اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اگست 2019ء بمقام مسجد مبارک ، اسلام آباد ، ٹلفورڈ، سرے۔ی وکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ23؍ اگست 2019ء کو مسجدمبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت سید حاشر ھود احمد صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بدری صحابہ کے ذکر میں آج جن صحابی کا ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت عاصم بن عدیؓ۔ آپؓ قبیلہ بنو عجلان بن حارثہ کے سردار اور حضرت معن بن عدی کے بھائی تھے۔حضرت عاصم میانہ قدتھے۔ آپؓ کی بیٹی سہلہ کی شادی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ہوئی تھی۔ جنگِ بدر کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عاصمؓ کو واپس بھجوایا تھا لیکن آپؓ کو اصحابِ بدر میں شمار فرمایا اور مالِ غنیمت میں بھی حصّہ مقرر فرمایا۔ حضورِ انور نے‘‘سیرت خاتم النبیین’’ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے اس واقعے کی تفصیل بیان فرمائی۔
حضرت عاصمؓ غزوۂ احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ آپؓ نے 45ہجری میں امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں مدینے میں وفات پائی۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ کی عمر اس وقت 115یا 120سال تھی۔ غزوۂ تبوک کے موقعے پر رسول اللہﷺ نے مال اور سواری مہیاکرنے کی تحریک فرمائی تو حضرت عاصم بن عدی نے ستّر وسق کھجوریں پیش کیں جو تقریباً262؍من بنتا ہے۔ حضرت عاصم اُن صحابہ میں سے تھے جنہیں آنحضرتﷺ نے مسجد ضرار گرانے کا حکم دیا۔ حضورِ انور نے حضرت ابنِ عباس سے مروی اس واقعے کی تفصیل بیان فرمائی۔ مسجد ضرار کے انہدام کے بعد رسول اللہﷺ نے مسجد والی جگہ عاصمؓ بن عدی کو دینا چاہی لیکن آپؓ نے عرض کیا کہ میرے پاس گھرہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس جگہ بنی عمارت پسند نہیں آئی تھی اس لیےمجھے یہ جگہ لینے میں انقباض بھی ہے ۔ حضرت عاصمؓ کی تجویز پر آپؐ نے وہ جگہ ثابت بن اکرم کو، جن کے پاس گھر نہیں تھا عطا فرمادی۔
حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفرِ دہلی کا ایک حوالہ پیش فرمایا جس میں آپؑ نے جامع مسجد دہلی کو دیکھ کر فرمایا کہ بڑی خوب صورت مسجدہےلیکن مسجد کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ حضورِ انور نےفرمایا کہ آج کل مسلمانوں کے ایک طبقے میں مسجدیں بنانے اور ان کو آبادکرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے عجیب بات یہ ہے کہ یہ رجحان بھی حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مسجدِ ضرار کے گرانے کا حکم فرمایا تھا اس سے اگلی آیات میں بڑا واضح فرمایا کہ مسجد وہی حقیقی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو۔ اِن غیر احمدی علما نے تقویٰ اسی بات کو سمجھ لیا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ہرزہ سرائی کی جائے۔
دوسرے صحابی حضرت عمروؓ بن عوف کا حضورِ انور نے ذکر فرمایا ۔ ابو سعد کے مطابق آپ کا تعلق یمن سے تھا لیکن آپؓ کی پیدائش مکّہ میں ہوئی۔ محدثین کی آرا میں آپؓ کے نام کے متعلق بہت زیادہ اشتباہ پایاجاتا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر آپؓ نے قبا میں حضرت کلثوم بن الہدم کےہاں قیام کیا۔ آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ حضرت عمرو ؓبن عوف نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی اور حضرت عمر نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
تیسرے صحابی جن کا حضورِ انور نے تذکرہ فرمایا ان کا نام حضرت معن بن عدیؓ تھا۔ آپؓ حضرت عاصم بن عدی کے بھائی تھے۔ آپؓ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل ہی آپؓ کتابت جانتے تھے۔ حضرت معنؓ نے غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شرکت کی۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد آپؓ کی مؤاخات زید بن خطابؓ کے ساتھ قائم ہوئی۔
حضورِ انور نے حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت کے آخری حج کا ایک طویل واقعہ بیان فرمایا۔ جس میں ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپؓ کے بعد وہ کس کی بیعت کرے گا۔ پھر مزید کہا کہ ابوبکر کی بیعت تو یوں ہی نعوذ باللہ افراتفری میں غلطی سے ہوگئی۔اس بات سے حضرت عمرؓ رنجیدہ ہوئےاور انہوں نےاسی شام لوگوں کو ایسے فتنہ پرداز لوگوں سے چوکس رہنے کی تلقین کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت عمرؓ کو ایسا کرنے سے یہ کہہ کر منع کیا کہ حج کے موقعے پر عامی اور اوباش لوگ بھی آئے ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے لوگ آپؓ کے قریب ہوجائیں اور آپؓ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں کہ ہر بات اڑانے والا اس سے کچھ اور ہی بات مشہور کردے۔حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت عمرؓ کو مدینے پہنچنے تک اس ارادے کو ملتوی رکھنے کا مشورہ دیا۔حضرت عمرؓ نے مشورہ قبول کیا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ مدینے پہنچ کر پہلے خطبے میں ہی یہ بات بیان کروں گا۔ حضرت عمرؓ ذوالحجّہ کے اخیر میں مدینے پہنچے، اور پہلے ہی خطبے میں آپؓ نے اُس شخص کا ذکر کیا جو کہتا تھا کہ ابوبکرؓ کی بیعت تو یوں ہی افراتفری میں ہوگئی تھی اور یہ کہ عمرؓ کے بعد میں فلاں کی بیعت کروں گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ درست ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت اسی طرح ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس افراتفری کی بیعت کے شر سے تمہیں بچایااور تم میں ابوبکرؓ جیسا کوئی شخص نہیں تھا۔ یعنی ایسا عالم باعمل،مخلص، تقویٰ کے معیار پر پہنچاہوا اَور کوئی شخص نہیں تھا۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مشورے کےبغیر بیعت کی تو اُس کی بیعت نہ کی جائے ۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات اور حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کی تمام تفصیل بیان فرمائی۔
حضورِ انور نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے اُن پُر خوف حالات کی تفصیل بیان فرمائی۔ آنحضرتﷺ کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک فریق جس کا خیال تھا کہ آپؐ کا جانشین نبی کریمﷺ کے اہل و عیال سے ہی ہونا چاہیے۔ دوسرے فریق کا خیال تھا کہ رسولِ کریمﷺ کے اہل سے ہونے کی شرط ضروری نہیں۔ اس گروہ کے آگے پھر دو حصّے تھے ایک جو یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کا جانشین مہاجرین اور قریش میں سے ہو اور دوسرے جن کا خیال تھا کہ رسول اللہﷺ کا جانشین انصار میں سے ہونا چاہیے۔ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدے میں جمع ہوکر مشورہ کیا، اورطبائع کا اس جانب رجحان ہوگیا کہ سعد بن عبادہؓ کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔جب یہ سوال اٹھا کہ اگر مہاجرین نے اس انتخاب کا انکار کیا تو کیاجواب دیا جائےگا۔ اس پر کسی نے کہا کہ پھرہم کہیں گے کہ مِنّا امیر ومنکم امیر یعنی ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک امیر ہم میں سے۔ سعدؓ جن کو انصار خلیفہ بنانا چاہتے تھے وہ بڑےدانا آدمی تھے۔ آپؓ نے فوراً کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے۔یعنی خلیفہ ایک ہونا چاہیے۔ اس کے برخلاف رائے تو خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا ہے اس سے اسلام میں رخنہ پڑے گا۔
جب مہاجرین کو انصار کے اس مشورے کی اطلاع ہوئی تو حضرت ابوبکر، حضرت عمراور حضرت ابو عبیدہ رضوان اللہ علیھم وغیرہ وہاں پہنچے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا تھا کہ اس موقعے پر ایسی مدلّل تقریر کروں گا کہ سب انصار میرے دلائل سے قائل ہوجائیں گے۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکرؓ تقریر کرنے کےلیے کھڑے ہوگئے اور خدا کی قسم جتنی باتیں میں نے سوچی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کردیں اور مزید ، دیگر دلائل بھی دیے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے قریش میں سےتمہارے امام ہونے اور اُن کی سبقتِ دین کا ذکر کیا ہے۔ اس پر حباب بن منذر خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ اگر آپ کو بہت اصرار ہے تو ایک امیر آپ میں سے ہوجائے اور ایک ہم میں سے ۔ حضرت عمرؓ نے اس پر فرمایاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہےکہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں ہے۔ تمہارا یہ مطالبہ عقلاً اور شرعاً جائز نہیں ۔
اس کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ نے انصار کو مخاطب کرکے تقریر کی اورفرمایا کہ تم مکّہ کے باہر پہلی قوم ہو جو رسول اللہﷺ پر ایمان لائی ۔ اب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جس نے دین کے منشا کو بدل دیا۔ اس کے بعد انصار میں سے بشیر بن سعد خزرجی نے تقریرکی۔رفتہ رفتہ لوگوں کی رائے بدلنے لگی کہ مہاجرین میں سے ہی خلیفہ ہونا چاہیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے رائے دی کہ عمر یا ابو عبیدہ میں سے کسی کی بیعت کرلینی چاہیے۔مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول اللہﷺ نے بیماری کے دنوں میں نماز کا امام بنایا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم تو اس کی بیعت کریں گے۔ اس کے بعد مہاجرین اور انصار سب نے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی۔ حضرت علیؓ نے کچھ دن بعد بیعت کی تھی۔ حضرت معن ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ تو یہ کہا کرتے تھے کہ ہم رسول اللہﷺ کی زندگی میں مرجاتے تاکہ بعد میں فتنے میں نہ پڑ جائیں۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ آپؐ کے بعد تک زندہ رہوں تاکہ رسول اللہﷺ کے بعد بھی آپؐ کی تصدیق کرسکوں۔
آخر میں حضور ِانور نے فرمایا کہ یہی وہ ایمان کا معیار ہے جسے ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ حضرت معنؓ نبی کریمﷺ کے بعد حضرت خالد بن ولید کے ہمراہ مرتدین اور باغیوں کی سرکوبی میں شامل تھے۔ آپؓ نے جنگِ یمامہ میں 12؍ ہجری میں شہادت پائی۔
حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو نبوت کے مقام کو پہچاننے اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭