گھر… ایک جنت (حصہ دوم)
’’ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا‘‘
ایک موقع پر ربنا ھب لنا کی عظیم موثر کن دعا جو گھر کو جنت نظیر بنانے کے لیے ایک نسخہ ہے کوحرز جاں بنانے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًاکی دعا کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے مستقل مانگنے کی عادت ڈال لیں اور جب یہ دعا کیا کریں تو اپنے تعلقات پر نگاہ کیا کریں کہ ان کی کیا نوعیت ہے ؟آپ واقعتاً ان کو بدلنے کے لیے تیار ہیں بھی کہ نہیں ۔اگر ہیں تو کیا کوشش کر رہے ہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ دعا کیوں مانگ رہے ہیں۔ پھر اس دعا کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی ۔پس اس گہری اور تفصیلی نظر سے جب آپ صداقت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس دعا کے ذریعے اپنے معاشرتی تعلقات اور اہلی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے تو بلاشبہ مجھے یقین ہے کہ اس دعا کی برکتیں آپ پر آسمان سے بھی نازل ہوں گی اور زمین سے بھی اگلیں گی اور آپ کے گھر دیکھتے دیکھتے جنت نشان بن جائیں گے ۔(خطبہ جمعہ ۶؍ جولائی ۱۹۹۰ء)
احمدی خواتین سے توقعات
آج کے جدید دور میں دنیا کو امن کی تلاش ہے امن کی تلاش میں وہ گلیوں میں بھی نکلتے ہیں شہروں میں بھی اور ملکوں میں بھی سرگرداں ہیں لیکن وہ امن جو گھر میں نصیب ہو سکتا ہے وہ ان کے گھروں کو ویران چھوڑتا چلا جا رہا ہے آج کے معاشرہ میں سب سے اہم ضرورت گھروں کی تعمیر نَو ہے۔ ایسا معاشرہ جو اسلام کی تعلیم پر مبنی ہے اس معاشرہ کا کوئی رنگ نہیں نہ وہ مشرق کا ہے نہ وہ مغرب کا نہ وہ سیاہ ہے نہ سفید وہ نورانی معاشرہ ہے اسی حد تک معاشرے کو عالمگیر کرنا چاہیے اور تمام بنی نو انسان کی قدر مشترک بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر احمدی خواتین نے وہ ماڈل پیش نہ کیا تو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے سے محروم رہ جائیں گی اور تمام بنی نو ع انسان کو امت واحدہ میں اکٹھا کرنے میں ناکام رہیں گی۔ یہ تصور کہ مشرقی معاشرہ گویا اسلامی معاشرہ ہے غلط ہے مشرقی معاشرہ کے بعض پہلو اسلامی ہیں لیکن کثرت سے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف اسلامی نہیں بلکہ مذہبی اقدار کے معاند اور مخالف ہیں۔ مشرقی معاشرہ میں جہاں بظاہر خاندان بڑے ہیں اور ظاہری روابط زیادہ مضبوط ہیں وہاں اندرونی طور پر ایک ایسا نظام چل رہا ہے جو ان روابط کو کاٹتا ہے اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے مغربی دنیا کی خرابیوں میں بڑی خرابی انفرادیت کی وجہ سے معاشرے میں خودغرضی پیدا ہو چکی ہے انفرادیت کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور لذت یابی کے شوق نے قوم کو پاگل کر دیا ہے۔ گھر ٹوٹنے کے نتیجے میں سارے معاشرے میں بے اطمینانی اور بے اعتمادی اور نفرت کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ قومی تعمیر اور قومی یکجہتی پیدا کرنا ناممکن ہے جب تک گھروں کی تعمیر نہ ہو اور گھروں میں یکجہتی نہ ہو جس قوم کے گھر منتشر ہو جائیں وہ قوم اکٹھی نہیں رہ سکتی جس قوم کے گھروں میں امن نہیں اس قوم کی گلیاں بھی ہمیشہ امن سے محروم رہیں گی۔ حقیقی جنت گھر کی تعمیر میں ہے۔ حقیقی جنت رحمی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بارہا ہمیں رحمی رشتوں کی طرف متوجہ فرمایا کہ اگر تم رحمی رشتوں کو کاٹو گے تو خدا کے رحم سے بھی کاٹے جاؤ گے گھر آج مشرق میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور مغرب میں بھی ٹوٹ رہے ہیں گھروں کو بنانے والا صرف ایک ہے اور وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں آپ ہی کی تعلیم ہے جو مشرق کو بھی سدھار سکتی ہے اور مغرب کو بھی۔ آج کی دنیا میں امن کی ضمانت ناممکن ہے جب تک گھروں کے سکون اطمینان اور اندرونی امن کی ضمانت نہ دی جائے اگر آپ نے دنیا کو امن عطا کرنا ہے تو احمدی خواتین اپنے گھروں کو دینی گھروں کا ماڈل بنائیں اور تمام دنیا میں وہ ایسے پاک نمونے پیش کریں جس کے نتیجے میں بنی نو انسان دوبارہ گھر کی کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کرلیں آپ گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کریں اپنے گھروں کو جنت نشان بنائیں اپنے تعلقات میں انکسار اور محبت پیدا کریں اور ہر اس بات سے اعراض کریں جس کے نتیجہ میں رشتے ٹوٹتے ہوں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہوں۔ آج دنیا کو سب سے زیادہ گھر کی ضرورت ہے اس کو یاد رکھیں اور یہ گھر اگر احمدیوں نے دنیا کو مہیا نہ کیا تو دنیا کا کوئی معاشرہ بنی نو انسان کو گھر مہیا نہیں کر سکتا اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔(خطبہ جمعہ ۲۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء)
تمہاری صبح حسین ہو رخ سحر کی طرح
تمہاری رات منور ہو شب قمر کی طرح
کوئی بہشت کا پوچھے تو کہہ سکو ہنس کر
کہ وہ خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح
(باقی آئندہ)