الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 16، 18 اور 19؍ستمبر 2013ء میں مکرم راشد بلوچ صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے جس میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 28؍جولائی 2017ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی اسی حوالے سے ایک مضمون شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ یہ بات قطعیت سے نہیں کہی جاسکتی کہ سب سے پہلے بیعت کرنے والے بلوچ خوش نصیب کون تھے۔ لیکن اندازہ ہے کہ غالبا ًوہ حضرت منشی فتح محمد بزدار صاحبؓ تھے۔ 313؍صحابہ کی فہرست میں آپ کا نام 97نمبر پر درج ہے۔

بزدار خاندان کے حضرت منشی فتح محمدصاحب بلوچ ولد محمد خان بزدار صاحب لیہ کے رہنے والے تھے جو اُن دنوں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع تھا۔ آپ گورنمنٹ انگریزی کے محکمہ ڈاک میں بطور اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر ملازم تھے۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ غلام فاطمہ، صاحبہ کشف والہام تھیں، انہیں حضورعلیہ السلام کے دعوے کی خبر ملی جس کی شہادت حضرت فتح محمد بزدارؓ نے ایک اشتہار میں 12 مئی 1897ء کو شائع کرائی۔ ستمبر 1895ء میں حضورؑ نے حکومت کے نام ایک اشتہار میں اپنی جماعت کے 700 افراد کے نام درج فرمائے جن میں حضرت منشی صاحبؓ کا نام بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1895ء تک آپؓ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو چکے تھے۔ حضورؑ کا یہ اشتہار ’’آریہ دھرم ‘‘میں شامل ہے۔

’’سراج منیر‘‘ کے آخر میں ’’فہرست چندہ برائے طیاری مہمان خانہ و چاہ وغیرہ‘‘ کے تحت فہرست میں آپؓ کا چندہ پانچ روپے اور ’’تحفہ قیصریہ‘‘ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی 1897ء کے تحت آپ کے ایک روپیہ چندے کا ذکر ہے۔ ’’کتاب البریہ‘‘ میں بھی آپؓ کا نام فہرست احباب میں درج ہے۔ آپ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان کے میں نمایاں احمدی تھے۔ آپ کی وفات 1905ء میں اپریل کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ 7 دسمبر1905ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے وفات پاجانے والے چند احباب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’سال گزشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہوگئے …اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ میں کئی مصالح رکھے ہوں گے اس سال میں حزن کے معاملات دیکھنے پڑے۔‘‘

٭…حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسویؓ کا تعلق گو بلوچ قوم سے نہیں تھا لیکن آپ ایک لمبے عرصے سے ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں بلوچوں کے ساتھ آباد تھے اور آپ کی تبلیغ سے ہی ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ آپ بستی مندرانی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بعدازاں آسنور کشمیر تشریف لے گئے۔ تبلیغی سرگرمیوں میں یوں محو ہوئے کہ وہیں بسیرا کر لیا،شادی بھی وہیں ہوئی اور 1920ء میں وفات پاکر وہیں بالآخر آسودہ خاک ہوئے۔

آپ کا اصل نام محمد تھا اور محمد شاہ کے نام سے شہرت پائی۔ ڈکھنہ برادری سے تعلق تھا۔ یہ برادری ضلع ڈیرہ غازی خان کے میدانی علاقے میں آباد تھی۔ آپ نے راولپنڈی کے ایک احمدی حکیم صاحب سے طبابت سیکھنی شروع کی تو اُن کی وساطت سے ہی قادیان پہنچے تاکہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے استفادہ کریں۔ وہیں قبولِ احمدیت کی سعادت ملی۔ آپؑ کا قیام حضرت مولوی صاحبؓ کے کتب خانے میں تھا اور حضورؓ نے ہی آپؓ کے قیام و طعام کا بندوبست فرمایا۔ جب ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘شائع ہوئی تو آپؓ قادیان میں ہی رہائش پذیر تھے۔پس آپؓ 1901ء سے قبل ہی قادیان جابسے تھے۔ قبولِ احمدیت کے بعدآپؓ نے بستی مندرانی کے پڑھے لکھے احباب کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کیے۔اسی تناظر میں آپؓ نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ایک مہینے کے لیے اپنے وطن جانے کی خواہش کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں تو حرج نہیںمگر حضرت صاحبؑ سے اجازت لینا چاہیے۔ چنانچہ آپؓ نے خدمت اقدسؑ میں اجازت کے لیے تحریر کیا تو حضورؑ نے تحریر فرمایا:

’’انسان جب سچے دل سے خدا کا ہو کر اس کی راہ اختیار کرتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس کو ہر یک بلا سے بچاتا ہے اور کوئی شریر اپنی شرارت سے اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہوتا ہے سو چاہئے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی پناہ ڈ ھونڈو اور نیکی اور راستبازی میں ترقی کرو اور اجازت ہے کہ اپنے گھر چلے جاؤ اور اس راہ کو جو سکھلایا گیا ہے فراموش مت کروکہ زندگی دنیا کی ناپائیداراور موت درپیش ہے۔اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا۔غلام احمد ‘‘

چنانچہ آپؓ بستی مندرانی تشریف لائے اورآپؓ کی تبلیغ سے 15؍افراد نے تحریری بیعت کرلی جن میں سے آٹھ افراد کو قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف بھی نصیب ہوا۔

٭…حضرت مولوی محمد ابوالحسن صاحب بزدارؓ کی کنیت ابوالحسن اور نام عبدالرئوف تھا۔ مولوی عبدالقادر کے بیٹے تھے جو گاڑوالا قاضی کہلاتے تھے۔ یہ گھرانہ تعلیم و تعلم سے وابستہ تھا اسی لیے جلالانی ملاں کہلاتا تھا۔ آپؓ کی علمی عظمت کا شہرہ دامان کوہِ سلیمان میں خوب پھیلا۔ آپؓ کو ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی اشاعت کا بانی کہا جاتا ہے۔ کئی بڑی بڑی جماعتیں آپؓ کے ذریعے قائم ہوئیں۔ آپ ایک لائق مربی اور تجربہ کار حکیم تھے۔ آپ کا اصل وطن کوہ سلیمان کے اندر ’’کالا ماڑ‘‘ ہے۔آپ نے اپنی عمر کا اکثر حصہ یہیں بسر کیا۔آپ نے تین شادیاں کیں کیونکہ آپ کے ہاں نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی۔ تیسری شادی کے بعد آپ کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔

حضرت مولوی صاحبؓ اپنی سوانح میں فرماتے ہیں کہ میری عمر تقریباً چھ سات سال کی تھی کہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تعلیم کے لیے گھر سے نکلا اور ایک مولوی صاحب سے کچھ دن تعلیم حاصل کی لیکن میرے بھائی جلدی واپس گھر آگئے اور سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا۔ والد صاحب نے گھر میں ایک مولوی صاحب تعلیم کے لیے رکھے مگر ان سے بھی طبیعت کو موافقت نہ ہوئی اس لیے چودہ پندرہ سال کی عمر میں مَیں اپنے وطن سے نکل کھڑا ہوا اور مختلف مقامات میں پھرتا ہوا آخردہلی پہنچا۔ وہاں مولوی نذیر حسین دہلوی کے شاگرد مولوی محمد اسحاق سے حدیث پڑھنی شروع کی۔ ان دنوں حضرت اقدسؑ کا نکاح حضرت اماں جانؓ سے ہوا ۔ چونکہ ہم اُسی محلہ میں رہتے تھے جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا مکان تھا اس لیے حضرت میر صاحب کبھی کبھی ہمارے پاس آجاتے تھے اور بخاری شریف کی سماعت فرماتے تھے۔ اس زمانے میں بوجہ طالب علمی حضرت اقدسؑ کے بارے میں زیادہ توجہ نہ ہوئی۔ پھر بغرض حصول تعلیم و حکمت کے لکھنؤ چلا گیا اور وہاں سے تقریباً 1304ھ میں فارغ ہوکر واپس دہلی چلا آیا اور مولوی محمد اسحاق صاحب سے حضرت اقدسؑ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے اعتقادات کچھ خراب ہیں۔ پھر وطن واپس آکر مَیں حضرت اقدسؑ کے بارے میں خیال رکھتا رہا۔ اگر کوئی آپؑ کے بارے میں پوچھتا تو مَیں کہتا کہ اس بارے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک دو سال بعد میاں نذیر حسین نے حضرت اقدسؑ پر کفر کا فتویٰ دے دیا۔

پہلے خان صاحب فتح محمد صاحب بزدار مرحوم سکنہ لیہ نے مجھے کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ دی۔ جب اس کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا تو مَیں لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا گو اس وقت مَیں نے بیعت نہ کی تھی مگر حضرت اقدسؑ کے بارے میں میرے خیالات صاف تھے۔ پھر اس کے بعد کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا تو اعتقادات بالکل درست ہو گئے اور (1900ء) 1318ھ میں ہم چار افراد نے بستی رنداں سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ یعنی میرے علاوہ میرا شاگرد میاں عبدالاسد مرحوم ، میرا شاگرد میاں علی محمد اور میاں عیسیٰ خان صاحب مرحوم رند بلوچ۔

خط لکھنے کے بعد دل میں ہر وقت ایک سخت پیاس تھی کہ کوئی وقت ملے اور ہم دارالامان پہنچیں۔ ڈیرہ غازی خان میں مولوی بخش خان صاحبؓ سے ملا تو اُن سے قادیان جانے کے بارے میں کہا۔ انہوں نے بتایا کہ عنقریب جلسہ سالانہ ہونے والاہے، فلاں تاریخ کو تم ملتان آجاؤ پھر اکٹھے چلے جائیں گے۔ پھر گھر پہنچا اور اپنی والدہ محترمہ اور بیویوں سے حضرت اقد سؑ کا ذکر کیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کیا۔ والدہ محترمہ نے فرمایاکہ میری بیعت خواجہ سلیمان کی ہے۔ میں نے کہا اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرتے۔ آخر ان کی بیعت بھی لکھ دی۔ رمضان کے مبارک مہینے میں جلسہ سالانہ تھا تو ہم قادیان حاضر ہوئے۔ عید وہاں ہوئی۔ گویا ہماری دو عیدیں جمع ہو گئیں، ایک بیعت کی عید اور دوسری عیدالفطر۔ واپس آنے سے پہلے مَیں نے حضورؑ کی بہت سی کتابیں خرید یں۔جب ’حمامۃ البشریٰ‘پڑھی تو ایسا اطمینانِ قلب نصیب ہوا جو پہلے نہ تھا۔

قادیان سے واپس آیا تو علاقے کے تمام مخالفین اکٹھے ہوگئے اور مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ آخرو ہ سب نہایت ذلیل ہو کر ہلاک ہوئے اور میرا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ مخالفت کا سرغنہ مولوی ابراہیم تھا جو اس ذلّت سے مرا کہ پاخانہ منہ سے آتا تھا۔ مرنے کے بعد اس کا چہرہ بھی شرمندگی کے باعث کسی کو نہ دکھاتے تھے۔فاعتبروایا اولوالالباب

آخر خاکسار کی تبلیغ سے بستی رنداں کے اکثر لوگ احمدی ہوگئے۔ خدا کے فضل سے یہ تمام بستی احمدیوں کی ہے اور ان میں بہت مخلص لوگ ہوئے ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ کچھ عرصہ اسی بستی میں مقیم رہے اورامام الصلوٰۃ بھی رہے۔

(قبل ازیں آپؓ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 26؍نومبر 2010ء کے الفضل ڈائجسٹ میں بھی کیا جاچکا ہے۔)

٭…حضرت مولوی محمد عثمان صاحب مندرانیؓ 1869ء میں حضرت حافظ محمد خان صاحب مندرانیؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ دادا کا نام لکھی محمد خان تھا۔ آپؓ جون 1905ء میں قادیان گئے اور دستی بیعت سے مشرف ہوئے۔ فرمایاکرتے تھے کہ حضور علیہ السلام جب بھی مسجد میں تشریف لا تے تو ز بان پر سُبْحَانَ اللہ کے الفاظ ہوتے۔

آپؓ قرآن مجید کی تلاوت بکثرت کرتے۔ بہت ہی شفیق اور مہربان انسان تھے۔ تبلیغ کا ازحد شوق تھا۔ ابتدائی عمر میں تبلیغ کی خاطر حکمت بھی کرتے تھے۔طب میں آپؓ کو کافی دسترس حاصل تھی۔ اسی اثرورسوخ کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں بھی تبلیغ کرتے تھے۔عام طور پر مریضوں کو دوا مفت دیتے تھے۔ شکار کے بڑ ے شوقین تھے۔ بستی مندرانی کے کئی بار سیکرٹری اور صدر بھی رہے۔ اخبار البدر، ریویو آف ریلیجنز اور تشحیذالاذہان کے مستقل خریدار تھے۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ اور سلسلہ کی دیگر کتب منگواکر زیرمطالعہ رکھتے۔

آپؓ کے رشتہ دار شدید مخالف تھے اور انہوں نے آپ سے سلام و کلام ترک کر دیا تھا۔ مخالفت میں آپ کے خالو پیش پیش تھے۔ ایک دفعہ آپؓ اُن کے کھیت سے گزرے جو پانی سے بھرا ہوا تھا۔آپؓ نے وہاں بیٹھ کر پانی پیا تو خالو نے یہ کہہ کر اس کھیت کا بند توڑ کر سارا پانی نکال دیا کہ تم نے میرا کھیت پلید کر دیا ہے۔ اور پھر کھیت کو دوبارہ سیراب کیا۔

آپؓ بیان کیا کرتے تھے کہ جب ہم جون 1905ء میں قادیان گئے تو ایک دن لنگر خانے کا منتظم حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آٹا ختم ہو گیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس وقت ایک دری پر دو زانو تشریف رکھتے تھے۔ آپؑ نے اس پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کے لیے یہ بستر بیچنے کو بھی تیا ر ہوں مگر اب تک تو میری جائیداد موجود ہے مجھے دنیا کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی لنگر خانے کے خرچ کی فکر ہے۔فکر اس بات کی ہے کہ یہاں خدا جو مال ودولت لائے گا، اس کو صحیح طور پر خرچ کرنے والے ہوں۔پھر منتظم سے فرمایا آپ بٹالہ جا کر سیٹھ سے لنگر خانہ کے لیے خرچ لے آئیں۔

آپؓ نے جولائی 1954ء میں پچاسی سال کی عمر میں وفات پائی اور بستی مندرانی میں دفن ہوئے۔ آپؓ نے اولاد میں دو بیٹے اورچار بیٹیاں چھوڑیں۔

٭…حضرت سردار حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر اخبار الفضل انٹرنیشنل 10؍نومبر 2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔ آپؓ نہ صرف اس علاقے میں احمدیت کےبانیوں میں سے تھے بلکہ اکثر دیگر صحابہ آپؓ کے شاگرد بھی رہے۔

٭…حضرت نور محمد صاحبؓ ولد میر محمود خان صاحب مندرانی بلوچ، حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کے بڑے بھائی تھے۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے ساتھ ہی تحریری بیعت کی اور دسمبر1907ء میں جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچے۔ زمیندارہ کرتے تھے۔ قرآن شریف کے پہلے دس سپارے آپ کو زبانی یاد تھے۔ فارسی بھی جانتے تھے۔ آپ کے بھائی حضرت حافظ فتح محمد صاحب اکثر پڑھانے میں مصروف رہتے تھے اور گھر کا تمام کاروبار آپ ہی کیا کرتے تھے ۔آپؓ بہادر انسان اورپُروقار شخصیت کے مالک تھے۔

آپؓ نے 1922ء میں بعمر ستّر سال وفات پائی اور ’لعل اصحاب‘قبرستان میں مدفون ہیں۔ آپؓ کے چار بیٹے تھے۔

٭…حضرت نور محمد خان صاحبؓ ولد مکرم حسن خان صاحب قوم بلوچ مندرانی سکنہ بستی مندرانی عربی اچھی طرح پڑھ اور سمجھ سکتے تھے۔ ایک سنجیدہ اور باادب انسان تھے۔ احمدیت سے خاص انس تھا۔ آپؓ نے اپریل 1903ء میں تحریری بیعت کی اور مارچ 1904ء میں بستی مندرانی کے پہلے گروپ کے ساتھ قادیان جاکر دستی بیعت کی۔ پھر ایک ہفتہ تک وہاں قیام کیا۔ نہایت متقی،پرہیزگار، پابند صوم وصلوٰۃ اور تہجدگزار تھے۔ وقت پر چندہ اداکرنے والے اور نمازوں کا خاص التزام رکھنے والے تھے۔ جب آپ احمدیت میں داخل ہوئے تو آپ کی بہت مخالفت ہوئی۔ لوگ آپ کو اپنی عام استعمال کی چیزیں بھی نہ دیتے تھے۔آپ کا عام پیشہ کاشتکاری تھا اس لیے اپنا کھیت خود بوتے اور خود ہی کاٹتے تھے۔ تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔

آپ ایک دن اپنے کھیت میں ہل چلا رہے تھے اور ملحقہ کھیت میں ایک غیر احمدی ہل چلا رہاتھا جو ایک آنکھ سے محروم تھا۔ آپؓ کو پیاس لگی تو آپؓ نے اُس کے مشکیزے سے پانی پی لیا۔ اس پر وہ سخت غصہ میں آیا اور باقی پانی گرا کر دوبارہ مشکیزہ بھر لایا۔ دوسرے دن آپؓ نے مکرم حافظ فتح محمد صاحب سے ایک شعر لکھواکر اس غیر احمدی کو دیا اور کہا کہ یہ شعر اپنے پیر صاحب سے پڑھواکر مطلب پوچھنا۔ شعر کا ترجمہ تھاکہ صوفی، دجال کی آنکھ والا بے دین کہاں ہے۔ اسے کہہ دے کہ دین کو بچانے والا مہدی آ گیا ہے، اگر تُو جلتا ہے تو بے شک جلتا رہ۔ اس آدمی کو اپنے پیر سے اس کے معنی معلوم ہوئے تو بہت شرمندہ ہوا اور آپؓ سے معافی مانگی۔

آپؓ 1916ء میں معمولی سی بیماری کے بعد وفات پا گئے اور طاہر شاہ بخاری منگروٹھہ شرقی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولاد میں سے حضرت محمد مسعود خان صاحبؓ بھی صحابہ میں شامل تھے۔

٭…حضرت محمد مسعودخان صاحبؓ 1889ء میں پیدا ہوئے۔ قریباً 15 سال کی عمر میں تحریری بیعت کی اور 20 سال کی عمر میں دسمبر 1907ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مولانا محمد شاہ صاحب کی معیت میں قادیان پہنچ کردستی بیعت کی۔

آپؓ کی والدہ محترمہ آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ آپؓ نے ابتدائی تعلیم حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب سے حاصل کی۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد مروّجہ علوم کی اکثر کتب پڑھیں۔ قبول احمدیت کے بعد حضرت مسیح موعودؑکی کتب پڑھیں۔ بیعت کے بعد کچھ وقت قادیان میں مقیم رہے اور مارچ 1908ء میں واپس تشریف لے آئے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک شفیق مگر بارعب شخصیت رکھتے تھے۔ حضورؑ کی تقریر بااثر اور ہرایک کو اپنی طرف کھینچنے والی تھی۔

حضرت محمد مسعودخان صاحبؓ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت فرماتے تھے۔ آخری دو پارے اور کئی سورتیں زبانی یاد تھے۔ نماز بروقت ادا کرتے اور باقاعدہ تہجدگزار تھے۔ بہت سخی اور مہمان نواز تھے۔ اگرچہ چند سال مفلسی کے بھی آئے مگر چندہ وغیرہ باقاعدہ ادا کرتے رہے۔ حلیم، بردبار، مدبر اور وسعت حوصلہ کے مالک انسان تھے۔کسی حال میں بھی شکایت نہ کرتے۔ حضرت نبی کریم ﷺ،حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ انس تھا۔ ان میں سے جب بھی کسی کا نام آتا تو فرط محبت سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ آپؓ نے8دسمبر1964ءکو وفات پائی۔

٭… حضرت میاں محمد صاحبؓ (ولد محمد یوسف) قوم چوغطہ ایک نیک طبع غریب النفس مگر دل کے غنی اور دینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے۔حضورعلیہ السلام کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں اکثر نم ہو جایا کرتی تھیں۔ نا خواندہ ہونے کے باوجود پُراثر انداز سے تعلیم یافتہ لوگوں کو تبلیغ کرنے میں کوشاں رہتے۔ آپؓ حضورؑ کی زندگی میں دو دفعہ قادیان آئے۔ جب آپؓ پہلی بار بیعت کر کے واپس گئے تو آپؓ کا بائیکاٹ کر دیا گیا مگر آپؓ احمدیت پر ثابت قدم رہے۔ پہلے آپ لوگوں کی حجامت وغیرہ کر کے گزارہ کرتے تھے مگر جب اہل علاقہ نے بائیکاٹ کر دیاتو پھر کبھی احمدی احباب کے پاس مزدوری کرتے اور کبھی جنگلی بیر وغیرہ بیچ کر گزارہ کرتے۔ اس پر ان کے بعض رشتہ داروں نے انہیں کہا کہ اگر تم بظاہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحب کو سچا مانتے تو اتنی تنگی نہ اٹھاتے۔آپؓ نے جواب دیا کہ مجھے بھوکا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔

آپؓ احمدیت قبول کرنے سے پہلے بھی حد درجہ کے متقی اور پرہیزگار تھے۔بکثرت روزے رکھتے۔ نہایت رقیق القلب تھے۔شب بیداری آپ کا معمول تھا۔بستی مندرانی میں قیام جماعت سے قبل روزے کی حالت میں جمعہ کی نماز ادا کرنے آٹھ کلومیٹر دُور کوٹ قیصرانی جایا کرتے تھے۔ آپؓ بیعت سے قبل حقہ و نسوار وغیرہ استعما ل کیا کرتے تھے مگر بیعت کے فوراً بعد یہ تمام چیزیں ترک کر دیں۔

آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پہلے پہل قادیان گیا تو اُن دنوں مجھ پر گریہ وزاری کی حالت طاری تھی۔ اُن دنوں میرے ہاںاولاد نرینہ نہیں تھی۔ میں دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن حضورؑ نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خطوط آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں ہمارے لیے دعا کریں کہ خدا ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازے۔ کوئی مالی تنگی کا ذکر کرتا ہے۔گو ہم سب کے لیے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ ایمان سلامت لے جائیں۔ مجھے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے شرم آتی تھی سو میں خاموش رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خاموشی کونوازا اور اولاد نرینہ عطا کی۔

آپؓ 19؍ستمبر1951ءکو بعمر75سال وفات پاکر ’لعل اصحاب‘ قبرستان میں مدفون ہوئے۔

٭…حضرت مولوی حافظ محمد خان صاحبؓ (ابن لکھی محمد خان) حافظ قرآن تھے اور عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے۔ حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کی عدم موجودگی میں آپؓ نماز پڑھاتے اور طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ قبول احمدیت سے قبل اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے تھے، پیشہ زمیندارہ تھا اور علاقہ میں اچھی حیثیت اور شہرت کے مالک تھے۔ آپ نے حضرت مولوی محمد شاہ صاحب کی تبلیغ سے اپریل1903ء میں تحریری بیعت کی۔ پھر مارچ1904ء میں بستی مندرانی سے قادیان جانے والے پہلے گروپ میں قادیان جا کر دستی بیعت سے مشرف ہوئے اورتقریباً ایک ہفتہ قادیا ن میں مقیم رہے۔ آپ کی اولاد میںسے حضرت محمد عثمان صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ دوسرے بیٹے کانام اللہ بخش تھا۔

حضرت حافظ محمد خان صاحبؓ صوم وصلوٰۃ کے پابنداور تہجدگزار تھے۔ اکثر رات تلاوت کرتے رہتے۔ چندہ بمطابق شرح باقاعدگی سے ادا کرتے۔ بےحد مہمان نواز تھے۔ 1915ء میں بعمر ستر سال وفات پاکر ’لعل اصحاب‘کے قبرستان میں سپردخاک ہوئے۔

٭…حضرت بخشن خان صاحبؓ ولد خان محمد خان صاحب علاقہ بھر میں ایک اچھی حیثیت اور شہرت رکھنے والے بزرگ تھے۔ بہت نڈر اور دلیر تھے۔ کچھ عرصہ بستی مندرانی کے نمبردار بھی رہے۔ بڑے مہمان نواز تھے۔پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں ادا کرتے۔ احمدیت قبول کرنے سے قبل آپؓ کے خیالات شیعہ مذہب کی طرف مائل تھے۔بیعت کے بعد اُن پرانے ساتھیوں کی صحبت ترک کر دی اور انہیں احمدیت کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ آپ کے والد بہت بوڑھے تھے۔ والدہ فوت ہوگئی تھیں۔ آپ کےچار بھائی تھے جن کی پرورش آپ نے کی۔ آپ قرآن مجید ناظرہ اور فارسی کی چند کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے، البتہ لکھنے کی مشق نہ تھی۔ چندہ جات باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے۔

آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب مَیں قادیان گیا تو بٹالہ میں ایک شخص سے قادیان کا راستہ پوچھا۔ وہ کہنے لگاکہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میںمحمد ہوں، امام حسین ہوں۔ مَیں نے پوچھا کہ امام حسین کون ہیں؟ وہ کہنے لگا کہ ارے جاہل تجھے معلوم نہیں کہ امام حسین وہ ہیں جن کے لیے زمین و آسمان پیدا ہوئے۔ میں نے کہا کہ اب وہ کہاں ہیں؟ کہنے لگا کہ اُن کو یزید نے کربلا میں شہید کرادیا۔ میں نے کہا اگر وہ فوت ہوگئے ہیں تو زمین و آسمان کیوں کھڑے ہیں یہ گر کیوں نہیں جاتے؟ اس پر وہ شور مچانے لگا کہ لوگو! مرجائی جارہے ہیں، مرجائی جارہے ہیں۔ پھر ہمیں پتا چلا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس شخص کو لوگوں کو بہکانے کے لیے وہاں کھڑا کیا ہو اتھا۔

حضرت بخشن خان صاحبؓ نے تحریری بیعت 1903ء میں اور دستی بیعت 1905ء میں کی۔

حضرت محمد عثمانؓ سنایا کرتے تھے کہ قادیان پہنچنے کے بعد جب حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو بخشن خان صاحبؓ پرانے عقیدے کے مطابق حضورؑ کے قدموں میں جھکنے لگے لیکن حضورؑ نے یہ فرماکر اوپر کھڑا کردیا کہ بندوں کے آگے نہیں جھکنا چاہیے بلکہ خدا کے آگے جھکنا چاہیے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ قادیان میںصبح کی نماز مولوی عبدالکریم صاحب سیا لکوٹیؓ نے پڑھائی تو اُن کی بہت اچھی قراءت سن کر میں بےاختیار رونے لگا۔ اس سے پیشتر میرے نوجوان لڑکے اور بیوی فوت ہوئے مگر میں کبھی نہیں رویا مگر ان کی قراءت نے مجھے موم سے بھی زیادہ نرم کردیا تھا ا ور میں بے اختیار رونے لگا۔

جب آپ قادیان سے واپس تشریف لائے تو آپؓ نے دو جلدیں ریویو آف ریلیجنز کی خریدیں اور تیسری جلد کی خریداری کی ادائیگی بھی کردی۔ سلسلہ سے خاص انس رکھتے تھے۔ ہر وقت حضور کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور دوسروں سے بھی سنتے رہتے تھے۔اسی طرح غیر از جماعت کو تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔ آپؓ نے 1914ء میں بعمر 85 سال وفات پائی اور اپنے آبائی قبرستان ’’سید طاہر شاہ بخاری‘‘ میں دفن ہوئے۔ آپ ؓکی ساری اولاد وفات پاگئی تھی۔ البتہ دو بھتیجے احمدی ہوئے جن کی اولاد بھی احمدی ہے۔

٭…حضرت مولوی پھل خان صاحبؓ بستی بزدار کے ابتدائی بیعت کرنے والے تھے۔ ناخواندہ تھے اور جراحی کا کام کرتے تھے۔ کبھی کبھی کوٹ قیصرانی جایاکرتے تھے اور احمدیت کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ نہایت مخلص احمدی اور پُرجوش داعی الیٰ اللہ تھے۔ کوٹ قیصرانی کے ابتدائی احمدی حضرت سردار امام بخش صاحبؓ جب احمدیت کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے تو آپؓ نے ہی ان کی تسلی کروائی اورسلسلہ کا لٹریچر ان کو دیا۔ آپؓ کی وفات 1915ء میں ہوئی۔

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 28؍دسمبر 2013ء میں محترم عبدالسلام اختر صاحب کی ’’تحریک جدید‘‘ کے حوالے سے ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

جس قدر تحریک کی عظمت عیاں ہوتی گئی

عام اتنی رحمتِ ربِ جہاں ہوتی گئی

جب سے سادہ زندگی ہم نے کیا اپنا شعار

زندگی پھر کامیاب و کامراں ہوتی گئی

دفترِ اوّل نے رکھی ایک بنیادِ جہاں

دفترِ ثانی سے تزئینِ جہاں ہوتی گئی

کامیابی ہم نے پائی آج ہے دنیا گواہ

اور ناکامی نصیبِ دشمناں ہوتی گئی

ذاتِ باری سے تعلق جس قدر بڑھتا گیا

عمرِ فانی بڑھ کے عمرِ جاوداں ہوتی گئی

رفتہ رفتہ فطرتِ انساں ہوئی مائل بہ حق

ہوتے ہوتے خود مشیّت مہرباں ہوتی گئی

جذبۂ ایثار اتنا تو نہ تھا ہم میں بلند

جانے کیوں دنیا ہماری نغمہ خواں ہوتی گئی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button