاتِبِ السَّائِرِينَ إِلَى اللّٰه تَعَالَى ثُمَّ تَرَقَّى فَوَصَفَهُمْ بِالْإِمَامَةِ. ثُمَّ تَرَقَّى فَوَصَفَهُمْ بِالنُّبُوَّةِ وَالْوَحْيِ. وَإِذَا كَانَ الصَّلَاحُ الَّذِي هُوَ الْعِصْمَةُ أَوَّلَ مَرَاتِبَ النُّبُوَّةِ دَلَّ ذَلِكَ عَلَى أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ مَعْصُومُونَ فَإِنَّ الْمَحْرُومَ عَنْ أَوَّلِ الْمَرَاتِبِ أَوْلَى بِأَنْ يَكُونَ مَحْرُومًا عَنِ النِّهَايَةِ’’
(تفسير مفاتيح الغيب، المعروف تفسير الكبيرلامام الرازي۔ زیر آیت سورۃ الانبیاء آیت 72، 73)
ترجمہ: پس جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں (انبیاء کو) پہلی صفت صالح کی دی ہے، کیونکہ یہ سالکین الی اللہ کے مراتب میں سے پہلا درجہ ہے جس کے بعد ان (انبیاء) کی صفت ترقی کر کے امامت کے درجہ پر پہنچتی ہے اور پھر ان (انبیاء) کی صفت اور ترقی کر کے نبوت اور وحی تک پہنچتی ہے۔ پس جب صالحیت جو کہ عصمت ہی ہے نبوت کا پہلا مرحلہ ہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ اور جو پہلے مرحلےسے محروم ہوتا ہے تو وہ ضرور آخری مرحلے سے بھی محروم رہے گا۔
اسی طرح سورت آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو ایک بیٹے کی بشارت کا ذکر فرمایا ہے جبکہ وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِيْنَ۔
(آل عمران:40)
اللہ تجھے ىحىىٰ کى خوشخبرى دىتا ہے جو اللہ کے اىک عظىم کلمہ کى تصدىق کرنے والا ہو گا اور وہ سردار اور اپنے نفس کى پورى حفاظت کرنے والا، اور صالحىن مىں سے اىک نبى ہو گا۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابو حیان الاندلسی (متوفّی 745ھ) بیان کرتے ہیں :
‘‘{ونبيًّا}هَذَا الْوَصْفُ الْأَشْرَفُ، وَهُوَ أَعْلَى الْأَوْصَافِ، فَذَكَرَ أولا الوصف الذي تبنى عَلَيْهِ الْأَوْصَافُ بَعْدَهُ، وَهُوَ: التَّصْدِيقُ الَّذِي هُوَ الْإِيمَانُ، ثُمَّ ذَكَرَ السِّيَادَةَ وَهِيَ الْوَصْفُ يَفُوقُ بِهِ قَوْمَهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الزَّهَادَةَ وَخُصُوصًا فِيمَا لَا يَكَادُ يُزْهَدُ فِيهِ وَذَلِكَ النِّسَاءُ، ثُمَّ ذَكَرَ الرُّتْبَةَ الْعُلْيَا وَهِيَ: رُتْبَةُ النُّبُوَّةِ…وَحَقِيقَةُ النُّبُوَّةِ هُوَ أَنَّ يُوحِيَ اللَّهُ إِلَيْهِ:۔ (ونبيًّا)’’
(تفسير البحر المحيط۔ از علامہ ابو حيان۔ زیر تفسیر سورۂ آل عمران آیت نمبر 39)
ترجمہ: یہی سب سے عزت والی صفت ہے اور صفات میں سب سے اعلیٰ صفت یہی ہے۔ چنانچہ (اللہ تعالیٰ) نے اُس صفت کا ذکر سب سے پہلے کیا ہے جس پر بعد میں ذکر کردہ تمام صفات کی بنیاد رکھی ہے اور وہ تصدیق ہے جو بعینہٖ ایمان ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد سرداری کا ذکر کیا ہے اور یہ وہی صفت ہے جس سے انسان اپنی قوم پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد زہد(دنیاوی خواہشات کو ترک کرنا) کا ذکر کیا ہے…. پھر سب سے اعلیٰ رتبہ کا ذکر کیا ہے اور وہ ہے نبوت کا رتبہ۔ اور نبوّت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس پر وحی نازل کرتا ہے۔
اسی آیت کی تفسیر میں علامہ فخر الدین الرازیؒ بیان کرتے ہیں :
‘‘قَوْلُهُ{ وَنَبِيًّا } وَاعْلَمْ أَنَّ السِّيَادَةَ إِشَارَةٌ إِلَى أَمْرَيْنِ أَحَدُهُمَا: قُدْرَتُهُ عَلَى ضَبْطِ مَصَالِحِ الْخَلْقِ فِيْمَا يَرْجِعُ إِلَى تَعْلِيْمِ الدِّيْنِ وَالثَّانِي: ضَبْطُ مَصَالِحِهِمْ فِيْمَا يَرْجِعُ إِلَى التَّأْدِيْبِ وَالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَأَمَّا الْحَصُوْرُ فَهُوَ إِشَارَةٌ إِلَى الزُّهْدِ التَّامِّ فَلَمَّا اجْتَمَعَا حَصَلَتِ النُّبُوَّةُ بَعْدَ ذَالِكَ، لِأَنَّهُ لَيْسَ بَعْدَهُمَا إِلَّا النُّبُوَّةُ. ’’
(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازي سورۃآل عمران آیت 39)
ترجمہ: جان لو کہ سرداری دوچیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اول یہ کہ وہ (نبی یا سردار) علومِ دین کے حوالے سے لوگوں کے مصالح / بھلائیوں کو قابو میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ دوم یہ کہ وہ تربیت اور نیکیاں کمانے کےحکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے حوالے سے لوگوں کی بھلائی کو قابو میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جہاں تک اس شخص کی بات ہو جواپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے روکنے والا ہے تو یہ کامل زُہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس جب یہ دو باتیں جمع ہوجاتی ہیں تو نبوّت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کے بعد سوائے نبوّت کے اور کوئی درجہ نہیں۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے:قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (البقرة: 125) یعنی میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ اس آیت کی تفسیر میں مشہور شیعہ مفسر علامہ الفیض الکاشانی (متوفّی 1091ھ) بیان کرتے ہیں :
‘‘وفي الكافي عن الصادق عليه السلام قال إن اللّٰه تبارك وتعالى اتخذ إبراهيم عبدًا قبل أن يتّخذه نبيًا وان اللّٰه اتخذه نبيًا قبل أن يتخذه رسولًا وان اللّٰه اتخذه رسولًا قبل أن يتخذه خليلًا وان اللّٰه اتخذه خليلًا قبل أن يجعله إمامًا فلما جمع له الأشياء قال إني جاعلك للناس إمامًا۔’’
(تفسير الصافي في تفسير كلام الله الوافي/ الفيض الكاشاني۔ سورۃ البقرۃ: آیت124)
یعنی کتاب الکافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عبد بنایا قبل اس کے کہ نبی بنائے اور نبی بنایا قبل اس کے کہ رسول بنائے اور رسول بنایا قبل اس کے کہ خلیل بنائے اور خلیل بنایا قبل اس کے کہ امام بنائے۔ جب یہ تمام صفات جمع ہوگئیں تو فرمایا میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بناتا ہوں۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مقام نبوت ملنے سے قبل انبیاء کا دیگر مراتب پانا اُن کی شان اور صداقت کے خلاف نہیں اگر خلاف ہوتا تو یہ بزرگان اس قسم کی تفسیر کرنے کی ہمت نہ کرتے اور اگر اَن جانے میں ایسی تفسیر ہوبھی گئی تو دوسرے مفسرین، محدثین، متکلمین وغیرہ ان کی اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مولوی حضرات نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان کے اعتراض ‘‘ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یک دم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے’’سے خود نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس اس کی زد میں آتی ہے اور یہ بات تفسیر، حدیث اور سیرت کی کتب سے واضح ہے۔
حضورﷺ کے دعاوی میں بظاہر تدریجی ارتقا!
آنحضرتﷺ کو جب باقاعدہ پہلی وحی قرآنی ہوئی تو حضورﷺ نے فوراً اعلان نہیں کیا کہ مَیں نبی اور رسول ہوں اور آج میرے پاس جبرئیلؑ وحی لے کر آئے ہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ حضورؐ نے گھر میں حضرت خدیجہؓ سے سب حالات بیان کیے اور وہ آپ کو ورقہ بن نوفل عیسائی کے پاس لے گئیں اور سارا ماجرا بیان کیا۔ ورقہ نے سب سے پہلے کہا کہ
هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَىیہ
تو وہ فرشتہ (جبرائیل)ہے جو حضرت موسی علیہ السلام پر شریعت لےکرآیا تھا(یعنی آپ بھی صاحبِ شریعت رسول ہیں )
(صحيح البخاري۔ كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ۔ بَابُ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى:الضحى)
بلکہ حضرت نبی اکرمﷺ پر وحی کی ابتدا کے متعلق ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِﷺ مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ :
یعنی پہلے پہل رسول اللہ ﷺ پر نیند میں سچی رویاء سے وحی کی ابتدا ہوئی(بخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 3)جبکہ سیرت ابن ہشام میں ‘‘مِنَ الْوَحْیِ’’کی بجائے‘‘مِنَ النُبُوّۃ’’کے الفاظ درج ہیں۔ یعنی پہلے پہل جو وحی (بروایت ابن ہشام جو نبوت) آنحضرتﷺ کو شروع ہوئی وہ نیند میں سچی خوابوں کا دیکھنا تھا۔
یہ قرآنی وحی کے نزول سے پہلے کا زمانہ ہے جس کے بعد آنحضورﷺ کو تنہائی میں عبادت کرنا اچھا لگنے لگا یہاں تک کہ آپؐ غار حرا میں جانے لگے اور پھر وہاں ایک دن حضرت جبرئیل نے قرآنی وحی کا پہلا پیغام
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ
پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پىدا کىا۔(العلق2) پہنچایا۔
اس رؤیائے صالحہ والے عرصہ کے متعلق امام ابن حجر العسقلانیؒ لکھتے ہیں:
بُدِءَ بِذَالِک لِیَکُوْنَ تَمْهِيْدًا۔
یعنی (رؤیائے صالحہ والی) وحی سے اس لیے ابتدا کی تاکہ وہ تمہید ہوجائے۔ (بخاری کتاب بدء الوحی)
علامہ شبلی نعمانی صاحب نے اس عرصہ کو ‘‘نبوت کا دیباچہ’’لکھا ہے۔
(سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول باب آفتاب رسالت کا طلوع)
معاند احمدیت مولوی حضرات تو سچے نبی کے چالیس سال کا ہوتے ہی نبوت ملنے اور یک دم اس کے اعلان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مذکورہ بالا علماء آنحضورﷺ کو مقام نبوت ملنے سے پہلے اس کی تیاری کے لیے ‘‘نبوت کا دیباچہ’’ اور تمہید یا پیش خیمہ کا ذکر کر رہے ہیں۔
صحیح مسلم شرح نووی میں لکھا ہے:
قَالَ الْقَاضِي رَحِمَهُ اللّٰهُ وغيره من العلماء انما ابتدیٔ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالرُّؤْيَا لِئَلَّا يَفْجَأَهُ الملك ويأتيه صريح النبوة بغتة فلا يحتملها قوى البشرية فبدىء بِأَوَّلِ خِصَالِ النُّبُوَّةِ وَتَبَاشِيرِ الْكَرَامَةِ مِنْ صِدْقِ الرُّؤْيَا
: قاضی عیاض اور دیگر علماء سے منقول ہے کہ رسول اللہؐ پر نبوت کا آغاز ً رویاء صالحہ سے ہوا۔اور اس میں یہ حکمت تھی کہ اچانک فرشتہ کے آجانے سے ،اور اچانک صریح نبوت کے عطاء ہونے سے،آپ گھبرا نہ جائیں۔مبادا کہہ انسانی قوی اس کا بوجھ برداشت نہ کرسکیں۔اس لیے آغاز میں ابتدائی نبوت کے خصال دیئے گئے،نیزسچی خوابوں کی ذریعہ تبشیری معجزات کا ظہور شروع ہوا۔
(صحیح مسلم بشرح النووی کتاب الایمان باب بدء الوحی الی رسول اللّٰہﷺ )
علامہ وحید الزمان ترجمہ صحیح مسلم شریف مع مختصر شرح نووی میں اسی حدیث کی شرح تحریر کردہ امام نووی کو اختصاراً لکھتے ہیں کہ ‘‘اس کی تعبیر سچی ہوتی، صاف اور کھلی کھلی، کسی قسم کا شبہ اس میں نہ رہتا۔علماء نے کہا ہے کہ یہ حالت چھ مہینے تک رہی نبوت سے پہلےاس کے بعد علانیہ حضرت جبرائیل آپ کے پاس تشریف لائے اور بھید اس میں یہ تھا کہ اگر دفعۃً پہلے ہی سے حضرت جبرائیل آپ کے پاس آجاتے تو شاید آپ گھبرا جاتے اور بشریت کی وجہ سے اچانک نبوت کا بار اٹھ نہ سکتا۔’’
(مترجم صحیح مسلم شریف مع مختصر شرح نووی جلد اول۔ از علامہ وحید الزمان۔صفحہ 272۔تاریخ اشاعت 20 ربیع الثانی 1432ھ۔ناشر دارالقدس ڈسٹری بیوٹرز اینڈ پبلیشرز اردو بازار لاہور)
جبکہ علامہ غلام رسول سعیدی (شیخ الحدیث دار العلوم نعیمیہ کراچی) حضرت عائشہؓ کی اسی روایت کی شرح میں لکھتے ہیں :
‘‘…اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی مخلوق تک کسی عظیم کام کو پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ پہلے اس کی بنیاد قائم کرتا ہے، پھر اس کی تربیت کرتا ہے، پھر اس کو تدریجاً اپنے کمال طبعی تک پہنچاتا ہے۔ اسی وجہ سے پہلے نبیﷺ کو سچے خواب دکھائے گئے، پھر آپؐ کے دل میں خلوت گزینی پیدا کی گئی اور آپؐ سے غار حرا میں عبادت کرائی گئی، پھر جب آپ کے پاس اچانک فرشتہ آگیا تو یہ واقعہ عام عادت اور معمول کے خلاف تھا اسی لیے بشری تقاضے سے آپؐ گھبرائے…کیونکہ نبی سے نبوت کے باوجود طبیعت بشری بالکلیہ زائل نہیں ہوتی…حتیٰ کہ جب اس قسم کے واقعات بار بار ہوئے تو آپؐ مانوس ہوگئے اور آپؐ کی دل جمعی ہوگئی۔’’
(شرح صحیح مسلم جلد اوّل 665کتاب الایمان باب بَدْءِ الْوَحْىِ إِلَى رَسُولِ اللّٰہ از علامہ غلام رسول سعیدی۔ ناشر: فرید بک سٹال 38۔ اردو بازار لاہور۔ الطبع العاشر :اپریل 2003ء)
(یہ تشریح اصل میں علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے بخاری کتاب التعبیر باب اَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُمیں بیان کی ہے۔ )
بہرحال وحی کی اس ابتدائی حالت کے بعد قرآنی وحی کا دَور آتا ہے جس کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی آیات سے ہوتا ہے۔ کیا بزعم مخالفین احمدیت آنحضرتﷺ نے قرآنی وحی کا یہ پیغام ملتے ہی یک دم اپنا دعویٰ نبوت و دعویٰ خاتمیت دنیا کے سامنے پیش کر دیا؟ جی نہیں ! بلکہ بقول ابو الاعلیٰ مودودی صاحب
‘‘…سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نازل ہونے کے بعد بھی حضورؐ کو جبرائیل کا علم ہوا نہ وحی اور قرآن کا، نہ اپنے نبی اور صاحب کتاب ہونے کا!’’
(سیرت سرور عالمؐ جلد دوم صفحہ 108۔ از ابوالاعلیٰ مودودی۔ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور1989ء)
اس پہلی وحی کے بعد کچھ دن قرآنی وحی میں وقفہ آجاتا ہے جس کے بعد سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر نازل ہوتی ہیں جن میں آنحضرتﷺ کو یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ اور یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُکہہ کر پکارا گیا ہے۔ مشہور مفسر علامہ علاء الدین علی بن محمد المشہور بالخازن (متوفیٰ 725ھ) بیان کرتے ہیں :
‘‘وإنما لم يخاطب بالنبي والرسول لأنه كان في أول الأمر ومبدئه، ثم خوطب بالنبي والرسول بعد ذلك’’
(تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن۔ سورۃ المزمل آیت نمبر 1)
یعنی (نبی کریمﷺ ) کو ابھی تک نبی اور رسول کے لقب سے مخاطب نہیں کیا گیا کیونکہ آپؐ ابھی معاملہ (نبوت) کے پہلے اور ابتدائی مرحلے میں تھے، بعد میں جاکے آپؐ کو نبی اور رسول کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے۔
علامہ البغوی، البقاعی، الثعلبی اور ابن عادل وغیرہ نے بھی اپنی تفسیروں میں یہی بات درج کی ہے۔ علامہ الحافظ ابن الجوزی (متوفّیٰ 597ھ) بھی لکھتے ہیں :
‘‘وقيل: إِنما لم يخاطب بالنبي والرسول هاهنا، لأنه لم يكن بعد قد بلَّغ، وإنما كان في بدء الوحي’’
(تفسير زاد المسير في علم التفسير/ ابن الجوزي۔ زیر آیت سورۃ المزمل)
یعنی آنحضورﷺ کو یہاں نبی اور رسول کہہ کر نہیں پکارا گیا کیونکہ ابھی تک آپؐ تبلیغ کے حکم سے مامور نہیں کیے گئے تھے اور وحی کی ابتدائی حالت میں تھے۔
مودودی صاحب اپنی تفسیر‘‘تفہیم القرآن’’میں سورۃ المزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
‘‘اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضورؐ کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا، جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جار ہی تھی۔’’
قرآنی وحی کے تواتر میں پھر سورۃ الضحیٰ کا نزول ہوتا ہے جس میں آنحضورﷺ کو وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحىٰ12) (اور جہاں تک تىرے ربّ کى نعمت کا تعلق ہے تو (اسے) بکثرت بىان کىا کر )کا بھی حکم ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر (متوفّیٰ 774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
‘‘وقال مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، مَا جَاءَكَ اللّٰهُ مِنْ نِعْمَةٍ وَكَرَامَةٍ مِنَ النُّبُوَّةِ فَحَدِّثْ بِهَا وَاذْكُرْهَا وادع إليها، قال: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ يَذْكُرُ ما أنعم بِهِ عَلَيْهِ مِنَ النُّبُوَّةِ سِرًّا إِلَى مَنْ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ’’
(تفسير القرآن العظيم/ ابن كثير۔ سورۃ الضحی: 11)
یعنی محمد بن اسحاق (مشہور مؤرخ) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کی نعمت اور کرامت جو آپ کو ملی ہے، اس کا بتا دیں اور اس کا ذکر کریں اور اس کی طرف بلائیں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنے گھر والوں میں سے جن کے متعلق آپؐ کو اطمینان تھا، خفیہ طور پر اس نبوت کے بارے میں بتانا شروع کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر انعام کی تھی۔
یعنی حضرت نبی اکرمﷺ پر سورۃ العلق، المزمل اور المدثر کی آیات کا نزول ہوچکا تھا لیکن ابھی تک رسالت مآبﷺ نے دنیا کے سامنے اپنے نبی اور رسول ہونے کا اعلان نہیں فرمایا تھا حالانکہ بقول معاندین احمدیت ‘‘ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یک دم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے’’۔ ابن کثیر کے مطابق سورۃ الضحیٰ کے نزول کے بعد آنحضرتﷺ اپنی نبوت کا بتاتے ہیں وہ بھی ساری دنیا کو نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو، اور گھر والوں میں سے بھی اُن کو جن کے متعلق آپ کا دل مطمئن تھا اور وہ بھی خفیہ طور پر۔
ہاں علامہ القرطبی (متوفّیٰ 671ھ)نے قرآنی آیت یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَأَنذِرْ (المدثر 2-3) (اے کپڑا اوڑھنے والے! اُٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر)کے تحت لکھا ہے: ‘‘وَقِيلَ: الْإِنْذَارُ هُنَا إِعْلَامُهُمْ بِنُبُوَّتِهِ، لِأَنَّهُ مُقَدِّمَةُ الرِّسَالَةِ’’
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔ زیر آیت ھذا)
یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ انذار سے یہاں مراد اہل مکہ کو اپنی نبوت سے آگاہ کرنا ہے کیونکہ یہ (نبوت) رسالت کا پیش خیمہ ہے۔
ابن عربی کا قول بھی ساتھ درج کیا ہے:
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: مَعْنَى يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ أَيِ الْمُدَّثِّرُ بِالنُّبُوَّةِ وَأَثْقَالِهَا. ابْنُ الْعَرَبِيِّ: وَهَذَا مَجَازٌ بَعِيدٌ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ تَنَبَّأَ بَعْدُ
یعنی المدثر کے معنی نبوت کی چادر اوڑھنے والے کے متعلق ابن عربی کہتے ہیں کہ یہ استعارہ بعید از امکان ہے کیونکہ ابھی تک آپ نے کوئی نبوت (پیشگوئی) نہیں کی تھی۔
رسول اللہﷺ کے تدریجی دعوے از قرآن کریم
آنحضرتﷺ سب انبیاء سے افضل تھے، مگر جب تک حضورﷺ کےلیے اس کی کامل تشریح نہ کردی گئی کبھی حضورﷺ نے اس بات کا علی الاعلان اظہارنہ فرمایا۔ درحقیقت حضورﷺ کے دعاوی میں تدریجی طور پر ارتقا ہوا ہے، یعنی جیسے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا آپﷺ اسی طرح بحسب حکم الٰہی اپنے دعاوی کا اعلان کرتے چلے گئے۔ بہر کیف قرآن پاک سے ہمیں آنحضرتﷺ کی تبلیغ رسالت کے تین دَور نمایاں طور پر ملتے ہیں جن سے آپؐ کے دائرہ رسالت میں تدریج نظر آتی ہے
(1)ابتدا میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ
وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ
(الشعراء:215)
یعنی اپنے قریبی اقارب کو دعوت حق دیجئے۔
(2)اسی طرح قیام مکہ میں ہی فرمایا کہ
وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا(الشوریٰ:8)
اور اسى طرح ہم نے تىرى طرف عربى قرآن وحى کىا تاکہ تو بستىوں کى ماں کو اور جو اس کے اردگرد ہىں ڈرائے یعنی مکہ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو دعوت حق دیجئے۔
(3)بعد ازاں اس سے بھی بڑھ کر جبکہ آپﷺ ہجرت سے قبل ابھی مکّہ میں ہی مقیم تھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ
قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا
(الاعراف:159)
تُو کہہ دے کہ اے انسانو! ىقىناً مىں تم سب کى طرف اللہ کا رسول ہوں۔
ان تینوں آیات قرآنیہ سے، نیز ماقبل بیان کردہ حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تدریجاً آپ کا دائرہ نبوت بڑھایا، اوائل میں آنحضورﷺ کو قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کرنے کا حکم تھا، بعد ازاں مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں تک پیغام پہنچانے کا حکم ملا جس کے بعد پھر ساری دنیا کو دعویٰ رسالت پہنچانے کا حکم ملا۔ بظاہر یہ موٹی بات تھی کہ جو ساری دنیا کے لیے رسول ہےوہ بہر حال قومی اور ملکی رسولوں سے ممتاز ہوگا۔
رسول اللہﷺ کے دعویٰ میں ‘‘تدریج’’کا تذکرہ کتب تفسیر میں !
سورۃ الانشقاق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ۔
(الانشقاق:20)
ىقىناً تم ضرور درجہ بدرجہ ترقى کروگے۔
علامہ رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں مختلف مطالب بیان کرتے ہوئے تیسرا یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں :
‘‘وَثَالِثُهَا: لَتَرْكَبَنَّ يَا مُحَمَّدُ دَرَجَةً وَرُتْبَةً بَعْدَ رُتْبَةٍ فِي الْقُرْبِ مِنَ اللّٰهِ تَعَالَى’’
(التفسير الكبير/ الرازي۔ سورۃ الانشقاق آیت نمبر 19)
یعنی اے محمدؐ ! اللہ تعالیٰ کے قرب کے درجات اور مراتب میں آپؐ ضرور درجہ بدرجہ ترقی کریں گے۔
علامہ القرطبی نے بھی الشعبی کے حوالے سے یہی بیان فرمایا ہے کہ
‘‘لَتَرْكَبَنَّ يَا مُحَمَّدُ سَمَاءً بَعْدَ سَمَاءٍ، وَدَرَجَةً بَعْدَ دَرَجَةٍ، وَرُتْبَةً بَعْدَ رُتْبَةٍ، فِي الْقُرْبَةِ مِنَ اللّٰهِ تَعَالَى’’
یعنی آپؐ اللہ تعالیٰ کے قرب میں ، ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک اور ایک درجہ کے بعد دوسرا درجہ تک،اور ایک رتبہ کے بعد دوسرا رتبہ سر کریں گے ۔
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔ سورۃ الانشقاق آیت نمبر 19)
یعنی آپؐ اللہ تعالیٰ کی قربت میں ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان ،ایک درجہ کے بعد دوسرا درجہ اور ایک رتبہ کے بعد دوسرا رتبہ سر کریں گے۔
امر واقعہ بھی یہی ہے کہ آنحضرتﷺ پر درجہ بدرجہ اپنے مراتب کا انکشاف ہوایہاں تک کہ آپؐ پر اپنےخاتم النبیین ہونے کی حقیقت واضح ہو گئی۔
رسول اللہﷺ کے دعویٰ میں تدریج کا تذکرہ کتب احادیث میں
بعض نادان غیر مسلم معترضین ہیں، متذکرہ واقعات پر، اور اُن احادیث پر جن کا تذکرہ ذیل میں ہے۔ جن میں آپؐ نے اپنے آپ کو دیگر انبیاء سے افضل قرار دینے سے ابتداءً منع فرمایا تھا اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذباللہ آپؐ اپنے دعوے کو نہ سمجھ سکے، جبکہ ورقہ بن نوفل اور دیگر صحابہ اس حقیقت کو سمجھ گئے تھے، اور وہ لڑائیاں کر رہے تھے، اور نعوذباللہ انہیں کے کہنے پر آپؐ نے سمجھا(بطور مثال ایک حوالہ برائے معترضین اس مضمون میں نہ چاہتے ہوئے بھی درج کیا جائے گا) مگر یہ معترضین کی غلطی ہے، درحقیقت اِن سارے واقعات میں بھی نہایت خوبصورت پیرایہ میں آنحضرتﷺ کی بے نفسی اور سادگی عیاں ہے، ورنہ نعوذ باللہ منصوبہ باز ہوتے تو فی الفور اشتہار شروع کردیتے۔
جیسا کہ اُوپر رسول اللہؐ کے دعاوی میں تدریج از قرآن کے عنوان کے تحت بتایا گیا ہے بظاہر یہ موٹی بات تھی کہ جو ساری دنیا کے لیے رسول ہےوہ بہر حال قومی اور ملکی رسولوں سے ممتاز ہوگا۔
مگر عملاً آپﷺ ہجرت مدینہ کے بعد بھی اپنے آپ کو دیگر انبیاء سے مقابلۃ ًافضل قرار دینے سے منع فرماتے رہے۔
جیسا کہ فرمایا:
لَا تُخَيِّرُوْنِي عَلَى مُوسَى۔
(بخاری كِتَاب الخُصُومَاتِ بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الإِشْخَاصِ وَالخُصُومَةِ بَيْنَ المُسْلِمِ وَاليَهُودِ)
مجھ کو موسیؑ سے افضل نہ کہو
اسی طرح فرمایا :
مَنْ قَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَب۔
(بخاری کتا ب التفسیر تفسیر سورۃ النساء باب اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا)
کہ جو کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا اور بہتر ہوں یقیناً وہ جھوٹ بولتا ہے۔
اسی طرح بخاری کتاب احادیث الانبیاء میں درج روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ
مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ….)
یعنی کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہے کہ مَیں (یعنی آپؐ ) حضرت یونس سے بہتر ہوں۔
نیزصحیح مسلم میں لکھا ہے کہ
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِﷺ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ۔
( صحیح مسلم۔ كتاب الْفَضَائِلِ۔ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمِ الْخَلِيلِ ﷺ)
یعنی ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضورﷺ کو مخاطب کر کے کہا یَا خَیْرُالْبَرِیَّۃِ (مخلوق خدا میں سے سب سے بہتر انسان)!تو آپ نے فرمایا ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُکہ وہ تو حضرت ابراہیم ہیں۔
بلکہ یہاں تک بھی آپؐ نے فرمایا:
لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللّٰهِ۔
کہ انبیاء اللہ کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دیا کرو۔
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ)
سوال یہ ہے کہ جب آنحضورﷺ کو تمام دنیا کے لیے رسول کا خطاب مکہ میں دے دیا گیا تھا، نیز سب نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے تو پھر شروع میں آپؐ نے حضرت ابراہیمؑ، حضرت یونسؑ اور حضرت موسیٰؑ پر فضیلت کا اظہار کیوں نہ فرمایا؟
اس اشکال کا جواب بزرگان سلف کے اقوال میں کچھ یوں ہے کہ اُس وقت تک آپؐ کو اپنے افضل الانبیاء ہونے کا علم نہیں دیا گیا تھا، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو ان فضیلتوں کے اعلان کرنے کی ہدایت نہیں کی گئی تھی۔ چنانچہ اس ضمن میں بزرگان سلف کے کئی اقوال موجود ہیں، مثلاً حضرت یونسؑ والی روایت کی شرح میں علامہ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں :
‘‘قَالَ الْعُلَمَاءُ إِنَّمَا قَالَﷺ ذَلِكَ تَوَاضُعًا إِنْ كَانَ قَالَهُ بَعْدَ أَنْ أُعْلِمَ أَنَّهُ أَفْضَلُ الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ قَالَهُ قَبْلَ عِلْمِهِ بِذَالِكَ فَلَا إِشْكَالَ’’
یعنی علماء کے نزدیک اگر آنحضورﷺ نے یہ بات اپنے افضل الخلق ہونے کا علم ہونے کے بعد کی ہے تو پھر اس میں محض عاجزی و تواضع مراد ہے لیکن اگر یہ بات اس علم کے دیے جانے سے پہلے فرمائی ہے تو پھر کوئی دقت نہیں۔
علامہ النوویؒ اس قسم کی احادیث کے متعلق بحث کرتے ہوئے علماء کی طرف سے پہلی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ
‘‘قَالَ الْعُلَمَاءُ هٰذِهِ الْأَحَادِيثُ تَحْتَمِلُ وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنَّهُﷺ قَالَ هَذَا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ فَلَمَّا عَلِمَ ذَلِكَ قَالَ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَمْ يَقُلْ هُنَا إِنَّ يُونُسَ أَفْضَلُ مِنْهُ أَوْ مِنْ غَيْرِهِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ’’
(صحیح مسلم شرح النووی۔ کتاب الفضائل)
ترجمہ: علماء کے نزدیک ان احادیث کی دو توجیہات ہیں ۔ ایک یہ کہ آنحضرتﷺ نے یہ بات اس علم دیے جانے سے پہلے فرمائی تھی کہ آپؐ حضرت یونسؑ سے افضل ہیں لیکن جب آپؐ کو علم ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں بنی آدم کا سردار ہوں اور آپؐ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ حضرت یونسؑ یا اور کوئی نبی آپؐ سے افضل ہیں (یعنی آپؓ نے کوئی استثناء نہیں کیا)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے خیر البریۃ والی حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں :
‘‘قَوْلُہٗ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ قِیْلَ…فِيهِ وُجُوهٌ، أَحَدُهَا:أَنَّهُ قَالَ هَذَا تَوَاضُعًا وَاحْتِرَامًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لخِلَّتِهِ وَأُبُوَّتِهِ، وَإِلَّا فَنَبِيُّنَاﷺ كَمَا قَالَﷺ ‘‘أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ’’وَثَانِيهَا: أَنَّهُ قَالَ هَذَا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ۔’’
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، کتاب الآداب، باب المفاخرۃ والعصبیۃ فصل الاول)
کہ آنحضرت ﷺ کا (‘‘خیر البریۃ ’’کے متعلق )فرمانا کہ ‘‘وہ ابراہیم ہے۔’’ اس کے بارے میں مختلف آراء بیان کی گئی ہیں۔جن میں سے ایک یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور ؐکا یہ فرمانا ازراہ انکسار و احترام تھا اور یہ وجہ انکسارحضرت ابراہیم کے خلت(یعنی خلیل اللہ ہونے )اور ابویت (یعنی ابو الانبیاءہونے)کے تھا۔ورنہ ہمارے نبی پاکﷺ کا مقام تمام آدم زادوں کے سردار کا ہے اور فرمایا یہ کسی بھی قسم کے غرور کا موجب نہیں(بلکہ اظہار واقعہ ہے)۔دوسرا یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضورﷺ نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضورﷺ کو ابھی یہ اطلاع نہ ملی تھی کہ حضور ﷺ سب انسانوں سے افضل ہیں۔
مشکوۃ شریف کی مشہور اردو شرح ‘‘مظاہر حق’’ میں اسکی وجہ یہ لکھی ہے کہ ‘‘(۱)آپﷺ نے یہ بات بطور تواضع کے اور ان کے مقام خلت اور مقام ابوت کا لحاظ کرتےہوئے کہی ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی تعظیم و تکریم کا حقدار ہو اور دوسرے کو اپنے سے زیادہ عظمت والا کہے۔(۲)یہ سید ولد آدم اور افضل خلق کی وحی ہونے سے پہلے فرمایا۔(۳)ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانے کے اعتبار سے افضل خلق تھے اور مطلق عبارت مبالغہ کے لئے لائی گئی۔
(مظاہر حق شرح اردو مشکوۃ شریف ۔جلد چہارم از علامہ نواب محمد قطب الدین خان دہلوی ۔صفحہ ۵۱۱۔زیر حدیث بالا۔ناشر مکتبۃ العلم ۔اردوبازار لاہور۔کمپیوٹر ایڈیشن)
علامہ الرازیؒ اپنی تفسیر کبیر میں بیان کرتے ہیں :
فَالْعَقْلُ خَاتَمُ الْكُلِّ وَالْخَاتَمُ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ أَفْضَلَ أَلَا تَرَى أَنَّ رَسُولَنَاﷺ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ أَفْضَلَ الْأَنْبِيَاءِ عليهم الصلوٰۃ ا السلام۔
(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازی۔ زیر تفسیر سورۃ طٰہٰ آیت 25تا32)
یعنی عقل تمام قویٰ کے لیے خاتم(یعنی اعلیٰ ترین) کی حیثیت رکھتی ہے، اور خاتم کا مطلب ہی سب سے افضل ہونا ہوتاہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہمارے نبیﷺ خاتم النبیین ٹھہرے تو سب نبیوں سے افضل قرار پائے۔
مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے احقاق حق کے علی الاعلان کا اذن ہوا تو فرمایا کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ بطور فخر نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ، غَيْرَ فَخْر
قیامت کے دن میں انبیاء کا امام ہونگا، اور اس گروہ اصفیاء کا خطیب بھی میں ہی ہونگا،اور ان سب کا صاحب شفاعت بھی ہونگا،اور یہ سب کچھ وجہ (غیر حقیقی ) افتخار نہیں (بلکہ اظہار واقعہ ہے)
(سنن الترمذي۔ أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِﷺ، بَابٌ فِي فَضْلِ النَّبِيِّﷺ )
اسی طرح اپنا مقام قائد المرسلین بھی بتایا، جیسا کہ فرمایا:
أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ
(سنن الدارمي۔ مقدمۃ الکتاب۔ بَابُ مَا أُعْطِيَ النَّبِيُّﷺ مِنَ الْفَضْلِ)
کہ میں تمام نبیوں کا امام اور رہبر ہوں،اسی طرح میں خاتم النبین ہوں،اسی طرح میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور (یہ تمام اعلی مقام غیر حقیقی ) وجوہ افتخار نہیں (بلکہ اظہار واقعہ ہیں)۔
پھر حدیث قدسی میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے‘‘لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک’’(الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ)
کہ تو وہ کائنات کا مقصود آدم ہے جس کی خاطر افلاک کو پیدا کیا گیا۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا:
كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّينَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ
کہ میں سب نبیوں میں سے بحیثیت خلق یعنی پیدا ہونے میں پہلا ہوں،اور بعثت کے لحاظ سے آخر میں ہوں۔
(مسند الشاميين.المؤلف: سليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني باب۔ .مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَصْلُهُ بَصْرِيٌّ نَزَلَ الشَّامَ وَمَاتَ بِهَا۔ قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ)
بلکہ اس سے بھی ارفع مقام محمدیت یعنی مقام خاتمیت کی تصدیق اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
‘‘کنت خاتم النبیین وآدم منجدل بین الماءوالطین’’
کہ یقیناً میں اُس وقت بھی حقیقی معنوں میں عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ خاتم النبیین تھا،جبکہ آدم ابھی مٹی میں تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ جبکہ بعض جگہ یہ الفاظ بھی ہیں :
إِنِّي عَبْدُاللّٰهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ
(مسند احمد بن حنبل۔ مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ۔ حَدِيثُ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنِ النَّبِيِّﷺ )
جبکہ مشکوٰۃ شریف میں درج حدیث کے الفاظ یہ ہیں
إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهٖ
(مشكاة المصابيح۔ کتاب الفتن وكِتَابِ الْفَضَائِلِ بَابُ فَضَائِلِ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَﷺ ِ)
کہ میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم ابھی مٹی میں تخلیق کے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا۔ اور یہ بھی آپؐ نے فرمایا :
فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ۔
یعنی مجھے تمام انبیاء پر چھ وجوہات سے فضیلت دی گئی ہے۔
(مسلم كتاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاَةِ)
(جاری ہے)
٭…٭…٭