‘‘رسالہ الوصیت’’
نام کتاب: رسالہ الوصیت
تصنیف: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
ناشر : نظارت نشرو اشاعت ربوہ پاکستان
سن اشاعت : 2008ء
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ علیہ السلام کے ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور قرآن کریم کی صداقت دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے ۔اسی لیے خدا ئے کریم نے آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل وہ تمام اسباب مہیا فرمادئیے جن کے ذریعے کتابوں اور رسالوں کی نشرواشاعت ممکن اور عام ہوگئی ۔
سو اس زمانے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ساری دنیا تک پہنچانے اور اسلام کی سچائی کو ساری دنیا پر ثابت کرنے اور خدائے واحد و یگانہ کی توحید کا پرچار کرنے کے لیے اسلام کا یہ بطل جلیل اور جری اللہ سیف کا کام قلم سے لیتے ہوئے قلمی اسلحہ پہن کر سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اترااور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا ایسا کرشمہ دکھایا کہ ہر مخالف کے پرخچے اڑا دئیے اور محمدﷺ اور اسلام کا پرچم ایسا بلند کیا کہ اس کی رفعتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور ساری دنیا میں آپ علیہ السلام کا یہ پیغام آپ علیہ السلام کی تحریرات کے ذریعے پھیل رہا ہے اور پھیلتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔اس بارہ میںآپ علیہ السلام خود فرماتے ہیں : ‘‘اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کانام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔’’
(الحکم جلد 5 نمبر 22 مورخہ 17 جون 1901ءصفحہ 2)
کتاب کا تعارف :حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رسالہ اذن الٰہی کے ماتحت دسمبر 1905ءمیں تالیف فرمایا۔ اس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‘‘چونکہ خدائے عزوجل نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی کہ میرا زمانۂ وفات نزدیک ہے ۔……اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوںاور ان تمام لوگوںکے لیے جو میرے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں ۔’’
(بحوالہ رسالہ ‘‘الوصیت’’ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 301 ایڈیشن 2008ء)
اس کے بعد آپ نے وحی کے الفاظ بمعہ ترجمہ تحریر فرمائے ہیں۔ اس طویل الہام میں چند قابل ذکر پیش گوئیاں ہیں مثلاً یہ کہ آپ علیہ السلام پر اعتراضات خدا دور فرما دے گا اور اہانت اور رسوائی کا دعویٰ کرنے والے مخالفین خود ہی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا میری وفات کے زمانے میں حوادث ظاہر ہوں گے زلزلے شدت سے آئیں گے بعض قیامت کا نمونہ ہوں گے ۔یہ تمام حوادث نبی کے زمانہ سے مشروط ہیں اس لیے جو اپنے اعمال درست کر لیں گے انہیں کوئی دکھ اور غم نہ ہو گا۔
آپ نے بیان فرمایاکہ خدا نے آپ کو بطور نذیر دنیا میں بھیجا ہے۔ فرمایا :
‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا ،میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’ (ایضاً صفحہ 303)
آپ علیہ السلام نے بیان فرمایاکہ ‘‘یہ حوادث اور آفتیں کچھ میری زندگی میں ظہور میںآجائیں گی کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی ۔اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا ۔کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد ،یہ خدا کی سنت ہے جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے ۔……جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔’’ یعنی خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے ۔(ایضاً صفحہ 304)
آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ : غرض خدا تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتاہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت دکھاتا ہے ۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا زمانہ آتا ہے اور دشمن زور پکڑتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب جماعت نابود ہوجائے گی تو گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے ۔آپ علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔…… تمہارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے ۔……کیونکہ وہ دائمی ہے ۔……جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے ۔ ……کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا ۔…… میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کامظہر ہوں گے سو تم قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو ۔…… اور چاہیے کہ جماعت کے بزرگ جو نفسِ پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میری بعد لوگوں سے بیعت لیں (جس کے لیے آپ علیہ السلام نے بیان فرمایاچالیس مومن کسی ایک شخص کی نسبت اتفاق کر یں کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پہ لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا۔
فرمایا : خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا،ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوںکو دین ِواحد پر جمع کرے۔ (ایضاً صفحہ305تا 307)
آپؑ نے بیان کیا کہ حقیقی تقویٰ بجز روح القدس کے حاصل نہیں ہو سکتی اسکے لیے نفسانی جذبات کو ترک کرنا ہوگا دنیا کی محبت پہ خدا کی محبت کو غالب کرنا ہوگا اپنی عزت مال اور اولاد کو خدا کی راہ میں وقف کرنا ہوگا اپنے دل کو صاف کرنا ہوگا تب اس نعمت کے دروازے تم پہ کھولے جائیں گے۔ (ایضاً صفحہ307)
فرمایا ‘‘تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہیے ۔……تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے ۔……ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے ۔……اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو ۔……لیکن اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مر جائوگے تب تم خدا میں ظاہر ہو گے ۔……تم خدا کی ایک خاص قوم ہو گے ۔۔۔خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھائو اور اسکی توحید کا اقرار صرف زبان سے نہیں بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے ۔……ہر ایک نیکی کی راہ اختیار کرو ،نہ معلوم کس راہ سے قبول کیے جائو ۔’’ (ایضاً صفحہ 308)
آپ علیہ السلام نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ باقی تمام قومیں تو دنیا سے پیار کر رہی ہیں اور خدا کے قرب کے حصول کی جانب ان کی ذرا بھی توجہ نہیں ہے اور تم سب کے لیے اس کے قرب کا میدان خالی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ ایک بیج ہو ۔یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا ۔ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے ۔ان پر مصائب آئیں گے مگر آخر وہ فتح یاب ہونگے ایسے لوگ ایمان نفاق بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیںایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور وہ فرماتا ہے وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے ۔(ایضاً صفحہ 309,308)
آپ علیہ السلام نے خدا کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ‘‘ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اَب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اب بھی بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا ۔……اس کی تمام صفات ازلی و ابدی ہیں ۔……وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا وہ مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سر چشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبدا ء ہے تمام فیضوں کا ،مرجع ہے ہر اک شئے کا ،مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سےاور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے ۔……وہ راست بازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا ہے اور اپنی قدرتیں ان کو دکھلاتا ہے اس سے وہ شاخت کیاجاتا ہے ۔’’ (ایضاً صفحہ310)
پھر آگے آپ بیان فرماتے ہیں کہ فیضان نبوت اب صرف نبوت محمدیہ کے طفیل ہی مل سکتی ہے اور حاشیہ میںآپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ تشریعی نبوت کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے ،بلکہ اس کاعمل قیامت تک ہے ۔
ہاں البتہ امتی نبی آسکتا ہے آپ نے سورۃ فاتحہ کی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ کس طرح آپ علیہ السلام امت محمدیہ کے فیضان نبوت سے منور کیے گئے ہیں اور اس بات کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمایا کہ وہ نبی بھی ہے اور امتی بھی۔ (ایضاً صفحہ 312)
حضور علیہ السلام نے وفات مسیح کی دلیل کے طور پہ سورۃالمائدہ کی آیت118 کی پر معارف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘پس اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ وہ آسمان پر مع جسم عنصری نہیں گئے بلکہ مر گئے’’۔ (ایضاً صفحہ313)۔
ان کو زندہ گمان کرنا ایک اجتہادی غلطی تھی ۔
آپ نے اپریل 1905ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایک مدت پہلے اس کی خبر دے رکھی تھی ۔پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والاہے۔ جیسا کہ وحی الٰہی کے الفاظ یہ ہیں ‘‘پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔’’ (ایضاً صفحہ 314)
آگے مزید قیامت خیز زلزلوں کی خبر اور ان کا وقت بھی بتایا اور اس بارے میں چھ اور مختلف الہامات بھی بیان فرمائے۔ جو انہی زلزلوں کی بابت تھے ۔آپ نے یہ بھی بیان کیا کہ یہ خدا کا امر ہے جو اس وقت تک رُکا رہے گا جب تک کہ تمام قوموں تک میری یہ پیش گوئیاں نہ پہنچ جائیں ۔آپ نے فرمایا یہ سب باتیں میں خوفزدہ کرنے کے لیے بیان نہیں کر رہا بلکہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ لوگ توبہ کریں تاکہ عذاب سے بچائے جائیں۔
آپ اپنی وفات سے متعلق رؤیا کا ذکر کرتےہوئے فرماتے ہیں ‘‘مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اسکی تمام مٹی چاندی کی تھی تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے ۔ایک اور جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا ۔اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں ۔’’ (ایضاً صفحہ 316)
اس غرض سے آپ نے اپنی ذاتی زمین جو اس وقت لگ بھگ ایک ہزار روپے کی مالیت کی تھی اس کام کے لیے تجویز کی اور ساتھ میں دعا کی کہ ‘‘خدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی۔اور خدا کے لیے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفا داری اور صدق کا نمونہ دکھلایا ۔’’ (ایضاً صفحہ 316)
اس دعا کوآپ نے تین بار مختلف الفاظ میں تحریرفرمایا۔ پھر فرمایا ‘‘ہرایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں’’۔ (ایضاً صفحہ 318)
اس کے لیے آپ نے تین شرائط بیان فرمائیں۔ اوّل بہشتی مقبرہ کی زمین کے اخراجات کے لیے چندہ۔ دوم وصیت کرے کہ ترکے کا دسواں حصہ اشاعت دین کے لیے وقف کردے گا ۔اور تیسری شرط کہ اس قبرستان مین دفن ہونے والا متقی اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک وبدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو ۔ تاہم ہر ایک صالح جس کی کوئی جائیداد بھی نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیںکر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لیے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس میں دفن ہوسکتا ہے ۔ (ماخوذصفحہ 320)
چند انتظامی امور بیان فرمانے کے بعد کتاب کے آخری صفحات میں آپ علیہ السلام کا منظوم فارسی کلام درج ہے ۔
رسالہ کے آخری صفحات میں 29جنوری 1906ء کو تشکیل پانے والی پہلی صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس اور طے پاجانے والے معاملات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان بابرکت تحریرات کا بغور مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے دل اور سینے اس نور سے منور ہو جائیں کہ جس کے سامنے دجال کی تمام تاریکیاں کافور ہوجائیں۔ آمین ثم آمین۔