سیرت النبی ﷺ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری

(باسل احمد بشارت)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

مذہبی رواداری یہ ہے کہ اختلاف مذہب و رائے کے باوجوددوسروںکےلیےبرداشت کا نمونہ دکھانا، ان کے مذہبی عقائدو اقدار کالحاظ رکھنا، تحقیر کارویہ اختیار نہ کرنا اور نہ ہی ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا۔اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اعلیٰ انسانی برتاؤکامفہوم بھی مذہبی رواداری میں شامل ہے۔

دیگر مذاہب میں مذہبی رواداری کا تصور اسلام کےبالمقابل تقریباً ناپید ہے۔چنانچہ بائبل میں استثناء باب7آیات1تا6میں اس بات کا ذکر ملتاہے کہ جب یہود کسی قوم پر فتح حاصل کریں تو مفتوح قوم کوبالکل نابودکردیں، اُن کے ساتھ کوئی عہد نہ کریں اورنہ ہی اُن پررحم کریں۔اسی طرح اُن سے رشتہ کرنے کی ممانعت ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو ڈھا دینے کاحکم ہے۔

اس کے با لمقابل اسلام رواداری ،امن اور احترام انسانیت کامذہب ہے۔اسلامی شریعت کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق رنگ و نسل،مذہب و ملّت انسانی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق میں یکساں حیثیت کا حامل ہے۔

اسلامی ریاست کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں ،بلاتفریق عقیدہ اپنے مذہبی معاملات میں مکمل طورپر آزاد ہیں اوران کےمذہبی معاملات کے بارہ میں ان پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں۔

بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة :257)کہ دىن مىں کوئى جبر نہىں۔

اسی طرح فرمایا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ (الكهف:30)

اور کہہ دے کہ حق وہى ہے جو تمہارے ربّ کى طرف سے ہو پس جو چاہے وہ اىمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔

پھرقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرکے تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ؕ أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُونُوْا مُؤْمِنِينَ (يونس :100)

اور اگر تىرا ربّ چاہتا تو جو بھى زمىن مىں بستے ہىں اکٹھے سب کے سب اىمان لے آتے تو کىا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے حتىٰ کہ وہ اىمان لانے والے ہو جائىں۔

پس اسلام اور بانیٔ اسلام نے مذہبی جبر و استبداد کی بکلّی نفی فرمائی اور مذہبی آزادی و رواداری اورحریّت ضمیر کا عَلَم بلند فرمایا اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کیا کہ ہر شخص اپنے دین و مذہب کے معاملہ میں مکمل آزاد ہے۔آپﷺ نےاسلامی شریعت کے مطابق ظلم و زیادتی کے بدلہ میں عفو کو ترجیح دینے اور عدل و انصاف کے قیام میں دشمنی بارِ خاطر میں نہ لانے کی تعلیم فرمائی۔(سورۃ المائدۃ:3تا9)پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے ذریعہ مشرکوں کو امن سے رہنے کا حق بھی دیا (سورۃالتوبۃ:6)اور غیر مذاہب کے لوگوں میں موجود خوبیوں کوتسلیم کیا۔(سورۃ آل عمران:آیت76اور 114)

رسول اللہﷺ نے بانیان مذاہب کا احترام کرنے اور دوسرے مذہب کی قابل احترام ہستیوں کو برا بھلا نہ کہنے کی تلقین فرمائی۔

(الانعام:109)

بانیٔ اسلامﷺ نے خود بھی اس تعلیم پر عمل کرکے نمونہ دیا۔آپ ؐمذہبی رواداری کا بے حدخیال رکھتے تھے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے۔ ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی۔ مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم ! جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی۔اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ کو تمام جہانوںپر فضیلت دی ہے اور چن لیا۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی شکایت لےکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمایا: لَا تُخَیِّرُ وْنِیْ عَلٰی مُوْسٰیکہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔

(بخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مذکورہ بالا روایت بیان کرکے فرماتے ہیں کہ

‘‘يہ تھا آپﷺ کا معيار آزادی، آزادی مذہب اور ضمیر،کہ اپنی حکومت ہے،مدينہ ہجرت کے بعد آپؐ نے مدينہ کے قبائل اور يہوديوں سے امن وامان کی فضا قائم رکھنے کےلیے ايک معاہدہ کيا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثريت ہونے کي وجہ سے يا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے، وہ مسلمان نہيں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے ہاتھ ميں تھی۔ ليکن اس حکومت کا يہ مطلب نہيں تھا کہ دوسری رعايا، رعايا کے دوسرے لوگوں کے، ان کے جذبات کا خيال نہ رکھا جائے۔قرآن کريم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہيں، آپؐ نے يہ گوارا نہ کيا کہ انبياء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کيا جائے۔آپؐ نے اس يہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائيوں ميں انبياءکو نہ لايا کرو۔ ٹھيک ہے تمہارے نزديک مَيں تمام رسولوں سے افضل ہوں۔اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے ليکن ہماری حکومت ميں ايک شخص کی دلآزاری اس لیے نہيں ہونی چاہیے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے۔اس کی مَيں اجازت نہيں دے سکتا۔ميرا احترام کرنے کےلیے تمہيں دوسرے انبياء کا بھی احترام کرنا ہو گا۔
تو يہ تھے آپؐ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معيار جو اپنوں غيروں سب کا خيال رکھنے کے لیے آپؐ نے قائم فرمائے تھے۔ بلکہ بعض اوقات غيروں کے جذبات کا زيادہ خيال رکھا جاتا تھا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍مارچ2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍مارچ2006ءصفحہ7)

آپﷺ نے اپنے بابرکت دَور میں مذہبی منافرت کا بکلی خاتمہ کردیااوراس بنا پرجارحانہ کارروائیوں سے منع فرمایا۔

چنانچہ سورة البقرة میں ہے کہ

وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ(البقرة :191)

اور اللہ کى راہ مىں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہىں اور زىادتى نہ کرو ىقىناً اللہ زىادتى کرنے والوں کو پسند نہىں کرتا ۔

اورجن لوگوں نے لڑائی کی طرح نہیں ڈالی ان سے احسان کا سلوک کرنے کا فرمایا:

لَا يَنْهَاكُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوۡۤا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ(المُمْتَحِنَة:9)

اللہ تمہىں ان سے منع نہىں کرتا جنہوں نے تم سے دىن کے معاملہ مىں قتال نہىں کىا اور نہ تمہىں بے وطن کىا کہ تم اُن سے نىکى کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پىش آؤ ىقىناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے ۔

مشرکوں سے مذہبی رواداری

چنانچہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی (مشرک )والدہ اُداس ہوکرانہیں ملنے مدینہ آئیں۔ اسماءؓنے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ کیا مجھے ان کی خدمت کرنے اور ان سے حسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں اسی بارے میں یہ آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارہ میں جنگ نہیں کی۔

(بخاری کتاب الادب۔بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ از حافظ مظفر احمد صفحہ505)

رسول اللہﷺ نے مذہبی رواداری کا کمال مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم غیر مسلم کی تفریق کو مٹادیابلکہ مسلمانوں کی نسبت غیر مسلموں سے زیادہ نرمی کا برتاؤ کیا۔چنانچہ مسلمانوں کے زکوٰة اور عشر کی بجائے غیر مسلموں پر صرف جزیہ کا معمولی ٹیکس عائد فرمایا۔اسی طرح غلاموں کی آزادی کی تعلیم دے کر اس کا عملی مظاہرہ غزوۂ حنین کے موقع پر ہزاروں غیرمسلم غلاموں کو آزاد کر کےدکھایا۔

ہمارے نبیﷺ نے جہاں مذہبی رواداری کی تعلیم دی وہاں اپنے مذہب اسلام کا خلاصہ حجة الوداع کے موقع پر بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ‘‘

(مسند احمد جز39صفحہ381)

کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے؟ مومن وہ ہے جس سے لوگوں کا مال اور جان امن میں رہیں اورمسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

آنحضرتﷺ کی ساری زندگی اس پاکیزہ تعلیم کا خوبصورت نمونہ تھی۔آپؐ کو اپنی زندگی میں مختلف مذاہب سے واسطہ پڑا جن میں مشرکین مکہ،یہود مدینہ اور نصاریٰ نجران وغیرہ شامل ہیں مگر آپؐ نے ان سب کے ساتھ ہمیشہ ہی اعلیٰ انسانی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے اخلاق کے بہترین نمونے دکھلائے۔

رسول اللہﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد مکہ میں شدید قحط پڑ گیا۔آنحضرتﷺ نےان کی درخواست پر نہ صرف ان کے لیے دعا فرمائی بلکہ ان کی مدد کے لیے متاثرین کے لیے کچھ رقم بھی بھجوائی اور آپؐ کی دعا کے نتیجہ میں بارشیں ہوئیں اور قحط دور ہوگیا۔

(المبسوط للسرخسیجلد10صفحہ92بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)

اس موقع پر جب ایک مسلمان سردار نے مکہ کے مشرکوں کو غلہ بھیجنا بند کر دیا تو آنحضرتﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ مشرکین قریش کا غلہ نہ روکا جائے اور ان کے پاس جانے دیا جائے۔

(السیرۃالحلبیہجلد3صفحہ175)

اسی طرح رسول اللہﷺ کی مشرکوں کے ساتھ رواداری کی کئی مثالیں ہیں۔ایک دفعہ طائف کے مشرکوں کا وفد آیا توآپﷺ نے انہیں مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا۔صحابہؓ نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم کے مطابق مشرک تو ناپاک ہیں۔حضورﷺ نے فرمایا کہ ان کی ناپاکی کا تعلق دل سے ہے نہ کہ جسموں کی ظاہری گندگی سے۔(احکام القرآن للجصاص جز 3صفحہ109بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)اور اس پلیدی کو حسن اخلاق اور نیک سلوک سے دور کیا جا سکتا ہے۔یہ تو رسول اللہﷺ کے مشرکوں سے حسن سلوک کے نظارے تھے۔

یہود مدینہ کے ساتھ مذہبی رواداری

رسول اللہﷺ کی مذہبی رواداری کی ایک اوراعلیٰ مثال میثاق مدینہ ہے۔مدینہ تشریف آوری پرآپؐ نے یہود مدینہ کے ساتھ معاہدۂ امن قائم کیا جس کی رُو سے مسلمان اور یہودی ایک قوم قرار دیے گئے۔اوریہود کو مدینہ میں مکمل مذہبی آزادی دی اور ان کے فیصلے ان کی شریعت کے مطابق ہی آپؐ فرمایا کرتے۔رسول اللہﷺ نےیہود کے تعلیمی ادارہ بیت مدراس میں تشریف لے جاکرخطاب بھی فرمایا۔اسی طرح یہودمدینہ مسجد نبویؐ میں سوالات کرکے آپﷺ سےان کے جوابات پایاکرتے تھے۔اسی طرح آپؐ یہودیوں کی دعوت طعام کو بھی قبول فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس میں اس نے جوَ اور چربی پیش کیے۔

(طبقات الکبریٰ لابن سعدجلد1صفحہ407-370بحوالہ ا سوہ انسان کاملؐ)

یہودی نبی کریم ؐ کی مجالس میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان سے حسن معاملہ فرماتے تھے ۔چنانچہ کسی یہودی کو حضورؐ کی مجلس میں چھینک آجاتی تو آپؐ اسے یہ دعا دیتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال اچھا کردے۔

(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانیصفحہ167مطبوعہ بیروت بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)

یہودیوں میں سے کسی کے بیمار ہونے کی اطلاع ملتی تو اس کی تیمارداری کے لیے جاتے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ میں ایک یہودی گھریلو خادم کی بیماری میں اس کے گھر خود تشریف لے جاکر عیادت فرمائی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3صفحہ175)

آپؐ غیر مذاہب کے مرحومین کا بھی احترام فرماتےاور انسانی اقدار وشرف کوقائم فرمایا۔حضرت عبدالرحمٰن بن ابی ليلی بيان کرتے ہيں کہ سہل بن حنيف اور قيس بن سعد قادسيہ کے مقام پر بيٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ايک جنازہ گزراتو وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔جب ان کو بتايا گيا کہ يہ ذمّيوں ميں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ايک دفعہ نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس سے ايک جنازہ گزرا تو آپؐ احتراماً کھڑے ہو گئےآپؐ کو بتايا گيا کہ يہ تو ايک يہودی کا جنازہ ہے۔اس پر رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ اَلَيْسَتْ نَفْسًا کيا وہ انسان نہيں ہے؟

(بخاري کتاب الجنائز باب من قام لجنازة يہودی)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍ مارچ 2006ءمیں مذکورہ بالاواقعہ بیان کرنےکےبعد فرمایا:

‘‘پس يہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانيت کا بھی۔يہ اظہار اور يہ نمونے ہيں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پيدا ہوتی ہے۔يہ اظہار ہی ہيں جن سے ايک دوسرے کے لیے نرم جذبات پيدا ہوتے ہيں اور يہ جذبات ہی ہيں جن سے پيار، محبت اور امن کی فضا پيدا ہوتی ہےنہ کہ آج کل کے دنياداروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پيدا کرنے کے اور کچھ نہيں۔

پھر ايک روايت ميں آتا ہے فتح خيبر کے دوران تورات کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے۔يہودی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہميں واپس کی جائے اور رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم نے صحابہ کو حکم ديا کہ يہود کی مذہبی کتابيں ان کو واپس کر دو۔’’

(السيرة الحلبية باب ذکر مغازيہ، ذکر غزوہ خيبرجلد 3صفحہ49)
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍مارچ2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍ مارچ 2006ءصفحہ7)

ان سب باتوں سے یہ بات عیاں ہے کہ رسول اللہﷺ نے مذہبی رواداری کو بھرپور فروغ دیا اوراسی کی اپنے متبعین کو قولاًو عملاًتلقین فرمائی۔

فتح خیبر کے موقع پر رواداری کی مثال

فتح خیبر کے موقع پر بھی رسول کریمؐ نے رواداری کاقیام فرمایا۔چنانچہ اس موقع پرآپﷺ کے حضوریہود شکایت لےکر آئے کہ مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل توڑے ہیں۔ نبی کریمؐ نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیراجازت کسی کے گھر گھس جاؤاور پھل وغیرہ توڑو۔

(ابوداؤد کتاب الجہادبحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)

جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ رسول اللہﷺ ہرمذہب و ملت کی دعوت کو قبول فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ فتح خیبر کے موقع پرایک یہودیہ کی طرف سے دعوتِ طعام میں رسول کریمؐ کی خدمت میں بھُنی ہوئی بکری پیش کی گئی جس میں زہر ملایا گیا تھا۔حضورؐ نے منہ میں لقمہ ڈالا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اُگل دیا۔پھر آپؐ نے یہود کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں ایک بات پوچھوں گا کیا سچ سچ بتاؤ گے؟انہوں نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟انہوں نے کہا ہاں۔آپؐ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا، ہم نے سوچا اگر آپؐ جھوٹے ہیں تو آپؐ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ کو یہ زہر کچھ نقصان نہ دے گا۔

(بخاری کتاب الجہاد بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)

عیسائیوں کے ساتھ مذہبی رواداری

رسول اللہﷺنے مشرکوں،یہودیوںکےعلاوہ عیسائیوں کے ساتھ بھی مذہبی رواداری قائم کرتے ہوئے ان سےحسن سلوک فرمایا۔چنانچہ جب نجران کے عیسائی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مذہبی بحث کے دوران بات مباہلہ تک جاپہنچی تو پھر بھی ان کی عبادت کے وقت رسول اللہﷺ نےمسجد نبویؐ میں ہی انہیں عبادت کی اجازت عنایت فرمائی۔

(طبقات ابن سعد جز1صفحہ357)

رسول اللہﷺ کی مذہبی رواداری کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

‘‘آپﷺ مذہبی رواداری پر نہايت زور ديتے تھے اور خود بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ اِس بارہ ميں دکھاتے تھے۔يمن کاايک عيسائی قبیلہ آپ سے مذہبی تبادلہ خيال کرنے کے لیے آياجس ميں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی تھےمسجد ميں بيٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہو گئی۔اِس پر اِس قافلہ کے پادری نے کہا اب ہماری نماز کا وقت ہے ہم باہر جا کر اپنی نماز ادا کر آئيں۔رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا باہر جانے کی کيا ضرورت ہے ہماری مسجد ميں ہی اپنی نماز ادا کر ليں۔آخر ہماری مسجد خدا کے ذکر ہی کے لیے بنائی گئی ہے۔’’

(دیباچہ تفسیر القرآن،انوارالعلوم جلد20صفحہ 422)

اسی طرح اہل نجران کے ساتھ معاہدہ میں رسول اللہﷺنےمذہبی رواداری کی بنیاد پر انہیں مکمل مذہبی آزادی کااختیار دیا۔اور معمولی حکومتی ٹیکس کے بدلہ میں ان کے جان و مال،عبادت گاہوں اور مذہبی عمارتوں کی حفاظت کا ذمہ لیا۔

آنحضورﷺکی مذہبی روا داری غیروں کی نظر میں

اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

‘‘قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں…محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اورتوحید پرست مذاہب کے ساتھ خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے۔آپ کفار کے مقابلہ میں صبراختیار کرتے تھے…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ کسی یہودی کو اس کے مذہب کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے۔ آپؐ کے خلفاء بھی اپنے سپہ سالاروں کو یہ تلقین کرتے تھے…’’

(اسلام پر نظرصفحہ14ترجمہ An Interpretation of Islam مترجم شیخ محمد احمد مظہر بحوالہ اسوہ انسان کاملؐ)

اسی طرح عیسائی قبیلہ تغلب ،اہل ایلہ ،شاہان حمیر،سینٹ کیتھرین کے راہبوں کورسول اللہﷺ نےامان نامے دے کر انہیں مکمل آزادی عطا فرمائی اور مذہبی رواداری کی نادر مثالیں قائم فرمائیں۔

الغرض بانیٔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت مذہبی رواداری کا ایسا سبق دیاہے، جس پرعمل کرنے سےفتنہ و فساد،ظلم اور جبرواستبدادکا قلع قمع ہوسکتا ہے۔آپﷺ نے مذہبی رواداری کے جو نمونے دنیا کو عطا فرمائے وہ کوئی بھی نہیں دے سکتا۔یہ آپﷺ کا ہی خاصہ تھا اور آپ کا ہی کمال تھا۔جس کا غیروں نے برملا اعتراف کیا۔ایک شاعر رگھوپتی سہائے لکھتے ہیں کہ

معلوم ہے تم کو کچھ محمدؐ کا مقام

وہ امت اسلام میں محدود نہیں ہے

رسول اللہﷺ نے صرف امت مسلمہ پر ہی احسانات نہیں فرمائے بلکہ غیر مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی مجسم احسان تھے۔آپ محسن کامل تھے اورغیر مذاہب کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کی اسلامی تعلیم سے آپﷺ سے عشق ایک طبعی امر ہے۔چنانچہ ایک سکھ شاعر کنور مہیندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں کہ

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں

حضرت مسیح موعود ؑفرماتےہیں:

‘‘پس جب کہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہوچکے تھے اور بدی کرکے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کاکام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے توخدا تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے کر اُن کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اِس لیے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسرکرتا تھا اور چونکہ اُن کے لیے کوئی سزا کا قانون نہ تھا اِس لیے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے پس خدا نے اس ملک پر رحم کرکے …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لیے نہ صرف رسول کرکے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کوایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی، فوجداری، مالی سب ہدایتیں ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپؐ سے فیصلہ کراتے تھے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اُس کے دعوے کی ڈگری کی۔ پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں۔

بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جُدا ہوتے تھے اور بادشاہ جُدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعہ سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب ہی کو عطاکیے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کرکے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ط فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا ج وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ( الجزو نمبر3 سورۃ آل عمران :21) ترجمہ: اور اے پیغمبر اہل کتاب اورعرب کے جاہلوں کوکہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کرلیں توہدایت پاگئے اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم اُن سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لیے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یاامن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھانہ بحیثیت رسالت۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ط إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَالجزو نمبر2سورۃ البقرہ:191(ترجمہ)تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔’’(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد 23صفحہ243-242)

نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال

وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لامحال

صفات جمال اور صفات جلال

ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

عَلَیْکَ الصَّلٰوةُ عَلَیْکَ السَّلَام

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button