اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۲ءءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک احمدی کو پانچ سال قیدکی سزا
پشاور:ایک کم عمر لڑکے عمران علی نے ایک ۲۰ سالہ احمدی عبدالمجید پر ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۰ء کو توہین کا جھوٹا الزام لگا دیا۔پولیس نے مولویوں کے دباؤ میں آکر ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔ج ,، ۱۸۶۰ اور FIR#۶۴۸ کے تحت۱۰؍ستمبر۲۰۲۰ء کو تھانہ پھانڈو پشاور میں ایک جھوٹامقدمہ درج کر دیا جس کی سزا سزائے موت ہے۔ان کو ۱۳؍ستمبر ۲۰۲۰ء کو گرفتار گیا تھا۔ وہ ابھی پشاور جیل میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ ان کے والد ان کی اسیری کےدوران ہی وفات پا گئے۔
اس جھوٹے مقدمے کے آغاز اور ان کی گرفتاری سے لے کر اب تک اس کیس کی سماعت پشاور سیشن کورٹ میں ہو رہی تھی۔ایڈیشنل سیشن جج طاہر اورنگزیب خان اس مقدمے کی سماعت کر رہے تھے۔اس مقدمے کی سماعت کے بعد ایڈیشنل سیشن جج نے ان کو توہین کے الزام سے بری کر دیا لیکن مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں پانچ سال کی قید سنا دی۔ موصوف کو کئی سال پشاور جیل میں قید و بند کی صعوبتیں سہنا پڑیں۔
ایک احمدی کے خلاف پولیس کیس:ایک مثالی کیس
کراچی؛۲۱؍نومبر۲۰۲۲ء:کراچی میں ایک احمدی وکیل سید علی احمد طارق پر اپنے نام کے ساتھ ’سید‘لکھنے کی وجہ سےزیر دفعہ۲۹۸۔ب، ۲۹۸۔ج اور۳۴ FIRنمبر۱۷۲ کے تحت مقدمات بنائے گئے۔
درخواست گزار محمد احمد نے FIR میں یہ موقف اپنایا کہ اس سےقبل ۲۶؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو وہ جماعت احمدیہ کی انتظامیہ کے خلاف مارٹن کوارٹرز کراچی میں احمدیہ بیت الذکر کو مسجد کی طرز پر تعمیر کرنے پر FIR.۵۲۷ میں دفعہ ۲۹۸۔ج کے تحت تھانہ جمشید کوارٹرز کراچی میں مقدمہ درج کروا چکا ہے۔اس نے مزید لکھا کہ اس مقدمہ کی پیروی ایک احمدی وکیل سید علی احمد طارق کر رہا ہے۔کاغذات میں اس نے اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئےاپنے نام کے ساتھ ’سید‘ بھی لکھا ہے جس کی پاکستانی قانون کے مطابق اجازت نہیں ہے۔چنانچہ اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ایک احمدی مذہبی نوعیت کے مقدمہ میں گرفتار
بستی احمد پور جھکڑ امام شاہ، ڈیرہ غازی خان، پنجاب، ۲؍فروری۲۰۲۲ء:پولیس نے جھاک اترا میں ایک احمدی کے خلاف ۲۹۵۔الف کے تحت مقدمہ درج کیا اور اگلے ہی روز انہیں گرفتار کر لیا۔مبینہ طور پر انہوں نے ایک مذہبی مواد رکھنے والے پینا فلیکس کو اتارا تھا۔
معاندین احمدیت نے حال ہی میں اس گاؤں میں فرقہ وارانہ جذبات کی بنیاد پر اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔انہوں نے ایک پینا فلیکس آویزاں کیا جس کے سب سے اوپر آیت خاتم النبیین لکھی تھی۔اور اس کے نیچے یہ لکھاتھا: ’’اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں یعنی قادیانیوں سے خریدوفروخت، تجارت، لین دین، سلام و کلام، ملنا جلنا، کھانا پینا، شادی و غمی میں شرکت، جنازہ میں شرکت، تعزیت اور عیادت تمام مکاتب فکر کے متّفقہ فتوے کے مطابق شریعت اسلامیہ میں سخت ممنوع اور حرام ہے۔قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ مسلمانوں کا اوّلین ایمانی فریضہ ہے۔‘‘
اس پینا فلیکس کا آیت خاتم النبیین سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ مذکورہ احمدی نےاس کو پھاڑا تو معاندین احمدیت جمع ہو گئے اور پولیس سے مقدمہ درج کرنے کو کہا۔پولیس نے ایک رات ان کو جیل میں رکھا اور اگلے روز جانے دیا۔
لیکن معاندین احمدیت نے احتجاج جاری رکھا جس پر موصوف کو DPO کے پاس پیش ہونے کو کہا گیا۔ جب وہ وہاں گئے تو ان پر مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ واقعہ کچھ سوالات کو جنم دیتا ہے۔یہ واقعہ ایک گروہ کی جانب سے انتہائی فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی تحریر والے پینا فلیکس کو عوامی مقام پر لگانے کے باعث پیش آیا۔چنانچہ
٭…ایسا پینافلیکس آویزاں کرنا تعزیرات پاکستان دفعہ ۵۳ا۔الف اور۲۹۵۔الف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سرعام جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کیا کارروائی کی؟
٭…اگر پولیس اس قسم کے مذہبی غنڈوں کے خلاف، جو ایک مختصر سی جماعت کے خلاف مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں، ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی کارروائی نہیں کرتی تو پھر احمدیوں کو جو پُرامن لوگ ہیں ان کے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے کس بنیاد پرروکاجاسکتاہے؟
٭…کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہےکہ مؤثر طور پر ایسے متشدد رویے اور کھلے عام معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کی حوصلہ شکنی کرے۔
احمدی کا دوست گرفتار
راجن پور؛ مارچ ۲۰۲۲ء:ایک شخص اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہیں۔ ان کے تین بچے اور بیوی بھی احمدی ہیں۔بعد ازاں ان کی بیوی ان سے دور ہو گئی اور اپنے غیراحمدی ماں باپ کے پاس رہنے کےلیے چلی گئی۔خاوند اور بیوی کے درمیان بچوں کی عارضی کفالت پر جھگڑا ہو گیا۔
اسی بات کے تناظر میں ان کی بیوی نے ان کے کوارٹرز پر کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر دھاوا بولا لیکن وہ بے نتیجہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد ان کے سسرالی رشتہ دار عدالت میں چلے گئے۔
۴؍مارچ ۲۰۲۲ء کو پولیس نے امیر جماعت ضلع راجن پور کو اس احمدی سے دوستانہ رویہ رکھنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا۔
چار احمدیوں کو امتناع احمدیت آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا
چک نمبر ۸۸، ج ب، ضلع فیصل آباد:ڈجکوٹ ضلع فیصل آباد میں پولیس نے چار احمدیوں پر زیر دفعہ ۲۹۸۔ج FIR نمبر ۱۱۸ کے تحت مقدمہ بنایا۔ مقدمہ احمدیہ مسجدکا مسجد سے مشابہ ہونے اور اس پرکلمہ لکھا ہونے پر بنایا گیا۔ اس مقدمے میں مقامی صدر جماعت اورنائب صدر جماعت کے علاوہ دو دیگر احمدی نامزد ہیں۔
اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ درخواست گزار کوئی مقامی آدمی نہیں ہے بلکہ پولیس خود ہے۔پنجاب پولیس کا یہ رویہ بالکل نئی بات ہے۔FIR میں لکھا گیا ہےکہ احمدیوں نے اپنی عبادتگاہ مسجد کی طرز پر بنائی ہے اور اس پر کلمہ بھی لکھا ہےاور یہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ احمدیوں نے اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھا ہے۔پولیس کا از خود ایسا موقف اختیار کرنا بہت ہی غیر روایتی اور انتہائی غلط ہے۔منارے اور محراب کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ صرف ایک ڈیزائن ہے اور اس کی مذہبی اہمیت انتہائی کم ہے۔حضرت محمد ﷺ کی مدینہ کی مسجد میں کوئی منارے نہیں تھے۔چنانچہ فیصل آباد پولیس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ منارے بنانے کا اختیار صرف آئینی مسلمانوں کے لیے مختص کرنا نہ صرف غیر مناسب بلکہ غلط ہے۔
احمدیوں کو ایسے مقدمات میں بہیمانہ طریق پر گھسیٹا جاتا ہے اور اس میں سراسر غنڈہ گردی اور تعصب شامل ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے بھی منارے، گنبد اور محراب ہوتے ہیں۔
احمدیوں کے خلاف مقدمہ
بھولیر ضلع قصور، ۷؍دسمبر۲۰۲۲ء:عبدالرؤوف نامی تحریک لبیک پاکستان کے ایک ملاں نےسنوکر کلب میں ایک احمدی کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا جو بعد میں بڑھ گیا۔فریقین کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے اور کچھ لوگوں نے گولی چلا دی۔ مقامی SHO تھانہ پھول نگر نے فریقین کو شام کو تھانہ میں طلب کیا۔ تھانہ میں تحریک لبیک کا مقامی صدر اور دوسرے ملاں بھی آ گئے۔ پولیس نےفریقین کے چار لوگوں کو گرفتار کر لیا اور اگلے دن عدالت میں پیش کر دیا جہاں عدالت نے معاملہ باہمی رضامندی سے ختم کروا دیا۔
بعد میں تحریک لبیک کے مولوی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرکو ملے اور معاملہ کو مذہبی رنگ دے دیا اور احمدیہ مسجد کو مسمار کرنے، احمدیوں کامکمل بائیکاٹ کرنے اور احمدیوں کو گاؤں سے نکالنےکا کہا۔
ملاںعبد الرؤوف نے کہا کہ احمدیوں نے دو ماہ قبل ان(غیر احمدیوں) کی شکایت پر پولیس کی جانب سے احمدیہ مسجد کے محراب اور مناروں کو ڈھانپنے کی کارروائی کا بدلہ لیا ہے۔ملاں کے کہنے پر گیارہ احمدیوں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان احباب پر مقدمہ ۳۳۷F(i), ۳۳۷A(i), ۳۳۷H(۲), ۵۰۶/B, ۱۴۸, ۱۴۹, ۳۳۷L(۲کے تحت۱۷؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو تھانہ پھول نگر میں درج کیا گیا۔ تحریک لبیک کے شدت پسند ملاں جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائیوں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں احمدیہ مساجد کی بےحرمتی میں اضافہ تحریک لبیک کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔
پانچ احمدیوں کو امتناع احمدیت قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا
وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ؛۱۱؍نومبر۲۰۲۲ء:مخالفین نے پولیس کو اس بات کی شکایت کی کہ احمدیوں نے ایک کمرے کے اوپر منارے تعمیر کر لیے ہیں اور وہ مسجد سے مشابہت کھا رہا ہے۔ وہ اس میں اسلامی عبادات سر انجام دے رہے ہیں۔اس پر پولیس نے پانچ احمدیوں کے خلاف FIR.۶۹۹ دفعہ ۲۹۸۔ب اورج کے تحت تھانہ وزیر آباد میں مقدمہ درج کر لیا۔یاد رہے کہ یہ مسجد ۱۹۱۵ء میں تعمیر کی گئی تھی۔
پولیس نے دو بھائیوں کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر لیا
چیچوں کی ملیاں، ضلع شیخوپورہ :۲۹؍اکتوبر ۲۰۲۲ء:یہاں پر مخالفین احمدیت مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔اکتوبر ۲۰۲۲ء میں مخالفین نے احمدیہ مسجد کے سامنے ۲۹۵۔ج ریڈ زون لکھ دیا۔احمدیوں نے پولیس کو اس بات سے آگاہ کیا جنہوں نے اس کو مٹا دیا۔تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دو احمدی بھائیوں پر غیر اخلاقی امورسے متعلق مقدمہ بنانے کی سکیم چلائی۔
پولیس نے دونوں بھائیوں کو FIR.۸۷۸میں دفعہ۱۰۹,۵۱۱,۳۷۶/۳,۳۶۳ کے تحت اس جھوٹے مقدمے میں ۲۹؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کو تھانہ ہاؤسنگ کالونی شیخوپورہ میں مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔
ایڈیشنل جج سنجیدہ اختر نے ان کی ضمانت بعد ازگرفتاری کو رد کر دیا۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )