عید الاضحی یعنی قربانی کی عید اور ہماری ذمہ داریاں
از افاضات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اصل چیز تقویٰ ہے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
٭…آج ہم عیدالاضحی جسے عید قربانی بھی کہا جاتا ہے منا رہے ہیں۔مکے میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں بھی مسلمان لاکھوں جانور آج ذبح کر رہے ہیں اور کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو یہ جانوروں کی قربانی عبادت کا حصہ ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے اور وہ لوگ جو عمرہ اور حج نہیں بھی کر رہے لیکن توفیق رکھتے ہیں ان کے لیے بھی قربانی کےجانور ذبح کرنا ایک اچھی بات ہے لیکن اگر تمہاری قربانیاں صرف دنیاداری اور دکھاوے کی قربانیاں ہیں اور ان میں وہ روح نہیں جو ایک متقی میں ہونی چاہیے تو پھر یاد رکھو تمہاری قربانیاں بے فائدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی خون کا پیاسا نہیں ہے، بھوکا نہیں ہے کہ لاکھوں جانوروں کے خون اور گوشت کی اسے حاجت ہے اور پھر وہ ان لوگوں کو جو اس کی یہ حاجت پوری کریں خوش ہو کر جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اُس کو تو کوئی ضرورت نہیں اس چیز کی۔ پس اگر کسی کا دل تقویٰ سے خالی ہے تو قربانی کے نام پر تم درجنوں جانور بھی ذبح کر دو یا کسی ملک میں لاکھوں جانور بھی ذبح ہو جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں بن سکتے۔
پس ہمیشہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے اور تقویٰ کی روح سے کی گئی قربانی خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور اس ظاہری قربانی میں دل میں تقویٰ رکھنے والے کا یہ اظہار ہے اور ہونا چاہیے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور جس طرح یہ جانور جو انسانوں کے مقابلے میں بہت معمولی چیز ہیں اس لیے ان کی قربانی دی جا رہی ہے، ایک ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جا رہا ہے اسی طرح میں بھی اس قربانی سے سبق لیتے ہوئے اپنے سے اعلیٰ چیز کے لیے، اعلیٰ مقاصد کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا۔ میں اس قربانی سے یہ سبق لے رہا ہوں کہ میں جو عہد کرتا ہوں اور کر رہا ہوں کہ جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ہے اس کو ہر حال میں پورا کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ میرے کسی فعل میں دنیا داری اور نفس کی ملونی نہیں ہو گی۔ پس یہ عید قربانی ہمیں اگر ہمارے فرائض ،ہماری ذمہ داریاں اور عہد دلانے والی نہیں تو یہ ایسی عید ہے جو ہم صرف ایک ظاہری میلے کی طرح منا رہے ہیں۔ یہ عید ہم میں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن رہی۔ یہ عید ہمیں قربانیوں کی اہمیت کا احساس نہیں دلا رہی۔ یہ عید ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کر رہی۔ یہ عید ہمیں اپنے عہد کو پورا کرنے کا احساس نہیں دلا رہی۔ صرف ہم نے قربانی کی اور بھیڑ، بکری یا گائے بھی ذبح کر کے خود بھی اس کا گوشت کھایا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی کھلایا تو یہ سب بے فائدہ ہے اگر اس میں قربانی کی روح نہیں۔ فائدہ تو تبھی ہے جب ہم اپنے عہدکو پورا کرنے والے بنیں۔ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور پھر احمدی مسلمان بنایاجس نے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جان، مال، وقت، عزت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا اور پھر اس عہد بیعت کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے خلافت احمدیہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کامل شرح کے ساتھ عہدِ بیعت نبھاؤں گا۔ پس جب یہ سب کچھ ہو گا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا پانے والے لوگوں میں شامل ہونے کی خوشخبری دیتا ہے۔
پس اگر یہ روح ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے عمل اس کے مطابق ہو جاتے ہیں تو ہم بھی ان خوشخبری پانے والے لوگوں میں شامل ہونے کی امید رکھ سکتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔
(خطبہ عید الفطر فرمودہ12؍اگست2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جون2020ءصفحہ6تا7)
اپنی اولاد کو قربانی کے لیے تیار رکھنا چاہیے
پس یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ اپنی نسلوں کو بھی ان حقیقی عیدوں کا ادراک پیدا کروائیں۔ ان کی اس نہج پر تربیت کریں کہ وہ بھی ذاتی اور اہلی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ ورنہ اگر یہ قربانیوں کی اہمیت کا تسلسل ہم نے اپنی اولادوں میں قائم نہ رکھا۔ اگر ہم خود اس کی اہمیت کو بھول گئے تو پھر انعامات سے بھی محروم کر دئیے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جب خاندان اور عزیزوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑا تو کیا آپ اکیلے رہ گئے؟ نہیں۔ بلکہ آپ کو اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح شمار ہو گئی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا اکیلے رہ گئے؟ نہیں۔ بلکہ آپ کو وہ مخلص اور فدائی اور ہر قربانی کے لئے تیار صحابہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جو آسمان کے ستاروں کی طرح نہ صرف بڑی تعداد میں تھے، بڑی کثرت میں تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے ایسے چمک رہے تھے کہ دنیا کے ایک حصے نے بھی ان کی روشنی سے فیض پایا۔ جہاں جہاں وہ پہنچے اس روشنی کو پھیلاتے چلے گئے۔ پس آج ہمیں اس اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قربانی کی عید سے یہ سبق لینا چاہئے کہ ہم نے اپنی اولاد کو قربانی کے لئے تیار کرنا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے تیار کیا تھا تبھی تو وہ ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں تم دنبہ ذبح کر دو۔ اب دنبہ تو انسان کی جان کا بدل نہیں ہو سکتا اور نہ یہ کوئی ایسی قیمتی چیز تھی جو اُن کے بیٹے کے متبادل تھی۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے تو دنبہ ایک معمولی چیز تھی کیونکہ ان کے پاس تو جانوروں کے ریوڑ تھے۔ کافی دولتمند تھے۔ جو شخص مہمانوں کے آنے پر فوراً ایک بچھڑا ذبح کر سکتا ہے اس کے لئے دنبہ ذبح کرنا تو معمولی چیز ہے۔ پس اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اور ہماری اولادیں دنبے نہ بنیں۔ اپنے نفس کے دنبوں کو ذبح کریں۔ صرف دنیاوی لحاظ سے ہم اولاد کی تربیت نہ کریں، صرف ان کے کھلانے پلانے کا خیال نہ رکھیں، ان کو صحتمند نہ بنائیں بلکہ ان میں انسانیت پیدا کریں۔اتنا پیار اور لاڈ نہ کریں کہ وہ صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو جائیں، ان میں انسانیت نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہ رہے۔ وہ اپنے مقصد پیدائش کو نہ پہچانیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو دنبے کے ذبح کرنے کا کہہ کر اللہ تعالیٰ یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ اپنی اولاد میں سے دنبہ پن ختم کرو گے تو وہ انعامات کی وارث بنے گی اور جب تک یہ ختم رہے گا وارث بنتی چلی جائے گی اور نبوت ان میں قائم رہے گی۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 2 صفحہ114-115)
پس اس نکتے کو ہم میں سے ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اپنی اولاد کی صرف دنیاوی صحت کی طرف اور بہتری کی طرف ہم توجہ نہ رکھیں کہ اس سے ہمیں دنیاوی فائدے ہوں گے بلکہ ان کی تربیت، ان کو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا فہم و اِدراک، ان کو اخلاق حسنہ میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلانا، ان میں توحید کے قیام کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے پر توجہ پیدا کرنا، یہ ضروری چیزیں ہیں جو ہماری ذمہ داری ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم خود بھی ان باتوں پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اور جب یہ ہو گا تو ہم آخرین کی اس جماعت میں شامل ہونے والے ہوں گے جس نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے اپنی عیدوں کو منانا ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ابراہیم کہا ہے اور آپ کو بھی کثرت سے جماعت کے پھیلنے کی خوشخبری دی ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
اُرِیْحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا
یعنی میں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔ آپؑ فرماتے ہیں اس کے ساتھ ہی دل میں ایک تفہیم ہوئی جس کا مطلب یہ تھا جیسا کہ میں نے ابراہیم کو قوم بنایا۔
(تذکرہ صفحہ 530ایڈیشن چہارم )
پس اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے لوگ کثرت سے عطا فرمائے گا جو حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی طرح قربانیوں کو بھی یاد رکھیں گے اور توحید پر قائم رہنے والے ہوں گے۔ توحید کو پھیلانے والے بھی ہوں گے اور اس کے لئے کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔ اپنے نفس کو دنبہ بنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی طرف ان کی توجہ ہو گی۔ صرف اور صرف دنیا ان کا مقصد نہیں ہو گا یا دنیا کا کمانا ان کا مقصد نہیں ہو گا بلکہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں گے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ عید الفطر فرمودہ25؍ستمبر2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍اکتوبر2015ءصفحہ9)
٭…٭…٭