بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 50)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
سوال: لندن سے ایک خاتون نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی روشنی میں تیسری جنگ عظیم کے متعلق بیان تنبیہہ کے حوالہ سے اس جنگ کے بارے میں مزید شواہد دریافت کیے۔ نیز لکھا کہ غیر از جماعت لوگ جنّوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں جنّوں کی حقیقت کیسے سمجھائی جا سکتی ہے؟ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 17؍دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطاء فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مختلف رویاء و کشوف اور الہامات کے ذریعہ دنیا پر آنے والی جن بڑی بڑی آفات اور زلزلوں کی خبر دی ہے ان میں پانچ ہولناک تباہیوں کا خاص طور پر ذکر ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جس کے الفاظ یہ ہیں ’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشان کی پنج بار‘‘۔ اِس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ میں اُس کی طرف سے ہوں پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہو گی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آ جائے گا اور دلوں پر ایک اُن کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 395)ان آفات کی ہولناکی اور شدت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی …کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ269،268)
ان انذاری پیشگوئیوں میں زلزلہ کے الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ آفات صرف زلزلہ کی صورت میں ہی دنیا پر نازل ہوں گی۔ بلکہ ان سے مراد زلزلوں ہی کی طرح تباہی پھیلانے والی کوئی اور آفات بھی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنۡ کَانَ فِیۡ ھٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیلَ73)لہٰذا ممکن تھا کہ زلزلہ سے مراد اور کوئی عظیم الشان آفت ہوتی جو پورے طورپر زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی۔ مگر ظاہر عبارت بہ نسبت تاویل کے زیادہ حق رکھتی ہے پس دراصل اس پیشگوئی کا حلقہ وسیع تھا لیکن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کامنہ کالا کرنے کے لئے ظاہر الفاظ کی رو سے بھی اس کو پورا کردیا۔ اور ممکن ہے کہ بعد اس کے بعض حصے اس پیشگوئی کے کسی اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں لیکن بہرحال وہ امر خارقِ عادت ہوگا جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے… پس یہ پیشگوئی بلا شبہ اوّل درجہ کی خارق عادت امر کی خبر دیتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ ایسے حوادث مختلف اسبابِ طبعیہ سے ظاہر ہوں جو ایسی تباہیوں کے موجب ہو جائیں جو خارقِ عادت ہوں پس اگر اس پیشگوئی کے کسی حصہ میں زلزلہ کا ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی یہ عظیم الشان نشان تھا کیونکہ مقصود تو اس پیشگوئی میں ایک خارقِ عادت تباہی مکانوں اور جگہوں کی ہے جو بے مثل ہے زلزلہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ161)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ السلام کو بتائی جانے والی ان غیب کی خبروں کے عین مطابق دنیا دو عالمی جنگوں، طاعون کی وبا اور دنیا کے اکثر حصوں میں آنے والے غیر معمولی زلزلوں کی صورت میں چار نشانوں کے پورا ہونے کا ایک مرتبہ مشاہدہ کر چکی ہے، جن میں انسانی اور حیوانی جانوں، چرند پرند اور عمارتوں کا غیر معمولی نقصان ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو خاص طور پر پانچ نشانوں کے ظاہر ہونے کی خبر دی تھی۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پانچواں نشان کس صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کسی غیر معمولی زلزلہ کی شکل میں یا کسی عالمی وبا کی صورت میں یا تیسری عالمی جنگ کے طور پر دنیا پر تباہی لے کر آتا ہے۔ لیکن یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر دنیا نے عقل نہ کی اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع نہ کیا تو جس طرح پہلے چار نشان پورے ہوئے ہیں، یہ پانچواں نشان بھی پورا ہو گا اور اس کے بعد جیسا کہ ان پیشگوئیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام کو انشاء اللہ غیر معمولی غلبہ نصیب ہو گا۔اسی مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 1967ء کے دورہ یورپ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کی روشنی میں بیان فرمایا تھا، جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ حضور ؒ نے فرمایا:
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں نشانات دنیا کے سامنے پیش کیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر پانچ عظیم تباہیوں کے بارے میں پیشگوئی فرمائی۔ دو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں۔ تیسری ہولناک تباہی کے مہیب آثار آسمان پر ہویدا ہیں جس کے اثرات نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر بھی دی کہ اس تیسری تباہی کے ساتھ غلبۂ اسلام کا زمانہ بھی وابستہ ہے۔
اس تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان سچے راستے کو اختیار کرے اور وہ راستہ اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قہر عنقریب اس دنیا پر نازل ہونے والا ہے۔ تباہی کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ آؤ! اور استغفار کے آنسوؤں سے اس آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں کو سرد کرو۔ آؤ! اور محمد رسول اللہ ﷺ کے رحم و کرم کے ٹھنڈے سائے تلے پناہ حاصل کر لو۔ اٹھو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرو۔ آؤ! اگر تم اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو۔ (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 11؍اگست 1967ء۔ خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 808)
باقی جہاں تک جنّوں اور بھوتوں کے تصور کی بات ہے تو غیر از جماعت لوگوں میں جنّوں اور بھوتوں کے بارے میں جو تصور پایا جاتا ہے، قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ قرآن کریم اور احادیث میں جنّ کا لفظ کثرت کے ساتھ اور مختلف معنوں میں آیا ہے۔ اور ہر جگہ سیاق و سباق کے مطابق اس لفظ کے معانی ہوں گے۔
جنّ کے بنیادی معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں۔جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے طور پر مخفی ہو اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔
چنانچہ جنّ والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جَنَّ سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپا دل، جَنَّۃ باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مَجَنَّۃ ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جانٌّ سانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو، جَنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپا لے اور جُنَّۃ اوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
پھر جنّ کا لفظ با پردہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے۔نیز ایسی قوموں کے لوگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے دور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔
اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنوں یعنی چونٹیوں، دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا۔
علاوہ ازیں جنّ کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کے لئےبھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ۔ (سورۃ الجن:12) یعنی ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس کے خلاف بھی ہیں۔
پس جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ہر جگہ سیاق و سباق کے اعتبار سے اس لفظ کے معانی ہو ں گے۔
جنّوں کے متعلق میرا ایک تفصیلی جواب الفضل انٹرنیشنل 25؍جون 2021ء میں اردو میں اور الحکم 02؍جولائی 2021ء میں انگریزی زبان میں شائع ہو چکا ہے، وہاں سے بھی اس بارے میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال: جرمنی سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کیا کہ قرآن کریم میں حوروں کا جو ذکر ہے، غیر از جماعت لوگ اس کا غلط مطلب نکالتے ہیں۔ ان حوروں سے اصل میں کیا مراد ہے؟ اسی طرح انہوں نے پوچھا کہ شادی کے بعدعورت کے لئے خاوند کا نام اپنانا ضروری ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 دسمبر2021ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: جنت کی نعماء کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں جو امور بیان ہوئے ہیں وہ سب تمثیلی کلام ہے اورصرف ہمیں سمجھانے کے لئے ان چیزوں کی دنیاوی اشیاء کے ساتھ مماثلت بیان کی گئی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ۔(الرعد:36)یعنی اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے)۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ (السجدہ:18)یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا۔ يَقُولُ اللّٰهُ تَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًامِنْ بَلْهِ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزراہے۔ وہ نعمتیں ایسا ذخیرہ ہیں کہ ان کے مقابل پر جو نعمتیں تمہیں معلوم ہیں ان کا کیا ذکر۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:خدا نے بہشت کی خوبیاں اس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کردی ہیں تا اس طرح پر ان کے دل اس طرف مائل ہو جائیں۔ اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں نہیں۔ مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا تا کہ دل مائل کیے جائیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ424)
سورۃ السجدۃ کی مذکورہ بالا آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں۔ سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔ پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 398،397)
ان نعمتوں کے مخفی رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خدا کا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ(کہ کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در اصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھانا لایا جاتا ہے تو اس پر دسترخوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک عزت کی علامت ہوتی ہے۔(البدر نمبر11، جلد1، مؤرخہ 9؍جنوری 1903ء صفحہ 86)
جنت کی حوروں کا معاملہ بھی تمثیلی کلام پر مبنی ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے چار جگہوں پر حوروں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی دو جگہ(سورۃ الدخان اور سورۃ الطور) میں فرمایا کہ ہم جنتیوں کو بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی حوروں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھ دیں گے۔ اور باقی دو جگہ (سورۃ الرحمٰن اور سورۃ الواقعہ) میں ان حوروں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ خیموں میں محفوظ یاقوت ومرجان موتیوں کی طرح ہوں گی۔ یعنی شرم و حیا سے معمور، نیک، پاکباز، خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔
پس قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حوروں سے مراد نیک اور پاک جوڑے ہیں جو جنت میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں بندھے ہوں گے اورانہیں بطور انعام ملیں گے۔ان جوڑے کی کیفیت کیا ہو گی؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ انسان کو اس کا علم اسی وقت ہو گا جب وہ جنت میں جائے گا۔
باقی جہاں تک اس بارے میں قرآنی تفاسیر کا تعلق ہے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ البقرہ کی آیت وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنتیوں کو وہاں پاک ساتھی یعنی پاک بیویاں اور پاک خاوند ملیں گے جو ایک دوسرے کی روحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہونگے۔ اس لئےاس دنیا کے میاں بیوی اگر اگلے جہاں میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور دونوں کو ایک دوسرے کو نیک بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ایسا نہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں ہو اور میاں دوزخ میں ہو۔ (ملخص از تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 252)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ الدخان کی آیت وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم ان کی ازواج کو حور بنا دیں گے اور انہیں ازدواجی رشتہ میں باندھیں گے۔ پھر اس سے اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم ان کے ساتھ جنت میں ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے۔ اس جگہ بیوی کا ذکر اس لئے چھوڑ دیا کہ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ پہلی آیت میں آ چکا ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک بڑھیا سے کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی۔ تو اس نے رونا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ میں کہاں مروں کھپوں گی؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نہیں جاؤ گی۔ میں نے یہ کہا ہے کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی۔ تم جوان ہونے کی حیثیت میں وہاں جاؤ گی۔ تو جب بوڑھی وہاں جوان ہونے کی حیثیت میں جائے گی تو بدصورت وہاں خوبصورت حیثیت میں جائے گی۔ جو لنگڑی لولی یہاں سے گئی ہے وہاں صحت مند اعضا، بھرپور نشوونما کے ساتھ جائے گی۔تو زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنًکہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا بڑھیا سے نہیں، جس حالت میں اس نے اس دنیا میں اپنی بیوی چھوڑی بلکہ حُوۡرٍ عِیۡنٍ کے ساتھ جو جوان بھی ہو گی، خوبصورت بھی ہو گی، نیک بھی ہو گی۔ بہرحال یہاں حور کا لفظ زوج کی حیثیت سے آیا ہے۔(ملخص از خطبہ جمعہ مؤرخہ 19؍فروری 1982ء، خطبات ناصر جلد نہم صفحہ 387،386)شادی کے بعد بیوی کے لئے خاوند کا نام اپنانے کا سوال کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔جس کی پابندی ضروری ہو۔اگر دل چاہے تو اپنا لیا جائے اور اگر دل نہ چاہے تو نہ اپنائے۔اور اگر سرکاری کاغذات میں نام اپنانا لازمی ہو تو اپنا لینا چاہیے،اس میں کوئی حرج کی بات بھی نہیں۔