خطبہ جمعہ فرمودہ 03؍ مئی 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03؍ مئی2019ء بمطابق 03؍ہجرت1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج جن بدری صحابہ کا مَیں ذکرکروں گا ان میں پہلا نام ہے حضرت عُبَیدؓ۔ ان کا پورا نام حضرت عُبَیْد بن ابُو عُبَید انصاری اَوْسِیؓ تھا۔ ابن ہشام کے مطابق آپؓ قبیلہ اَوس کے خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت عُبَیدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ خندق میں شامل ہوئے تھے ۔ (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ المجلد الثالث صفحہ538-539 دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء)(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ465،الْأَنْصَارُ وَمَنْ مَعَهُمْ،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001ء)(الطبقات الکبرٰی لابن سعد جزء3 صفحہ243 وَمِنْ حُلَفَاءِ بَنِيْ ظَفَرْ، عُبَيْد بِنْ أَبِيْ عُبَيْد،دارا لاحیاء التراث العربی بیروت لبنان1996ء) اس سے زیادہ ان کی مزید تفصیل نہیں ہے۔
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عبداللّٰہ بن نُعمان بن بَلْدَمَہؓ ہے۔ حضرت عبداللہ کے دادا کا نام بَلْدَمَہ یا بَلْذَمَہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن نعمانؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو خُنَاس سے تھا۔
(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 471، ذِكْرُ الْأَنْصَار وَمَنْ مَعَهُمْ / مِنْ بَنِي خُنَاس، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ الجزء الرابع صفحہ213 ،عَبْد الله بْن النُّعمان ،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
حضرت عبداللہ بن نعمانؓ حضرت ابوقتادہؓ کے چچازاد بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن نعمانؓ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 293 طَبَقَاتُ الْبَدْرِيِّينَ مِنَ الأَنْصَارِ / عَبْد الله بْن النُّعمان، دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر جن صحابی کا ذکر کرنا ہے ان کا نام ہے حضرت عبداللہ بن عمیرؓ۔ حضرت عبداللہ بن عمیرؓ کا تعلق قبیلہ بَنُو جِدَارَہ سے تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ ایک قول کے مطابق آپ کے والد کا نام عمُیَر کے بجائے عُبَید بھی بیان ہوا ہے۔ اسی طرح بعض نے آپؓ کے دادا کا نام عَدِی بیان کیا ہے جبکہ بعض نے حَارِثَہ بیان کیا ہے ۔ ابن ہشام نے آپؓ کا قبیلہ بَنُو جِدَارَہ بیان کیا ہے جبکہ ابن اسحاق نے بنو حَارِثَہ بیان کیا ہے۔(السیرة النبویہ لابن ہشام صفحہ467، الانصار ومن معھم/من بنی جدارۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 277، عبداللہ بن عمیر،داراحیاء التراث العربی 1996ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر العسقلانی الجزء الرابع،صفحہ172، عبداللہ بن عمیر،دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء) دونوں ہی تاریخ لکھنے والے ہیں ۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عَمرو بن حارثؓ ہے۔ حضرت عَمروؓ کا تعلق قبیلہ بنو حارث سے تھا۔ بعض نے آپؓ کا نام عمرو بیان کیا ہے جبکہ دیگر آپؓ کا نام عامر بھی بیان کرتے ہیں ۔ آپؓ کی کنیت ابو نَافِع تھی۔ حضرت عَمروؓ نے شروع میں ہی مکہ میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپؓ ہجرتِ حبشہ ثانیہ میں شامل تھے۔ آپ کو غزوۂ بدر میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔
(السیرة النبویہ لابن ہشام صفحہ463،باب من حضر بدرا من المسلمین، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب لابی عمر جلد3 صفحہ 255،عمرو بن حارث، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد4، صفحہ197،عمرو بن حارث ،دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عبداللہ بن کَعبؓ۔ حضرت عبداللہ بن کعب قبیلہ بنو مَازِنْ سے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام کعب بن عَمرو اور آپؓ کی والدہ کا نام رُبَاب بنتِ عبداللہ تھا۔ آپؓ حضرت اَبُو لَیْلیٰ مَازَنِیؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن کعبؓ کے ایک بیٹے کا نام حارث تھا جو زُغَیْبَہ بنتِ اَوْس سے پیدا ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن کعبؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے روز اموال غنیمت پر نگران مقرر فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی آپؓ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموالِ خُمس پر نگران بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن کعبؓ غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور اس کے علاوہ تمام دیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن کعبؓ کی وفات مدینے میں حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں 33ہجری میں ہوئی اور آپؓ کی نمازِ جنازہ حضرت عثمانؓ نے پڑھائی۔ آپؓ کی کنیت ابو حارث کے علاوہ ابو یحيیٰ بھی بیان کی جاتی ہے۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ475، الانصار ومن معھم / من بنی مازن بن النجار و حلفائھم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 268 ‘‘عبد اللہ بن کعب بن عمرو’’ ۔داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثالث صفحہ105 ‘‘عبداللہ بن کعب المازنی’’ داراکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ 370 ‘‘عبداللہ بن کعب بن عمرو’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عبداللہ بن قیسؓ۔ حضرت عبداللہ بن قیسؓ قبیلہ بنو نجار سے تھے۔ آپؓ کے دادا کا نام سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں زیادہ تر خَالِد بیان ہوا ہے تاہم طبقات الکبریٰ میں ان کا نام خَلَّدہ لکھا ہے۔ حضرت عبداللہ بن قیسؓ کے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن اور بیٹی کا نام عُمَیرہ تھا۔ ان دونوں کی والدہ کا نام سُعَاد بنت قَیْستھا۔ ان کے علاوہ آپؓ کی ایک اَور بیٹی بھی تھیں جن کا نام اُمِّ عَوْن تھا۔ حضرت عبداللہ بن قیسؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے ۔عبداللہ بن محمد بن عُمَارَہ انصاری کے مطابق آپؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ غزوۂ احد میں شہید نہیں ہوئے بلکہ آپؓ زندہ رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور آپؓ نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ474، الانصار ومن معھم / نسب عفراء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 258 ‘‘عبداللہ بن قیس’’۔داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
تاریخ کی مختلف کتب میں بعض جگہ اختلاف ہو جاتا ہے اس لیے مَیں بیان کر دیتا ہوں ۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت سَلَمَہ بن اسلمؓ ہے۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ قبیلہ بنو حارثہ بن حارث سے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام اسلم تھا۔ ایک قول کے مطابق آپ کے دادا کا نام حَرِیْش تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق حَرِیْس تھا۔ آپؓ کی کنیت اَبُو سَعْد تھی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ464، الانصار ومن معھم / من بنی عبید بن کعب وحلفائھم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثانی صفحہ 198 ‘‘سلمہ بن اسلم’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی والدہ کا نام سُعَاد بنت رَافِعتھا۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور اس کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں صَائب بن عُبَیْد اور نُعْمان بن عَمْرو کو قید کیا تھا۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جِسر میں شہید ہوئے تھے جو دریائے فرات کے کنارے لڑی گئی تھی ۔ اس جنگ کی تفصیل، میں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں۔ بہت بڑی جنگ تھی جو مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور جِسر پُل کو کہتے ہیں۔ دریا پرایک پل بنایا گیا تھا۔ اس سے ، جِسر نام ہے اس کے ذریعے سے پھر مسلمان دوسرے علاقے میں گئے تھے۔ اور اس جنگ میں ایرانیوں کی طرف سے جنگی ہاتھی بھی استعمال ہوئے تھے۔ بہرحال جنگ میں دونوں فریقَین کا بہت نقصان ہوا۔ مسلمانوں کا خاص طور پر بہت نقصان ہوا تھا۔ بوقتِ وفات روایات کے اختلاف کے ساتھ کم و بیش آپؓ کی عمر 38 سال بیان کی جاتی ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 236 ‘‘سلمہ بن اسلم’’ وَمِنْ حُلَفَاءِ بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ بْنِ جُشَمَ۔داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 516 ‘‘سلمہ بن اسلم’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد3صفحہ120 سلمہ بن اسلم،دارالفکر بیروت 2001 ) (تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 حصہ اول صفحہ271، دارالاشاعت کراچی 2003ء)
علامہ نور الدین حلبی کی مشہور کتاب سیرت حلبیہ میں غزوۂ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ضمن میں بیان ہے کہ غزوۂ بدر میں حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کھجور کی چھڑی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ساتھ لڑائی کرو۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ نے جیسے ہی اس چھڑی کو اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی اور وہ بعد میں ہمیشہ آپؓ کے پاس رہی۔
(السیرة الحلبیۃ جلد2 صفحہ245 ذکر مغازیہﷺ غزوة بدر الکبریٰ ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
‘شرح زرقانی ’ اور ‘دلائلِ نبوت’ میں ہے کہ بدر کے روز حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو خالی ہاتھ رہ گئے اور بغیر کسی ہتھیار کے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک چھڑی دیتے ہوئے فرمایا اس کے ساتھ لڑائی کرو تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی جو یومِ جِسر میں شہید ہونے تک آپؓ کے پاس رہی۔
(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 302 باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) (دلائل النبوة للبیہقی جلد3 صفحہ 99 باب ما ذکر فی المغازی من دعائہ۔۔۔۔دارالکتب العلمیة بیروت1988ء)
ابن سعد غزوۂ خندق کے ذکر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہؓ کے پاس تھا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے پاس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اسلمؓ کو دو سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا تھا۔ ان جھنڈوں کے نیچے جو مختلف پارٹیاں تھیں ان پہ نگران مقرر کیے گئے تھے تو حضرت سلمہؓ کو دو سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور حضرت زید بن حارثہؓ کو تین سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور ان کی یہ ڈیوٹی مقرر فرمائی کہ وہ مدینے کا پہرہ دیں گے اور بآوازِ بلند تکبیر پڑھتے رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنو قُرَیظہ کی طرف سے جہاں بچے وغیرہ حفاظت کی غرض سے رکھے گئے تھے اس جگہ پر حملے کا اندیشہ تھا۔
(عیون الاثر جلد 2 صفحہ 88 غزوة الخندق،دارالقلم بیروت1993ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ایک سازش ہوئی تھی اور اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
غزوۂ احزاب کی ذِلّت بھری ناکامی کی یاد نے قریشِ مکہ کے تن بدن میں آگ لگا رکھی تھی اورطبعاً یہ قلبی آگ زیادہ تر ابوسفیان کے حصے میں آئی تھی جومکہ کارئیس تھا اوراحزاب کی مہم میں خاص طور پر ذلّت کی مار کھاچکا تھا۔ کچھ عرصے تک ابوسفیان اس آگ میں اندر ہی اندر جلتا رہا مگر بالآخر معاملہ اس کی برداشت سے باہر نکل گیا اوراس آگ کے مخفی شعلے باہر آنے شروع ہوئے، ان کا اظہار ہونا شروع ہو گیا۔ طبعاً کفار کی سب سے زیادہ عداوت بلکہ درحقیقت اصل عداوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھی اس لیے اب ابوسفیان اس خیال میں پڑ گیا کہ جب ظاہری تدبیروں اورحیلوں اور جنگوں کاکوئی نتیجہ نہیں نکلا توکیوں کسی مخفی تدبیر سے، (کسی بہانے سے، کسی حیلے سے) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتمہ نہ کردیا جائے، کیوں ایسی تدبیر نہ کی جائے۔ وہ یہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کوئی خاص پہرہ نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات آپؐ بالکل بے حفاظتی کی حالت میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے۔ شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے تھے۔ مسجدِ نبویؐ میں روزانہ کم از کم پانچ وقت نمازوں کے لیے تشریف لاتے تھے اورسفروں میں بالکل بے تکلفانہ اور آزادانہ طورپر رہتے تھے۔ اس سے زیادہ اچھا موقع کسی کرایہ دار قاتل کے لیے کیا ہوسکتا تھا؟ یہ خیال آنا تھا کہ ابوسفیان نے اندر ہی اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز پختہ کرنی شروع کردی۔جب وہ پورے عزم کے ساتھ اس ارادے پر جم گیا تواس نے ایک دن موقع پاکر اپنے مطلب کے چند قریشی نوجوانوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو مدینے میں جاکر خفیہ خفیہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کر دے؟ تم جانتے ہو کہ محمد کھلے طور پر مدینے کی گلی کوچوں میں پھرتا ہے۔ (جس طرح بھی اس نے اپنی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا۔) ان نوجوانوں نے اس خیال کو سنا اورلے اڑے۔ (ان کے دل میں یہ بات رَچ گئی۔) یہ بات نکلے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بدوی نوجوان ابوسفیان کے پاس آیا اورکہنے لگا کہ میں نے آپ کی تجویز سنی ہے۔ کسی نوجوان نے بتا دی اورمیں اس کے لیے حاضر ہوں ۔ میں ایک مضبوط دل والا اورپختہ کار انسان ہوں جس کی گرفت سخت اورحملہ فوری ہوتا ہے۔ اگر آپ مجھے اس کام کے لیے مقرر کرکے میری مدد کریں تو میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کوقتل کرنے کی غرض سے جانے کے لیے تیار ہوں اورمیرے پاس ایک ایسا خنجر ہے جوشکاری گدھ کے مخفی پروں کی طرح رہے گا یعنی بہت چھپا ہوا ہے، چھپا کے ایسی حالت میں رکھوں گا۔ سومیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کروں گا اورپھر بھاگ کر کسی قافلے میں مل جاؤں گا اورمسلمان مجھے پکڑ نہیں سکیں گے اورمیں مدینے کے رستے کا بھی خوب ماہر ہوں ۔ ابوسفیان بڑا خوش ہوا اس نے کہاکہ بس بس تم ہمارے مطلب کے آدمی ہو۔اس کے بعد ابوسفیان نے اسے ایک تیز رَواونٹنی اورسفر کازادِراہ دیا ، خرچ دیا اور رخصت کیا اورتاکید کی کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا۔
مکّے سے رخصت ہوکر یہ شخص دن کو چھپتا ہوا اوررات کو سفر کرتا ہوا مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ چھٹے دن مدینے پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ لیتے ہوئے سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ چونکہ ان ایام میں نئے سے نئے آدمی مدینے میں آتے رہتے تھے اس لیے کسی مسلمان کواس کے متعلق شبہ نہیں ہوا کہ کس نیت سے آیا ہے۔ مگر جونہی یہ مسجد میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا یہ شخص کسی بری نیّت سے آیا ہے۔ اونچی آواز میں آپؐ نے فرمایا۔ اس تک یہ الفاظ پہنچ گئے، وہ یہ الفاظ سن کر اَوربھی تیزی کے ساتھ آپؐ کی طرف بڑھا مگر ایک انصاری رئیس اُسَید بِن حُضَیْر فوراً لپک کر اس کے ساتھ لپٹ گئے اوراس جدوجہد میں ان کا ہاتھ اس کے چھپے ہوئے خنجر پر بھی جا پڑا۔ پھر وہ گھبرا کر بولا کہ میرا خون میرا خون۔ یعنی تُو نے مجھے زخمی کر دیا ۔ جب اسے مغلوب کرلیاگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو اورکس ارادے سے آئے ہو؟ اس نے کہا کہ میری جان بخشی کی جائے تو میں بتا دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں اگر تم ساری بات سچ سچ بتا دو توپھر تمہیں معاف کردیا جائے گا۔ جس پر اس نے سارا قصّہ من وعن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا اوریہ بھی بتایا کہ ابوسفیان نے اس سے اِس قدر انعام کاوعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ شخص چند دن تک مدینے میں ٹھہرا اورپھر اپنی خوشی سے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کے، مسلمانوں کے ساتھ رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگیا۔ اسلام لے آیا۔
ابوسفیان کی اس خونی سازش نے اس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کردیا کہ مکّے والوں کے ارادے اورنیت سے آگاہی رکھی جائے۔ تاکہ پتا لگے کہ ان کی کیا نیّت ہے کہ اس طرح کی خفیہ سازشیں بھی کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے اپنے دوصحابی عمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ اورسلمہ بن اسلمؓ ، جن کا ذکر ہو رہا ہے، ان کومکّے کی طرف روانہ فرمایا اورابوسفیان کی اس سازش ِقتل اوراس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی اجازت دے دی کہ اگر موقع پائیں تو بے شک اسلام کے اس حربی جنگی دشمن کا خاتمہ کر دیں ۔ مگر جب امیہ اوران کا ساتھی مکہ میں پہنچے توقریش ہوشیار ہوگئے اوریہ دوصحابی اپنی جان بچا کر مدینے کی طرف واپس لوٹ آئے۔ راستے میں انہیں قریش کے دوجاسوس مل گئے جنہیں رؤسا ئے قریش نے مسلمانوں کی حرکات وسکنات کاپتا لینے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اب یہ بھی کوئی تعجب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اَورخونی سازش کا پیش خیمہ ہو، جیسے پہلے ایک آدمی کو بھیجا تھا ۔ ان کو بھی بھیجا ہو کہ سازش کر کے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل کریں مگرخدا کا ایسا فضل ہوا کہ امیہ اورسلمہ بن اسلم کوان کی جاسوسی کا پتا چل گیا جس پر انہوں نے ان جاسوسوں پرحملہ کرکے انہیں قید کرلینا چاہا مگرانہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا ۔ چنانچہ اس لڑائی میں ایک جاسوس تومارا گیا اوردوسرے کو قید کرکے وہ اپنے ساتھ مدینے میں واپس لے آئے۔
اس سریہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اورطبری اسے4؍ ہجری میں بیان کرتے ہیں مگرابن سعد نے اسے 6؍ہجری میں لکھا ہے ۔علامہ قُسْطَلَانی اورزَرْقَانِی نے ابن سعد کی روایت کو ترجیح دی ہے ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ان ساروں کی (تحقیق کا) تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لہٰذا میں نے بھی اسے 6؍ہجری میں بیان کیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ واللہ اَعلم۔ابن سعد کی روایت کے مفہوم کی تائید بیہقی نے بھی کی ہے مگر اس میں اس واقعہ کے زمانہ کاپتا نہیں چلتا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ741تا743)
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت سلمہ بن اسلمؓ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت ام عُمَارہ بیان کرتی ہیں کہ میں صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی جبکہ آپؐ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ اور حضرت سلمہ بن اسلمؓ دونوں آہنی خود پہنے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ جب قریش کے سفیر سُہَیل بن عَمرو نے اپنی آواز کو بلند کیا تو ان دونوں نے اسے کہا کہ اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دھیما رکھو، آہستہ رکھو، ہلکی رکھو۔(کتاب المغازی جلد 2صفحہ 93 باب غزوة الحدیبیۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)یہ ان کی ایک خاص خدمت کا ذکرہے جو اس موقعے پر بیان ہوا۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عُقْبَہ بن عثمانؓ ہے۔ حضرت عُقْبَہ بن عثمانؓ کی والدہ کا نام ام جَمِیل بنت قُطْبَہ تھا ۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ300 وَمِنْ بَنِي زُرَيْق بِنْ عَامِرْ بِنْ زُرَيْق ۔۔۔داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عُقْبَہؓ انصار کے قبیلہ بَنُو زُرَیْق میں سے تھے۔ حضرت عقبہؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت سعد بن عثمانؓ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ مختلف تاریخی کتب میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ غزوۂ احد کے موقعے پر جو چند لوگ حملے کی شدت سے وقتی طور پر بھاگ اٹھے تھے ان میں سے دو شخص حضرت عقبہ بن عثمانؓ اور حضرت سعد بن عثمانؓ بھی تھے۔ یہاں تک کہ وہ اَعْوَصْ کے بالمقابل ایک پہاڑ جَلْعَبْپر پہنچ گئے اور تین روز تک وہاں قیام کیا۔ اَعْوَص مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ پھر جب وہ دونوں واپس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لَقَدْ ذَھَبْتُمْ فِیْھَا عَرِیْضَۃً۔ یعنی تم اس طرف چل دیے جس میں کشادگی تھی۔
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ الجزء الرابع صفحہ54-55 عُقْبَہْ بِنْ عُثْمَانْ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)(جامع البیان فی تاویل القرآن، معروف تفسیر طبری جزء 4 صفحہ 183-184، سورۃ آل عمران زیر آیت 156 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 2001ء)(معجم البلدان جزء 1 صفحہ 180 زیر لفظ اعوص)
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چشم پوشی فرمائی اور ان کی غلطی سے درگزر فرمایا۔ کوئی بازپرس نہیں کی۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عبداللہ بن سہلؓ۔ حضرت عبداللہ بن سہلؓ کا تعلق قبیلہ بنی زَعُوْرَاءسے تھا جو کہ بنو عبدالاشہل کے حلیف تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ غسّانی تھے۔ حضرت عبداللہ کے دادا کا نام بعض نے زید اور بعض نے رافع بھی بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام صَعْبَہ بنت تَیِّہَانتھا جو حضرت اَبُوالہَیْثَم بن تَیِّہَانؓ کی بہن تھیں ۔ آپؓ حضرت رافع بن سہلؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ آپؓ کے بھائی حضرت رافعؓ آپؓ کے ہمراہ غزوۂ احد اور خندق میں شریک ہوئے۔ حضرت عبداللہ غزوۂ خندق میں شہید ہوئے۔ بنو عُوَیْف کے ایک شخص نے آپؓ کو تیر مار کر شہید کیا تھا۔
(السیرة النبویہ لابن ہشام صفحہ464، الانصار ومن معھم، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 236، عبداللہ بن سھل،داراحیاء التراث العربی 1996ء)(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد3، صفحہ269 عبداللہ بن سھل، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
مُغَیْرَہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ سے پوچھا کہ کیا آپؓ غزوۂ بدر میں شریک تھے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ ہاں اَور میں بیعتِ عقبہ میں بھی شامل تھا۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد لعلی بن ابی بکر جلد6 صفحہ108، کتاب المغازی والسیر باب قد حضر بدرا جماعۃ،حدیث10044،دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
حضرت عبداللہ کے غزوۂ حَمْرَاءُ الْاَسَد ،جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے،(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 181 زیر لفظ حمراء الاسد) اس میں شامل ہونے کا ذکر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ‘ سُبُلُ الْھُدیٰ ’ میں یوں ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہلؓ اور حضرت رافع بن سہلؓ دونوں بھائی جو قبیلہ بنو عبدالاشہل میں سے تھے جب وہ دونوں غزوۂ احد سے واپس آئے تو وہ شدید زخمی تھے۔ جنگ میں زخمی ہو گئے اور حضرت عبداللہ زیادہ زخمی تھے۔ جب ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حَمْرَاءُ الْاَسَد کی طرف جانے اور اس میں شمولیت کی بابت آپؐ کے حکم کے بارے میں سنا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا۔ بخدا اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے تو یہ ایک بہت بڑی محرومی ہو گی۔ زخمی حالت میں تھے لیکن اس کے باوجود بھی ایک جذبہ تھا۔ ایمان میں پختگی تھی ۔ پھر کہنے لگے بخدا ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے جس پر ہم سوار ہوں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ ہم کس طرح یہ کام کریں ۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ ہم پیدل چلتے ہیں ۔ حضرت رافعؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے تو زخموں کی وجہ سے چلنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ آپؓ کے بھائی نے کہا کہ آؤ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں ۔ چنانچہ وہ دونوں گرتے پڑتے چلنے لگے۔ حضرت رافعؓ نے کبھی کمزوری محسوس کی تو حضرت عبداللہ نے حضرت رافعؓ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ کبھی وہ پیدل چلنے لگے۔ ایسی حالت تھی کہ دونوں ہی زخمی تھے لیکن جو بہتر تھے وہ زیادہ زخمی کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلتے رہے۔ کمزوری کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ عشاء کے وقت وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ اس وقت آگ جلا رہے تھے۔ایک ڈیرہ ڈال لیا تھا۔ رات کا وقت تھا تو آپ دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت عَبَّاد بِن بِشرؓ متعین تھے۔ جب یہ پہنچے وہاں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے، دونوں سے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا تو ان دونوں نے اس کا سبب بتایا کہ کیا وجہ ہو گئی۔ اس پر آپؐ نے ان دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے اور خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے۔ ابھی تو تم گرتے پڑتے پیدل آئے ہو لیکن لمبی زندگی پاؤ گے تو یہ دیکھو گے کہ یہ سب سواریاں تمہیں میسر آ جائیں گی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ لیکن وہ تمہارے لیے تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے۔(سُبُل الھدٰی والرشاد فی سیرة خیر العباد لمحمد بن یوسف، جلد4 صفحہ310،الباب الرابع عشر فی غزوہ حمراء الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت1993ء) جو اِس کا ثواب ہے اور جواِس کا اجر ملے گا اور جو اِس کی برکات ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ۔
غزوہ حَمْرَاءُ الْاَسَد کی تفصیل کہ یہ کیا تھا جس کے لیے یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گئے تھے اس کے بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے ۔نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی غزوۂ احد سے واپسی اور غزوۂ حَمْرَاءُ الْاَسَد کیتفصیل اس طرح ہے کہ احد کی جنگ کے بعد مدینہ میں جو رات تھی ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجوداس کے کہ بظاہر لشکر ِقریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ فعل مسلمانوں کوغافل کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ بظاہر تو احد کی جنگ میں وہ جیتے ہوئے تھے اور مکہ واپس لوٹ رہے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فکر تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ بھی کوئی چال ہواور مدینے پر حملہ کرنے کے لیے پھر واپس لوٹ آئیں اور اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں ۔ لہٰذا اس رات کو مدینے میں اسی احتیاط کی وجہ سے، شک کی وجہ سے پہرے کا انتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا۔
صبح ہوئی تو پتا لگا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہیں تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ٹھہر گیا ہے اوررؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینے پرحملہ کردیا جائے اوربعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کوقتل کیا اورنہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اورنہ ان کے مال ومتاع پرقابض ہوئے، قبضہ کیا بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اورتمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردیتے توتم انہیں یونہی چھوڑ کرواپس چلے آئے ہو تاکہ وہ پھرزور پکڑ جائیں۔ پس اب بھی موقع ہے کہ واپس چلو اورمدینے پرحملہ کرکے مسلمانوں کی جڑکاٹ دو۔ اس کے مقابل بعض دوسرے یہ بھی کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے۔ اسے غنیمت سمجھو اور مکہ واپس لوٹ چلو۔ ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھو جو تمہیں حاصل ہوئی ہے اور یہ فتح جو ہے وہ شکست کی صورت میں بدل جائے کیونکہ اب اگرتم لوگ واپس لَوٹے اور مدینے پر حملہ آور ہوئے تویقیناً مسلمان جان توڑ کرلڑیں گے اورجو لوگ احد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے۔ مگر بالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اورقریش مدینہ کی طرف واپس لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو احد میں شریک ہوئے تھے اَورکوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ چنانچہ احد کے مجاہدین جن میں سے اکثرزخمی تھے (اور دو زخمیوں کا ذکر تو میں نے کر ہی دیا) اپنے زخموں کوباندھ کراپنے آقا کے ساتھ ہولیے اورلکھا ہے کہ اس موقعے پرمسلمان ایسی خوشی اورجوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طَے کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حَمْرَاءُ الْاَسَد میں پہنچے جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں، لاشیں ان کو میدان میں پڑی ہوئی ملی تھیں۔ تحقیقات پرمعلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پیچھے روانہ کیے تھے مگر جنہیں قریش نے موقع پا کر قتل کردیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کوایک قبر کھدوا کر اس میں اکٹھا دفن کروا دیا اوراب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے وہیں ڈیراڈالنے کاحکم دیا اورفرمایاکہ میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کردی جائے۔ وسیع جگہ پر آگیں جلا دی جائیں ۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حَمْرَاء الْاَسَد کے میدان میں پانچ سو آگیں شعلہ زن ہوگئیں جو ہردُور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں ۔ بڑا رعب پڑنے لگ گیا ۔ مختلف لوگ سمجھیں کہ یہ آبادی ہے اور بڑے بڑے مختلف کیمپ بنے ہوئے ہیں ۔ غالباً اسی موقع پر قبیلہ خُزَاعَہ کاایک مشرک رئیس مَعْبَد نامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور آپؐ سے احد کے مقتولین کے متعلق اظہارِ ہمدردی کی اورپھر اپنے راستے پرروانہ ہوگیا۔ دوسرے دن جب وہ مقام رَوْحَاء (یہ بھی ایک مقام ہے، جگہ ہے جو مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں) پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے (جو بحث کر کے واپس مدینہ میں آ رہے تھے) اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ مَعْبَد فوراً ابوسفیان کے پاس گیااوراسے جاکر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو۔ اللہ کی قَسم! میں نے تو ابھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو حَمْرَاء الْاَسَد میں چھوڑا ہے۔ میں انہیں وہاں چھوڑ کر آیاہوں اور ایسا بارعب لشکر ہے جو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اوراحد کی ہزیمت کی ندامت، (جو جنگ ہاری ہے اس کی ندامت) میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی وہ بھسم کر دیں گے، کھا جائیں گے، ختم کر دیں گے۔ ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں پرمعبد کی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینے کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکّے کی طرف روانہ ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کولشکر ِقریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے خدا کاشکر اداکیا اورفرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے حَمْرَاء الْاَسَد میں دوتین دن اَورقیام فرمایا اورپھرپانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ504-505)(لغات الحدیث جلد2 صفحہ149 زیر لفظ روحاء)
اگلا ذکر جن صحابی کا ہے ان کا نام حضرت عُتْبَہ بن رَبِیعہؓ ہے۔ حضرت عتبہؓ کا تعلق کس قبیلے سے تھا اس کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتْبَہ بن رَبِیعہؓ قبیلہ بنو لَوْذَانْ کے حلیف تھے اور ان کا تعلق قبیلہ بَہْرَاء سے تھا۔ بعض کے نزدیک آپؓ قبیلہ اَوس کے حلیف تھے۔ بہرحال آپؓ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ جنگِ یرموک میں شامل ہونے والے امراء میں سے ایک کا نام عتبہ بن ربیعہ ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہی وہ صحابی ہیں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 469‘‘الانصار ومن معھم/ من بنی لوذان وحلفائہم’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 284 عُتْبَةْ بِنْ رَبِيْعَةْ بِنْ خَالِدْ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 360عُتْبَةْ بِنْ رَبِيْعَةْ بِنْ خَالِدْ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
جنگِ یرموک کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 12؍ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج کی ادائیگی سے واپس مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے 13؍ہجری کے آغاز میں مسلمانوں کی فوجوں کو ملکِ شام کی طرف روانہ کیا۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاصؓ کو فلسطین کی طرف، یزید بن ابوسفیان، حضرت اَبُوعُبَیْدَہ بن الجَرَّاحؓ اور حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہؓ کو حکم دیا کہ شام کے بالائی علاقے بلقاءپر سے ہوتے ہوئے تبوکیہ چلے جائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پہلے خالد بن سعیدؓ کو امیر مقرر کیا تاہم بعد میں ان کی جگہ یزید بن سفیان کو امیر بنا لیا۔ یہ لوگ سات ہزار مجاہدین کے ہمراہ ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلامی لشکر کے امراء اپنی فوجوں کو لے کر شام پہنچے۔ ہرقل خود چل کر حِمص آیا اور رومیوں کا بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ اس نے مسلمان امراء کے مقابلے کے لیے الگ الگ امیر مقرر کیے۔ دشمن کی تیاری دیکھ کر مسلمانوں پر اور بعض ان میں سے اتنے ایمان والے بھی نہیں تھے، ہیبت طاری ہو گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت ستائیس ہزار تھی۔ اس صورت حال میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے ہدایت دی کہ تم سب ایک جگہ جمع ہو جاؤ کیونکہ جمع ہونے کی صورت میں قلّت تعداد کے باوجود تمہیں مغلوب کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تھوڑے ہو اس لشکر کے مقابلے پر لیکن اگر اکٹھے ہو جاؤ گے تو آسانی سے تمہارے پر فتح نہیں پائی جائے گی۔ اگر علیحدہ علیحدہ رہے ہر لیڈر کے اندر تو یاد رکھو تم میں سے ایک بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جو کسی آگے والے کے کام آ سکے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک پر بڑی بڑی فوجیں مسلط کر دی گئی ہیں ۔ چنانچہ طے یہ ہوا کہ یرموک کے مقام پر سب مسلمان فوجیں اکٹھی ہو جائیں ۔ یہی مشورہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی مسلمانوں کو بھجوایا اور فرمایا کہ جمع ہو کر ایک لشکر بن جاؤ اور اپنی فوجوں کو مشرکین کی فوجوں سے بھڑا دو ۔تم اللہ کے مددگار ہو۔ اللہ اس کا مددگار ہے جو اللہ کا مددگار ہے اور وہ اس کو رسوا کرنے والا ہے جس نے اس کا انکار کیا۔ تم جیسے لوگ قلّت تعداد کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پیغام بھجوایا کہ بیشک تم تھوڑے ہو لیکن اگر ایمان ہے اور اکٹھے ہو کر لڑو گے تو کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی خاطر لڑ رہے ہو۔ فرمایا کہ دس ہزار بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اگر گناہوں کے طرف دار بن کر اٹھیں گے تو وہ دس ہزار سے ضرور مغلوب ہو جائیں گے۔ تعداد کی فکر نہ کرو کیونکہ اگر تم دس ہزار ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو لیکن اگر وہ گناہ کرنے والے ہیں اور غلط کام کرنے والے ہیں تو پھر ضرور مغلوب ہوں گے لہٰذا تم گناہوں سے بچو۔ اپنے آپ کو پاک بھی کرو اور ایک ہو جاؤ۔ اکائی پیدا کرو اور یرموک میں مل کر کام کرنے کے لیے جمع ہو جاؤ۔ تم میں سے ہر ایک امیر اپنی فوج کے ساتھ نماز ادا کرے۔ صفر 13؍ ہجری سے لے کر ربیع الثانی تک مسلمانوں نے رومی لشکر کا محاصرہ کیا تاہم مسلمانوں کو اس دوران کامیابی نہیں ملی۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓکو بطور کمک کے عراق سے یرموک پہنچنے کا حکم دیا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اس وقت عراق کے گورنر تھے۔ حضرت خالدؓ کے پہنچنے سے قبل تمام امراء الگ الگ اپنی فوج کو لے کر لڑ رہے تھے تاہم حضرت خالدؓ نے وہاں پہنچ کر تمام مسلمانوں کو ایک امیر مقرر کرنے کی نصیحت کی جس پر سب نے حضرت خالد بن ولید ؓکو امیر مقرر کر لیا۔ رومیوں کے لشکر کی تعداد دو لاکھ یا دو لاکھ چالیس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد سینتیس ہزار سے لے کر چھیالیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے، تقریباً پانچواں حصہ تھی۔ رومی لشکر کی طاقت کا یہ عالَم تھا کہ اسّی ہزار کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور چالیس ہزار آدمی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے تاکہ جان دینے کے سوا بھاگنے کا ان کو خیال بھی نہ آئے۔ ایک لاکھ بیس ہزار آدمی ایسا تھا جن کو اس لیے باندھا گیا تھا کہ صرف انہوں نے لڑنا ہے اور مرنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں اور چالیس ہزار آدمیوں نے خود کو اپنی پگڑیوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اسّی ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل تھے۔ بے شمار پادری لشکر کو جوش دلانے کے لیے رومی لشکر کے ساتھ تھے۔ اسی جنگ کے دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمادی الاولیٰ میں بیمار ہوئے اور جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت خالدؓ نے اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کو بہت سارے دستوں میں تقسیم کر دیا جن کی تقسیم چھتیس سے لے کر چالیس تک بیان کی جاتی ہے لیکن ایک ہی امیر کے تحت لڑ رہے تھے۔ ان دستوں میں سے ایک دستے کے نگران حضرت عتبہ بن ربیعہؓ تھے۔ حضرت خالدؓ نے کہا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہماری اس ترتیب کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر دشمن کو بظاہر زیادہ نظر آئے گا۔ اسلامی لشکر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ اس لشکر میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا ہوا تھا۔ سَو ایسے صحابہؓ تھے جو غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہو چکے تھے۔ فریقَین میں بڑی خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ اسی دوران مدینہ سے ایک قاصد خبر لے کر آیا کوئی خبر لے کر آیا۔ سواروں نے اسے روکا تو اس نے بتایا کہ سب خیریت ہے مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کی خبر لایا تھا۔ لوگوں نے قاصد کو حضرت خالدؓ کے پاس پہنچایا اور اس نے چپکے سے حضرت ابوبکرؓ کی وفات کی خبر دی اور فوج کے لوگوں سے جو کچھ کہا وہ بھی بتا دیا کہ میں نے ان کو کچھ نہیں بتایا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس سے خط لے کر اپنے ترکش میں تیر رکھنے کی جگہ میں ڈال لیا،کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر یہ خبر لشکر کو معلوم ہو گئی تو پھر ابتری پھیلنے کا خدشہ ہے۔ مسلمان شاید اس طرح نہ لڑیں ۔ بہرحال مسلمان ثابت قدم رہے اور شام تک خوب لڑائی ہوئی تاہم رومی لشکر نے پھر بھاگنا شروع کر دیا۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد رومی فوجی ہلاک ہوئے اور کل تین ہزار مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ ان شہداء میں حضرت عکرمہ بن ابوجہل ؓبھی تھے۔ قیصر کو جب اس ہزیمت کی خبر ملی تو وہ اس وقت حمص میں مقیم تھا وہ فوراً وہاں سے نکل کے بھاگ گیا۔
فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں پورے ملکِ شام میں پھیل گئیں اور قِنَّسْرِین، اَنْطَاکِیہ،جُوْمَہ، سَرْمِیْن، تِیْزِیْن، قُوْرُسْ، تَلِّ عَزَازْ، دُلُوک، رَعْبَانْ وغیرہ مقامات پر نہایت آسانی سے فتح حاصل کی۔
(ماخوذ ازتاریخ الطبری جلد 4 صفحہ53تا 63 ثم دخلت سنۃ ثلاث عشرۃ…… دارالفکر بیروت 2002ء)
(خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، از شاہ معین الدین احمد ندوی، صفحہ 126، مکتبہ رحمانیہ لاہور )
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 326 سنۃ 15 مطبوعہ دار الکتاب العربی بیروت 2012ء)
آج جن صحابہؓ کا ذکر تھا وہ یہی ہے۔ اگلے ذکر اب شاید پھر رمضان کے بعد ہی ہوں گے۔ ان شاء اللہ اب رمضان بھی اگلے ہفتے سے شروع ہونے والا ہے۔
اب ایک ذکر میں کرنا چاہتا ہوں۔ ایک جنازہ نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا جو مکرمہ صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓکی نواسی تھیں۔ آپؓ کی سب سے بڑی بیٹی کی بڑی بیٹی تھیں اور حضرت مرزا رشید احمد صاحب کی بیٹی تھیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ،حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امِّ ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے صاحبزادہ مرزا انوراحمد صاحب کی اہلیہ تھیں ۔ 30؍اپریل کو نوّے سال کی عمر میں ، طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میںان کی وفات ہوئی ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
اور اس رشتے سے وہ میری ممانی بھی تھیں ۔ حضرت مرزا رشید احمد صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے بیٹے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سب سے بڑی بیٹی امۃ السلام بیگم صاحبہ کی یہ بیٹی تھیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ربوہ میں اپنے خاندان کی جس آخری شادی میں شمولیت فرمائی وہ ان کی شادی تھی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیگم حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی بڑی بہن تھیں۔ ان کے باقی ایک بہن اور تین بھائی ہیں۔
آپ کی ہمشیرہ انیسہ فوزیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ اپنے والدین کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ اس لیے اکثر فیصلوں میں والدین ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے کیونکہ بڑی سمجھدار بھی تھیں۔ ان پہ بڑا اعتماد کرتے تھے اور یہ بھی اپنے والدین کے اعتماد پر ہمیشہ پورا اتریں اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی پرورش کی۔ اچھی طرح تربیت کرنے کی کوشش کی۔ یہ لکھتی ہیں کہ میرے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے کسی بیٹے کے رشتے کے حوالے سے بات چلی تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ اچھا خاندان ہے۔ اس گھرانے سے دو بہنیں میری بہوئیں ہیں یعنی ایک یہ جن کی وفات کا میں ذکر کر رہا ہوں اور ایک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کی بیگم۔ فرمایا کہ یہ دو بہنیں میری بہوئیں ہیں جو بہت پیار کرنے والی اور خاندان کو جوڑنے والی ہیں ۔
ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ میری والدہ نہایت سادہ، غریب پرور اور ہر کسی کے دکھ سکھ میں کام آنے والی تھیں۔ ضرورت مندوں کا دلی احساس کرتی تھیں۔ خیال رکھتی تھیں اور بڑی ہمدرد تھیں۔غریبوں کی ہمدرد تھیں۔ ان کی باتیں سن کے آبدیدہ ہو جایا کرتی تھیں۔ جس حد تک مدد ہو سکتی تھی کیا کرتی تھیں۔ اور کوئی مبالغہ نہیں کہ ان میں یہ خصوصیات تھیں ۔ اپنے ملازمین کے ساتھ بھی بڑا اچھا سلوک کرتیں بلکہ ان کی ایک بیٹی نے لکھا کہ کس طرح (انہیں) بچوں کی طرح پالا کہ ایک ملازمہ کی جب شادی ہونے لگی تو اس نے کہا کہ مجھے ویسا ہی جہیز چاہیے جیسا آپ نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا ہے اور پھر اس کے لیے ان کو جہیز بنا کے بھی دیا۔
ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ موصیہ بھی تھیں۔ کل ہی ان کا جنازہ ہوا ہے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اپنی والدہ کی نیکیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپس میں بھی محبت اور پیار سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت سے اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔
٭…٭…٭