’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے‘‘
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ جنوری ۲۰۱۰ء)
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیر نگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیا دن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے۔جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ 20 سال پہلے نہیں تھی۔ اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہو تا ہے۔
لیکن کیا یہ ترقی جو مادی رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت، میری یہ جاہ و حشمت ، میرا دنیاوی لہو و لعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے سے کم ترپر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیر نگیں کرنا ہی مقصد حیات ہے۔ یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو نئی ایجادات جوہیں، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بننے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ انتہائی غلط تصور ہے۔ اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے۔ اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے۔ اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے۔ اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس دولت ہے، ہمارے پاس جاہ و حشمت ہے۔ لیکن اس تصور کی خداتعالیٰ نے جوربّ العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے بڑے زور سے نفی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ جن باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں۔ تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔ نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات:57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات:57)مَیں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدنظر رکھیں۔ وہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 137 ایڈیشن1988ء)
اس بات کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے کہ اپنے مقصد پیدائش کو کس طرح پہچاننا ہے اور اس کی عبادت کے طریق کس طرح بجا لانے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا رہا ہے جو اپنی قوموں کو اس عبادت کے طریق اور مقصد پیدائش کے حصول کے لئے راہنمائی کرتے رہے اور پھر جب انسان ہر قسم کے پیغام کو سمجھنے کے قابل ہو گیا اس کی ذہنی جلااس معیار تک پہنچ گئی جب وہ عبادات کے بھی اعلیٰ معیاروں کو سمجھنے لگا اور اس نے دنیاوی عقل و فراست میں بھی ترقی کی نئی راہیں طے کرنی شروع کر دیں۔ آپس کے میل جول اور معاشرت میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انسان کامل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو اس آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا جس نے پھر اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہ اعلان کیا کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ:4) کہ آج مَیں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتوں اور احسان کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔ اور اس قرآن میں جس کے لئے دین کو مکمل کیا اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریقے بتائے۔ عبادتوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے کے طریق بھی بیان فرمائے۔ معاشرتی تعلقات نبھانے کے طریق بھی بیان فرمائے۔ دشمنوں سے سلوک کے طریق بھی بیان فرمائے۔ معاشرہ کے کمزور طبقے کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے۔ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے۔ آئندہ آنے والی نئی ایجادات کے آنے اور ان سے انسان کے فائدہ اٹھانے کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا۔ زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہے اس کے بارہ میں انسانی عقل و فراست کی حدود تک جتنی بھی، جہاں تک پہنچ ہوسکتی تھی اس کے سمجھنے کے بارہ میں بھی راہنمائی فرمائی۔ ہر وہ چیز بیان فرما دی جن تک آج انسان کی عقل کی رسائی ہو رہی ہے بلکہ آئندہ پیش آمدہ باتوں کے بارہ میں بھی بیان فرما دیاجس کے بارہ میں آج سے 1400 سال پہلے کا انسان سمجھ نہیں سکتا تھا اور اس سے پہلے کا انسان تو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا تھا گو کہ اُس وقت جب یہ باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئیں ایک عام مسلمان مومن سمجھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن ان سب باتوں کو انسان کامل اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی فراست جو تھی اس وقت بھی سمجھتی تھی۔ پس وہ ایک ایسا نور کامل تھے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور تھا اور جنہوں نے اپنے صحابہ میں ان کی استعدادوں کے مطابق بھی وہ نور بھر دیا۔