اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے نا پسندیدہ ہے؟
سوال: اسی ملاقات میں ایک سوال حضور انور کی خدمت اقدس میں یہ پیش ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے نا پسندیدہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارے میں فرمایا:
جواب: بات یہ ہے کہ ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ کونسی نیکی ہے جو میں اختیار کروں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کرو جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ایک دوسرا شخص آیا اس نے کہا کونسی نیکی ہے جو میں کروں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم مالی قربانی کرو، یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ تیسرا شخص آیا اس نے کہا بتائیں کونسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو میں کروں۔ آپؐ نے کہا اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اسی طرح چوتھا شخص آیا اس کو ایک اور بات بتائی۔ تو آنحضرتﷺ ان کے حالات جانتے تھے اور پتہ تھا کہ کس کس میں کون کون سی کمزوریاں ہیں۔ کچھ ان کے حالات جاننے کی وجہ سے پتہ ہوں گی، کچھ اللہ تعالیٰ بھی راہ نمائی کرتا ہوگا۔ تو ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ یہ انسان کو خود جائزہ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات سو احکام دیے ہیں۔ نیکیاں بھی بتائی ہیں، نواہی بھی بتائے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے کہ کیا کام کرنے ہیں اور کیا منع ہیں۔ اوامر کیا ہیں اور نواہی کیا ہیں۔ کرنے والے کام کیا ہیں اور نہ کرنے والے کام کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی لسٹ بتا دی۔ اب خود انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ میرے میں کونسی کمزوری ہے جس کو میں دور کروں اور کونسی نیکی ہے جو میں نہیں کرتا اس کو میں کروں۔ تو اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے کر خود یہ کرے تو اصلاح پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اپنے نفس سے فتویٰ لینا چاہیے۔ ہر ایک فتویٰ Black and White میں ظاہر نہیں ہوجاتا۔ اصولی طور پر یہی حکم ہے کہ اپنی کمزوریوں کو تلاش کرو اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ اورنہ صرف کمزوریاں دور کرو بلکہ نیکی بھی کرو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی اصول بتا دیا وہ یہ بتا دیا کہ تمہارے دو کام ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو، اس کی عبادت کا حق ادا کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق صحیح طرح ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ نیکیاں ہی کرتا رہے۔ کیونکہ اس کی عبادت کا حق ادا ہو رہا ہوتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کا حق ادا کرو۔ جب انسان اس کے بندو ں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کسی سے برائی نہیں کرتا اور پھر مزید نیکیوں کی بھی توفیق ملتی چلی جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ تو بنیادی چیز یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو۔ باقی انسان تفصیلات میں جائے تواپنا خود جائزہ لے، اپنے ضمیر سے دیکھے، پوچھے کہ کیا برائیاں ہیں جو میں نے چھوڑنی ہیں اور کیا نیکیاں ہیں جو میں نے کرنی ہیں۔ باقی یہ بھی ہے کہ ایک شخص آیا اس نے آنحضرتﷺ سے کہا کہ میں اتنا نیک نہیں ہوں، میرے میں بہت ساری برائیاں ہیں۔ آپ مجھے ایک برائی بتا دیں جو میں چھوڑدوں، باقی میں ابھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: اچھا تم یہ عہد کر لو کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا، ہمیشہ سچ بولنا ہے۔ جب اس نے ہمیشہ سچ بولنے کا ارادہ کیا تو ہر دفعہ جب کوئی برائی کرنے لگتا تھا تو اسے خیال آتا تھا کہ اگر آنحضرتﷺ نے پوچھا کہ تم نے یہ برائی کی ہے تو اگر میں سچ بولوں گا تو شرمندگی ہو گی، جھوٹ بولوں گا تو میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس طرح آہستہ آہستہ اس کی ساری برائیاں ختم ہو گئیں۔ تو انسان کو خود دیکھنا چاہیے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ اس لیے انسان کو جائزہ لینا چاہیے کہ میں نے چھوٹی سے چھوٹی با ت پہ بھی جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کو شرک نا پسند ہے۔ تو یہ بہت ساری باتیں ہیں جو ہر ایک کے حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ اس لیے خود جائزہ لے لیں کہ کیا کمی ہے۔ لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو اور جب کوئی کام کرنے لگو تو یہ دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جب یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر انسان برائی سے رُکے گا اور نیکیاں کرے گا۔