تاریخ احمدیت

حضرت مولوی عبیداللہ صاحبؓ مبلغ ماریشس

میدان عمل میں وفات پاکر شہادت کا درجہ پانےوالے ہندوستان کے پہلے پیدائشی صحابی و مبلغ

خلافت ثانیہ کے دَور میں بیرون ہندوستان شہادت کا رتبہ پانے والے آپ پہلے فرد تھے

جماعت احمدیہ کے لیے دسمبر 1923ء کا پہلا ہفتہ خوشی اور غم کے مخلوط جذبات پیدا کرنے کا موجب تھا۔خوشی اس لیے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مبلغ انگلستان و امریکہ 4؍دسمبر1923ء کو کامیاب و کامران ہو کر وارد قادیان ہوئے اور غم اس لیے کہ 7؍دسمبر 1923ء کو حضرت مولوی حافظ عبیداللہ صاحبؓ مبلغ ماریشس کی شہادت کی المناک اطلاع ملی۔

(آپ کی ولادت 1892ء میں ہوئی۔ آپ پیدائشی صحابی تھے۔ آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسولؓ وزیر آبادی نے آپ کو بچپن میں ہی وقف کر دیا تھا۔)

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 410تا411)

خلافت ثانیہ کے دَور میں بیرون ہندوستان شہادت کا رتبہ پانے والے آپ پہلے فرد تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ کو آپ کی اس وفات کا بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ وفات کے چند دن بعد7؍دسمبر 1923ء کو خطبہ جمعہ کے دوران حضورؓ نے آپ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں اور پھر ایسے بہت کم ہیں جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں …مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھاجس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا۔ ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبداللطیف تھے یا دوسرے۔ کہ اس سے پہلے ان کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے۔مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے بلکہ ہندوستان سے باہر کے تھے۔ ہندوستان میں سے شہادت کا پہلا موقعہ عبیداللہ کو ملا۔ ہمیں اس کی موت پر فخر ہے تو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہو گئی۔‘‘

نیز حضور ؓنے فرمایا:

’’میں نے اَور خوبیوں کے علاوہ اس میں ایک خاص خوبی پائی تھی اور اس خوبی کو اس کی موت نے اَور زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ وہ یہ تھی کہ اس نے دین کے لئے زندگی وقف کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ نبھایا اور اخیر وقت تک کسی قسم کی شکایت یا تکلیف کے اظہار کا ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا…اس لمبے عرصے میں اس عزیز نے کبھی اپنے کسی خط میں کسی امر کی شکایت اشارۃً یا کنایۃً نہیں لکھی اور میں نے کبھی اس کے خط سے محسوس نہیں کیا تھا کہ اس کو کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے یا اس کو اپنے عزیز و اقارب یاد آتے ہیں۔‘‘

(الفضل 14؍دسمبر 1923ء صفحہ 9)

تاریخ احمدیت میں دار التبلیغ ماریشس کے قیام کے متعلق درج ہے کہ حضرت صوفی غلام محمدصاحبؓ نے ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان میں احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ روزہل سے پانچ میل کے فاصلہ پر سینٹ پیئری (St. Pierre) ہے جہاں معزز اور متمول بھنو خاندان آباد تھا۔ حضرت صوفی صاحب اس خاندان کی دعوت پر دوبارہ سینٹ پیئری تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر سے ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ ایک دن میں اس خاندان کے سب افراد بیعت میں داخل ہو گئے اس واقعہ سے جزیرہ بھر میں ایک شور عظیم برپا ہو گیا۔ اور روزہل کے کئی مسلمانوں نے بھی بیعت کر لی۔

بھنو خاندان نے خواہش ظاہر کی کہ قادیان سے ایک عالم خاص ان کے خاندان کی ضروریات کے لیے انہی کے اخراجات پر بلایا جائے۔ چنانچہ مرکز سے حضرت مولوی حافظ عبیداللہ صاحبؓ 14؍اکتوبر 1917ءکو روانہ ہوئے۔ اور مع اہل بیت کے ماریشس تشریف لے گئے اور بہت اخلاص اور جانفشانی سے نوجوانوں کو پڑھانے لگے۔روزانہ رات کو درس دیتے۔ ہفت روزہ اجلاس کرکے ان کو تقریر کی مشق کراتے ۔اس کے علاوہ عام تبلیغی کاموں میں حضرت صوفی صاحب کا ہاتھ بٹاتے۔ افسوس دسمبر 1923ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اور ان کو ماریشس ہی میں پائی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحبؓ عہد خلافت ثانیہ کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کرتے ہوئے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جام شہادت نوش فرمایا۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 170)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آپ کے بارے فرماتے ہیں :

’’اب میں ایسے شہداء کی فہرست پیش کرتا ہوں …جو واقفین زندگی تھے اور خدمت دین کے دوران میدان جہاد میں ان کی طبعی موت سے وفات ہوئی۔چونکہ واقف زندگی تھے اس لئے اس دوران جو طبعی موت سے وفات ہے وہ بھی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔

ان میں سر فہرست مولوی عبیداللہ صاحب ابن حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی ہیں۔ان کا وصال 7؍دسمبر1923ء کو ماریشس میں ہوا تھا اور چونکہ خدمت دین پر مامور تھے اور اس دوران وفات ہوئی اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو شہداء میں شامل کیا یعنی شہداء میں تو اللہ تعالیٰ نے شامل کیا تھا شہداء کی فہرست میں حضرت مصلح موعو د ؓنے ان کا ذکر بھی فرمایا۔آپؓ کے الفاظ ان کے متعلق یہ ہیں:

’’میں آج ایک دین کی خدمت میں جان دینے والے عزیز کی یاد کے لئے اور دوستوں کو اس کے لئے دعا کی تحریک کرنے کے واسطے خطبہ پڑھنے لگا ہوں۔وہ دوست جس کو خدمت دین میں شہادت ملی ہے وہ ہمارا عزیز بچہ عبیداللہ ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد8صفحہ259)

یہ حافظ بشیر الدین صاحب عبید اللہ کے والد تھے اور ان کی ساری اولاد آگے جو سلسلہ جاری ہوا ہے یہ انہیں کی پاک ذریت میں سے ہیں۔ اللہ ان کو جزا دے۔خدا تعالیٰ نے ان کی اولاد پر بڑی برکتیں نازل فرمائی ہیں۔یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اکثر خدمت دین کرنے والے ہیں۔شاید ہی کوئی ہو میرے علم میں نہیں جسے خدمت دین کی توفیق نہ مل رہی ہو۔اگرنہیں مل رہی تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو خدمت دین کرنے والوں میں شامل فرمادے۔یہ اس وقت سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کو ظاہری، دنیوی لحاظ سے بھی بہت رنگ لگائے ہیں اور دینی لحاظ سے بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت رنگ لگائے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی 1999ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍جولائی1999ءصفحہ6)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’دوسرے مبلغ یہاں حضرت حافظ عبیداللہ صاحبؓ آئے۔ اور آپ نے بھی انتھک محنت اور کوشش سے جماعت کو آگے بڑھایا۔ اور آخر یہیں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کے بارے میں فرمایا کہ مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نبھانا دونوں باتوں کوجانتا تھا۔ شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا یعنی ہندوستان کے کسی شخص کی شہادت کا۔ فرمایا ہمیں اس کی موت پر فخر ہے تو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہو گئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍ دسمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍دسمبر2005ءصفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ ماریشس 2005ء کے دوران مؤرخہ 29؍نومبر2005ء کو حضرت حافظ عبیداللہ صاحب کی قبر پر دعا کی۔ دورہ کی رپورٹ میں تفصیل اس طرح ہے کہ صدر مملکت سے ملاقات کے بعد ’’یہاں سے روانہ ہو کر حضور انور Port Louisکی مضافاتی بستی Paillesکے قبرستان تشریف لے گئے۔ اس قبرستان میں حضرت اقدس مسیح موعوؑد کے ایک صحابی حضرت حافظ عبیداللہ صاحبؓ مدفون ہیں۔ آپ بطور مربی سلسلہ 25؍نومبر1917ء کو ماریشس پہنچے اور اپنی وفات تک یہیں مقیم رہے۔ آپ نے 32سال کی عمر میں 4؍دسمبر 1923ء کو وفات پائی اور یہاں مدفون ہوئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت حافظ عبیداللہ صاحب کی قبر پرتشریف لے گئے اور دعا کی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 16؍دسمبر2005ءصفحہ10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button