شادی کے موقع پرتقویٰ اور قولِ سدید کی اہمیت (حصہ اول)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دیے ہیں۔ ان احکامات میں سے ایک نکاح کا بھی حکم ہے اور اس کی ایک شرط تقویٰ ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا(النساء:۲) ترجمہ:اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ۔ یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (الاحزاب:۷۱-۷۲) ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئےتمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جوبھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اُس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (الحشر:۱۹) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
اسی طرح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن وجمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے۔ اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار عورت حاصل ہو۔ (بخاری۔ کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے۔متقی کے لئے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّیَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: ۳-۴) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے۔ لیکن حصولِ تقویٰ کے لئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے، ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو، جو چاہو گے وہ دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد۳صفحہ۹۰، ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شادی کے موقع پر تقویٰ اختیار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’دنیا میں آجکل انسانی نفسیات کے بارہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن جس انسانی نفسیات کو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانا، بڑے بڑے ماہرین اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے اور اسی نفسیات کومدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پہ جن چند آیات کا انتخاب فرمایا ان میں تقویٰ پر خاص طور پر بہت زور دیا، رشتہ داروں، رحمی رشتہ داروں کے تعلقات پر بہت زور دیااور پھر اس بات پر بھی کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا؟پس یہ چیزیں اگر نئے قائم ہونے والے رشتوں میں اور ان نئے قائم ہونے والے رشتوں کے رشتہ داروں میں، جو دونوں طرف کے قریبی رشتہ دار ہیں، ماں، باپ، بہن، بھائی ان میں پیدا ہوجائیں تو کبھی وہ مسائل نہ اٹھیں جو عموماً رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں جو رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں، جو دونوں خاندانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جب مقدمات میں ملوث ہو جاتے ہیں تو پھر میرے تک معاملات پہنچتے ہیں اور پھر شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ پس ہمیشہ رشتے قائم کرتے ہوئے، یہ رشتے قائم کرنے والوں کو، لڑکا لڑکی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ صرف دنیاوی مقاصد کے لئے یہ رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف اپنی تسکین اور خواہشات پوری کرنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف لڑکی کے جہیز کو دیکھنے کے لئے اور لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ نہ لڑکی والے اس بنا پر رشتہ قائم کریں کہ لڑکا بہت کمانے والا ہے، پیسے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا نے رشتہ قائم کرنے کے لئے مختلف معیار رکھے ہوئے ہیں تو تم جس معیار کو دیکھو، وہ یہ ہے کہ دینی حالت کیا ہے۔ پس جب دینی حالت دیکھی جائے گی تو لڑکا بھی اور لڑکی بھی اپنے دینی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر لڑکے کو یہ کہا دینی معیار دیکھو لڑکی کا، حسن دیکھنے کی بجائے، دولت دیکھنے کی بجائے تو جہاں لڑکیوں میں یہ شوق اور روح پیدا ہوگی کہ ہم اپنے دینی معیار کو بلند کریں، علاوہ دوسری دنیوی نعمتوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، تو خود لڑکے کو بھی پھر اپنا دینی معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ کیونکہ دینی معیار صرف یکطرفہ نہیں ہوسکتا۔ یہ نہیں کہ لڑکا تو خود بیہودگیوں میں ملوث ہو اور مختلف قسم کی آوارہ گردیوں میں ملوث ہو، دنیاداری میں ملوث ہو اور یہ خواہش رکھے کہ اس کی بیوی جو آنے والی ہے اس کا دینی معیار بلند ہو۔ تو ظاہر ہے کہ جب یہ خواہش ہوگی کہ دینی معیار بلند ہو میری دلہن کا تو خود بھی وہ اس طرف توجہ دے گا۔ اسی لئے نکاح کے خطبہ کے موقع پر تقویٰ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ پس یہ قائم ہونے والے رشتے اگر ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ تقویٰ پہ قائم رہنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرنا ہے، ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا ہے۔ لڑکی نے لڑکے والوں کا خیال رکھنا ہے اپنے سسرال کا اور لڑکے نے اپنے سسرال کا خیال رکھنا ہے تو کبھی وہ مسائل پیدا نہ ہوں جو رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍ستمبر۲۰۱۲ء) (باقی آئندہ)