اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جولائی۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
بہاولنگر میں امن عامہ کی مخدوش صورتحال اور احمدیہ مسجد پر حملہ کا خطرہ
ضلع بہاولنگر۔ جولائی ۲۰۲۳ء:آجکل مخالفین احمدیت احمدیہ مساجد کے اندر لکھے کلمے،محراب اورمیناروں کے خلاف مقدمہ درج کروا رہے ہیں۔اس وقت جماعت احمدیہ ضلع بہاولنگر سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ کیونکہ یہاں موجود چار احمدیہ مساجد کو پولیس کی جانب سے بھی اور متعصب مذہبی جنونیوں کی طرف سے بھی سخت خطرہ لاحق ہے۔
مذہبی شدت پسندوں نے پولیس کو ۱۶۰ مراد،۱۶۸ مراد، اور چک نمبر ۹ فوردَوا میں موجود احمدیہ مساجد کے محراب اور مینارے مسمار کرنے کو کہا ہے۔مخالفین نے باہر سے ایک ملاں کو بلا کر احمدیہ مسجد پر حملہ کر کے محراب اور مینارے مسمار کرنےکی کوشش کی لیکن احمدیوں نے ان کو اس قبیح عمل میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ ڈی ایس پی چشتیاں نے مقامی جماعت کے اکابرین کو کہا کہ وہ خود ہی محراب اور مینارےمسمار کر دیں۔ اس کے بعد مقامی جماعت کے ایک وفد نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایس پی سے ملاقات کر کے اپنے موقف سے آگاہ کیا۔اور اس معاملے میں ایک درخواست بھی دی۔
چک ۱۹۷۔۷آر میں پولیس کے کہنے پر جماعت نےمسجد کی دیوار کو اونچا کر دیا تا کہ محراب،مینارے اور کلمہ چھپ جائے۔
جہلم میں ایک احمدی بزرگ کی قبر کا کتبہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا
۱۹؍جولائی ۲۰۲۳ء:انسانی حقوق کمیشن کا اعلامیہ: ایک بار پھر سےشر پسندوں کے ہاتھوں پاکستان میں احمدی مسلمانوں کی قبریں انتہائی کریہہ اور شعور سے عاری طریق پر بے حرمتی اور فساد کا نشانہ بنیں۔ یہ سنگین واقعہ ۱۶؍ جولائی کو جہلم کے محمود آباد نامی قصبے میں پیش آیا۔
نامعلوم حملہ آوروں نے دو احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے اور باقی ماندہ حصوں پر سیاہی پھیر دی تا کہ ان پر لکھی تحریر پڑھی نہ جا سکے۔احمدیوں کے خلاف ہونے والا ظلم و ستم روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کیونکہ گذشتہ کچھ عرصے میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کمیشن کو ایسے واقعات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے قبروں کی بے حرمتی کرنا ان بدکردار فسادیوں کا محبوب مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ اور شرمناک طریق سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ احمدی وفات کے بعد بھی ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں۔
اس عمل کا فوری طور پر سدّباب ہونا چاہیے اور تمام کرداروں کو فوراً قانون کےکٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔بدقسمتی سے حکومت اور ادارے خود ایسے بھیانک طریقہ کار کو فروغ دے رہے ہیں۔ان کو اپنی سیاست کو چمکانے کےلیے ایسے گھٹیااور ارزاں حربوں کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن عرصہ دراز سے احمدیہ مساجد اور قبرستانوں پر حملوں کے متعلق آواز بلند کر رہا ہے۔ اب حالیہ دنوں میں احمدی احباب پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہےجس کی رپورٹیں سوشل میڈیا اور بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے مل رہی ہیں۔
ہم بین الاقوامی اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ احمدیوں کےخلاف تمام جھوٹے مقدمات کو ختم کرکے ان کو رہا کیا جائے اور ساتھ ہی ان کی حفاظت اور مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔اور احمدیوں کے خلاف مفسدانہ کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے آرٹیکل نمبر ۲، ۱۸ اور آرٹیکل نمبر ۲۰ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اسی طرح عمرانی اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے جز نمبر ۲۵ اور ۲۶ کو لاگو کیا جائے۔
بھیرہ میں ایک اندوہناک واقعہ
۲۴؍جولائی ۲۰۲۳ء۔ بھیرہ ضلع سرگودھا: بھیرہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ اور بعض کہار صحابہ کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ وہاں پر چند احمدی خاندان رہائش پذیر ہیں اوراپنی تاریخی مسجداور اس کے احاطے کی وجہ سے معمول کی زندگی گزا رہے ہیں۔
سال ۲۰۲۱ء میں اس مسجد کی مرمت کا کام شروع کیا گیا تو مخالفین احمدیت نے پولیس سے رابطہ کیا اور مرمت کے اس کام کو روک دیا گیا۔ اس پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور صرف چھت کی مرمت کی اجازت دی گئی۔ لیکن انتظامیہ نے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کے باہر اور مسجد کے ہال میں لکھے ہوئے کلمہ کو مٹا دیا۔اب حال ہی میں مقامی جماعت نے مسجد سے ملحقہ مربی ہاؤس کی مرمت کا کام شروع کیا تو ۲۳؍جولائی کو مخالفین احمدیت نے مظاہرہ کیا اور مرمت کے کام کو روکنے اور مینار گرانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پولیس نے جماعت کے بعض عہدیداروں کو بلایا۔ جب وہ وہاں گئے تو مولوی اور ان کے نشر و اشاعت کے شعبے سے وابستہ لوگ وہاں موجود تھے۔ مولویوں کےسامنے انتظامیہ کے لوگ بزدل دکھائی دے رہے تھے۔چنانچہ ایک رسمی سی بات چیت کے بعد انتظامیہ نے احمدیوں کو ایک تحریر پر دستخط کرنے کو کہا۔جس میں درج تھا کہ پولیس،انتظامیہ اور ٹاؤن کمیٹی کے عملے کی موجودگی میں قادیانی مسجد سے کلمے والے کتبے کو جس پر اور بھی آیات لکھی ہیں ہٹایا جائے گا۔قادیانی مسجد کے میناروں کو دوبارہ مرمت کر کے اپنی پرانی حالت کی طرف لوٹایا جائے گا۔مسجد سے منڈیر کو بھی ہٹایا جائے گا۔قادیانی یہ تمام کام ۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء تک مکمل کروائیں گے۔
تین قبروں کی بے حرمتی
ندھیری بالا۔ کوٹلی آزاد جموں کشمیر۔ ۵؍جولائی ۲۰۲۳ء: کوٹلی آزاد جموں کشمیر میں جماعت احمدیہ کے خلاف مفسدانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ۵؍جولائی کو نامعلوم شرپسندوں نے قاضیاں چوک میں مشترکہ قبرستان میں موجود تین احمدیوں کی قبروں کےکتبے مسمار کر دیے۔ان میں سے ایک قبر حضرت مسیح موعود ؑکے ایک صحابی قاضی فیروز دین صاحبؓ کی تھی۔
انتظامیہ کے ہاتھوں دس احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی
کجّر ضلع شیخوپورہ۔یکم جولائی ۲۰۲۳ء:ضلع شیخوپورہ میں گذشتہ کچھ عرصے سے احمدیوں کی حالت کافی مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔کچھ لوگوں نے احمدیوں کی قبروں پر لکھی آیات پر اعتراض کیا اور اس کےمتعلق انتظامیہ کو درخواست دےدی۔ انتظامیہ نے چند لوگوں سے رابطہ کیا اور احمدیوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ ان کو ایک کنال الگ زمین دے دی جائے اور کتبوں کا معاملہ انتظامیہ پر چھوڑ دیا جائے۔ا س کے بعد انتظامیہ کے لوگ آئے اور دس احمدیوں کی قبروں کے کتبے اکھاڑ کر اپنے ساتھ ہی لے گئے۔
یہاں قبروں کی بے حرمتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل ۱۳؍جولائی ۲۰۲۰ء کو پولیس کی موجودگی میں مذہبی شرپسندوں نے بیالیس احمدیوں کی قبروں کےکتبے مسمار کر دیے تھے۔اسی طرح ۲۰۲۱ء میں دو ایسے واقعات میں آٹھ احمدیوں کی قبروں کےکتبے مسمار کیے گئے تھے۔
ریاست کو کھلی دھمکی کی جرأت۔ تحریک لبیک کا احمدیہ مسجد سے مینارے ہٹائے جانے کا مطالبہ
سانگلہ ہل ضلع ننکانہ۔۱۴؍جولائی ۲۰۲۳ء:تحریک لبیک نے حال ہی میں یہاں پر سویڈن میں قرآن کریم کی بےحرمتی کے خلاف ایک مظاہرہ کیا۔ تبھی وہاں پر احمدیت مخالف تقاریر شروع ہو گئیں جن میں مخالفین نے ۱۵؍محرم تک فیصل آباد روڈ پر واقع احمدیہ مسجد کےمینارے مسمار کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بصورت دیگر اپنی نئی حکمت عملی کے اعلان کی دھمکی بھی دے دی۔یہ دھمکی تحریک لبیک پی پی ۱۳۱؍ کے سرغنہ قاری تصور حسین نے دی۔
سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او نے ۱۸؍جولائی کو احمدی وفد کو اپنے پاس بلایا اور ان کو مولویوں کے مطالبے سے آگاہ کیا اور کہا کہ احمدیوں کو ملکی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی عبادت گاہ کو مسلمانوں سے مشابہ نہیں بنانا چاہیے۔ اور اگر وہاں پر کوئی مینارے ہیں تو ان کو چھپا دیا جائے۔اس نے احمدیوں کو صرف چار سے پانچ دن کا وقت دیا۔ احمدی احباب نے انتہائی پریشانی اور بے چینی کے عالم میں مجبوراً اس حکم پر عمل درآمد کیا۔اور میناروں کو فائبر کی چادرسے چھپا دیا تا کہ کوئی باہر سے ان کو نہ دیکھ سکے۔
ریاستی قوانین ہر کسی پر لاگو ہوتے ہیں
علماء کونسل کے چیئرمین او رمذہبی ہم آہنگی کے امور پر وزیر اعظم کے مشیر طاہر اشرفی نے کہا کہ وہ اس بات کومانتے ہیں کہ تمام اقلیتوں بشمول احمدیہ جماعت کو ہر طرح کے معاشرتی حقوق دینے چاہئیں۔لیکن اقلیتوں کو بھی آئین پاکستان کی پاسداری کرنی چاہیے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ہر ملک کی طرح پاکستان کا بھی ایک آئین ہے اور اس کی پاسداری سب پر لازم ہے اور پاکستان کا آئین صرف ملکی آئین ہی نہیں بلکہ یہ اسلامی آئین ہے اور اس کے مطابق آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے منکر مسلمان نہیں ہیں۔عبادت گاہوں اور قربانی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کسی بھی فرد یا گروہ کو اسلامی نام استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ایسے لوگ یعنی احمدی جب دھوکا دہی کی نیت سے اسلامی شعائر کا استعمال کرتے ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔قربانی کےمتعلق اس نے کہا کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے لہذا احمدی اس سے دس دن قبل یا دس دن بعد قربانی کر لیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔
ہماری رائے: احمدی آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہیں۔آئین پاکستان احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتاہے۔ اب احمدیوں کو اس تشخص کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔آئین پاکستان میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اس میں کسی بھی وقت ترمیم کی جا سکتی ہے اور کی بھی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو آئین کی بعض شقوں پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے اور اسی لیے وہ اس میں ترامیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔نیز جہاں تک اس کےقربانی کےمتعلق خیالات کی بات ہے تو اگر آئین پاکستان کے مطابق ہی ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا چاہیے تو پھر آئین کا آرٹیکل ۲۰ کہتا ہے کہ ہر شہری اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکتا ہے اور اس کی تشہیر بھی کر سکتا ہے۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )