خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍جولائی 2018ء
بدری صحابہ حضرت سُبَیع بن قَیسؓ،حضرت اُنیس بن قتادہؓ، حضرت مُلَیل بن وبرۃؓ، حضرت نوفل بن عبد اللہؓ، حضرت ودیعہؓ بن عمرو، حضرت یزید بن منذِرؓ، حضرت خارجہ بن حُمَیّرْ اشجعیؓ، حضرت سراقہ بن عمروؓ، حضرت عَبَّاد بن قیسؓ، حضرت ابو الضّیَّاح بن ثابت بن نعمانؓ، حضرت اَنَسہؓ، حضرت ابو کبشہ سُلَیمؓ بن کبشہ، حضرت مَرْثَدبن ابی مَرْثَد، حضرت ابو مَرْثَدبن کَنَّازْ، حضرت سَلِیط بن قَیس، حضرت مُجَذَّرْ بن زیاد، حضرت حُبَاب بن منذر، حضرت رِفَاعَہ بن رافع رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات زندگی اور سیرت کا ایمان افروز تذکرہ
بعض صحابہ کے آپس کے معاملات میں جو اختلافات روایات میں ملتے ہیں ہمارا کام نہیں کہ ان اختلافات کو اپنے دلوں میں جگہ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے۔ اُن کے بارہ میں اب بجائے کچھ سوچنے اور کہنے کے ہمیں اپنے معاملات سنبھالنے چاہئیں اور اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ ایک رہیں اور وحدت پر قائم رہیں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں۔
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آجکل بدری صحابہ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں۔ تاریخ اور روایات میں بعض صحابہ کے حالات زندگی اور واقعات بڑی تفصیل سے ملتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کے بہت ہی مختصر حالات ملتے ہیں۔ لیکن بہرحال جنگ بدر میں شامل ہونے سے ان کا جو مقام ہے وہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس لئے چاہے چندسطر کا ہی ذکر ہو وہ بیان ہونا چاہئے۔ آج کے لئے جن صحابہ کا ذکر ہونا ہے ان میں چند ایسے ہیں جن کابہت مختصر ذکر ہے۔
ان میں سب سے پہلے سُبَیع بن قَیس بن عَیْشَہ ہیں۔ بعض نے آپ کے دادا کا نام عَبَسَہ اور بعض نے عائشہ بھی لکھا ہے۔ بہرحال آپ انصاری اور خزرجی تھے۔ غزوہ بدرو اُحد میں شامل ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد دوم صفحہ 407 سبیع بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 403 سبیع بن قیسؓ و عبادہ بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آپ کی والدہ کا نام خدیجہ بنت عَمرو بنِ زید ہے۔ آپ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عبداللہ تھا اور اس کی ماں قبیلہ بَنُو جَدَارَہ سے تھی۔ وہ بچپن میں فوت ہو گیا ۔ اس کے علاوہ آپ کا کوئی بچہ نہ تھا۔ حضرت عبادۃ بن قیس آپ کے بھائی تھے۔ حضرت سُبَیع کے ایک حقیقی بھائی زَید بن قیس بھی تھے۔
دوسرے ہیں حضرت اُنَیْس بن قتادۃ۔ ان کی غزوہ اُحد کے موقع پر وفات ہوئی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کا نام انس ہے۔ بہرحال جو صحیح نام ہے وہ انیس ہے۔ محمد بن اسحاق اور محمد بن عمر نے اُنَیس ہی لکھا ہے۔ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے اور جنگ اُحد میں یہ شہید ہوئے۔ آپ کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور ایک روایت ہے کہ خَنْسَاء بنتِ خِدَامْ حضرت اُنَیْس بن قتادۃ کے نکاح میں تھیں جب وہ اُحد کے دن شہید ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 305-306 انیس بن قتادہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 353-354 و من بنی عبید بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر ایک صحابی تھے حضرت مُلَیْل بن وَبَرَۃ۔ ان کے نام کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں۔ ابن اسحاق اور ابونعیم نے ان کا نام مُلَیْل بن وَبَرَۃ بن عبدالکریم بن خالد بن عجلان بیان کیا ہے۔ جبکہ ابو عمر اور کلبی نے مُلَیْل بن وَبَرَۃبن خالد بن عجلان بیان کیا ہے۔ عبدالکریم بیچ میں سے نکل گیا۔ آپ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو عجلان سے تھا۔ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں یہ شریک ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 251 ملیل بن وبرہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
آپ کی اولادمیں زید اور حبیبہ تھیں جن کی والدہ اُمّ زید بنت نَضْلَہ بن مالک تھیں۔ حضرت مُلَیْل کی اولاد آگے نہیں چلی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 416 ملیل بن وبرہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آپ کو ابنِ خالد بن عجلان کہا جاتا تھا۔ایک روایت میں لکھا گیا ہے کہ آپ غزوہ بدر اور باقی تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔
(الاکمال فی رفع الارتیاب عن الموتلف جلد 7 صفحہ 222 باب ملکان و ملکان و باب ملیل و ملیک بحوالہ مکتبہ الشاملہ)
پھر ایک صحابی حضرت نوفل بن عبداللہ بن نَضْلَہ ہیں۔ ان کی وفات غزوہ اُحد میںہوئی۔ بعض نے آپ کا نام نوفل بن ثَعْلَبَہ بن عبداللہ بن نَضْلَہ بن مالک بن عجلان بیان کیا ہے۔ آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے اور غزوہ اُحد میں آپ شہید ہوئے۔ آپ کی نسل آگے نہیں چلی۔
(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 346-347 نوفل بن ثعلبہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 415 نوفل بن عبد اللہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر ایک صحابی حضرت وَدِیْعَہ بن عَمْروہیں ۔ ابن کلبی نے ان کا نام وَدِیْعَہ بن عَمْرو بن یَسَار بن عوف بیان کیا ہے۔ اور ابو معشر نے ان کا نام رِفَاعَہ بن عَمرو بن جَرَاد بیان کیا ہے۔ آپ کا تعلق بنو جہینہ سے تھا جو بنو نجار کے حلیف تھے۔ آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے۔ حضرت رَبِیعہ بن عمرو آپ کے بھائی تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 377ودیعہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ392 ربیعۃ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
پھر ایک صحابی حضرت یَزِید بن مُنْذِر بن سَرح بن خُنَاس ہیں ۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو خزرج سے تھا اور بیعت عقبہ میں شامل ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یزید بن مُنْذِر اور عَامِر بن رَبِیعہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ آپ کے بھائی مَعْقِلْ بن مُنْذِر بھی بیعت عقبہ، غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 432یزید بن المنذر ؓ و اخوہ معقل بن یسارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 473 یزید بن المنذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
پھر ایک صحابی حضرت خارِجَہ بن حُمَیِّر اَشْجَعِی ہیں۔تاریخوں میںآپ کے نام میں بھی کافی اختلاف ہے۔ ابن اسحاق نے آپ کا نام خَارِجَہ بن حُمَیِّر بتایا ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے آپ کا نام حَارِثہ بن حُمَیِّر بیان کیا ہے۔ واقدی نے آپ کا نام حَمْزَہ بن حُمَیِّر بیان کیا ہے۔ آپ کے والد کے نام کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض نے خُمَیِّر بیان کیا ہے۔ جبکہ بعض نے والد کا نام جُمَیْرَہْ اور جُمَیْر لکھا ہے۔ بہرحال اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ کا تعلق قبیلہ اشجع سے تھا اور قبیلہ بنو خزرج کے حلیف تھے۔ آپ کے بھائی کا نام عبداللہ بن حُمَیِّر ہے جو کہ غزوہ بدر میں آپ کے ہمراہ شامل ہوئے تھے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 1صفحہ 704 حارثہ بن حمیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 649 حارثۃ بن خمیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
پھر حضرت سُرَاقَہ بن عَمْرو کا ذکر ہے یہ انصاری تھے۔ ان کا پورا نام سُرَاقَہ بن عَمْرو بن عَطِیَّہ بن خَنْسَاء انصاری تھا۔ ان کی وفات جمادی الاول 8ہجری میں جنگ موتہ میں ہوئی۔ ان کا پورا نام سراقہ بن عمرو بن عطیہ بن حنساء انصاری تھا۔ ان کی والدہ کا نام عُتَیْلَہ بنتِ قَیس تھا اور سراقہ کا تعلق انصار کے معزز قبیلہ بنو نجّار سے تھا۔ آپ کے قبول اسلام سے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپ نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پہلے اور بعض کے نزدیک آپ نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوڑی دیر بعد اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مِھْجَع مَولیٰ عمر اور سُرَاقہ بن عَمْرو کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ آپ نے غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق اور خیبر میں شرکت کی نیز ان کو صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے موقع پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت حاصل رہی۔ حضرت سُراقہ بن عمرو ان خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جن کو بیعت رضوان میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا اور ان کا سلسلہ نسب آگے نہیں چلا۔ ان کی شہادت جیسا کہ بتایا میں نے جمادی الاوّل 8 ہجری میں جنگِ موتہ کے دوران ہوئی۔
(الاستیعاب جلد 2صفحہ 580 سراقہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3صفحہ 34 سراقہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 393 سراقہ بن عمرو ؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 233 ذکر الموخاۃ دار القلم بیروت 1993ء)
پھر صحابی حضرت عَبَّاد بن قَیْس ہیں ۔ ان کی وفات بھی 8ہجری میں جنگ موتہ میں ہوئی۔ ان کے نام میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔آپ کا نام عُبَادہ بن قیس بن عَیْشہ بھی ملتا ہے۔ اسی طرح آپ کے دادا کا نام عَبسہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عَبَّاد حضرت ابودرداءؓ کے چچا تھے۔ حضرت عَبَّاد غزوہ بدر، اُحد، خندق اورخبیر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ صلح حدیبیہ میں بھی آپ شریک تھے اور جنگ موتہ میں آپ کی شہادت ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 403 عبادہ بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 154 عباد بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
پھر حضرت ابو الضّیَّاح بن ثابِت بن نُعمان ہیں۔ ان کی وفات 7ہجری میں ہوئی۔ ایک روایت میں آپ کا نام عُمَیْر بن ثابت بن نعمان بن اُمَیَّہ بن اِمْرَاءُ الْقَیْس اور دوسری روایت کے مطابق نعمان بن ثابت بن اِمْرَاءُ القیس ہے۔ آپ اپنی کنیت سے مشہور ہیں جو ابو الضّیَّاح ہے۔ غزوہ بدر، اُحد، خندق اور حدیبیہ میں شریک ہوئے اور غزوہ خیبر 7ہجری میں شہید ہوئے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک یہودی نے آپ کے سر پر وار کیا جس سے آپ کا سر کٹ گیا جس سے آپ کی شہادت ہو گئی۔
(اسد الغابہ جلد 6صفحہ 175 ابو الضیاح بن ثابتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 364-365 ابو ضیاحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت اَنَسَہ ہیں۔ ان کی وفات غزوہ بدر میں ہوئی۔ لیکن اسمیں اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی خلافت تک یہ زندہ تھے۔ بہرحال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ حبشی غلام تھے۔ آپ کا نام اَنَسَہ تھا اور اَبُو اَنَسَہ بھی آتا ہے۔ اسی طرح بعض کے نزدیک آپ کی کنیت اَبُومَسْرُوح تھی۔ حضرت اَنَسَہ دعوت اسلام کے آغاز میں ہی مشرف باسلام ہوئے اور ہجرت کے زمانہ میں مدینہ گئے اور حضرت سعد بن خَیْثَمَہ کے مہمان ہوئے اور جب تک زندہ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزاری آپ کا مرغوب مشغلہ تھا۔ آپ اس درجہ فرمانبردار تھے کہ ان کے بارے میں آتا ہے کہ جب بیٹھتے تھے تو تب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر بیٹھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 301-302 انسہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 587 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 1صفحہ 283 انسۃ مولیٰ رسول اللہﷺمطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
پھر حضرت اَبُوکَبْشَہ سُلَیم ہیں۔ کنیت ان کی ابوکَبْشَہ ہے۔ ان کی وفات دورِ خلافت حضرت عمر میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک آپ کا نام سَلَمَہ تھا۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ فارسی غلام تھے۔ آپ بدری صحابی ہیں۔ آپ کی پیدائش اَوْس کی زمین پر ہوئی۔ آپ کے وطن اور نسب کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض فارسی، بعض دَوسی اور بعض مکی بتاتے ہیں۔ آپ دعوت اسلام کے قریب تر زمانے میں اسلام سے مشرف ہوئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ چلے گئے اور بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 284 ابو کبشہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 579 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
جب حضرت ابوکَبْشہ نے مدینہ جانے کے لئے ہجرت کی تو آپ حضرت کلثوم بن الھَدَمْ کے ہاں ٹھہرے اور ایک روایت کے مطابق آپ حضرت سَعْدبن خَیْثَمَہ کے پاس ٹھہرے۔ حضرت عمرؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے پہلے روز حضرت ابوکَبْشَہ کی وفات ہوئی۔ یہ 22 جمادی الثانی 13 ہجری کی بات ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 36 ابو کبشہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت مَرْثَدْ بن ابی مَرْثَدْ ہیں۔ ان کی وفات صفر تین ہجری میں مقام رجیع میں ہوئی۔ آپ بدری صحابی تھے۔ آپ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے حلیف تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ آپ اسلام کے شروع میں مشرف باسلام ہوئے اور بدر سے قبل ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مؤاخات حضرت اوس بن صامت سے فرما دی۔ بدر کے روز یہ گھوڑے پر حاضر ہوئے جس کا نام سَبَلْ تھا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فوجی دستہ کے سالار تھے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجیع کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ یہ واقعہ ماہ صَفر تین ہجری میں پیش آیا اور بعض کا خیال ہے کہ اس دستہ کی کمان حضرت عاصم بن ثابت کے پاس تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 35 ابو مرثدؓ ۔ مرثد بن ابی مرثدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 133 مرثد بن ابی مرثدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ بنو عَضَل اور قَارَّہ نے اسلام لانے کا دکھاوا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی تعلیم کے لئے چند معلم بھجوانے کی درخواست کی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے بارے میں روایتوں میں اختلاف ہے) حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر امارت ایک جماعت بھیجی۔ یہ لوگ ابھی مقام رجیع پر پہنچے تھے کہ بنو ھُذَیْل ننگی تلواریں لے کر آ گئے اور کہا کہ ہمارا مقصد تمہیں قتل کرنا نہیں بلکہ تمہارے بدلہ میں ہم اہل مکہ سے مال حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہم تمہاری حفاظتِ جان کا عہد کرتے ہیں۔ اس پر حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ اور عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں تم لوگوں کے عہد پر بھروسہ نہیں اور اس طرح لڑتے ہوئے تینوں نے جان دے دی۔
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 555 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
پھر ایک صحابی ہیں حضرت ابومَرْثَدْکَنَّازْ بن اَلْحُصَیْن غنوی۔ ان کی وفات 12ہجری میں ہوئی۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان کی کنیت ابو حِصْن تھی۔ آپ شام کے رہائشی تھے۔ انہوں نے آغازِ دعوتِ اسلام میں ہی اسلام قبول کیا اور ہجرت کی اجازت کے بعد مدینہ آ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی حضرت عبادہ بن صامت سے مؤاخات فرما دی۔
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 581 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 305 ابو مرثد الغنویؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
جب حضرت ابومَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے مَرْثَدْ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں حضرت کلثوم بن الْھَدَم کے پاس ٹھہرے۔ بعض کے نزدیک آپ دونوں حضرت سعد بن خَیْثَمَہ کے پاس ٹھہرے۔ حضرت ابو مَرْثَدْ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حاضر ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 34-35 ابو مرثدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ابو مَرْثَدْ کو تاریخ میں یہ مقام حاصل ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ نے فتح مکہ سے قبل اپنے بال بچوں کی حفاظت کے خیال سے مکہ والوں کو خفیہ طور پر ایک خط کے ذریعہ اطلاع دینی چاہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سواروں کو اس عورت کی طرف بھیجا جو خط لے کر جا رہی تھی۔ ان سواروں نے وہ خط برآمد کروا لیا۔ ان میں سے ایک سوار حضرت ابو مَرْثَدْ تھے۔ حضرت علی سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور ابومَرْثَدْ غنوٰی اور زبیر کو بھیجا اور ہم گھڑ سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ جب تم روضۂ خاخ تک پہنچو۔ یہ ایک مقام ہے تو وہاں تمہیں مشرکوں میں سے ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بَلْتَعَہ کی طرف سے مشرکوں کے نام ایک خط ہے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدراً حدیث 3983)
آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث روایت کی ہے مسلم اور بَغْوِی وغیرہ میں ان کی یہ حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 305 ابو مرثد الغنویؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
ان کی وفات پھر حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں 12ہجری میں 66سال کی عمر میں ہوئی۔
(سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمد ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 581 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
پھر ایک صحابی ہیں حضرت سَلیط بن قَیس بن عَمرو۔ ان کی وفات 14ہجری میں ہوئی۔ حضرت سَلیط بن قَیس بن عَمرو بن عُبَید بن مالک ان کا پورا نام ہے ۔ حضرت سَلیط بن قَیس اور حضرت ابوصِرْمَہ دونوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد خاندانِ بنو عدی بن نجار کے بت توڑ دئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر بیٹھ کر مدینہ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں قیام کریں۔ جب آپ کی اونٹنی بنو عدی کے گھر کے پاس پہنچی اور یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے کیونکہ سلمیٰ بنت عَمرو، عبدالمطلب کی والدہ اسی قبیلہ سے تھیں۔ اس وقت حضرت سَلیط بن قَیس، ابو سلیط اور اُسَیْرَہ بن ابو خَارِجَہ نے روکنا چاہا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ اس وقت یہ مامور ہے۔ یعنی جہاں خدا کا منشاء ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی۔ حضرت سلیط بدر اور اُحد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جنگِ جِسْر اَبی عُبَید میں 14ہجری کوحضرت عمر کے عہد خلافت میں یہ شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 388 سلیط بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(سیرت ابن ہشام صفحہ 229 باب ہجرۃ الرسول ﷺ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَاد۔ غزوہ اُحد میں ان کی شہادت ہوئی۔ مُجَذَّرْ آپ کا لقب تھا اس کا مطلب ہے موٹے جسم والا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُجَذَّرْ اور عاقل بن بُکَیْر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ دوسری جگہ یہ آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُجَذَّرْاور حضرت عُکَّاشَہ بن مِحْصَن کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ حضرت مُجَذَّرْ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 5صفحہ 572-573 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 417 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 232-233 باب ذکر المواخاۃ مطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَبُوبَخْتَرِیْ کو قتل کرنے سے منع فرمایا تھا کیونکہ مکّہ میں اس نے لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے روکا تھا۔ (اس کے عوض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کرنا) اور وہ خود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اس معاہدے کے خلاف کھڑے ہوئے تھے جو قریش نے بنو ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف کیا تھا۔ حضرت مُجَذَّرْ اَبُوبَخْتَری سے ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمہارے قتل سے روکا ہے۔ اَبُوبَخْتَری کے ساتھ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو اس کے ساتھ مکّہ سے نکلا تھا۔ اس کا نام جُنَادَۃ بن مُلَیْحَہ تھا جو بنولیث سے تھا۔ ابوبختری کا نام عاص تھا۔ اس نے کہا کہ میرے اس ساتھی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضرت مُجَذَّرْنے کہا کہ نہیں۔ اللہ کی قسم! ہم تمہارے ساتھی کو نہیں چھوڑیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف تمہارے اکیلے کے متعلق حکم دیا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر مریں گے تو پھر ہم دونوں اکٹھے مریں گے۔ میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ مکہ کی عورتیں یہ بیان کرتی پھریں کہ میں نے اپنی زندگی کی خاطر اپنے ساتھی کو چھوڑ دیا۔ پھر وہ دونوں ان سے (حضرت مجذر سے )لڑائی کے لئے تیار ہو گئےاور لڑائی میں حضرت مُجَذَّرْ نے اسے قتل کر دیا۔ حضرت مُجَذَّرْرضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا مَیں نے اس کو بہت اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ اسیر ہو جائے اور اسے مَیں آپ کے پاس لے آتا مگر وہ اس پر رضا مند نہ ہوا اور آخر اس نے مجھ سے لڑائی کی اور مَیںنے اسے قتل کر دیا۔
(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 59-60 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 301باب غزوہ بدرمطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
حضرت مُجَذَّرْکی اولاد مدینہ اور بغداد میں موجود تھی۔ ابی وَجْزَہ سے مروی ہے کہ شہدائے اُحد کے جو تین آدمی ایک قبر میں دفن کئے گئے تھے وہ مُجَذَّرْبن زَیَاد، نُعْمَان بن مالِک اور عَبْدَہ بن حَسْحَاس تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 417 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
لیکن ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت انیسہ بنت عدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا عبداللہ جو بدری ہے غزوہ اُحد میں شہید ہو گیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے مکان کے قریب دفن کروں تا کہ مجھے اس کا قرب حاصل رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ حضرت عبداللہ کے ساتھ ان کے دوست حضرت مُجَذَّرْکو بھی ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ دونوں دوستوں کو ایک ہی کمبل میں لپیٹ کر اونٹ پر رکھ کر مدینہ بھیجا گیا ان میں سے عبداللہ ذرا دبلے پتلے تھے اور مُجَذَّروْلحیم اور جسیم تھے۔ کہتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ اونٹ پر دونوں برابر اترے یعنی وزن ایک جیسا تھا۔ اتارنے والوں نے دیکھا تو لوگوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں کے اعمال نے ان کے درمیان برابری کر دی۔
(اسد الغابہ جلد 7صفحہ 31 انیسۃ بنت عدیؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت حُبَابْ بن مُنْذِر بن جَمُوْح ایک صحابی ہیں۔ ان کی وفات حضرت عمر کے دور خلافت میں ہوئی۔ حضرت حُبَاب بِنْ مُنْذِر غزرہ بدر، اُحد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ غزوہ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور موت پر آپ سے بیعت کی۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 665 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 428 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ’’جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی۔ اس پر حضرت حُباب بن مُنذِر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ خدائی الہام کے تحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسےاختیار کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بارے میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے۔ تم اگر کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتاؤ۔ اس پر حضرت حُباب بن مُنذِر نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ مَیں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔ اس کا پانی بھی اچھا ہے اور عموماً کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلے کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا، مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے۔ لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کو پانی کی قلت محسوس ہوتی تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جمتے نہیںتھے۔ پھر خدا کا فضل ایسا ہوا کہ کچھ بارش بھی ہو گئی جس سے مسلمانوں کو یہ موقع مل گیا کہ حوض بنا بنا کر پانی جمع کر لیں اور یہ بھی فائدہ ہو گیا کہ ریت جم گئی اور پاؤں زمین میں دھنسنے سے رک گئے اور دوسری طرف قریش والی جگہ میں کیچڑ کی سی صورت ہو گئی اور اس طرف کا پانی بھی کچھ گدلا اور میلا ہو گیا۔‘‘
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ 356-357)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ صحیح رائے یہی ہے جس کا حضرت حُبَاب بن مُنذِر نے مشورہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حُبَاب! تم نے عقل کا مشورہ دیا۔ غزوہ بدر میں خزرج کا جھنڈا حضرت حُبَاب بن مُنذِر کے پاس تھا۔ حضرت حُبَاب بن مُنذِر کی عمر 33سال تھی جب غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 10غزوہ بدر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ان کے بارے میں مزید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مخبروں سے لشکر قریش کے قریب آ جانے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے اپنے ایک صحابی حُبَاب بن مُنذِر کو روانہ فرمایا کہ وہ جا کر دشمن کی تعداد اور طاقت کا پتہ لائیں اورآپ نے انہیں تاکید فرمائی کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کے لئے خطرے کی صورت ہو تو پھر واپس آ کر مجلس میں اس کا ذکر نہ کرنا کہ بہت بڑی تعداد ہے بلکہ علیحدگی میں اطلاع دینا تا کہ اس سے مسلمانوں میں کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے۔ حُبَاب خفیہ خفیہ گئے اور نہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں ہی واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سارے حالات عرض کر دئیے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ 484)
یحيٰ بن سعد سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم قُرَیظہ اور یوم النَضِیر کے موقع پر جب لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو حضرت حُبَاب بن مُنذِر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم محلات کے درمیان میں پڑاؤ کریں۔ (یعنی ان کے قریب ترین جائیں تا کہ وہاں کی باتیں بھی معلوم ہو سکیں اور نگرانی بھی صحیح ہو سکے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس مشورہ پر عمل کیا۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 427-428 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت مسلمانوں کی جو صورتحال تھی اس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرح کنٹرول میں لائے اس کا یہ واقعہ ہے کہ ’’حضرت ابوبکر نے حمد و ثنا بیان کی اور کہا کہ دیکھو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو یقیناً فوت ہو گئے اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیںمرے گا اور حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ کہ تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللہَ شَیْئًا۔ وَسَیَجْزِی اللہُ الشّٰکِرِیْنَ۔(آل عمران145:)کہ محمد صرف ایک رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں۔ پھر کیا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑھیوںکے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔
سلیمان کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ سلیمان کہتے ہیں کہ اور انصار بنی ساعدہ کے گھر حضرت سعد بن عبادۃ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ان کے پاس گئے۔ حضرت عمر بولنے لگے تھے کہ حضرت ابوبکر نے انہیں خاموش کیا۔ حضرت عمر کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! میں نے جو بولنا چاہا تھا تو اس لئے کہ میں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے پسند آئی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابوبکر اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسا نہ بول سکیں گے۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اثناء میں یہ بھی کہا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو۔ حُبَاب بن مُنذِر نے یہ سن کر کہا کہ ہرگز نہیں۔ یہاں یہ ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ حُبَاب بن مُنذِر کا یہاں ذکر آتا ہے۔ حُبَاب بن مُنذِرنے یہ سن کر یہ کہا کہ ہرگز نہیں اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے ہو گا۔ یعنی قریش میں سے بھی ہو اور انصار میں سے بھی ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو۔ کیونکہ یہ قریش لوگ بلحاظ نسب تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں اس لئے عمر یا ابوعبیدۃ کی بیعت کر لو۔ حضرت عمر نے کہا نہیں بلکہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ اس وقت سب نے پھر بیعت کر لی۔
(صحیح البخاری کتاب الفضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3668 )
حضرت حُبَاب بن مُنذِر سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ان دو باتوں میں سے کون سی آپ کو زیادہ پسند ہے؟ یہ کہ آپ دنیا میں اپنے صحابہ کے ساتھ رہیں یا یہ کہ اپنے رب کی طرف ان وعدوں کے ساتھ لوٹیں جو اس نے نعمتوں والی جنتوں میں قائم رہنے والی نعمتوں کا آپ سے وعدہ کیا ہے اور اس کا بھی وعدہ کیا ہے کہ جو آپ کو پسند ہو اور جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ تو صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں اور ہمیں ہمارے دشمن کی کمزوریوں سے آگاہ کریں اور اللہ سے دعا کریں تا کہ وہ ان کے خلاف ہماری مدد کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کریں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُبَاب بن مُنذِر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم نہیں بولتے؟ بڑے خاموش بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں میں نے اس پر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! جو آپ کے رب نے آپ کے لئے پسند فرمایا ہے وہ اختیار کریں۔ پس آپ نے میری بات کو پسند فرمایا۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 483 کتاب معرفۃ الصحابہؓ ذکر مناقب الحباب بن المنذرؓ حدیث 5803 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
پھر ایک صحابی ہیں حضرت رِفَاعَہ بن رافع بن مالک بن عَجْلَان۔ یہ بھی انصاری ہیں۔ ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میںہوئی۔ حضرت رِفَاعَہ بن رافع بن مالک بن عَجْلَان۔ ان کی کنیت ابومُعَاذ ہے۔ والدہ ام مالک بنت اُبَی بن سَلول تھیں جو عبداللہ بن اُبَی بن سَلول سردار المنافقین کی بہن تھیں۔ یہ بیعت عقبہ میں شریک تھے۔ غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور بیعت رضوان اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ کے دو بھائی تھے خلَّادبن رافع اور مالک بن رافع۔ یہ بھی غزوہ بدر میں شامل تھے۔
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 279 رفاعہ بن رافعؓ رامطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 447 رفاعہ بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت معاذ نے اپنے باپ حضرت رِفَاعَہ بن رافع سے روایت کی ہے اور ان کے باپ اہل بدر میں سے تھے، انہوں نے کہا کہ جبرئیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا آپ مسلمانوں میں اہل بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ بہترین مسلم یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدرا حدیث 3992)
ملائکہ کس طرح جنگ میںشریک ہوئے؟ حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری کی جو شرح لکھی ہے بخاری کی اس میں ان فرشتوں کے شریک ہونے کے حوالے سے جو وضاحت بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوْا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ۔(الانفال13:)کہ یہ وہ وقت تھا جب تیرا رب ملائکہ کو بھی وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ پس مؤمنوں کو ثابت قدم بناؤ۔ میں کفار کے دلوں میں رعب ڈالوں گا۔ پس اے مومنو تم ان کی گردنوں پر حملے کرتے جاؤ اور ان کے پور پور پر ضرب لگاتے جاؤ۔ ضرب الْاَعْنَاق اور ضربُ الرِّقَاب اور ضَرْبُ کُلَّ بَنَان سے مراد زور دار حملہ ہے جس میں نشانے کی صحت ملحوظ ہے۔‘‘اس سے ملتی جلتی دو تین روایتیں ہیں ان کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’روایات زیر باب میں فرشتوں کی موجودگی اور مشاہدے کا جو ذکر ہے وہ از قبیل مکاشفات ہے۔ (یعنی مکاشفہ کی صورت میں ہے) اور ان کی جنگ بھی اس قسم کی ہے جو اُن کے مناسب حال ہے۔ (یعنی جو فرشتوںکے مناسب حال جنگ ہوتی ہے وہ ہے) نہ تیر و تفنگ کی۔ (فرشتوں نے کوئی تیر اور تلواریں نہیں اٹھائی تھیں۔) اور ان کا مشاہدہ روحانی بینائی سے ہوتا ہے، نہ جسمانی آنکھ سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشاہدہ فرمایا اور صحابہ کرام نے بھی اور ایسا ہی مشاہدہ اولیاء اللہ کو بھی ہوتا ہے۔ (کہ ملائکۃ اللہ کس طرح لڑتے ہیں) ملائکۃُ اللہ ہی کے تصرف میں سے تھا (یہ وضاحت شاہ صاحب کرتے ہیں) کہ عمائد قریش واقعہ نخلہ سے مشتعل ہو کر اپنے طیش میں آپے سے باہر ہو گئے اور یہی واقعہ بعد کی جنگوں کا ایک سبب بنا جن میں کفار قریش کی ہلاکت سے متعلق تقدیر الٰہی پوری ہوئی۔ ملائکۃ اللہ کا طریق کار ہمارے طریقہ کار سے جدا اور ان کا اسلوب جنگ ہمارے اسلوب جنگ سے نرالا ہے۔ بدر کے مقام پر دشمن کا عَقَنْقَلْ (تودۂ ریگ) کے فراز میں پڑاؤ کرنا(وہ اونچائی پر تھے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نشیب وادی میں اترنا اور صحابہ کرام کی قلیل تعداد کا دشمن کی نظر سے اوجھل رہنا، بادو باراں کا ظہور، (بارش ہو گئی۔ اس کا ظہور ہونا) صحابہ کرام کا ایک ایک تیر کا اپنے نشانے پر ٹھیک بیٹھنا۔ (جو بھی تیر صحابہ چلاتے تھے وہ نشانے پر صحیح بیٹھتا تھا۔ اس کا صحیح بیٹھنا) اور کاری ثابت ہونا، دشمن کی سراسیمگی اور صحابہ کرام کی دلجمعی۔ (دشمن پریشان تھا اور صحابہ کرام بڑی مستقل مزاجی اور دلجمعی سے جنگ لڑ رہے تھے۔) یہ سب ملائکۃ اللہ کے تصرف کا کرشمہ تھا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دی تھی کہ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ۔(الانفال10:)کہ اور اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے التجائیں کرتے تھے اس پر تمہارے رب نے تمہاری دعاؤں کو سنا اور کہا کہ میں تمہاری مدد ہزاروں فرشتوں سے کروں گا جن کا لشکر کے بعد لشکر بڑھ رہا ہو گا۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’دعائے نبوی کی قبولیت سے ظاہری اسباب میں جو جنبش پیدا ہوئی اس کے اندر ایک عجیب تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے حصوں پر یکجائی نظر ڈالنے سے ملائکۃ اللہ کا لشکر بیکراں کارفرما نظر آتا ہے۔ (آپ بیان کرتے ہیںکہ)کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نازک گھڑی میں بحفاظت مکہ مکرمہ سے نکالا اور کس نے اہل مکہ کو غافل رکھا اور پھر کس نے انہیں غار ثور تک لا کر آپ کے تعاقب سے قریش کو ناامید واپس لوٹا دیا اور کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جو اسلام کی ترقی کا اہم مرکز بنا۔ ‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ ’’حضرت عباس کا ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں بحالت شرک رہنا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی ہمدردی رکھنا اور آپ کو مدینہ منورہ میں قریش مکہ کے بدارادوں اور منصوبوں سے آگاہ کرتے رہنا (یعنی حضرت عباس کے ذریعہ سے) ۔ یہ بھی ملائکۃ اللہ کے تصرف کا ایک حصہ ہے۔‘‘ (یہ ملائکہ اس طرح کام کرتے ہیں)۔ ان سب واقعات کے پس پردہ ملائکہ ہی کی تحریک کارفرما تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور فتح و ظفر مندی کا پس منظر ایمان افروز آیت اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ(الانفال10:) کی تفسیر پیش کرتا ہے۔‘
پھر شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ ’’میں نے صحیح بخاری مکمل حضرت خلیفہ اول حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے اور اسی طرح قرآن مجید بھی کئی بار درساً درساً سنا اور پڑھا ہے۔ آپ (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاول) ملائکۃ اللہ کے تعلق میں فرمایا کرتے تھے کہ نور الدین کو بھی ملائکۃ اللہ سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا ہے اور نظام مَلکی بہت وسیع نظام ہے۔ انسان کے قویٰ اور ملکات میں سے ہر قوت و ملکہ کے لئے بھی ملائکہ متعین ہیں۔ قوت بصر و بصیرت، قوت سمع و سماعت، قوت لمس و بطش اور عقل و شعور اور قوائے مفکّرۃ و مدبرّہ کے ساتھ اگر ملائکۃ اللہ کی مدد اور ہم آہنگی نہ ہو تو یہ قوتیں بیکار بلکہ نقصان دہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ (ساری انسانی استعدادیں اور قوتیں جو ہیں وہ فرشتوں کی وجہ سے ہی کارآمد ہوتی ہیں۔) پھر لکھتے ہیں کہ ’’تیر یا گولی کی شست و نشست اسی وقت اپنے نشانے پر راس آ سکتی ہے جب عقل و شعور اپنے ٹھکانے پر اور دور و نزدیک کے فاصلے کا اندازہ صحیح ہو۔ اوسان بجا ہوں۔ قوت قلبیہ برقرار ہو ورنہ تیر خطا جائے گا۔‘‘ لکھتے ہیں کہ (خلیفہ اول ) ’’فرمایا کرتے تھے کہ ایک ایک ذہنی اور جسمانی قوت کے ساتھ ملائکۃ اللہ متعین ہیں اور ان کا تعلق ہر انسان کی ہر قوت سے مختلف حالات کفر و ایمان میں کم و بیش ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان کی تعداد غزوہ بدر کے ذکر میں تین ہزار اور غزوہ اُحد میں پانچ ہزار بتائی ہے۔ یہ فرق موقع و محل کے اختلاف اور اہمیتِ فرضِ منصبی کی وجہ سے ہے ۔ جنگ بدر میں دشمنوں کی تعداد کم اور جنگ اُحد میں زیادہ اور اسی نسبت سے خطرہ بھی زیادہ اور ملائکہ کی حفاظت بھی زیادہ تعداد میں نازل کئے جانے کا وعدہ ہے۔ فرماتا ہے وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ(آل عمران127:)۔ کہ موعودہ نصرت الٰہی کا ظہور اللہ تعالیٰ کی صفت عزیزیت اور صفت حکیمیت سے ہے۔ یہ دونوں صفتیں حسن تدبیراور کامل غلبہ و استحکام کی متقاضی ہیں جن میں اسباب نصرت کے تمام حلقے ایک دوسرے سے پیہم پیوست ہوتے ہیں۔ ان میں تسلسل واحکام پایا جاتا ہے اور وہ محکم تدبیر الٰہی سے قَوِی و مضبوط کئے جاتے ہیں۔‘‘
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدرا جلد 8 صفحہ71 تا 73 نظارت اشارت ربوہ)
تو یہ ہے وہ ساری اس علم کی گہرائی جو ملائکۃ اللہ کے جنگ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے بھیجے تھے جو جنگ کر رہے تھے نہ یہ کہ فرشتے خود مار رہے تھے۔ اور بعضوں کے نزدیک تو یہ بھی روایتوں میں ہےکہ فرشتوں نے جن کو مارا اور جن کو زخم لگائے ان کی پہچان بالکل علیحدہ تھی اور جو صحابہ کے ذریعہ سے لوگوں کو زخم پہنچ رہے تھے ان کی پہچان علیحدہ تھی۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الغازی باب شہود الملائکۃ بدرا جلد 7صفحہ 312 حدیث 3992 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
یہ غلط چیز ہے۔ اصل یہی ہے کہ فرشتے انسانی قویٰ کو صحیح طرح رہنمائی کرتے ہیں اور ان کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور فرشتوں کی طرف سے جب یہ ہو رہا ہوتا ہے تو وہی فرشتوں کا لڑنا ہے۔
حضرت یحيٰ نے مُعاذ بن رِفَاعَہ بن رافع سے روایت کی ہے۔ حضرت رِفَاعَہ اہل بدر میں سے اور ان کے والد حضرت رافع عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ حضرت رافع اپنے بیٹے حضرت رِفَاعَہ سے کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ بات خوش نہ کرتی کہ بجائے بدر میں شریک ہونے کے مَیں عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں شامل ہوتا۔ یعنی یہ بات میرے لئے بہت بڑی بات ہے، میرے لئے یہ زیادہ قابل اعزاز ہے کہ میں جنگ بدر میں شامل ہوا بہ نسبت اس کے کہ بیعت عقبہ میں مَیںنے بیعت کی۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدرا حدیث 3993)
ایک بہت بڑا اعزاز مجھے جنگ بدر میں شامل ہو کےملا ۔ حضرت رِفَاعَہ بن رافع جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بصرہ کی طرف لشکر کے ہمراہ نکلے تو حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کی اہلیہ اُمّ الفضل بنتِ حارث نے حضرت علیؓ کو ان کے خروج کی اطلاع دی۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا حیرت ہے کہ لوگوں نے حضرت عثمانؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا اور بغیر اکراہ کے میری بیعت کی۔ میں نے زبردستی تو نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو۔ لوگوں نے میری بیعت کی اور طلحہؓ اور زبیرؓ نے بھی میری بیعت کی اور اب وہ لشکر کے ہمراہ عراق کی طرف نکل پڑے ہیں۔ اس پر حضرت رِفَاعَہ بن رافع نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ہمارا گمان تھا کہ ہم لوگ یعنی انصار اس خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور ہمارا مقام دین میں بڑا ہے مگر آپ لوگوں نے کہا کہ ہم مہاجرین اوّلین ہیں اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست اور قریبی ہیں اور ہم تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی میں ہم سے مزاحمت نہ کرو اور تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم نے اس وقت تمہیں اور (خلافت کے) امر کو چھوڑ دیا تھا۔ (ہم نے پھر بحث نہیں کی اور بالکل کامل اطاعت کے ساتھ خلافت کی بیعت کر لی ۔)‘‘اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہم نے دیکھا کہ حق پر عمل ہو رہا ہے اور کتاب اللہ کی پیروی کی جا رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قائم ہے تو ہمارے پاس راضی ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہ تھا اور اس کے سوا ہمیں کیا چاہئے تھا اور ہم نے آپ کی بیعت کی اور پھر اس سے رجوع نہیں کیا۔ (پھر پیچھےہٹے نہیں ۔) اب آپ سے ان لوگوں نے مخالفت کی ہے جن سے آپ بہتر ہیں اور زیادہ پسندیدہ ہیں۔ پس آپ ہمیں اپنے حکم سے مطلع فرمائیں۔ اسی اثناء میں حَجَّاجْ بن غَزِیَّہ اَنصاری آئے اور انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! اس معاملے کا تدارک اس سے پہلے کرنا چاہئے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ میری جان کو کبھی چین نصیب نہ ہو، اگر میں موت کا خوف کروں۔ اے انصار کے گروہ! امیر المومنین کی دوسری دفعہ مدد کرو جس طرح تم نے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔ اللہ کی قسم! یہ دوسری مدد پہلی مدد کی مانند ہو گی سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے پہلی مدد افضل ہے۔
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 280-281 رفاعۃ بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
بہرحال ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔
(الاستیعاب جلد 2صفحہ 497 رفاعہ بن رافعؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
تو یہ تھا صحابہ کا ذکر۔ گزشتہ خطبہ کے واقعہ کے حوالے سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک واقعہ کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے حضرت عمارؓ کے بارے میں بیان کیا تھا کہ حضرت عمروؓ بن عاص نے ان کی وفات پر بڑے افسوس اور فکر کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا اور حضرت عمرو بن عاص کو فکر اس لئے تھی کہ وہ امیر معاویہ کی طرف تھے اور حضرت عمار کو شہید کرنے والے حضرت امیر معاویہ کے فوجی تھے۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 474 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ حدیث 5726 مطبوعہ دار الحرمین للطباعۃ والنشر والتوزیع 1997ء)
بہرحال اس بات پر بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب یہ باغی گروپ میں تھے تو پھر ان کا نام اتنی عزت سے کیوں لیا جاتا ہے اور حضرت امیر معاویہ کو بھی جماعت کے لٹریچر میں ایک مقام ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ صحابہ کا جو مقام ہے ہمارا کام نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بخشا جائے گا اور یہ نہیں بخشا جائے گا۔ جس بھی غلط فہمی یا غلطی کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ ہوا اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اس کا خمیازہ مسلمانوں نے بھگتا بھی۔ یہ سوال ان لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے تھے جو اس زمانے میں تھے اور پھر وہ اپنی بے چینی کو دور کرنے کے لئے دعا بھی کرتے ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا کہ یہ بھی صحابی اور وہ بھی صحابی اور ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی بھی مانگتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتاتھا)۔
چنانچہ ایک روایت ہے ابوضحی سے مروی ہے کہ عَمْرو بنِ شُرَحْبِیْل ابومَیْسَرۃ نے (جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے فاضل شاگردوں میں سے تھے) خواب میںد یکھا کہ ایک سرسبز باغ ہے جس میں چند خیمے نصب تھے۔ ان میں حضرت عمار ؓبن یاسر بھی تھے اور چند اور خیمے تھے جن میں ذُوالْقَلَاع تھے۔ تو ابومیسرۃ نے پوچھا یہ کیسے ہو گیا کہ ان لوگوں نے تو باہم قتال کیا تھا، جنگ کی تھی۔ جواب ملا کہ ان لوگوں نےپروردگار کو وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃ یعنی بہت بڑا بخشش والا پایا ہے اس لئے اب وہاں اکٹھے ہو گئے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 8 صفحہ 302 کتاب قتال اھل البغی باب الدلیل علی ان فئۃ الباغیۃ … الخ حدیث 16720 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
پس یہ معاملات اب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہیں۔ ان معاملات اور اختلافات کو ہمارا کام نہیں کہ اپنے دلوں میں جگہ دیں۔ ان معاملات کو دلوں میں رکھنے کی وجہ سے اور جنگوں کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے دلوںمیں دوری بڑھتی چلی گئی اور مسلمانوں میں اور تفرقہ پیدا ہوتا چلا گیا اور اس کا نتیجہ ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہ باتیں ہمارے لئے بھی سبق ہیں کہ ان باتوں کو دلوں میں لانے کی بجائے وحدت پر قائم ہوں۔ جب ایک دفعہ میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے امیر معاویہ کا کوئی واقعہ بیان کیا تھا تو کسی نے مجھے عرب ملکوں میں سے یہ لکھا کہ وہ تو باغی اور قاتل گروہ تھا اور اس کا سردار تھا۔ اس کا نام آپ اتنی عزت سے کیوں لیتے ہیں تو ان کے لئے بھی یہ جو خواب کی روایت ہے یہ کافی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت وسیع ہے۔ ہمیں اپنے معاملات سنبھالنے چاہئیں اور ان لوگوں کے بارے میں اب بجائے کچھ سوچنے کے، کہنے کےاپنی اصلاح کرنی چاہئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بعض جگہ حضرت امیر معاویہ کے حوالے سے تعریفی بات کی ہے۔
(ماخوذ از ملائکۃ اللہ، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 552)
پس ہمیں بھی ان بزرگوں کی غلطیوں پر کچھ کہنے کی بجائے ان سے سبق لینا چاہئے۔ حضرت امیر معاویہ کے بارے میں ایک جگہ یہ بھی آتا ہے کہ جب حضرت علیؓ اور ان کی جنگ ہو رہی تھی اوراختلافات بڑے وسیع ہو رہے تھے تو اس وقت کے عیسائی بادشاہ نے کہا کہ مسلمانوں کی حالت اب کمزور ہے تو حملہ کرنا چاہا۔ حضرت امیر معاویہ کو جب یہ پتہ لگا تو انہوں نے کہا کہ تمہاری اگریہ سوچ ہے تو یاد رکھو کہ اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علیؓ کے جھنڈے کے نیچے لڑنے والا سب سے پہلا جرنیل میں ہوں گا جو اُن کے جھنڈے کے نیچے ان کی طرف سے تمہارے خلاف لڑوں گا۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 430)
پس ہوش سے کام لو۔ تو بہرحال ان لوگوں کایہ مقام بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ ایک رہیں اور وحدت پر قائم رہیں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں۔
٭…٭…٭