قرآن کریم میں یتیموں کے حقوق کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے
ایک حکم یہ ہے کہ تم نے یتیم پر مالی کشائش رکھتے ہوئے اگر نہیں بھی خرچ کیا یا مالی کشائش نہ رکھتے ہوئے خرچ کیا بھی ہے تب بھی جب وہ یتیم بالغ اور عاقل ہو جائے اور جب تم اس کا مال اسے لوٹانے لگو تو پورے حساب کتاب کے ساتھ اسے لوٹاوٴ کہ یہ جائیداد تھی…اسی طرح اگر کسی غریب نے اُس مال میں سے یتیم کی پرورش کے لئے خرچ کیا ہے تو بلوغ کو پہنچنے پر ایک ایک پائی کا تمام حساب کتاب اسے دو۔ اور یہ حساب کتاب دیتے وقت گواہ بھی بنا لیا کرو تا کہ کسی وقت بھی بد ظنی پیدا نہ ہو۔ یتیم کے دل میں کبھی رنجش نہ آئے۔ کیونکہ بعض دفعہ، بعد میں، یتیم کے دل میں وسوسے بھی آ سکتے ہیں۔ یا بعض اوقات بعض لوگ یتیموں کے ہمدرد بن کراس کے دل میں وسوسے ڈال سکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جب بھی یتیم کا مال لوٹاوٴ تو پورا حساب دو اور اس میں گواہ بنا لو۔ کیونکہ یہ نگران کو بھی کسی ابتلاء سے بچانے کے لئے ضروری ہے اور یتیم کو بھی کسی بدظنی سے بچانے کے لئے ضروری ہے۔ پس جس تفصیل سے قرآن کریم میں یتیموں کے حقوق کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے، کہیں اور نہیں دیا گیا۔ کسی اور شرعی کتاب میں نہیں دیا گیا۔ اسی ایک آیت میں تقریباً سات بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یتیموں کو آزماتے رہو۔ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دو۔ اور دیکھو کہ ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اُن کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر ان کے بالغ ہونے تک توجہ رہے۔ یہ نہیں کہ راستے میں چھوڑ دینا ہے۔
تیسری بات یہ کہ جب بھی وہ اپنے مال کی حفاظت کے قابل ہو جائیں تو ان کا مال انہیں فوری طور پر واپس لوٹا دو۔ چوتھی بات یہ کہ یتیم کا مال صرف اُس پر خرچ کرو۔ تم نے اس سے مفادنہیں اٹھانا۔
اور پانچویں بات یہ کہ امیر آدمی اگر کسی یتیم کی پرورش کر رہا ہے تو اس کے لئے بالکل جائز نہیں کہ وہ یتیم کی پرورش کے لئے اس یتیم کے مال میں سے کچھ لے۔
اور چھٹی بات یہ کہ غریب جس کے وسائل نہیں ہیں اور وہ کسی یتیم کا نگران بنایا جاتا ہے تو اس کویتیم کے مال میں سے مناسب طور پر خرچ کرنے کی اجازت ہے۔
اور ساتویں بات یہ کہ جب مال لوٹاوٴ تو اس پر گواہ بنا لو۔ تا کہ نہ تمہاری نیت میں کبھی کھوٹ آئے، نہ تم پر کبھی کوئی الزام لگے اور نہ یتیم کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔
اور آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ تمہاری نیتوں کا بھی اسے پتہ ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ اگر یہ حساب کتاب نہیں رکھو گے تو پھر تمہارا بھی ایک دن حساب ہونا ہے۔ تم سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا۔ (خطبہ جمعہ ۲۶؍فروری ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍مارچ ۲۰۱۰ء)