توضیحِ مرام
روحانی خزائن کی جلد 3 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی وفاتِ مسیح ؑپر ناقابلِ تردید دلائل اور دعویٰ مسیحیت کی حامل پُرمعارف اور شُہرہ آفاق کتب فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام پر مشتمل ہے۔حضرت اقدسؑ نے 1890ء کے آخر میں فتح اسلام تالیف فرمائی جو 1891 ء کے آغاز میں شائع ہوئی۔ اس میں آپؑ نے اعلان فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح میں ہوں اور میں صلیب کے توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اور یہ دعویٰ مفصّل اور مدلّل طور پر سمجھانے کے لیے آپؑ نے رسالہ توضیح مرام رقم فرمایا۔ 1891ء میں جبکہ آپؑ لدھیانہ میں مقیم تھے ازالہ اوہام کا مسودہ تیار فرمایا۔ اس میں آپ نے قرآن مجید اور احادیثِ صحیحہ سے مسئلہ وفات مسیح پر سیر حاصل بحث فرمائی ۔توضیح مرام ان کتب کی سیریز میں دوسرے نمبر پر آتی ہے ۔ اس کے 51 صفحات ہیں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے عیسائیت اپنے پورے زور کے ساتھ ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی اور ہندوستان بھر میں عیسائیوں کے مضبوط تبلیغی مشنز قائم تھے ۔ کروڑوں کی تعداد میں کتب ، پمفلٹ اور اشتہارات مفت تقسیم کیے جارہے تھے۔ انگریزی حکومت کے اعلیٰ ارکان بھی تبلیغ عیسائیت کے پشت پناہ بن گئے تھے۔ اس ترقی کی رفتار کو دیکھ کر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب چند سالوں میں سارا ہندوستان ہی عیسائیت کی آغوش میں آگرے گا۔حکومت کی سرکردہ شخصیات میں یہ خام خیالی بھی تھی کہ اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ انگریز خیال کرتے تھے کہ سلطنت کے استحکام کے لیے ہندوستان میں عیسائیت کا پھیلانا ضروری ہے ۔ پادریوں کے پاس مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے سب سے بڑا حربہ یہ تھا کہ یسوع مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور وہی ہے جو دنیا کی رُستگاری اور نجات کے لیے آخری زمانہ میں جلالی شان کے ساتھ نازل ہوگا۔ اور تمام انبیاء بشمول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وفات پاچکے ہیں اور وہ کسی کی مدد نہیں کرسکتے ۔ اس لیے زندہ کو چھوڑ کر ان کے پیچھے لگنا عقل مندی نہیں ہے ۔
ہندوستان میں اُس زمانہ میں اسلام کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ملتِ اسلامیہ کے حال پر رحم فرمایا اور اِس زمانے کے امام حضرت مسیح موعودؑ کو عیسائیت کے مقابل کھڑا کرکے ان کے من گھڑت عقائد و دلائل اور صلیب کو توڑنے کے سامان مہیا فرمائے۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو مسیح ابن مریم کے فوت ہونے اور آپ ؑ کو اس کے رنگ میں ہوکریعنی اس کا مثیل بن کر وعدے کے موافق دنیا کی ہدایت کے لیے آنے اوراسلام کی اشاعت کرنے کی خبر بذریعہ الہام منکشف فرمائی۔چنانچہ حضورؑ نے رسالہ فتح اسلام میں اعلان فرمایا ‘‘مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کردیا جائے ۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ ’’
( فتح اسلام صفحہ 11 حاشیہ)
حضرت مسیح موعود ؑ نے انقلاب انگیز اور دُور رس نتائج کی حامل تصنیف فتح اسلام شائع فرماکے مسلمانوں اور عیسائیوں کے عقائد کا بطلان کردیا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم اس جسم عنصری سے آسمان پر اٹھائے گئے اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اتریں گے۔چونکہ عقائد کا ردّکرنے اور دعویٰ مسیحیت فرمانےکی وجہ سے بہت سی قلمیں مخالفت میں اٹھنے کا ڈر تھا چنانچہ اس سے پہلے ہی حضور ؑ نے یہ دعویٰ تفصیل اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کے لیے کتاب توضیح مرام رقم فرمائی ۔حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر نے یہ دونوں رسالے یعنی فتح اسلام اور توضیح مرام باوجود عیسائی حکومت کی مخالفت اور گرفتاری کے خدشات کے بڑی عقیدت مندی کے ساتھ اپنے مطبع ریاض ہند امرتسرمیں چھاپے اور قادیان پہنچادیے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 385)
فتح اسلام اور توضیح مرام دونوں کتب کے منظر عام پر آنے کی دیر تھی کہ حضرت اقدسؑ کے خلاف مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔مولوی محمد حسین بٹالوی غصہ سے آگ بگولا ہوگئے۔ حضرت اقدسؑ نے دونوں کتب انہیں بھجوائیں اورلکھا کہ ‘‘مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔’’لیکن مولوی صاحب نے اپنے دلی بغض کا برملا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ‘‘اشاعۃ السنہ کا فرض اور اس کے ذمہ یہ ایک قرض تھا کہ اس نے جیسا اس کو (یعنی حضرت اقدس ؑکو)دعاوی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے اس کو زمین پر گرادے۔’’
(تاریخ احمد یت جلد1 صفحہ 386)
بہرحال توضیح مرام کے شائع ہونے کے بعد جس میں دعویٰ مسیحیت اور وفات مسیح کو عقلی و نقلی دلائل سے واضح کیا گیا تھا ملک بھر میں ایک انقلاب کی فضا نے جنم لیا اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی ہر میدان میں تائید و نصرت فرمائی اور مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی۔
توضیح مرام کے چیدہ چیدہ علمی نکات حضورؑ ہی کےمبارک الفاظ میں یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
عیسائیوں اور مسلمانوں کے عقیدے میں یہ داخل ہے کہ جو بہشت میں داخل ہوگا وہ اس میں سے نکالا نہیں جائے گا، تو پھر حضرت مسیح کو کیسے بہشت سے نکالا جائے گا؟ اس حوالہ سے حضورؑ فرماتے ہیں: ‘‘ اب مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں گروہ پر واجب ہے کہ اس امر کو غور سے جانچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مسیح جیسا مقرب بندہ بہشت میں داخل کرکے پھر اُس کو باہر نکال دیا جائے؟ کیا اس میں خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کا تخلف نہیں جو اس کی تمام پاک کتابوں میں بتواتر و تصریح موجود ہے کہ بہشت میں داخل ہونیوالے پھر اس سے نکالے نہیں جائیں گے؟’’
مزید فرماتے ہیں ‘‘ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ یہی معجزہ کفار مکہ نے ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تھا کہ آسمان پر ہمارے رُوبرو چڑھیں اور رُوبرو ہی اُتریں اور اُنہیں جواب ملا تھا کہ قُل سُبحَانَ رَبِی ۔(بنی اسرائیل : 94)یعنی خدا تعالیٰ کی حکیمانہ شان اس سے پاک ہے کہ ایسے کھلے کھلے خوارق اس دارالابتلا میں دکھاوے اور ایمان بالغیب کی حکمت کو تلف کرے۔ …اب میں کہتا ہوں کہ جو امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو افضل الانبیاء تھے جائز نہیں اور سنت اللہ سے باہر سمجھا گیا وہ حضرت مسیح کے لیے کیونکر جائز ہوسکتا ہے ؟یہ کمال بے ادبی ہوگی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک کمال کو مستبعد خیال کریں اور پھر وہی کمال حضرت مسیح کی نسبت قرین قیاس مان لیں ۔ کیا کسی سچے مسلمان سے ایسی گستاخی ہوسکتی ہے؟ہرگز نہیں۔’’
( صفحہ 7۔8)
حضرت مسیح جسم عنصری کے ساتھ نہیں اُتریں گے بلکہ وہ انہی میں سے ایک ہوگا جو ان کا امام ہوگا۔ حضرت اقدسؑ نےاس نکتہ کو بہت پُرحکمت انداز میں یوں بیان فرمایا کہ: ‘‘ نہایت صاف اور واضح حدیث نبوی وہ ہے جو امام محمد اسمٰعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لکھی ہے اور وہ یہ ہے کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم یعنی اس دن تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں اُترے گا ۔ وہ کون ہے؟ وہ تمہارا ہی ایک امام ہوگا جو تم ہی میں سے پیدا ہوگا ۔پس اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمادیا کہ ابن مریم سے یہ مت خیال کرو کہ سچ مچ مسیح بن مریم ہی اُتر آئیگا۔ بلکہ یہ نام استعارے کے طور پر بیان کیا گیا ہے ورنہ درحقیقت وہ تم میں سے تمہاری ہی قوم سے تمہارا ایک امام ہوگا جو ابن مریم کی سیرت پر پیدا کیا جائے گا۔ ’’
( صفحہ 8)
مسیح اول اور مسیح ثانی کی شخصیات میں امتیاز اور ان کے حلیہ میں فرق کے حوالے سے حضورؑ فرماتے ہیں: ‘‘ اب ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہادی اور سیّد مولیٰ جناب ختم المرسلین نے مسیح اول اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لیے صرف یہی نہیں فرمایا کہ مسیح ثانی ایک مرد مسلمان ہوگا اور شریعت قرآنی کے موافق عمل کرے گا اور مسلمانوں کی طرح صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام فرقانی کا پابند ہوگا اور مسلمانوں میں پیدا ہوگا اور اُن کا امام ہوگا اور کوئی جداگانہ دین نہ لائے گا اور کسی جُداگانہ نبوت کا دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ یہ بھی ظاہر فرمایا ہے کہ مسیح اول اور مسیح ثانی کے حُلیہ میں بھی فرق بیّن ہوگا۔چنانچہ مسیح اول کا حُلیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات میں نظر آیا وہ یہ ہےکہ درمیانہ قد اور سرخ رنگ اور گھنگھروالےبال اور سینہ کشادہ ہے (دیکھو صحیح بخاری صفحہ 489) لیکن اسی کتاب میں مسیح ثانی کا حُلیہ جناب ممدوح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ گندم گوں ہے اور اس کےبال گھنگھروالے نہیں ہیں اور کانوں تک لٹکتے ہیں ۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ دونون ممیز علامتیں جو مسیح اول اور ثانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں کافی طور پر یقین نہیں دلاتیں کہ مسیح اول اَور ہے اور مسیح ثانی اَور۔ان دونوں کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے جو باعتبار مشابہت طبع اور روحانی خاصیت کے استعمال کیا گیا ہے۔’’
(صفحہ 10۔11)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام اور برتر مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘اگر اس جگہ یہ استفسار ہو کہ اگر یہ درجہ اس عاجز اور مسیح کے لیےمسلم ہے تو پھر جناب سید نا و مولانا سید الکل افضل الرسل خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کونسا درجہ باقی ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقا م اور برتر مرتبہ ہے جو اُسی ذات کامل الصفات پر ختم ہوگیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کاکام نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے ۔ ’’
(صفحہ 14)
حضرت اقدس ؑ نے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں اپنی پُر معارف اور پُر اثر آٹھ اشعار پر مشتمل فارسی نظم شامل فرمائی ہے ، اس نظم کے چند اشعار کا ترجمہ ہدیہ قارئین ہے:
احمؐد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے ۔ وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہوگیا کہ میم درمیان سے گر گیا۔
وہ اپنے معشوق میں اس طرح محو ہوگیا کہ کمال اتحاد کی وجہ سے اس کی صورت بالکل ربِّ رحیم کی صورت بن گئی۔
محبوبِ حقیقی کی خوشبو اس کے چہرہ سے آرہی ہے اس کی حقانی ذات خدائے قدیم کی ذات کا مظہر ہے ۔
خواہ کوئی مجھے الحاد اور گمراہی سے ہی منسوب کرے۔ مگر میں تو احمد ؐ کے دل جیسا اور کوئی عظیم الشان عرش نہیں دیکھتا۔
محمد ؐ کے عشق کی راہ میں میرا سر اور تن قربان ہوں ۔ یہی میری خواہش ہے یہی میری دعا ہے اور یہی میرا دلی ارادہ ہے۔
انسان کے تمام مخلوقات سے افضل ہونے کے بارے میں حضورؑ فرماتے ہیں: ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (التین : 5) یعنی انسان کو ہم نے نہایت درجہ کے اعتدال پر پیدا کیا ہے اور وہ اس صفت اعتدال میں تمام مخلوقات سے احسن و افضل ہے ۔ ’’
(صفحہ 27)
حضور ؑ نے اس کتاب میں ملائکہ کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا ہے ۔ملائکہ کے معنے، ان کے کام، پرانی کتب میں ملائکہ کا ذکر، قرآن کریم میں بیان کیا گیا فرشتوں کا حال قابل تسلیم ہے، فرشتوں کے واسطہ ہونے کی نسبت قرآن اور وید کے بیان میں فرق ، ملائکہ کے خواص کا خواص ِبشرسے مقابلہ ، ان کے مختلف درجات اور روحانی تاثیرات وغیرہ جیسے اہم امور سیر حاصل طریق پر بیان فرمائے ہیں۔ایک جگہ فرماتے ہیں: ‘‘ قرآن شریف نے جس طرز سے ملائک کا حال بیان کیا ہے وہ نہایت سیدھی اور قریب قیاس راہ ہے اور بجُز اس کے ماننے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا۔“
( صفحہ 22)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہونے اور ملہم تک پہنچنے کی تفصیل حضورؑ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ‘‘جب باری تعالیٰ کا ارادہ اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اپنا کلام اپنے کسی ملہم کے دل تک پہنچا دے تو اُس کی اس متکلمانہ حرکت سے معاً جبریلی نور میں القا کے لیے ایک روشنی کی موج یا ہوا کی موج یا ملہم کی تحریک لسان کے لیے ایک حرارت سے بلا توقف وہ کلام ملہم کی آنکھوں کے سامنے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے یا کانوں تک اس کی آواز پہنچتی ہے یا زبان پر وہ الہامی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور روحانی حواس اور روحانی روشنی جو قبل از الہام ایک قوت کی طرح ملتی ہے ۔ یہ دونوں قوتیں اس لیے عطاکی جاتی ہیں کہ تا قبل از نزول الہام ۔ الہام کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے۔ کیونکہ اگر الہام ایسی حالت میں نازل کیا جاتا کہ ملہم کا دل حواس روحانی سے محروم ہوتا یا روح القدس کی روشنی دل کی آنکھ کو پہنچی نہ ہوتی تو وہ الہام الہیٰ کو کن آنکھوں کی پاک روشنی سے دیکھ سکتا۔ سو اسی ضرورت کی وجہ سے یہ دونوں پہلے ہی سے ملہمین کو عطا کی گئیں ۔ ’’
(صفحہ 45)
حضرت اقدس ؑ وحی کے متعلق جبریل کے کاموں کا اس طرح ذکر فرماتے ہیں: ‘‘جبریل کے تین کام ہیں۔ اول یہ کہ جب رحم میں ایسے شخص کے وجود کے لیے نطفہ پڑتا جس کی فطرت کو اللہ جلشانہ اپنی رحمانیت کے تقاضا سے جس میں انسان کے عمل کو کچھ دخل نہیں ملہمانہ فطرت بنانا چاہتا ہے تو اُس پر اُسی نطفہ ہونے کی حالت میں جبریلی نور کا سایہ ڈال دیتا ہے تب ایسے شخص کی فطرت منجانب اللہ الہامی خاصیت پیدا کر لیتی ہے اور الہامی حواس اُس کو مل جاتے ۔
پھر دوسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب بندہ کی محبت خداتعالیٰ کی محبت کے زیر سایہ آپڑتی ہے تو خدا تعالیٰ کی مربیانہ حرکت کی وجہ سے جبریلی نور میں بھی ایک حرکت پیدا ہوکر محب صادق کے دل پر وہ نور جا پڑتا ہے یعنے اُس نور کا عکس محب صادق کے دل پر پڑکر ایک عکسی تصویر جبریل کی اُس میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو ایک روشنی یا ہوا یا گرمی کا کام دیتی ہے اور بطور ملکہ الہامیہ کے ملہم کے اندر رہتی ہے۔ …
تیسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب خدایتعالیٰ کی طرف سے کسی کلام کا ظہور ہو تو ہوا کی طرح موج میں آکر اُس کلام کو دل کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے یا روشنی کے پیرایہ میں افروختہ ہوکر اُس کو نظر کے سامنے کر دیتا ہے ۔ یا حرارت محرکہ کے پیرایہ میں تیزی پیدا کرکے زبان کو الہامی الفاظ کی طرف چلا جاتا ہے۔’’
(صفحہ45۔46)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُ س دور کے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے توضیح مرام کے آخرمیں بعنوان اطلاع بخدمت علمائےاسلام فرماتے ہیں: ‘‘ جو کچھ اس عاجز نے مثیل مسیح کے بارے میں لکھا ہے یہ مضمون متفرق طور پر تین رسالوں میں درج ہے یعنے فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں۔ پس مناسب ہے کہ جب تک کوئی صاحب اِن تینوں رسالوں کو غور سے نہ دیکھ لیں تب تک کسی مخالفانہ رائے ظاہر کرنے کے لیے جلدی نہ کریں ۔ ’’
(صفحہ 52)