تقریبِ افتتاح مسجد ’’بیت الاکرام‘‘ ڈیلس
٭…مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتی عہدیداران اور نمائندوں کے علاوہ 140 غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں کی شرکت
٭…’’اس مسجد کی اصل غرض اور مقصد ہرقسم کے مذہب اور عقیدہ کے لوگوں کے درمیان محبت اور احترام کو فروغ دینا اور دائمی امن کا ذریعہ بننا ہے۔ اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ یہی مقاصد رہیں گے۔ ہمارا یہ عزم صرف اسی جگہ کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی اور جب بھی ہم مسجد بنائیں گے، ہمارا یہی عزم ہوگا‘‘
٭…’’ہر مسجد کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی گھر بن جائیں جو کھلے دل کے مالک، رحم دل اور مہربان ہیں اور اپنے قول و فعل کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کے لیے امن، صلح اور خیر سگالی کا پیغام د ینے والے ہیں‘‘
٭…’’یقین رکھیں کہ یہ مسجد بنی نوع انسان کے لیے محبت اور ہمدردی کا منبع ہو گی۔ اس مسجد میں داخل ہونے والے تمام افراد بہترین رنگ میں معاشرے کی خدمت کرنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے‘‘
مورخہ 8؍ اکتوبر 2022ء کو مسجد ’’بیت الاکرام‘‘ ڈیلس کے افتتاح کے سلسلہ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ چھ بج کر پندرہ منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تقریب کے لیے تیار کی گئی مارکی میں تشریف لے آئے۔ حضورِانور کی آمد سے قبل تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج اس تقریب میں مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتی عہدیداران اور نمائندوں کے علاوہ 140 غیرمسلم اور غیرازجماعت مہمانوں نے شرکت کی۔
ان مہمانوں میں وہ تمام مہمان بھی شامل تھے جنہوں نے اس تقریب سے قبل حضورِانور کے ساتھ انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ملاقات کی تھی۔
علاوہ ازیں اس تقریب میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز، وکلاء، انجینئرز، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو سید لبیب جنود صاحب نے کی۔ بعدازاں اس کا انگریزی ترجمہ مکرم ابراہیم نعیم صاحب نے پیش کیا۔
بعد ازاںمکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکرٹری امورخارجیہ، یوایس اے) نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔ اس کے بعد Allen شہر کی سٹی کونسل کے ممبر آنریبل Carl Clemencich نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا: آج مسجد بیت الاکرام کے افتتاح کی تاریخی تقریب میں شامل ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ مسجد Allen شہر کے Hedgcoxe Road پر واقع ہے۔ میں میئر اور Allen شہر کی تمام سٹی کونسل کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اس زبردست کامیابی پر مبارک باد دیتا ہوں۔جماعت احمدیہ کے ممبران اور باقی دوسرے احباب جو آج کے پروگرام میں شامل ہیں۔سب ہی بہت خوش قسمت ہیں۔جماعت احمدیہ کے سربراہ خود اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے امریکہ تشریف لائے ہیں۔ Allen شہر کے لیے یہ ایک خاص لمحہ ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ اس شہر کی کثیر الجہتی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور جماعت احمدیہ کا بھی اس میں خاص کردار رہا ہے۔ یہاں تقریباً دو دہائیوں سے جماعت احمدیہ موجود ہے اورہماری کمیونٹی کا ایک بنیادی حصہ بن چکی ہے۔ ہم جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہتے ہیں، جیسے غرباء کے لیے کھانا تقسیم کرنا، ضرورت مندوں کے لیے کپڑے جمع کرنا اور بہت سے دیگر مواقع پر اس علاقے کے ضرورت مند رہائشیوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ ان تمام خدمات کے پیچھے حضورانور کی قیادت ہے اور اس لیے ہم بہت شکرگزار ہیں کہ آپ کے خلیفہ اس خوبصورت مسجد کے افتتاح کے لیے Allen شہر میں تشریف لائے۔
حضور کا امن،انصاف اور انسانیت کی خدمت کا پیغام جو آپ تمام دنیا کو دیتے ہیں اس کی اس شہر میں بھی ضرورت ہے۔ یہ Allen شہر کی خوش قسمتی ہے کہ ایک امن پسند اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی کمیونٹی نے اس شہر کو اپنایا اور اس شہر میں یہ خوبصورت مسجد بنائی۔ میری خواہش ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر کے لیے بلکہ اس تمام علاقہ کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہو۔امید ہے کہ یہ مسجد اس شہر میں اور اس علاقہ میں ہمارے باہمی تعلقات مضبوط کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرےگی۔
آخر میں انہوں نے میئر اور Allen شہر کی کونسل کی طرف سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس شہر کی چابی پیش کی۔
اس کے بعدپروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ہنٹ (Dr Robert Hunt) جو کہ Southern Methodist Universities, Perkins School of Theology میں گلوبل تھیولوجیکل(Global Theological) شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں، نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے کہا: میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے METHODIST UNIVERSITY سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آج کے تاریخی پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ میرے لیے بہت فخر کی بات ہے کہ میں آج جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزامسروراحمد صاحب کی معیت میں ہوں۔حضرت مرزا مسرور احمد صاحب دو خوبیوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں جس میں پہلی مذہبی آزادی اور دوسری بین المذاہب مکالمہ و مخاطبہ ہیں۔ ان دونوں خوبیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہےکیونکہ مذاہب کے اندر اگر باہمی افہام وتفہیم نہ ہو اور باہمی احترام نہ ہو تو تفرقہ کی آواز کو تقویت ملتی ہے اور میں یہ بات اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ میری آدھی بالغ زندگی ایسے ممالک میں گزری ہے جہاں میں خود مذہبی اقلیت میں تھا۔
یہاں امریکہ میں، جہاں ہمیں آئین میں مذہبی آزادی دی گئی ہے، ہم پر لازم ہے کہ نہ صرف مذہبی کمیونٹیز کے لیے بلکہ ہر شخص کے لیے یہ آزادی برقرار رکھیں۔ اکثر یہ سمجھاجاتاہے کہ مغربی حکومتیں جو کہ مذہب سے منسلک نہیں ہوتیں اس لیے مذہبی آزادی کو دباتی ہیں۔مگر یہ بات کسی صورت درست نہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن کسی مذہب کے گمراہ پیروکار ہوتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن وہ جنون پسند پیروکار ہوتے ہیں جو فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔ لہٰذا چاہے ہم فرقہ وارانہ حالات میں پھنسے ہوئے ہوں یا کسی خاص طبقہ کی سوچ کو بدلنے کی کوشش میں ہوں، یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی میسر ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور اسی وجہ سے یہ جماعت مذہبی آزادی کی کاوشوں میں صف اوّل پر رہی اور یہی چیز ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کےساتھ احترام اور کھلی ذہنیت کے ساتھ پیش نہ آئیں، ہم تفرقہ بازی پر قابو نہیں پاسکتے اور ان منفی افکار کو معاشرے سے ختم نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی آزادی اور وقار کا خیال کرنا پڑےگا ورنہ ہر شخص اس مذہبی آزادی کو کھودے گا۔ مجھے امید ہے کہ حضور کا یہاں تشریف لانا اور اس مسجد کا بننا ہماری حوصلہ افزائی کرےگا تاکہ ہم باہمی بات چیت کے ذریعہ ایک امن پسند اور قابل احترام معاشرے کے حصول کے لیے اپنی کاوشوں کو اَور بھی تیز کردیں۔
اس کے بعد Republican کانگریس مین آنریبل Michael McCaul نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا: آج میرے لیے یہاں آنا بڑے فخر کی بات ہے۔ دنیا کے تین مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی تاریخ جوڑتے ہیں۔
آج میں حضور سے دوسری دفعہ ملاہوں اور ان کا یہ یقین ہے کہ حضرت ابراہیم سے وابستہ یہ تینوں مذاہب امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس بات کا تجربہ جماعت احمدیہ سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو پاکستان میں ظلم کا نشانہ بنائی جارہی ہے اور اسی وجہ سے حضور لندن میں مقیم ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر ہنٹ نے بڑی فصاحت سے بیان کیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کی۔
موصوف نے اس مسجد پر مبارک باد دی اور کہا: مجھے حضورانور کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی تعلیم، نئے عہد نامہ اور انجیل کے بارہ میں بات کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جماعت احمدیہ سے امن، رحم دلی اور محبت کے بارہ میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری پرورش بطور کیتھولک ہوئی ہے میں اب امریکی کانگریس میں احمدیہ کاکس(Ahmadiyya Cacus) کا چیئرمین ہوں۔ اس کاکس میں دو نوں پارٹیوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ممبران شامل ہیں۔میں آج شام جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ کو ILLINOIS،TEXAS اور MARYLAND میں خوش آمدید کہتا ہوں اور خاص طور پر دنیا میں امن پھیلانے اور قوموں میں اتحاد قائم کرنے، عدم تشدد، انتہا پسندی کے خاتمہ، غربت کے خاتمہ، اقتصادی مساوات، عالمی انسانی حقوق کے لیے اور عالمی مذہبی آزادی کے لیے آپ کی کوششوں کو سراہتاہوں۔
قیامِ امن کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا شمار صفِ اول کے راہنماؤں میں ہوتاہے۔ آپ اپنے خطبات، تقاریر، کتب اور اپنی ذاتی ملاقاتوں کے ذریعہ امن کو فروغ دیتے ہیں اور مسلسل انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق، امن اور معاشرے میں انصاف کی تعلیم دیتے ہیں۔جبکہ جماعت احمدیہ کو بار بار مشکلات،امتیازی سلوک اور ظلم وستم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 28؍مئی 2010ء کو اٹھاسی احمدی مسلمانوں کو پاکستان کی دو مساجد میں درد ناک طریقے سے دہشتگردوں نے قتل کیا اور متعدد احمدی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔ اس ظلم وستم کی جاری داستان کے باوجود حضور نے دوسروں سے انتقامی تشدد کرنے سے منع فرمایا جو کہ ایک بہت ہی عظیم عمل ہے۔
حضور نے مذہبی آزادی پر زور دیا جو اسلامی تعلیم پر مبنی ہے اور امریکہ کے قوانین میں بھی شامل ہے۔ آپ نے اس دورہ میں زائن میں پہلی مسجد کا افتتاح کیااور آج یہاں Allen میں بھی اس مسجد کا افتتاح کررہے ہیں۔ حضور نے اپنے دنیا بھر کے دوروں میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ کو فروغ دیا ہے اور اس ضمن میں مختلف ممالک کے صدران،وزیر اعظم، ارکان پارلیمنٹ اور مذہبی راہنماؤں سے ملے ہیں۔ آپ نے بار بار دنیا کے راہنماؤں کو سمجھایا کہ حقیقی اور دیر پا امن کے لیے انصاف ضروری ہوگا۔
حضور نے دنیا کی بہت سی مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔آپ2008ء، 2012ء، 2013ء اور 2018ء میں امریکہ تشریف لائے۔ آپ نے 27؍جون 2012ء کو یوایس کیپٹل کی RAVERN HOUSE BUILDING میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے منعقدہ ایک استقبالیہ میں خطاب فرمایا جس میں امن کے راستے اور بین الاقوامی منصفانہ تعلقات پر بات کی۔
ہماری خواہش ہے آپ دوبارہ ہمارے دارالحکومت میں آکر خطاب فرمائیں۔ آپ نے 2020ء میں یوکے کی ایک Ministerial Conference میں خطاب فرمایا جس کا موضوع ’آزادیٔ مذہب‘تھا۔ آپ نے 2022ء میں واشنگٹن میں ہونے والے عالمی مذہبی SUMMIT کے لیے بھی ایک خصوصی پیغام بھیجا۔
ہم آپ کی انفرادی اور بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے انتھک کوششوں کو سراہتے ہیں اور آپ کی شدت پسندی اور دہشت گردی کی پرزور مذمت کرنے پر سلام پیش کرتے ہیں۔ اور آخر میں ہم آپ کی ان کاوشوں کو سراہتے ہیں جن میں آپ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کی راہنمائی فرمائی کہ تمام ظلم و جبر کے باوجود انتقام نہیں لینا۔ حضور آپ کا بہت شکریہ۔
خطاب حضور انور
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چھ بج کر 43 منٹ پر حاضرین سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایااور مہمانوں کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘کہا۔
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں سب سے پہلے اس موقع پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور آج ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ یہ ہماری نئی مسجد، جہاں مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، کے افتتاح کے موقع پر استقبالیہ کی تقریب ہے۔ یہ ایک خالصتاً مذہبی تقریب ہے، جس کی میزبانی ایک اسلامی کمیونٹی کررہی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ آپ میں سے زیادہ تر مسلمان نہیں ہیں، یا جماعت احمدیہ مسلمہ کے ممبرز نہیں ہیں، آپ کی اس تقریب میں شمولیت آپ کی کشادہ دلی، مہربانی اور بردباری کی عکاسی کرتی ہے، اوراس وجہ سے میں آپ کو قابلِ تعریف سمجھتاہوں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تعریف کے یہ الفاظ محض مہذب دِکھنے کی کوشش نہیں بلکہ یہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں۔ اور درحقیقت میرا فرض ہے کہ میں آپ سب کا تہ دل سے شکریہ ادا کروں کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دوسروں کا شکرگزار نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘۔ بحیثیت مسلمان، ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مسجد کو بنانے کی توفیق اور وسائل عطا فرمائے ہیں۔ اس لیے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور درحقیقت اللہ کا شکر ادا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کی مخلوق کے بھی شکر گزار اور قدردان ہوں۔ لہٰذا بحیثیت ایک مسلمان آپ لوگوں کا شکریہ اداکرنا اور آپ کی عزت افزائی کرنا میرا ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔ اسی طرح میں ان تمام لوگوں کا بھی تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی بھی طرح اس پروجیکٹ میں مدد کی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہماری جماعت کی طرف سے تعمیر کردہ تمام مساجد کے بنیادی مقاصد ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہماری مساجد ہمارے احباب کے لیے ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا فریضہ اداکرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ دوسرا ہماری مساجد ہمیں خدا کی مخلوق کی خدمت کرنے اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کرنے کی توفیق دیتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یہ انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے کہ بہت سے لوگ اسلام کو ایک انتہا پسند اور تنگ نظر مذہب سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس شہر کے بھی بعض مقامی لوگ اس مسجد کے بننے سے خائف ہوں یا خدشات رکھتے ہوں۔جیساکہ بعض دیگر مقامات پر جہاں ہم نے مساجد تعمیر کی ہیں وہاں کے بعض مقامی افراد نے اپنے خدشات یا تحفظات کا اظہار کیا کہ نئی مساجد اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ان کے قصبے یا شہر کے امن و سلامتی کوشاید نقصان پہنچا ئے۔ اگر کسی کو اس قسم کے خدشات لاحق ہوں تو میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایک مخلص مسلمان جو اسلام کی تعلیمات کو سمجھتا ہے اور ان کی قدر کرتا ہے، وہ کبھی بھی ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے اسلام کا غلط تصور پیش ہو یا بدنامی کا باعث ہو۔ اور نہ کبھی وہ غیرمسلموں کے لیے تکلیف یا پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ پس میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ مسجد آپ کے لیے یا دوسرے شہریوں کے لیے کبھی بھی کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی کا باعث نہیں بنے گی۔ یہ مسجد معاشرے میں انتشار کے بیج بونے کے بجائے معاشرے کی بہتری کے لیے مقناطیسی قوت کا کام کرے گی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اس مسجد کی اصل غرض اور مقصد ہرقسم کے مذہب اور عقیدہ کے لوگوں کے درمیان محبت اور احترام کو فروغ دینا اور دائمی امن کا ذریعہ بننا ہے۔ اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ یہی مقاصد رہیں گے۔ ہمارا یہ عزم صرف اسی جگہ کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی اور جب بھی ہم مسجد بنائیں گے، ہمارا یہی عزم ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:مکہ میں اللہ کا مقدس گھر خانہ کعبہ تمام مسلمانوں کے لیےسب سے زیادہ قابل احترام اور معزز عبادت گاہ ہے۔درحقیقت دنیا بھر کے تمام مسلمان عبادات بجالانے اور نمازاداکرنے کے لیے کعبہ کی طرف ہی اپنا رخ کرتے ہیں۔خانہ کعبہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رکھی گئی تاکہ زندگی کے تمام شعبوں اور اقوام تک امن اور سلامتی کا عالمگیر پیغام پہنچایا جا سکے۔ مسجدیں جو کعبہ رخ بنائی گئیں، یہ صرف ظاہری طور پر کعبہ کی سمت کی پیروی کرنے کے لیے نہیں بنائی گئیں بلکہ ہر مسجد اور اس کے اندر عبادت کرنے والے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے اغراض و مقاصد کو پورا کرے اور پوری دیانتداری سے ان کا عملی نمونہ پیش کرے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:خانہ کعبہ اور اس کے ساتھ ہر مسجد کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی گھر بن جائیں جو کھلے دل کے مالک، رحم دل اور مہربان ہیں اور اپنے قول و فعل کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کے لیے امن، صلح اور خیر سگالی کا پیغام د ینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک، جو امت مسلمہ کی مقدس ترین کتاب ہے، کی سورت اٰل عمران کی آیت 98 میں خانہ ٔکعبہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ’’اورجو اس میں داخل ہو، وہ امن میں آجاتا ہے‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض خانہ کعبہ کی زیارت کرنا، یا اس کے قرب و جوار میں نماز ادا کرنا انسان کو امن اور خوشحال زندگی کی ضمانت دے گا۔ درحقیقت یہ آیت بتاتی ہے کہ سچا مسلمان وہی ہے جو خانہ کعبہ کے اصل مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہمہ وقت اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔دراصل یہ الفاظ ’’اورجو اس میں داخل ہو، وہ امن میں آجاتا ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف اور تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و سلامتی فراہم کرنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔اس طرح وہ نہ صرف خود امن پائیں گے بلکہ دوسروں کے امن کے بھی ضامن بن جائیں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مخالفینِ اسلام کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے جو تشدد اور جنگ وجدل کو فروغ دیتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات مسلمانوں کو جنگ میں شامل ہونے یا طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دیتیں، سوائے ان انتہائی سخت حالات کے جہاں ان کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی جائے اور کھلے عام اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسلام کے اوائل میں صورت حال اس قدر سنگین تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنا دفاع اور عالمگیر مذہبی آزادی کے اصولوں کو قائم کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کے لیے جنگ کی اجازت دی۔ایسے حالات میں بھی اسلام نے جنگ کے سخت اصول و ضوابط وضع کیے جن کے مطابق ظلم کا جواب بھی اسی تناسب سے ہو جس قدر ظلم ہواہےاورقیامِ امن کا معمولی سے معمولی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیاجائے۔ اسلام کے مطابق دفاعی جنگ کا مقصد کوئی انتقام یا بدلہ لینا نہیں بلکہ اس کا واحد مقصد ظلم، بربریت اور ناانصافی کا خاتمہ ہے۔اللہ کا حکم ہے کہ جوں ہی ظلم و ستم بند ہو تو جو بھی جنگی اقدامات کیے گئے ہوں، انہیں فوری روک دیا جائے اور عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔ پس جب ابتدائی مسلمانوں کو، جو مسلسل ظلم و ستم کا شکار تھے، اپنے دفاع کی اجازت دی گئی، وہ صرف اور صرف مذہبی آزادی کے سنہری اصول کو قائم کرنے کے لیے تھی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 126 میں اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس مقدس گھر کو برائی سے بچنے کے لیے بطور پناہ گاہ اور بنی نوع انسان کو متحدکرنے کے لیے بطور امن و سلامتی کا مسکن بنایاہے۔ یہ آیت مسلمانوں کو معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے اور دوسروں کو امن و سلامتی فراہم کرنے کے فریضہ پر زور دیتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پس اگر کوئی شخص دوسروں کو امن پہنچانے کا ذریعہ بننے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو سچا مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ قرآن پاک قیامِ امن کے حوالہ سے سورہ فرقان کی آیت 64 میں مسلمانوں کی اس بارہ میں بھی راہنمائی کرتاہے کہ اگر جہلاء یا مخالفین ان کے ساتھ تمسخر کریں یا بدتمیزی سے پیش آئیں توانہیں شدید ردِ عمل دکھانے کی بجائے کس قسم کا جواب دیا جائے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کے وقت اپنا وقار قائم رکھیں، صبر سے کام لیں، اور ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ کہہ کر جواب دیں اور وہاں سے چلے جائیں۔قرآن کریم تعلیم دیتا ہے کہ مسلمان جارحیت اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر امن کا پیغام دیں اور ہر قسم کے لڑائی، جھگڑے سے اجتناب کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مزیدبرآں اللہ تعالیٰ قرآن پاک کا آغاز اسی اعلان سے کرتا ہے کہ وہ ہر رنگ و نسل اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا رب ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی خاص مذہب یا دور کے لوگوں کارب نہیں بلکہ وہ ہر قوم، ہرمذہب کے پیروکار اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے خالق ہے اورسب کی پرورش کرنے والا ہے۔یہ الفاظ بے مثال خوبصورتی اور حکمت کے حامل ہیں جو عالمی انسانی مساوات کے اصولوں کو ایک ناقابلِ رد حق قرار دیتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اللہ کے انعامات اور احسانات کسی خاص رنگ و نسل تک محدود نہیں، بلکہ یہ نعمتیں بلا امتیاز ہر ایک پر نازل کی گئی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ،جو مسلمانوں کا معبودہے، جب تمام انسانوں چاہے وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ہندوہوں، سکھ ہوں یا کوئی دوسرا مذہب رکھتے ہوں یا لادین ہوں، کا رب ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان دوسروں کے لیے تکلیف یا مصیبت کا موجب بن جائے؟ بلکہ ایک سچے مسلمان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوگی کہ وہ انسانیت کودکھ یا تکلیف پہنچانے کے بجائے آرام و سکون پہنچائے اور لوگوں کے مابین محبت اور اخوت قائم کرے اور امن کے قیام کا ذریعہ بنے۔پس انسانی ہمدردی کی اس روح اور اس ایمان کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئےہے، ہم مساجد تعمیر کرتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم نہ صرف اس کی عبادت کرنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ بلاامتیاز رنگ ونسل تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کے علاوہ اپنے دین پر ہی عمل کرتے ہوئے ہم انتہائی پسماندہ ممالک اور علاقوں میں مختلف فلاہی منصوبے، ہسپتال اور میڈیکل کلینکس بھی تعمیر کرتے ہیں۔اور ایسے افراد کو جو علاج کروانے کے متحمل نہیں ہوسکتے، انہیں طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے غریب علاقوں میں سکول کھولتے ہیں تاکہ وہاں کے مقامی بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہماری یہی آرزو اور دعا ہے کہ وہ بچے جو ہمارے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ تعلیم کے ذریعہ غربت کی اُن زنجیروں سے آزادی حاصل کریں جن میں ان کے خاندان کئی نسلوں سے جکڑے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ وہ اس تعلیم کے ذریعہ اپنی قوموں اور لوکل کمیونٹی کی بھی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ہم نے Water for Life جیسے پروگرام بھی شروع کیے ہیں، جس کے تحت دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ گو صاف پانی کے ایک گلاس کو ہم معمولی سمجھتے ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ زندگی بدل دینے والا اور انقلابی تجربہ ہے۔اسی نہج پر ہم بہت سے دیگر فلاہی کام کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ مستقل بنیادوں پر خدمتِ انسانیت میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر ہم قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف ٹیمیں بھجواتے ہیں، جو تکلیف میں مبتلا افراد کو بنیادی اشیائے ضرورت، امداد اور علاج فراہم کرتی ہیں اور یہ تمام خدمت بلا تفریق قوم، زبان، مذہب اور عقیدہ کے کی جاتی ہے۔ہم اس تمام خدمت کے بدلہ کوئی انعام نہیں چاہتے، ہمارا واحد مقصد اور دلی خواہش بنی نوع انسان کی تکلیف دور کرنا ہے۔ ہمارا مطلوب و مقصود خدمتِ انسانیت ہے کیونکہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں بلکہ اس کی مخلوق کے بھی حقوق ادا کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مزید یہ کہ ہم اسلام کے امن و آشتی کے پیغام کو تمام دنیا تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بطور احمدی مسلمان ہم تمام دنیا میں امن اور ہم آہنگی پھیلائیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس دور میں بانی جماعت احمدیہ مسلمہ کو مسیحِ موعود بنا کر دنیا میں پیار اور محبت کا پیغام پھیلانے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ آپ کو پیغمبرِ اسلامﷺ کی عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق مبعوث کیا گیا، جس میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ صدیوں کے روحانی اور اخلاقی زوال کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے ایک فدائی خادم کو مسیح بنا کر مبعوث فرمائے گا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام نے تلوار اٹھانے کی بجائے تمام مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا اعلان فرمایا اور امن، پیار اور اتحاد کا پیغام دیا۔ آپ علیہ السلام نے بتایا کہ اسلام پر اب ظاہری حملے نہیں ہورہے اور نہ ابتدائی اسلام کی طرح اس دین کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لیے اس دور میں مذہبی جنگوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پس ڈیلس کے مقامی افراد کو اس مسجد سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایسے تمام افرادسے جن کے ذہنوں میں کوئی خوف یا خدشات ہوں، کہتا ہوں کہ آپ تسلی رکھیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی اس نئی مسجد سےصرف اور صرف اسلام کی امن، باہمی احترام اور رواداری پر مشتمل روشن تعلیمات کا ہی اظہار ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہماری یہ تعلیم نہیں کہ جن لوگوں کے عقائد ہم سے مختلف ہیں ہم اُن کے خلاف کھڑے ہو جائیں، بلکہ ہم تو انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہماری تعلیم یہ نہیں کہ ہم مخالفین پر حملہ کریں بلکہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ہم ان کا اور ان کے حقوق کا دفاع کریں۔ یقین رکھیں کہ یہ مسجد بنی نوع انسان کے لیے محبت اور ہمدردی کا منبع ہو گی۔ اس مسجد میں داخل ہونے والے تمام افراد بہترین رنگ میں معاشرے کی خدمت کرنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔یہ لوگ تمام دنیا کے سامنے اعلان کریں گے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے یکجا ہونا ہی حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہ لوگ بنی نوع انسان کو تمام اعتقادات سے بالا تر ہو کر متحد رہنے کی تحریک کریں گے اور دنیا میں قیامِ امن کے مشترکہ مقصد پر توجہ مرکوز رکھنے کی تلقین کریں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس بلا شبہ، آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کیونکہ دنیا بھر کی قومیں سیاسی، سماجی اور معاشی بدامنی کے شدید طوفانوں کی لپیٹ میں ہیں۔ یوکرائن میں کئی مہینوں سے جنگ جاری ہےاورہمارے اوپر بدامنی اور جنگ کے منڈلاتے ہوئے سیاہ بادل اس سے بھی زیادہ بڑی تباہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ دنیا کے تیزی سے پولرائزڈ ہونے کے ساتھ ساتھ مخالف سیاسی بلاکس اور اتحاد تدریجاً مضبوط ہورہے ہیں۔نتیجۃً دنیا کا امن و سکون دن بہ دن برباد ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جوہری ہتھیار چلانے کی دھمکی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن اب ایسی دھمکیاں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دنیا کے بگڑتے حالات دیکھتے ہوئے احمدیہ مسلم جماعت کئی سالوں سے ان حالات کی سنگینی اجاگر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم عالمی راہنماؤں، حکومتوں اور عوام الناس کو آگاہ کرتے ہیں کہ دنیا میں امن اور ہم آہنگی کے قیام کے وسیع تر مفاد کے لیے موجودہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کو امن کی حقیقی قدر و منزلت سمجھانے کی کوشش کی ہے اور انہیں تفرقہ پیدا کرنے والی اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے جو صرف بدامنی اور مایوسیوں کو جنم دیتی ہیں جو بالآخر لاوا بن کر پھٹتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمیں اپنے راہنماؤں اور سیاست دانوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ اس اندھی کھائی سے پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عالمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ ایسی تباہی ہو گی کہ دنیا نے کبھی نہ دیکھی ہو۔ یقیناً اس کے تباہ کن نتائج کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔بہت سے ممالک نے جدید ترین ہتھیار حاصل کر لیے ہیں جو صرف ایک وار سے ہزاروں ہزار لوگ مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس سے صرف ہم ہی تکلیف اور درد میں مبتلا نہیں ہوں گے بلکہ ہمارے بچے اور آنے والی نسلیں ہمارے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں گی اور ان کی زندگیاں تباہ ہو جائیں گی حالانکہ ان کی اس میں کوئی غلطی بھی نہ ہو گی۔ مثال کے طور پر تابکاری کے زہریلے اثرات ایسے ہیں کہ اگر کبھی ایٹم بم استعمال کیا جائے تو نسل در نسل بچے شدید جینیاتی یا جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہوں گے۔وہ جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوں گے اور زندگی کا دورانیہ کم ہوگا۔ بلاشبہ وہ معصوم جانیں حقارت سے ہماری طرف دیکھیں گی۔ وہ افسوس کریں گے کہ کیوں ان کے آباء و اجداد اپنی انا اور خود غرضی کی وجہ سے ایک تباہ کن جنگ میں پڑ گئے جس نے ان کی آنے والی نسلوں کو جسمانی، جذباتی اور معاشی طور پر معذور کر دیا۔لہٰذا میری دلی خواہش اور دنیا کے لیے پیغام ہے کہ ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر معاشرے میں قیامِ امن کے لیے انتھک محنت کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو خدا نخواستہ دُکھ اور مایوسی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور کرنے کی بجائے ان کو بچا سکیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قیامِ امن کے لیے ہم سب کواپنا اپناکردار اداکرنا چاہئے۔ جہاں بھی ظلم یا ناانصافی ہو، ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے سیاسی قائدین پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی قوموں کو جنگ کی طرف دھکیلنے اور انتقام اور فساد کی دھمکیوں کے ذریعے حالات بگاڑنے کی بجائے سفارت کاری اور حکمت سے عالمی سطح پر اور اقوام کے مابین بھی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دنیا کا امن اور سلامتی ان کا اولین مقصد رہے۔ امن کی اس کوشش میں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ سب اپنا کردار ادا کریں۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے اور نہ ہی کسی عقیدے کو مانتے ہیں وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔ہمیں خود کو الگ تھلگ کرنے اور ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے انسانیت کی خاطر اکٹھا ہونا ہوگا۔ مذہبی لوگوں کو بھی دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کے ظہور کے لیے خدا کی مدد اور رحم طلب کرتے ہوئے اپنے اپنے طریق کے مطابق پرجوش دعا کرنی چاہیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ دنیا ہر قسم کی تباہی و بربادی سے محفوظ رہے۔میری دعا ہے کہ جنگ اور قتل و غارت کے طویل سائے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں چھٹ جائیں اور امن و سلامتی کا نیلا آسمان طلوع ہو۔خدا تعالیٰ دنیا پر رحم فرمائے۔ آخر پر میں دعا کرتا ہوں کہ یہاں ڈیلس میں ہماری مسجدتمام بنی نوع کے لیے ہمیشہ امن وسلامتی کی آماجگاہ رہے۔اللہ کرے کہ اس کی روحانی کرنیں اپنے ماحول کو روشن کرتی رہیں اور یہ انسانیت اور امن کے نشان کے طور پر ہمیشہ چمکتی رہیں۔ آمین۔
آخر پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب لوگوں کا یہاں اکٹھے ہونے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں کانگریس مین، میئر اور شہر کی کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔بہت شکریہ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بج کر دس منٹ پر ختم ہوا۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
حضورِانور کے خطاب کے اختتام پر مہمانوں نے دیر تک تالیاں بجائیں۔
بعدازاں ڈنر کا پروگرام ہوا۔ کھانے کے بعد بھی بعض مہمانوں کے ساتھ حضورِانور نے گفتگو فرمائی۔
شاملینِ تقریب کے تاثرات
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب نے اس تقریب میں شامل مہمانوں پر گہرا اثرچھوڑا۔ بعض مہمانوں کے تاثرات پیش ہیں۔
ایک مہمان Jeff Williams صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛میں امن اور انسانیت کا پیغام سے بہت خوش ہوا ہوں۔ خلیفہ چاہتے ہیں کہ ہم سب متحد ہو کر معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں مسجد بن رہی ہے۔ اگرچہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ حضور کو اس بات کا بھی ذکر کرنا پڑا کہ مسجد کسی کے لیے خطرہ کا باعث نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس پر بات کی۔ مجھے اس پروگرام کا حصہ بننے پر فخر ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک خوبصورت مسجد ہے۔ ہر کوئی عبادت کے لیے یہاں آسکتا ہے۔ یہ بھی بہت متاثر کن بات ہے کہ کس طرح امریکہ کی مختلف ریاستوں اور دیگر ممالک سے لوگ ہزاروں میل کا سفر کرکے حضور کی باتیں سننے کے لیے اور اس مسجد کے افتتاح کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
ایک مہمان سلطان چودھری صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں؛حضور انور نے جو تمام دنیا کے لیے امن کا پیغام دیا ہے، یہ میرے خیال میں ایک بہترین پیغام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس خوف کو دور کیا جائے کہ وہ یہاں قبضہ کرلیں گے۔ حضور نے واضح بتایا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے جنگی مہم کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ایک مہمان Crystal Ragland کہتے ہیں؛بہت خوشی ہے کہ مجھے اس تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔ میں اس پیغام کو سراہتا ہوں کہ حضور نے تمام مذاہب کے ساتھ امن اور مل جل کر رہنے کی تلقین کی ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ حضور یہاں آئے ہیں۔
ایک مقامی مہمان اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ میں کسی ایسے پروگرام میں شریک ہوں اور یہ تجربہ بہت ہی متاثر کن رہا۔ ہم سب کا یہی ایمان ہے کہ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ حضور یہاں تشریف لائے ہیں۔ ہمارا الگ الگ مذہب ہے، لیکن ہم سب بنیادی طور پر ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے خیالات اور اپنے عقیدے کو ہر ایک سے، اپنی کمیونٹی میں اور ہمسایوں سے بانٹنا شروع کر دیں تو اس کا اچھا اثر ہوگا۔ ہم پہلے ہی فیس بُک پر اس پر بات کرتے ہیں اور یہ پروگرام بھی ایسا ہی ایک موقع تھا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہر کوئی آپ کی جماعت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ مجھے واقعی بہت لطف آیا ہے۔ مجھے بلانے کا بہت شکریہ۔
ایک مہمانLucas Anderson کہتے ہیں؛بہت خوشی ہوئی کہ مجھے اس تقریب پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں آج تک اس مسلم کمیونٹی کے بارے میں لاعلم تھا۔ میں اس پیغام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا موقف قابلِ عمل اوربہت اچھا ہے۔
ایک مہمان Tom Berry اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ میں آپ کا اور خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا پیغام، مہمان نوازی، باہمی میل جول سب کچھ بہت خوب تھا۔ یہ بلاشبہ ایک نعمت ہے کہ عقیدے یا مذہب سے قطع نظر ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے کام ہو، زندگی کی قدر ہو، زندگی سے پیار ہو، انسانوں کا احترام ہو، انسانوں سے محبت ہو۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی ایک فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے۔سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ یہی خلیفہ کا پیغام تھا۔ یہ پیغام ایسا ہے کہ روزانہ سونے سے قبل اور صبح اٹھنے کے بعد دہرانا چاہیے اور اسی پیغام کو پھیلانا چاہیے۔ یہی پیغام ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے کیونکہ جب ہم نہیں ہوں گے تو وہ اس پیغام کو جاری رکھیں۔ میں آپ کا پھر سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس پروگرام میں بلایا ہے۔
ایک مہمان Hector Amayaبھی پروگرام میں شریک تھے۔ یہ Sandeep Srivastava Campaign کے فیلڈ ڈائریکٹر ہیں۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛یہ بہت ہی شاندار پروگرام تھا۔ میں حضور سے مل کر بہت متاثر ہوا ہوں۔آپ کا پیغام بھی بہت متاثر کن ہے خاص طور پر جب آپ نے عالمی امن کے بارے میں بات کی۔ یقین جانیں خلیفہ نے وہ کام کیا ہے جو اس ملک کے سیاست دانوں نے بھی نہیں کیا۔
نارتھ Presbyterian Church سے ایک مہمان Beverly McCordکہتی ہیں کہ؛میںپچھلے آٹھ نو سالوں سے مختلف تقریبات میں شرکت کر رہی ہوں۔ ہمارا چرچ احمدی خواتین کے ساتھ پروگرام رکھتا تھا۔ یہ بعض اوقات چرچ میں اکٹھے ہوتیں اور بعض اوقات کسی احمدی کے گھر میں۔ ہم کوئی ایسا موضوع چنتے تھے جس سے ہم اپنے اپنے خیالات کی نمائندگی کر سکیں۔ اکٹھے مل بیٹھ کر باتیں کرتے اور کھانا کھاتے۔ یہ بہت اچھے پروگرام تھے۔ اسی طرح ایک بار پھر، ہم ایک دوسرے کی عبادت گاہ میں جائیں گے اور موضوعِ بحث مقرر کر کے اپنے اپنے مقدس صحیفہ کی روح سے اس پر بات کریں گے۔اس پروگرام میں شرکت میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ میں حیران ہوں کہ کس طرح اس بڑے پروگرام کو آرگنائز کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم نے کام کیا ہے، یہ آپس میں کتنی ہم آہنگی سے کام کررہے ہیں، ہر ایک کا اپنا کام ہے، شیڈول ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض خواتین کارکنان اس پروگرام کے لیے گذشتہ چھ راتوں سے ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پائیں اور ہر ایک خوش ہے۔ بعض غمگین بھی ہو رہی ہیں کہ اتنا بڑا پروگرام، اتنی محنت اور اب یہ جلدی سے ختم ہو رہا ہے۔ میں ان خواتین کی ٹیم سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔
خلیفہ کو دیکھ کر ان کی باتیں سن کر بہت سکون ملا۔ کسی کو عالمی امن کے لیے اس طرح کوشش کرتے ہوئے نہیں دیکھا، یہ بہت اچھا احساس ہے۔ اگر لوگ اپنی خود غرضی، کسی پڑوسی پر غلبہ پانے یا کسی دوسرے کے علاقے پر قبضہ کرنے، یا کسی پر ظلم کرنے کے ایجنڈے کی بجائے اس پیغام کو سنیں تو دنیا میں امن ہو سکتا ہے۔ کاش ہم امن کو فروغ دینے والی مزید تقاریر سن سکیں اور لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ امن کی پیروی کرنی چاہیے اور کام کرنا چاہیے۔
اس پروگرام میں Collinکاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے LeRoy Thompson بھی شریک تھے۔ یہ کہتے ہیں؛ یہ ایک خوبصورت پروگرام تھا اور میں نے بہت کچھ سیکھا۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی نے حقیقتاً ایک شاندار کام کیا ہے۔ کمیونٹی سے باہر دیگر افراد کے لیے خلیفہ کا پیغام بہت ہی اچھا تھا۔ پروگرام انتہائی منظم اور اچھی طرح سے پیش کیا گیا تھا۔میری خواہش ہے کہ میں آپ جیسی کمیونٹی سے رابطہ میں رہوں اور مزید سیکھوں۔
اس پروگرام میں Adeline Moraنامی ایک لڑکی بھی شریک تھی۔ یہ کہتی ہے کہ یہ پروگرام بہت ہی شاندار تھا۔ حضور کی باتیں سن کر میں بہت خوشی محسوس کررہی ہوں۔ جرمنی جماعت کے سربراہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور رات کے کھانے پر ان سے بات ہوئی۔
ایک مہمان ڈاکٹر حلیم الرحمان صاحب کہتے ہیں کہ یہ بالکل ناقابل یقین تھا۔ مجھے تقریب، انتظامات، مہمان نوازی، پنڈال، ماحول بہت اچھا لگا۔ مجھے اس تقریب میں مدعو کرنے کا شکریہ۔میں اس احترام کا مستحق نہ تھا جو آپ کے لوگوں نے مجھے دیا ہے۔ یہ سب ماحول دیکھ کر، آپ کی عزت افزائی سے میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں اس یاد کو محفوظ رکھوں گا۔ میری طرف سے ہر فرد کا تہ دل سے شکریہ ادا کریں۔ مجھے بہترین انسانوں کے مابین وقت گزارنے کا موقع ملا، حقیقی انسان جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔
ایک مہمان Mary McDermottبھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ انہوں نے پروگرام کے لیے پارکنگ کی جگہ فراہم کی تھی۔ یہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی حیرت انگیز شام کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں پہلے کبھی بھی زمین کے اس گرد آلود قطعہ سے اتنا خوش نہ ہوا جتنا اس پروگرام کے لیے دینے پر ہوا ہوں۔ یہاں آکر میں بہت اعزاز محسوس کررہا ہوں۔ آپ سب کا شکریہ۔
Laura نامی ایک خاتون بھی اس پروگرام میں شریک تھیں۔ یہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام میں ہمیں شامل کرنے کا بہت شکریہ۔ یہ بہت ہی شاندار اور پیارا پروگرام تھا اور کھانا بہت ہی لذیذ تھا۔
ایک مہمان Joshua Murray کہتے ہیں؛ہمیں ویسا ہی کرنا چاہیے جو کہ اخلاقی طور پراچھا لگے۔ اور دنیا کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پیغام وقت کی ضرورت معلوم ہوتا ہے۔ نیز باہمی اتحاد کے اس پیغام کو نہ صرف اس کاؤنٹی بلکہ ساری دنیا کو سننے کی ضرورت ہے۔
Cindy Walker نامی ایک خاتون بھی اس پروگرام میں شامل تھیں۔ یہ کہتی ہیں کہ میں تین سال سے ایک مبلغ سلسلہ کی ہمسائیگی میں رہتی ہوں۔آج کی یہ تقریب میرے لیے بہت متاثر کن تھی۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ حضور نے اس موضوع پر بات کی جو میں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی کہ ایک مسجد کے ماحول میں اس بات کا کیا اثر ہو گا۔ لیکن مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم اس کمیونٹی کے ساتھ رہ رہے ہیں جہاں اس بارہ میں کافی غور کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ (حضور انور) اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ وہ ان خدشات کا خاتمہ کریں اور میں پوری طرح یہ باتیں سمجھ چکی ہوں۔ جتنا عرصہ میں یہاں رہی ہوں مجھے اس جماعت سے محبت، عزت اور شفقت کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
ایک مہمان Melissa McNeely اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ نے ہمیں مدعو کیا اور اس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہم ایک گروپ لے کر آئے تھے کہ جماعت احمدیہ کی نئی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شامل ہوں۔ مجھے امن اور باہمی اتحاد اور دوسری کمیونٹیز سے میل جول پر مشتمل پیغامات بہت اچھے لگے۔ ہم سب اس کمیونٹی میں مسجد اور آپ سب کا اور جو آپ پیغام لائے ہیں کا استقبال کرتے ہیں۔ میں حضور کی اس بات کو داد دیتی ہوں کہ ہمیں لوگوں کے خوف کو دور کرنا چاہئے جو کہ اس مسجد کی تعمیر سے کسی کے بھی دل میں پیدا ہوا ہو۔ میں پھر اس بات کا اظہار کرتی ہوں کہ آپ کے بنیادی عقائد اور پُر امن پیغام اور دنیا کی تکلیفیں دور کرنے کا پیغام بہت ہی خوب ہے۔
ایک مہمان Abby Kirkendallکہتی ہیں کہ میرے لیے یہ ایک موقع تھا کہ میں کوئی ایسی مذہبی جماعت دیکھوں کہ جن کی عبادت کا طریقہ تو ہم سے مختلف ہے لیکن ہماری اقدار ایک جیسی ہی ہیں۔ میرے لیے یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ یہ میرے لیے باعثِ فخر تھا کہ میں اتنے عالی مرتبت مذہبی راہنما کو ایسی ہی اقدار کے بارہ میں بات کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو کہ سب کمیونٹیز کو اپنے اندر سمو لینی چاہئیں۔ یہاں آنے سے پہلے میں حضور اور آپ کی جماعت کے بارہ میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔
یہاں مجھے خدا کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ اور عقائد سے قطع نظر، جہاں آپ کو خدا کی موجودگی کا احساس ہو وہاں آپ کو امن اور سکون ملتا ہے، جو آج یہاں تمام افراد کو بلا امتیاز مذہب و قوم و ملت ملا اور یہی چیز ہے جس کی ضرورت تمام کمیونیٹیز کو ہے۔
ایک مہمان خاتون Nicole Collier بیان کرتی ہیں کہ میرے لیے اس تقریب میں شمولیت ایک شاندار تجربہ تھاکہ کس طرح تمام کمیونٹی یہاں ایک مسجد میں خوش آمدید کہتی ہے اور باہمی تفریق کو ختم کرتی ہے۔ حضور انور سے ملاقات میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ویسے تو میں اپنے کام کے لحاظ سے بہت سے معززین سے ملتی رہتی ہوں لیکن حضور سے ملاقات میرے لیے سب سے بڑھ کر تھی۔ میں نے حضور کو صرف امن و آشتی کے بارہ میں بات کرتے سنا ہے۔ اور انہوں نے لوکل کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی موجودگی سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مسلمان کمیونٹی امن کی روادار ہے اور یہی ہے جو ہم سب کی مشترکہ اقدار ہیں۔ اس لیے لوکل کمیونٹی کو بالکل خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب یہاں ہم پولیس چیف، میئر، کونسل کے ممبران، کانگریس کے ممبران جیسے بڑے عمائدین کو دیکھتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اس مسجد کا ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں اور اس احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو مجھے حضور کی موجودگی سے یہاں محسوس ہو رہا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضور نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکالا اور یہاں ٹیکساس تشریف لائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس بات کی ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہم سب مجموعی طور پر صرف امن کے ہی خواہاں ہیں۔ ہم نفرتوں کو دور کرتے ہوئے محبت کے ساتھ تمام انسانوں کا استقبال کرتے ہیں۔یہی اصل پیغام ہے۔
ایک خاتون Dana Pressler اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم یہاں سے صرف دو منٹ کی مسافت پر رہتے ہیں اور ہمارے فرقہ کی مسجد بھی یہاں سے پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔ ہمارے کچھ ہمسائے احمدی مسلمان ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ جب وہ دوسرے لوگوں کو یہاں مسجد کے بارہ میں بتا رہے تھے اور ان کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ یہاں مسجد بن رہی ہے اور آپ لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم انتہا پسند مسلمان نہیں بلکہ پُر امن مسلمان ہیں، تو ایسی یقین دہانی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
Joshua Esprazaنامی ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛آج کی اس افتتاحی تقریب میں مجھے اور دیگر سینئر پادری حضرات کو دعوت دی گئی ہے کہ اس تقریب میں شامل ہوں اور مزیدار کھانوں میں شریک ہوں اور لوگوں سے بات چیت کا موقع ملے۔ میں اس بات کو بہت سراہتا ہوں کہ یہاں کس طرح حکمت کے ساتھ امن، اتحاد اور انصاف کے بارہ میں بات کی گئی ہے۔ اس بات کا احساس بھی ہوا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا تعلق مختلف تہذیب و تمدن سے ہے لیکن وہ بھی ہماری زندگیوں میں خدا کی موجودگی اور انسانوں میں باہمی ہمدردی کا پرچار کرتے ہیں۔ اور کیونکہ ہمارے اعمال کا ایک دوسرے پر بھی اثر ہوتا ہے اس لیے اس طرح مل بیٹھنا اور کھانا کھانا اور باتیں کرنا بہت ضروری تھا۔
میں اپنی اہلیہ کو بھی بتا رہا تھا کہ یہاں میزبانی بہت عمدہ تھی۔ یہاں پہنچتے ہی ہر چیز آرگنائز ڈلگی۔ لوگوں نے میزبانی کا حق ادا کیا، ہمارے سوالوں کے جواب دیے۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ ہم کیوں ایسی اچھی میزبانی اور لوگوں کو دعوت نہیں دیتے۔ مجھے یہاں آج پہلی دفعہ آنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا میں اپنے گھر پر ہوں۔ میرے لیے یہ بہت عمدہ تھا۔
Victoria Espraza نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ مجھے جو چیز یہاں سب سے نمایاں لگی وہ حضور کا خطاب تھا کہ کس طرح مذہبی اختلاف اور مختلف نظریات کے باوجود ہم سب آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایسی چیز ہے جس کا آجکل بین المذاہب ڈائلاگ میں فقدان نظر آتا ہے اور کسی کو اتنی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس بارہ میں بات کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی کہ اپنے مذہبی عقائد میں اختلافات کے باوجود، تمام بنی نوع انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں کس طرح آپس میں امن کے ساتھ اور ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے رہنا چاہیے۔ آج کی تقریب اور میزبانی ہر لحاظ سے بہت عمدہ تھی کہ کس طرح ہمارا خیال رکھا گیا اور سوالات کے جوابات دیے گئے، جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس سب کے لیے ہم آپ سب کے بہت شکر گزار ہیں۔
ایک خاتون Beverly McCord صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے ہمیشہ عالمی مذہبی راہنماؤں کو سننا اچھا لگتا ہے جو کہ لوگوں کو مسلسل امن کی ضرورت، باہمی اختلافات کے تدارک اور محبت کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسے پیغام سن کر خوشی ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس جماعت سے کوئی خوف نہیں اور دوسروں کے خوفزدہ ہونے کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، کیونکہ یہ جماعت تو بہت محبت کرنےوالی، احساس کرنے والی اور ہمیشہ خدمت خلق کرنے والی جماعت ہے۔ اگر کسی کو کوئی خوف ہو تب بھی اس جماعت کی خدمت خلق اور فلاحی کاموں کو دیکھ کر فوراً دور ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر Robert Huntجو پرکنز سکول آف تھیولوجی، سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں گلوبل تھیولوجیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضورِ انور نے جنگ کے خطرات سے نبیوں کی طرح انذار کیا ہے۔ حضور نے اسلام کے صحیح معانی بیان فرمائے کہ اللہ کے احکامات کی تعمیل کر کے لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا ہے۔ یہ نہیں کہ لوگوں کو قتل کرنا ہے۔
Brian Harvey جو کہ Allenکے علاقے میں جہاں مسجد واقع ہے پولیس کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دس سال پہلے میں اس علاقے کا Police Chief بن گیا تھا اور اسی وقت سے احمدیہ مسلم جماعت نے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔ ہمارا گہرا تعلق ہے اور ہم آپس میں تعاون کرتے ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ نے اپنے ممبران کو مقامی پڑوسیوں اور حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے بارہ میں بڑی اچھی طرح سکھایا ہے۔
Vudhi Slabisak ایک مقامی ہسپتال میں Spine Surgeon ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حضورِ انور کے پیغام کی جامعیت اور دوسروں کے لیے محبت و امن کے پیغام سے حیرت ہوئی۔ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عاطف ظہیر صاحب جو John Hopkins یونیورسٹی میں ریڈیولوجی کے پروفیسر ہیں انہوں نے کہا کہ حضورِ انور نے اس تقریب اور مسجد کے ذریعہ مختلف طبائع اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو جمع کیا۔ اب مجھے یقین ہے کہ یہ مسجد کمیونٹی کو بہت فائدہ د ے گی اور مقامی باشندوں کو امن اور محبت کی چادر میں لپیٹے گی۔ مجھے خلیفہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا اور انہوں نے انتہائی مفید باتیں بیان فرمائی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف مقامی مسائل بلکہ دنیاوی مسائل کا ذکر فرمایا تھا۔
٭…٭…٭