مضامین

ایٹمی ہتھیاروں کا ارتقا اور خلفائے احمدیت کی نصائح

(مدثر ظفر)

’’ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا‘‘

جنگ و جدل کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود حضرت انسان۔البتہ معلوم انسانی تاریخ کی پہلی باقاعدہ جنگ جس میں مقتولین کے اعداد و شمار جمع کیے گئے جنگ مگادو کے نام سے جانی جاتی ہے جو 1479 قبل مسیح میں فرعون مصر تھاٹموس سوئم اور قادیش کے سلطان کے اتحاد سے کنعانی جاگیر دار ریاستوں کے ایک بڑے باغی اتحاد کے درمیان لڑی گئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دَور iron age کی ابتدا تھی چنانچہ قرین قیاس ہے کہ اس جنگ میں لوہے سے بنے ہتھیار استعمال نہیں ہوئے تھے۔آہنی ہتھیار بعد ازاں وجود میں آئے۔ اس کے باوجود ہلاکتوں کی تعداد چار سے آٹھ ہزار اور زخمیوں کی تعداد تین ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔دستیاب وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک غیر معمولی تعداد تھی اور ابتدا تھی انسانیت سوز جنگی جنون کی جس میں دشمن کو زیر کرنا مقصود تھا،اس مقصد کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا اور ایسے سامان حرب بنائے گئے جو دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔اسباب کچھ بھی رہے ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ ہر دَور میں جنگوں نے انسانیت کو سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں دیا۔ایک دوسرے کے وسائل پر قبضہ جنگ کی بنیادی وجوہات میں سے ہے۔عصر حاضر کی تہذیب یافتہ دنیامیں بھی جنگوں کے یہی محرکات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں قبائل کے مابین جنگیں بھی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ختم ہوتی تھیں۔فاتح قبائل مال غنیمت حاصل کرتے،قیدیوں کو جنگی غلام بناتےان کی املاک پر قبضہ کرتےاور ان کی زمینوں سے ہونےوالی آمد پر ٹیکس وصول کرتے۔شکست کا مطلب اپنی آزادی اورخود مختاری،اپنی املاک یہاں تک کہ اپنے قومی تشخص تک کو تیاگنا تھا۔جنگوں نے انسانی خیالات، رویوں اور اخلاق پر بہت منفی اثرات مرتب کیے جس نے استعماری خیالات کی حامل جنگجو قوموں کی ذہن سازی کی۔

ہتھیار کسی بھی جنگ کی فتح و شکست میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ مہلک سے مہلک ہتھیار ایجاد کرے۔یہ سلسلہ پتھر کے دور سے ہوتا ہوا اب ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں تک پہنچ چکا ہے۔جنگیں انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں جس میں قدیم اور خود ساختہ جدید دور میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ بڑی طاقتوں نے اپنی جارحیت پسند مہم جوئیوں کو قانونی شکل دینے کے لیے انسانی حقوق کے نام پر عالمی ادارے بنا کر تیسری دنیا کے ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔قریب نویں صدی عیسوی میں بارود کی ایجاد سے ہتھیار سازی کونئی جہت ملی، البتہ پہلے پہل چینیوں نے بارود کو صرف آتش بازی کے لیے استعمال کیا۔لیکن جب یہ ایجاد اہل یورپ کے ہاتھ لگی تو اس سے انہوں نے توپ کے گولے بنائے۔یہ تو نہ صرف جانی نقصان کرتیں بلکہ دشمن کی فصلوں اور دیگر املاک کو بھی تباہ کرکے رکھ دیتی تھیں اور قلعے کی فصیلوں کے سینے بھی چاک کر نے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔1526ء میں پانی پت کے میدان میں بابر کا توپ خانہ فیصلہ کن ثابت ہوا اوراسے فتح ہوئی۔بارودی ہتھیاروں میں بھی ارتقا جاری رہا یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم تک ٹینک،توپیں،بارودی شیل اور رائفل وغیرہ وجود میں آ چکی تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا نے مہلک ترین ایٹمی ہتھیار کا سواد بھی چکھ لیا۔

ایٹم کی دریافت سے ایٹمی ہتھیاروں تک

ایٹم کی دریافت، اس کی تقسیم اور بالآخر ایٹمی ہتھیاروں تک کا سفر ایک صدی سے بھی طویل تھا اور اس سارے پیچیدہ سلسلہ میں دریافت اور ایجادات کی ایک طویل فہرست ہے۔چنانچہ کسی ایک سائنسدان کو ایٹم بم کا موجد نہیں کہا جاسکتا۔البتہ قرعہ فال اگر ایک شخص کے نام نکالنا ہو تو وہ جے رابرٹ ہیں۔

ہمارے ارد گرد ہرچیز ایٹم سے مل کر بنی ہے۔سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ہر وہ چیز جو اپنا وجود رکھتی ہے ایٹم پر مشتمل ہوتی ہے۔ایٹم کسی بھی مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جسے مادے کی بنیادی اکائی تسلیم کیا جاتا ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ جس کے کیمیائی خواص برقرار رہتے ہیں اور انہیں انسانی آنکھ سے دیکھنا ناممکن ہو،حتی کہ ایٹم کو کسی عام خوردبین سے بھی دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ایٹم کی ساخت کو دریافت کرنے میں سائنسدانوں کو بہت زیادہ وقت لگا۔دراصل ان ایٹموں کی ترتیب ہی کسی مادے کی خصوصیات کا تعین کرتی ہے۔ایٹم کے مرکز میں ایک نیوکلیس ہوتا ہے جس میں نیوٹران اور پروٹان ہوتے ہیں نیوٹران پر کوئی چارج نہیں ہوتا جبکہ پروٹان پر مثبت چارج ہوتا ہے۔نیوکلیس کے مدار میں گردش کرتے الیکٹران پر منفی چارج ہوتا ہے۔پروٹان کسی عنصر کے خواص کا تعین کرتا ہے اور اب تک 118 عناصر دریافت کیے جا چکے ہیں۔جرمن سائنسدان مارٹن کیلپروتھ نے 1789ء میں یورینیم دریافت کیا تھا جو بعد ازاں ایٹمی ہتھیاروں کی تخلیق میں کلیدی کردار کا باعث بنا تھا۔لیکن لاشعوری طور پر ایٹم بم کی بنیاد 1896ء میں پڑی جب فرانسیسی طبیعیات دان ہینری بیکل نے یورینیم کی ریڈیو ایکٹوٹی کو دریافت کیا۔ایک عرصہ تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ ایٹم کو توڑا نہیں جا سکتا۔جان ڈالٹن وہ شخص تھا جس نے 1803ء میں یہ نظریہ پیش کیا کہ کسی چیز کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں تو سب سے آخری ذرہ جو ہمیں حاصل ہوگا وہ ایٹم ہوگا اور اس کی مزید تقسیم ممکن نہیں ہوگی۔مائیکل فیراڈے نے 1832ء میں نمکیات کے محلولوں میں سے برقی رو گزار کر یہ نتائج اخذ کیے کہ بجلی گزرنے سے ایٹم اور مالیکیول دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔اس تجربہ سے اس نے Electrolysis کے قوانین بھی وضع کیے۔ Periodic Table کے موجد مینڈیلیف نے 1869ء میں تمام عناصر کو ان کے خواص کی بنا پر سات درجات میں تقسیم کیا اور بتایا کہ جیسے جیسے ایٹم بھاری ہوتے جاتے ہیں ان کے خواص میں تبدیلی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے بالآخر ایک ایسا ایٹم آتا ہے جہاں سے یہ عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ 1897ء میں سر ولیم کروکس نے ڈسچارج ٹیوب میں کیتھوڈ ریز دریافت کی تھیں اور بعد کے تجربات سے ثابت ہوا کہ کیتھوڈ ریز اور تابکاری کی بیٹا ریز درحقیقت تیز رفتار الیکٹرانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

جے جے تھامس نے کیتھوڈ شعاعوں کی ایسی خصوصیات دریافت کیں جن سے معلوم ہوا کہ ایٹم اپنے اجزا یعنی الیکٹرانوں اور مثبت آئن میں توڑا جا سکتا ہے۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن ابھی تک الیکٹران کا چارج اور اس کی کمیت دریافت نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس کامیابی پر انہیں 1906ء میں فزکس کا نوبیل انعام دیا گیا۔1898ء میں میری کیوری نے یورینیم اور تھورییم کی تابکاری کے مشاہدات کیے اور ایٹم کے اس طرح خودبخود ٹوٹنے کے عمل کو تابکاری کا نام دیا۔توانائی بھی ذرات پر مشتمل ہو سکتی ہے اس دریافت کا سہرا میکس پلانک نامی سائنسدان کے سر ہے۔ یہ دریافت انہوں نے 1900ء میں کی لیکن اس کوانٹم تھیوری کو بلوغت تک پہنچنے میں 25 سال لگ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنا پیچیدہ عمل ہے۔ایٹم میں بھی الیکٹرون ایک مثبت ذرے کے گرد چکر لگاتے ہیں یہ خیال 1903ء میں ناکوگا نامی سائنسدان نے پیش کیا۔ 1905ء میں آئن سٹائن نے یہ بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ دراصل پلانک کے نظریے کی ہی جدید تشریح تھی۔ 1914ء میں موزلے نے ایٹمی مرکزوں کا چارج معلوم کر لیا۔اس نے انکشاف کیا کہ اب تک کیمیادان جسے ایٹمی نمبر سمجھتے تھے وہ دراصل ایٹمی مرکزوں میں موجود پروٹونوں کی تعداد ہے۔چنانچہ دوری جدول یعنی Periodic Table کو ایٹمی وزن کی بجائے ایٹمی نمبروں سے ترتیب دینے میں کامیابی ملی۔

1919ء میں ایسٹون نامی سائنسدان نے تجربات کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک ہی عنصر کے ایٹم مختلف ایٹمی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں۔ 1922ء میں نیلز بوہر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایٹم کے مرکزے کے گرد الیکٹران کے کئی مدار ہوتے ہیں اور جب الیکٹران توانائی جذب کرتا ہے تو بیرونی مدار میں چلا جاتا ہے اور الیکٹران جب اندرونی مدار میں لوٹتا ہے تو وہی توانائی خارج ہو جاتی ہے۔ 1923ء میں ایک سائنسدان ڈی بروگلی نے ثابت کیا کہ الیکٹران نہ صرف مادی خصوصیات رکھتا ہے بلکہ اس میں لہر یا موج کی خاصیت بھی پائی جاتی ہے۔اس سے آئن سٹائن کے نظریہ کو تقویت ملی کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔1929ء میں والٹن نے پہلا ایکسلریٹر بنایا اور 14؍اپریل 1932ء وہ تاریخی دن تھا جب یہ معلوم ہوا کہ پروٹان تیز رفتاری سے لیتھیم سے ٹکراتے ہیں تو لیتھیم کا ایٹم ٹوٹ کر ہیلییم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اس طرح تاریخ میں پہلی بار انسان نے کسی ایٹم کے مرکزے کو توڑا۔ اس تجربہ نے بھی آئن سٹائن کے نظریے کی توثیق کر دی۔1932ء میں جیمز کیڈوک نے پولونیم کی تابکاری سے حاصل ہونے والے الفا ذرّوں کی مدد سے نیوٹران دریافت کر لیا جو کہ ایک بڑی کامیابی تھی۔اس طرح Nuclear Spin کا معمہ بھی حل ہو گیا جس کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانا ناممکن نہیں رہا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ ایٹم پر یہ ساری تحقیق انسانیت کو نیست کرنے کے لیے کسی انتہائی مہلک ہتھیار بنانے کے لیے عمداً کی جارہی تھی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی توانائی کو انسانیت کے فائدہ کے لیے استعمال کرنا مقصود تھا۔اوراس پر تحقیق کرنےوالے چوٹی کے سائنسدان اس توانائی سے بجلی پیدا کرنے جیسے مفید منصوبوں پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔لیکن وہ دور دوسری جنگ عظیم کا تھا جہاں ہر ایسی تحقیق منفی رخ پر مڑتی گئی۔ 1934ء میں فرمی نے دریافت کیا کہ اگر نیوٹران کی رفتار کم کر دی جائے تو وہ دوسرے ایٹمی مرکزوں میں زیادہ آسانی سے جذب ہو کر نیوکلیائی تعاملات کا سبب بنتا ہے۔ انریکو فرمی نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔ اس مرحلے تک عام خیال ایٹمی توانائی کو تعمیری عوامل جیسا کہ بجلی بنانے جیسے مفید کاموں میں استعمال کرنے کا ہی تھا۔ لیکن بعض سائنسدان یہ جانتے تھے کہ اسے تباہی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی صورت تاحال واضح نہ تھی۔

جرمن سائنسدان مائیٹنر، ہان اور ان کے ساتھی طبیعیات دان فرٹز اسٹریسمن اپنی تجربہ گاہ میں نیوکلیئر فیژن کے تجربات میں مصروف تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس میں کامیابی کے نتیجے میں بہت زیادہ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ تجربہ کامیاب رہا لیکن مائیٹنر نے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اسے کسی سائنسی جریدہ میں شائع نہیں کیا۔یہ توانائی تباہی کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اس کا اشارہ مائیٹنر نے بعد ازاں اپنے تحقیقی مقالہ میں بھی کر دیا۔اس سے اس موضوع پر کام کرنےوالےدوسرے سائنسدانوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس میں پریشانی والی بات یہ تھی کہ یہ بات جرمن سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی تھی اور ایسے وقت میں کی گئی تھی جب جرمنی پولینڈ پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔انہیں خدشہ تھا کہ اگر ایسا مہلک ہتھیار ہٹلر کے ہاتھ لگ گیا تو پوری دنیا کو خطرناک نتائج کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔

خط جو ایٹمی ہتھیار وں کی تخلیق کی وجہ بنا

دوسری جنگ عظیم کے دور میں جب جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا تو یہودیوں نے مختلف ممالک میں پناہ کی غرض سے ہجرت کی۔ان میں مشہور طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن بھی تھے جو جرمنی میں ہو رہے ایٹم پر تجربات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔انہیں خدشہ تھا کہ جرمنی جلد ہی ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے گا۔مائیٹنرکا خیال کہ ایٹم کو تباہی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے نے آئن سٹائن کے خدشے کو دو چند کر دیا تھا۔اسی خدشہ کے پیش نظر اگست 1939ء کو آئن سٹائن نے اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا کہ نازی سائنسدان ایک نیا اور طاقتور ہتھیار بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ آئن سٹائن کے ساتھی طبیعیات دان لیوسزلارڈ اور دو اور ساتھیوں نے آئن سٹائن پر امریکی صدر کو نہ صرف خط بھیجنے پر زور دیا بلکہ آئن سٹائن کے ساتھ مل کر خط کا مسودہ تیار کرنے میں بھی معاونت کی۔یہ خط مین ہیٹن پراجیکٹ کی وجہ بنا جہاں ایٹم بم کی پیدائش ہوئی۔مائیٹنر سے اس سلسلہ میں معاونت طلب کی گئی لیکن انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔وہ اس دریافت کو تخریب اور انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال کرنے کے مخالف تھے۔

تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی جؤا،مین ہیٹن پراجیکٹ

مین ہیٹن پراجیکٹ دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بم کی تخلیق کے لیے بنایا گیا ایک تحقیقی پراجیکٹ تھا۔اس میں بنیادی کردار امریکہ کا تھا جس میں کینیڈا اور برطانیہ نے معاونت کی۔اس خفیہ منصوبہ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس منصوبہ کے لیے اس وقت دو ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی گئی تھی۔اس منصوبہ کو راز داری سے شروع کیا گیا،یہاں تک کہ کئی کلیدی عہدوں پر تعینات حکومتی اراکین بھی اس سے لاعلم تھے۔ادھر جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو کئی اور ممالک بھی جنگ کا حصہ بنتے گئے۔کچھ عرصہ بعد حالات اس طرح ہوئے کہ امریکہ نے جرمنی، جاپان اور اٹلی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر امریکہ نے ایٹم بم پر تحقیق کا کام اور تیز کر دیا۔ساڑھے چار سال کی مختصر مدت کی تحقیق سے ایٹم بم وجود میں آیا جو تجربہ کے لیے بالکل تیا ر تھا۔16؍جولائی 1945ء کو میکسیکو کے علاقےٹرینیٹی میں صبح ساڑھے پانچ بجے دنیا کے پہلے ایٹمی بم کاکا میاب تجربہ کر لیاگیا۔مین ہیٹن پراجیکٹ میں شامل سائنسدان ایڈورڈ ٹیلر اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ ’’میں اس وقت کافی متجسس تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا اور فکر مند بھی کہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے،اس پراجیکٹ میں میرے ساتھ کام کرنے والے کئی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔‘‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’شاید کسی کو یقین نہ آئے لیکن ایٹم بم کے مرکزی مواد کو ایک بیوک کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر سائیٹ تک لے جایا گیا۔‘‘ ایک اور ماہر طبیعیات فلپ مورسن کے مطابق دھماکے سے چند لمحے قبل جب سورج نہیں ابھرا تھا، اندھیرا تھا لیکن دھماکا ہوتے ہی ماحول ایک گرم دن کی طرح روشن ہو گیا۔

مین ہیٹن پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ اوپین ہائمر لکھتے ہیں:’’پہلے یقین ہی نہیں آیا کہ تجربہ کامیاب ہو چکا ہے، وہ ایک جذباتی منظر تھا، کچھ لوگ ہنس رہے تھے، کچھ خاموش تھے اور کچھ رو رہے تھے۔‘‘

فرینکلن روزویلٹ کے بعد ہیری ایس ٹرومین صدر بن چکے تھے۔ انہوں نے کامیاب تجربے کے چند ہی روز بعد جوہری مواد مشرقی ایشیا میں امریکی بحری بیڑے کے لیے بھجوانے کی اجازت دی۔ یہ مواد انڈیانا پولس نامی بحری جہاز لے کر گیا جسے واپسی پر جاپان کی آبدوز نے نشانہ بناتے ہوئے تباہ کر دیا تھا تاہم موت کا سامان مرکزی بیڑے پر پہنچ چکا تھا۔ایٹمی حملے سے چند گھنٹے قبل ہیری ایس ٹرومین نے جاپان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر ہماری شرائط تسلیم نہیں کی جائیں گی تو آپ کو آسمان سے برسنے والی ایسی تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے جس کی مثال دنیا میں کہیں موجود نہیں۔‘‘

حملے کے بعد انہوں نے مین ہیٹن کے سائنس دانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ’’ہم نے تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی جؤاکھیلا اور جیت لیا۔‘‘

ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملہ

6؍اور 9؍اگست کولٹل بوائے(Little Boy)اور فیٹ بوائے(Fat Boy)نامی بم بالترتیب ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جس سے مجموعی طور پر دو لاکھ 14 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ پلک جھپکتے دونوں شہر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اس تباہی نے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا اور چند روز بعد ہی جاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا تو 90 ملین افراد اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ کروڑوں افراد زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے اورلاکھوں افراد کو ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور یہ جنگ معلوم انسانی تاریخ کی خونریز ترین جنگ ثابت ہوئی۔قید میں مرنے والوں اور جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی مہلک بیماریوں اور علاج معالجہ کے تباہ حال نظام کی بدولت سسک سسک کر مرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اس جنگ کو گزرے ثلث صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔اب ایٹمی ہتھیاروں میں ناقابل یقین جدت آ چکی ہے اور کئی مزید مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں۔اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ تیسری عالمی جنگ دنیا کے اختتام کا نقارہ بجا دے گی۔

ایٹمی ہتھیار کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟

ایٹمی ہتھیارانسانیت کی موت ہے جس کے استعمال سے ہونے والی تباہی نے دنیا کو دو ادوار میں تقسیم کر دیا۔اس کی ہولناک تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایٹمی دھماکے کے مرکز کے پانچ کلومیٹر کے اندر اندر تین سیکنڈ میں انسانی جسم سمیت ہر زندہ چیز بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔دھماکے کے فوری بعد آنکھوں کو چندھیا دینے والی نہایت تیز روشنی خارج ہوگی اور 80 کلومیٹر دور موجود لوگ بھی عارضی طور پر بینائی سے محروم ہو جائیں گے۔اس کے بعد ایک Heat waveآئے گی جس کا دائرہ آٹھ کلومیٹر تک ہوگا اور انسانی جسم جھلس کر رہ جائے گا۔یعنی اس کی زد میں آنے والے کی موت سو فیصد یقینی ہے۔تیسرے درجے پر ایٹمی تابکاری کا اخراج ہوگا اور چوتھے درجے پر ایک آگ کا گولہ فضا میں بلند ہوگا۔دھماکے کی آواز سنائی دے گی اور پھر ایٹمی دھماکے کا سب سے خطرناک مرحلہ ہو گا جب Radioactive Fallout ہوگا۔اس میں کچھ منٹ اور کچھ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔اس میں مہلک تابکاری ذرات فضا سے زمین پر برسیں گے جو جان لیوا ثابت ہوں گے۔ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم بہت ابتدائی نوعیت کے تھے اس کے باوجود انہوں نے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا اور اس تباہی کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج اتنی جدت آجانے کے بعد یہ کتنا مہلک ثابت ہوگا۔ ماضی کے مقابلہ میں ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی اور ان کی ممکنہ تباہ کاری کا موازنہ کیا جائے تو کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔جدید ایٹمی ہتھیار ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور ماضی کے ہتھیاروں کی حیثیت آج کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ایک بچے کی سی ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سےخلفائے احمدیت کے انذار

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کےزمانے میں دوسری عالمی جنگ برپا ہوئی جس کے دوران 6؍اگست1945ء کو امریکہ نے جاپان کے شہر پر ایٹم بم گرا دیا۔یہ پہلا موقع تھا جب انسانی آبادی پر براہ راست ایٹم بم پھینکا گیا۔بلند و بالا عمارتوں سے اٹا شہر آن واحد میں چٹیل میدان کی صورت اختیار کر گیا اور ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔لاتعدادزخمی ہوئے اور ان میں کئی عمر بھر کےلیے معذور ہو کر رہ گئے۔اس کے ردعمل میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے 10؍اگست 1945ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:’’یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطۂ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے۔ لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں۔ لیکن با وجود ان عداوتوں کے اور باوجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا …‘‘(الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ1تا 2)

پھر آپؓ نے فرمایا :’’پس میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں۔ گو حکومت اسے برا سمجھے گی۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہےکہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں …ہمارا فرض ہے خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے مجبور ہیںکہ اس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔‘‘(الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ3)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ القارعہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الْقَارِعَةُ وہ عذاب ہے جو کسی نبی کی صداقت کے اظہار کے لئے آئے…جب لوگ خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز نہیں سنتے اور روحانی طور پر سوئے رہتے ہیں تو خدا تعالیٰ دستک دے کر جگانے کے لئے کچھ عذاب بھجواتا ہے۔ان دستکوں سے آخرو ہ روحانی نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں اور رسول کی آواز سننے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ508)

فرمایا:’’میں سمجھتا ہوں کہ الْقَارِعَةُ سے ایٹم بم مراد ہے اور اس عذاب کی ساری کیفیت ایسی ہے جو ایٹم بم سے پیدا شدہ تباہی پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔یہ بم ایسا خطرناک اور تباہ کن ہے کہ اس سے بچنے کی سوائے اس کے اَور کوئی صورت نہیں کہ لوگ منتشر اور پراگندہ ہو جائیں۔ یہ بم جس جگہ گرتا ہے سات سات میل تک کا تمام علاقہ خس و خاشاک کی مانند جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔بلکہ ایٹم بم کے متعلق اب جو مزید تحقیق ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ سات میل کا بھی سوال نہیں چالیس چالیس میل تک یہ ہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ہیروشیما پر اٹومک بم گرایا گیا تو بعد میں جاپانی ریڈیو نے بیان کیا کہ اس بم سے ایسی خطرناک تباہی واقعہ ہوئی ہے کہ انسانوں کے گوشت کے لوتھڑے میلوں میل تک پھیلے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہ بالکل وہی حالت ہے جس کا قرآن کریم نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے کہ انسانوں کا وجود تک باقی نہیں رہے گا۔ ہڈی کیا اور بوٹی کیا سب باریک ذرات کی طرح ہو جائیں گے۔ اور پتنگوں کی مانند ہوا میں اڑتے پھریںگے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 515)

فرمایا:’’غرض وہ عذاب ہے جو موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی صورت میں ظاہر ہوا۔اور جس کے ہولناک نتائج آج دنیا پر ظاہر ہو چکے ہیں۔لیکن ابھی کیا ہے ابھی تو صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے پھر اور ایجادات ہوں گی پھر اور ہوں گی یہاں تک کہ انہی ایجادات کی لپیٹ میں یوروپین اقوام اپنے آپ کو تباہ کر لیں گی۔سو سنا ر کی اور ایک لوہار کی ضرب المثل کے ماتحت آخری حملہ خدا تعالیٰ کا ہو گا اور جن لوگوں کے اعمال کو حقیقی وزن حاصل ہو گا وہ جیت جائیں گے اور دنیا پر ان کو غلبہ و اقتدار حاصل ہو جائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ522)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا انذار

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 28؍جولائی 1967ء کو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں ایک تاریخی خطاب فرمایا جو ’’امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں آپؒ فرماتے ہیں:’’پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہو گی۔ دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا۔ آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہو گی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا۔ دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔

روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کانام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بھگار رہی ہے وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی۔ شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔

پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے…اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گا اور دنیا کو منور کرے گا۔لیکن پہلے اس سے کہ یہ واقع ہو ضروری ہے کہ دنیا ایک اور عالمگیر تباہی میں سے گزرے ایک ایسی خونی تباہی جو بنی نوع انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے اور انذاری پیشگوئیاں توبہ اور استغفار سے التواء میں ڈالی جا سکتی ہیں بلکہ ٹل بھی سکتی ہیں۔ اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کر ے اور توبہ کرے اور اپنے اطوار درست کر لے، وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے اگر وہ دولت اور طاقت اور عظمت کے جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دے اور اپنے رب سے حقیقی تعلق قائم کرے، فسق و فجور سے باز آ جائے…اگر دنیا نے دنیا کی مستیاں اور خرمستیاں نہ چھوڑیں تو پھر یہ انذاری پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مصنوعی خدا دنیا کو موعودہ ہولناک تباہیوں سے بچا نہ سکے گا۔پس اپنے پر اور اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدائے رحیم و کریم کی آواز کو سنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور صداقت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔‘‘(امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ،صفحہ10تا13)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا انذار

حضورؒنے دنیا کو واشگاف الفاظ میں ایٹمی جنگ کی خوفناک تباہی سے متنبہ فرمایا جس کی طرف تیزی سے دنیا بڑھ رہی ہے۔ سورۃ الْقَارِعَةُ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’یہاں AtomicWarfareکا ذکر ہے۔ خصوصاً رسول اللہ ؐکے زمانے کے انسان کو اس قارعۃ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ جس قارعۃکی طرف یہ سورت اشارہ کر رہی ہے۔ یعنی اس آخری قارعۃکی طرف۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بڑی بڑی طاقتور حکومتیں اور طاقت کے پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ دھنی ہوئی روئی میں کوئی طاقت نہیں ہوتی۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 305)

سورۃ الهُمَزَة کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’حُطَمَة کو تو عرب جانتے تھے کہ یہ باریک سے باریک ذرہ کا نام ہے لیکن ایٹم کو نہیں جانتے تھے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ ایسے ستون جو کھینچ کر لمبے کیے گئے ہوں۔ یہی نقشہ ایٹمی دھماکہ کا ہے یہ آگ ان ایٹموں میں محفوظ رکھی گئی ہے۔ اگر یہ محفوظ نہ ہوتی تو ایٹم بم بناتے ہوئے ہی پھٹ جائے تو کوئی محفوظ نہ رہتا۔‘(ترجمۃ القرآن نمبر 305)

سورۃ الدخان کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’یہاں دخان سے مراد وہ دھواں ہے جو دجال کے زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے Atomic Explosion کے نتیجے میں نکالا جائے گا…وہ جہاں سے گزرے گا وہاں موت کا پیغام دے گا۔…یہ عذاب ضرور دنیا پر نازل ہو گا اور بڑے رقبوں پر پھیل جائے گا۔ جن پر پھیلے گا ان رقبوں کو زندگی سے عاری کر دے گا۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 255)

سورت طہٰ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’جہاں تک جبل کا لفظ ہے، قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جبل سے مراد عظیم الشان طاقتیں ہیں جو دنیاوی طاقتیں ہیں چنانچہ سورت طہٰ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا۔ وَيَسْأَلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفاً۔(طہ:106) اے محمدؐ! تجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ جو چاروں طرف تیرے بڑی بڑی حکومتیں دنیا میں قائم ہیں، یہ انسانی پہاڑ بنے ہوئے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ ان پر تجھے کیسے غلبہ نصیب ہو گا؟تُو تو دنیا کے لحاظ سے کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ تُو ان سے کہہ دے ان پوچھنے والوں سے يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا میرا رب ان کو پارہ پارہ کر دے گا،ریزہ ریزہ کر دے گا۔ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۔(طہٰ:107)اور ان کو ایک چٹیل میدان میں تبدیل کرے گا۔ لَا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا۔(طہ:108)پھر تو ان کو بڑی بڑی عظیم الشان قوموں کو ایسے برابر اور سدھری ہوئی حالت میں پائے گا کہ ان کے اندر نہ کوئی کجی باقی رہے گی،نہ کوئی تکبر باقی رہے گاکوئی اونچ نیچ باقی نہیں رہے گی۔ يَوْمَئِذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهٗ(طہٰ: 109) وہ دن ہو گا اور وہ زمانہ ہو گا۔جب کہ اس داعی یعنی محمد مصطفیٰ ؐکی پیروی کے لئے یہ ذہنی اور قلبی طور پر تیار ہوں گے۔جس میں کوئی عِوَجَ نہیں کوئی کجی نہیں۔ پس پہلے خدا ان کی کجیاں دور کرے گا،ان کے تکبر توڑے گا، ان کی Civilizationsکو تباہ کرے گاا ور ملیا میٹ کردے گا۔ اور ان پہاڑوں کو پارہ پارہ کرے گا پھر ان میں سے زندگی کے نئے آثار پھوٹیں گے۔…چاروں طرف جو بڑی بڑی حکومتوں کے پہاڑ ہیں۔کہیں آپ کو مشرق میں روس دکھائی دیتا ہے اور کہیں مغرب میں آپ کو امریکہ دکھائی دیتا ہے۔ کہیں شمالی یورپ کی طاقتیں ہیں کہیں جنوب مشرق میں جاپان اور دوسری بڑی بڑی طاقتیں پھیلی پڑی ہیں۔ یہ ساری طاقتیں یہ تمام پہاڑ آپ کے زیر نگیں کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن محبت کا جادو ہے جو ان پر چلے گا۔ اپنے ماحول میں محبت کے جادو جگانے لگیں کہ اس کے ذریعے ہی روحانی مردے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ‘‘(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 3؍جولائی1990ءمطبوعہ خطبات عیدین )

آپ نے ایک رویا ءدیکھی جس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:’اس سلسلہ میں ایک دفعہ ایک رویاءبھی دیکھی تھی…کئی سال پہلے کی ہے۔ وہ بہت ہی واضح ہے…اکثر رویاء جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہےوہ وہم و گمان میں ویسے آ ہی نہیں سکتیں۔مَیں نے دیکھا کہ میں ایک Russia کا نام تو نہیں ہے لیکن یہاں سے جو میرے ذہن میں سمت ہے وہ Russiaکی سمت ہے اور Russiaکا بھی شمالی حصہ۔وہاں ایک بہت بلند پہاڑ ہے میں وہاں کھڑا ہوں۔ اور وہ جو ماہرین ہیں زمین کی ساخت کے Geologist، ان میں کوئی ایک چوٹی کا ماہر ہے جو مجھ سے سبق لینے کے لیے وہاں میرے ساتھ کھڑا ہے…تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ جو Russia کے پہاڑ ہیں۔ سارے پہاڑ بُھربُھرے ہو جاتے ہیں اور چوٹیوں سے ڈھلکنے لگتے ہیں۔Wave after wave. Wave after wave۔جس طرح لہریں چلتی ہیں اس طرح پہاڑ اتر رہے ہیں۔جیسے کسی نرم چیز کے ڈھیر کو زیادہ اونچا کر دیا جائے تو خود بخود ڈھلکنے لگتا ہے اور وہ ایک سمت میں آر ہے ہیں اور میں دور سے دیکھتا ہوں نظارہ تو ساری دنیا بھاگی جا رہی ہے اس قدرPanicہے۔قیامت آئی پڑی ہے اور دیکھتا ہوں،اس سمت میں ہوں جس طرف یورپ کا باقی حصہ ہے۔ اور لوگ چھوڑ چھوڑ کر دوڑ رہے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ اب یہ جو بُھرتے ہوئے پہاڑ ہیں یہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اس وقت جو ہمارے ساتھ ہیں ان میں بھی تھوڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کیوں نہیں میں اب جلدی چل رہا۔میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ رستے بنائے ہوئے ہیں جن سے میں آرام سے نکل جاؤں گا اس لئے کوئی گھبراہٹ نہیں آرام سے بیٹھو تیاری کرو اور دروازے بند کر کے پھر ہم کار سٹارٹ کرنے لگتے ہیں تو خواب ختم ہو گئی۔

اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جو جنگ عظیم آئے گی آئندہ۔اس میں کوئی دھماکا Russia کی طرف سے پہلے ہو گا۔ کوئی آغاز وہاں سے ہو گا اور پھر جس طرح پہاڑ بُھرتے ہیں۔ اس طرح ہو گا مجھے بعد میں خیال آیا کہ قرآن کریم نے جو یہ فرمایا ہے سورت طہٰ میں کہ خدا تعالیٰ پہاڑوں کو اکھاڑ پھینکے گا اور چٹیل میدان بنا دے گا تو یہ تو اس کی تعبیر ہے بالکل…تو ہو سکتا ہے کہ آغاز Russiaکی طرف سے ہو کسی وجہ سے… کوئی ایسا واقعہ ہو جس کے نتیجے میں پھر وہ دھماکا ہو جائے۔ تو یہ یقیناً ہونے والی باتیں ہیں جو آئندہ زمانے میں ہوں گی… مگر یہ خوشخبری ہے کہ احمدیوں کو اللہ بچا لے گا رستہ رکھا ہوا ہے جس رستے سے وہ نکل جائیں گے انشاء اللہ۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 74)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انذار

ماضی کی مہمات سے دنیا نے سبق نہیں سیکھا اور مسلسل دنیاکے مختلف کونوں میں جنگ کے الاؤ دہکائے جارہے ہیں۔آپ نے تمام دنیا کو مستقبل کی کسی بھی جنگی جارحیت کے عواقب سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:’’آجکل دنیا میں چھوٹے پیمانے پر جنگیں شروع ہیں۔ آج دنیا کو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ عالمی جنگ کی صورت بھی بن سکتی ہے۔ جس کی تباہی نا قابل یقین ہو گی۔‘‘(خطبات مسرور جلد9صفحہ 610تا611)

آپ فرماتے ہیں:’’اب تک ہم دو عالمی جنگیں دیکھ چکے ہیں۔ دنیا پھر اس لپیٹ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا کے فوجی بجٹ باقی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور صرف فوج بڑھانے اور اسلحہ رکھنے اور فوجی طاقت بننے کی طرف دنیا کی زیادہ توجہ ہو رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بد امنی دنیا میں مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں۔‘‘(خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 147)

برطانیہ وہ ملک ہے جواس سہ ملکی اتحاد میں شامل تھا جنہوں نے مین ہیٹن پراجیکٹ کے تحت دنیا کا پہلا ایٹم بم بنایا۔اس پراجیکٹ کے تحت ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں بننے والے مہلک ہتھیار سے انسانیت سوز تباہی پھیلانے کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔اسی ملک کے ارباب اختیار کے سامنے کھڑے ہو کر آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’آج دنیا ایک اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ محدود پیمانہ پر جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے۔ بعض جگہوں پر بڑی طاقتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہم امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو ان چھوٹی چھوٹی جنگوں کے شعلے بہت بلند ہو جائیں گے۔ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس لیے میری آپ سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کو تباہی سے بچائیں‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ11)

نویں سالانہ امن کانفرنس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آج کے دور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اور عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بداثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ درحقیقت اس کے ہولناک نتائج آئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ایسی جنگ کا المناک نتیجہ تو ان نومولود بچوں کو بھگتنا پڑے گا جواب یا آئندہ پیدا ہوں گے۔ جو ہتھیار آج موجود ہیں وہ اس قدر تباہ کن ہیں کہ ان کے نتیجہ میں نسلاً بعد نسلٍ بچوں کے جینیاتی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ43)

عصر حاضر کی سپر پاور اور کسی ملک پر براہ راست ایٹمی حملے کی ذمہ دار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عمائدین اور سرکردہ لیڈران کوکیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں مخاطب کرتے ہوئے جھنجھوڑا اور مستقبل میں عالمی امن کے حوالے سے انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے فرمایا:’’خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جومکمل طور پرمبنی بر انصاف ہوں۔ بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلاکس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بننے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو۔ ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ79)

یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں 30؍ممالک کے 350؍نمائندگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’مظالم کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں پھیلنے دیا گیا تو نفرت کے شعلے لازماً تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور پھر یہ نفرت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ دنیا حالیہ معاشی بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی بھول جائے گی اور اس کی جگہ پہلے سے بھی بڑھ کر ہولناک صورتحال کا سامنا ہوگا۔ اس قدر جانیں ضائع ہوں گی کہ ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ پس یوروپین ممالک، جودوسری جنگ عظیم میں بڑے نقصان دیکھ چکے ہیں،ان کا فرض ہے کہ وہ ماضی کے اپنے تجربہ سے سبق حاصل کر یں اور دنیا کو تباہی سے بچائیں…اگر ہم اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو دنیا کا کوئی بھی حصہ جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کن اثرات سے محفوظ نہ رہے گا۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ96تا98)

انگلستان کے پارلیمنٹ ہاؤس لندن میں خطاب کرتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ، ممبران ہاؤس، لارڈز اور متعدد وزراءکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اَور عالمی جنگ کے آثار دنیاکے افق پر نمودار ہورہے ہیں۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متاثر ہوگی۔ آ ئیں خود کو اس تباہی سے بچالیں۔ آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کر لیں کیونکہ یہ مہلک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہوگی اور دنیا جس طرف جارہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ129)

اس دَور میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کی عالمی امن کے لیے گراں قدر کوششوں سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی۔عقیدہ کے اختلاف کے باوجود اگر کوئی معاند احمدیت تعصب سے بالا تر ہو کر بنظر انصاف آپ کی قیام امن کی کوششوں کو دیکھے تو اس بات کا ضرور اعتراف کرے گا کہ آپ نے کسی بھی فورم پر سپر پاور اور دنیا کی تمام بڑی بڑی طاقتوں کے سربراہان کو ان کے سامنے کھڑے ہوکر ان کی ماضی اور حال کی جنگی مہمات کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا اور آئندہ کے لیے خبردار کیا۔آپ نے نہ صرف اپنے خطبات اور خطابات میں مسلسل دنیا کو اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی بلکہ دنیا کے بعض طاقتور ممالک کے سربراہان کو خطوط لکھ کر بھی ان کو اس طرف خصوصیت سے توجہ دلائی۔

اسرائیل جو پوری عرب دنیا میں موجود واحد ایٹمی طاقت رکھتا ہے کے صدر کو مکتوب روانہ کیا جس میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا:’’عالمی جنگ چھڑ نے کا خطرہ نہایت سنجیدگی سے سامنے آ رہا ہے جس سے مسلمانوں،عیسائیوں اور یہودسب کی جانوں کو خطرہ ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسی جنگ چھڑ گئی تو یہ انسانی تباہی کا ایک جاری سلسلہ ہوگا جس کا شکار آنے والی نسلیں ہوں گی جو اپاہج یا معذور پیدا ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دھانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکن کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت وشنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں تا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تاب ناک مستقبل مہیا کر سکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذور یوں کا تحفہ دینے والے ہوں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ160)

امریکی صدر اوباما نے ورثے میں ملی عراق اور افغانستان کی جنگیں جن کا آغاز صدر بش کے زمانے میں ہوا جاری رکھا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد معصوم شہریوں نے ان جنگوں میں جان کی بازیاں ہاریں لاکھوں معذور ہوئے۔ ان جنگوں کا شاخصانہ ہے کہ آج وہ ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں شمار ہیں۔کئی سالوں پر محیط ان جنگوں نےتعلیم،صحت روزگار جیسی بنیادی ضروریات زندگی کا خاتمہ کرکے رکھ دیا۔

آپ نے صدر اوباماکو مخاطب کیا اور لکھا:’’ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی نا کامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932ءوالے بحران میں بہت ہی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے۔ اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے۔ اور یقیناً یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا۔ ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری، بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کر یں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ176)

مین ہیٹن پراجیکٹ میں شامل امریکہ کے دوسرے اتحادی ملک کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’میں آپ سے پرزور استدعا کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے دنیا کی چھوٹی بڑی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ میں کودنے سے بچائیں‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ184)

عالم اسلام میں سعودی عرب نہ صرف ایک الگ اور مؤقر مقام رکھتا ہےبلکہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے اور معاشی طور پر مضبوط ملک ہونے کی وجہ سے عالمی معاملات میں صائب الرائے بھی ہے۔یہی وجہ ہے سعودی عرب کے حکمرانوں کی مخلصانہ کوششیں امن عالم میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے شاہ کے نام خط میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی بھر پور کوشش کریں۔ اگر تیسری عالمی جنگ واقعی مقدر ہے تو کم از کم ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی ابتدا کسی مسلم ملک کی طرف سے نہ ہو…پس اے سعودی عرب کے بادشاہ! دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ صرف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین۔ آپ کے لیے اور تمام مسلم امت کے لیے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم کی دعا کے ساتھ۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ193)

برطانیہ کے وزیر اعظم کی طرف مکتوب روانہ کیا اور لکھا:’’میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ اور ناکامی کی صورت میں ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ 209)

دو ارب سے زائد عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینیڈکٹ XVIکے نام خط لکھا اور فرمایا:’’نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اگر ہم دنیا کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد عدل و انصاف کی راہ اپنائی جاتی تو آج دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ ایک بار پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ متعدد ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کے باعث بغض و عداوت بڑھ رہی ہے اور دنیا تباہی کے دھانہ پرپہنچ چکی ہے۔ اگر وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والےیہ ہتھیار پھٹ جائیں تو آئندہ نسلیں اس غلطی پر ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے انہیں معذوری اور اپاہچ پن تحفہ میں دیا ہے…میں دنیا کو بار بار توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی عداوتیں اور انسانی اقدار کی پامالی دنیا کو تباہی کی طرف لے جار ہی ہیں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 152تا153)

روس اور یوکرائن کا باہمی تنازعہ کافی عرصہ سے جاری تھا جو بالآخر روس کی یوکرائن پر چڑھائی پر منتج ہوا۔اس جنگ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔اسی خدشہ کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے24؍ فروری 2022ءکو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے فرمایا:’’گذشتہ کئی سال سے مَیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں تاریخ سے، بالخصوص بیسویں صدی میں ہونے والی دو تباہ کن عالمی جنگوں سے، سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مَیں نے مختلف اقوام کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر پرزور توجہ دلائی کہ وہ اپنے قومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے کی ہر سطح پر حقیقی انصاف کوقائم کرتے ہوئے دنیا کے امن و سلامتی کو ترجیح دیں۔یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی ہے اور حالات انتہائی سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ نیز یہ بھی عین ممکن ہے کہ روسی حکومت کے آئندہ اقدامات اوراس پر نیٹو(NATO) اور بڑی طاقتوں کے ردّعمل کے باعث یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی خوف ناک اور تباہ کن ہوں گے۔ لہذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مزید جنگ اورخون ریزی سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے۔مَیں روس، نیٹو (NATO)اور تمام بڑی طاقتوں کو پُرزور تلقین کرتاہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صَرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پُر امن حل تلاش کریں۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ2022ءصفحہ1تا2)

جنگ معاشی بد حالی لاتی ہے،قیمتی جانوں کا ضیاع کرتی ہے،املاک تباہ ہوتی ہیں اور عمر بھر کی معذوری مقدر بن جاتی ہے۔بچے یتیم ہوتے ہیں،سہاگ اجڑتے ہیں اور بوڑھے ماں باپ کے سہارے چھن جاتے ہیں۔جنگ سے متاثرہ اقوام کو پیروں پہ کھڑا ہونے میں عشروں بیت جاتے ہیں۔جنگیں انسانی تاریخ کا تاریک ترین باب ہیں اور یہ دنیا مزید کسی عالمی تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اللہ کرے یہ دنیا خلفاء کے انذار کو سمجھے تا مزید تباہی سے بچ رہے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button