متفرق مضامین

میں بھی جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں شامل ہوا

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

جس طرح بہار کا موسم پھولوں کی روئیدگی لے کر آتا ہے اسی طرح بعض موسم روحانی نشوونما کے لیے خوب سازگار ہوتے ہیں۔ جیسے جماعت احمدیہ کا ’’جلسہ سالانہ کا موسم‘‘۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کے لیے سال 2005ءبھی یہ موسم ہمیشہ کی طرح ڈھیروں برکتیں اور رحمتیں لے کر آیا۔ خصوصاً قادیان کی بستی جو دیارِ مسیح ہونے کی وجہ سے مہبط انوار الٰہی ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تشریف لے جانے کی وجہ سے چاند کی طرح روشن ہو گئی۔ حضور اپنے دَور خلافت میں پہلی مرتبہ رونق افروز ہوئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کی طرف سے عطا کردہ پیش خبریاں ایک نئے رنگ میں اور نئی شان کےساتھ پوری ہوئیں۔

خاکسار کو بھی اس جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ چنانچہ قادیان کے بابرکت سفر، حضور انور سے ملاقات اور قادیان کے شب و روز اور روحانی انبساط کا کچھ حال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارا قافلہ ربوہ سے اجتماعی دعا کے بعد قادیان کے لیے روانہ ہوا، یہ 18؍دسمبر 2005ء کی ایک سہانی صبح تھی۔ دل نہایت خوش تھا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیارِ مسیح کی زیارت اور خلیفۃ المسیح کا دیدار نصیب ہونے والا تھا۔ واہگہ بارڈر پہنچنے پر لاہور کی جماعت نے قافلے کا پرتپاک استقبال کیا۔ تمام زائرین کی آنکھوں میں چمک تھی اور دل عجیب جذبے سے سرشار تھے۔ لبوں پر دعائیں جاری تھیں۔ سب جلد از جلد قادیان پہنچنے کے لیے بےچین تھے، لیکن کوچہ یار تک رسائی اتنی آسان تو نہیں ہوتی۔ راستے کے کچھ کٹھن مراحل طے کرنا باقی تھے۔ سرحد کی دوسری جانب بسوں کا انتظام تھا۔ سامان لادا گیا، مسافر اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے اور پھر قافلہ قادیان دارالامان کی جانب روانہ ہوگیا۔ ہماری بس امرتسر کے پاس سے گزرتی ہوئی ہر لحظہ ہمیں قادیان سے قریب تر کر رہی تھی، دلوں کے تموج میں اضافہ ہورہا تھا۔ بالآخر ہم اس ’’کرموں والی اُچی بستی‘‘ میں پہنچ گئے۔ منارۃ المسیح پر نظر پڑی، آنکھیں پُر نم تھیں، زبان پر خدا کی حمد جاری تھی۔ درحقیقت اس گھڑی واردات قلب کا بیان ایسا مشکل ہے کہ قلم کے قدم بھی رُکے جارہے ہیں۔ قادیان کی فضا ذکرِ الٰہی سے معطر تھی۔ اپنے تصور میں قادیان کا جو نقشہ میں نے بنایا ہوا تھا۔ اُسے اُس سے کہیں زیادہ بلند اور با برکت پایا۔ وہاں پہنچنے پر خاکسار نے سب سے پہلے بہشتی مقبرہ جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کی۔ بہشتی مقبرہ قادیان وسیع اور خوبصورت ہے۔ وہ جگہ دیکھی جہاں قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر جماعت نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس طرح الوصیت میں درج پیش گوئی پوری ہوئی۔ قادیان کی فضا کو روحانی انبساط سے خاص مناسبت ہے۔ اہل قادیان راتوں کو خدا کے حضور گریہ و زاری سے آباد کیے رکھتے تھے۔ وہاں کی ہر صبح نورانی تھی۔ ان گلیوں میں سے گزرنا ایک عجیب روحانی تجربہ تھا جن کے ذروں نے کبھی مسیحا کے قدم چومے۔ اب حضرت مسیح موعوؑد کا پانچواں خلیفہ یہاں موجود تھا۔ وہ پیارا وجود جس پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں احمدی اپنی جانیں فدا کرنے کو تیار ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے وسیع برآمدے اور صحن گھنٹوں پہلے نمازیوں سے بھر جاتے تھے اور پھر حضور انور نماز پڑھانے کے لیے تشریف لاتے۔ وہی ہمیشہ سے متبسم چہرہ، چشم نیم وا، باوقار اور سبک چال۔

کتنی طمانیت ملتی تھی اس باخدا شخص کی قربت میں اور دورانِ نماز حضور انور کی سوز میں ڈوبی ہوئی مسحور کن آواز میں تلاوت قرآن کریم سن کر تو مقتدی ایک اور ہی عالم میں پہنچ جاتے۔ آسمان سے انوار کا نزول ہوتا تھا، دعا کے لیے وقت میسر آتا تھا اور گناہ دھل جاتے تھے۔ نماز کے اختتام پر پیارے آقا پھر متبسم لبوں اور ہاتھ کے اشارے سے، عشاق مسیح کو سلامتی کی دعا دے کر تشریف لے جاتے۔

اُس سال کا جلسہ سالانہ قادیان اپنے اندر کئی تاریخی پہلو لیے ہوئے تھا۔ پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ورود مسعود اور پھر MTAکے ذریعے حضور کے تمام خطابات کی تمام دنیا میں Live ٹرانسمیشن، حضرت مسیح موعودؑ کی بعض پیش گوئیاں پہلے سے بڑھ کر، نئی شان و شوکت سے پوری ہوئیں۔ مزید یہ کہ حضرت اقدسؑ کے ذریعے مشیت ایزدی نے جس ’’نظام نو‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی یعنی ’’نظام وصیت‘‘ اس کو آج ایک سو سال پورے ہورہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب اقوام عالم کو درپیش خطرات اور مسائل کا حل اسی ’’نظام نو‘‘ سے مل سکتا ہے۔ وہ منشور جو دنیا کی غریب اقوام کی غربت مٹائے اور امیر اقوام کی زیادتیوں اور ظلموں کے نتیجے میں جنم لینے والے مہیب خطرات کا تسلی بخش حل پیش کرے، رسالہ الوصیت میں موجود ہے۔

درحقیقت اس انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ نے اپنی خداداد بصیرت اور عالی شان مومنانہ فراست سے اس نظام نو کی جھلکیاں دیکھ کر اپنے ایک نہایت خوبصورت شعر میں یوں اظہار کیا:

بساط دنیا الٹ رہی ہے، حسین اور پائیدار نقشے

جہانِ نو کے ابھر رہے ہیں، بدل رہا ہے نظام کہنا

20؍ دسمبر کی صبح میرے لیے انتہائی اہم تھی کیونکہ آج مجھے حضورانور سے ملاقات کا شرف حاصل ہونے والا تھا۔ میں تو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی خلیفہ وقت سے ملنے جا رہا تھا اور اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے موقعے پر ایک احمدی کے دل کی کیا کیفیت ہوگی۔ پھر وہ گھڑی بھی آگئی جو میری زندگی کی یادگار گھڑی تھی۔ باری آنے پر خاکسار کو دربارِ خلافت میں حاضری کے لیے کہا گیا۔ میں اپنے گذشتہ گناہوں پر نادم، آئندہ کے لیے دل میں خدا سے توبہ کرتا ہوا، شوق محبت اور احترام خلافت کے جذبات لیے ہوئے حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا۔ حضور نے نہایت دلربا مسکراہٹ کے ساتھ اپنے اس ادنیٰ غلام کو شرفِ مصافحہ عطاکیا۔ خاکسار نے اپنا تعارف کروایا۔ حضور نے دریافت فرمایا ’’آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ عرض کیا ’’حضور BSc فائنل ایئر میں ہوں ‘‘۔ استفسار فرمایا ’’کون سے مضمون رکھے ہیں ؟‘‘ عرض کیا ’’حضور ڈبل میتھ اور Statistics‘‘۔ پھر خاکسار نے اپنی الیس اللّٰہ والی انگوٹھی حضور کی خدمت میں دعا اور برکت کے لیے پیش کی، حضور نے کچھ دیر انگوٹھی اپنے ہاتھ میں رکھی اور زیر لب دعا کی اور پھر واپس اس غلام کو عطا کی۔ اسی طرح کچھ قلم خاکسار نے حضور کو برکت اور دعا کے لیے دیے جو حضور نے اپنے مبارک ہاتھ میں چند لمحے رکھ کر خاکسار کو لوٹا دیے۔ پھر حضور نے کمال شفقت فرماتے ہوئے ایک قلم خاکسار کو بطور تبرک عطا فرمایا ۔ خاکسار نے حضور کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوائی اور مصافحہ کر کے شاداں و فرحاں واپس آگیا۔

جلسہ کے دنوں کا حال تو احباب نے خود MTA پر ملاحظہ کیاہوگا۔ بلاشبہ یہ ہر لحاظ سے کامیاب و کامران رہا۔ یاتیک من کل فج عمیقکی صداقت اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی۔ روحانیت کا یہ عظیم الشان اجتماع جس میں مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے احمدی شامل تھے، اپنی ذات میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ سب نہایت انہماک سے جلسے کی کارروائی سنتے رہے۔

بالآخر قادیان دارالامان سے واپسی کی گھڑی بھی آن پہنچی، گہری اداسی نے دل کو گرفت میں لیا ہوا تھا۔ مقامات مقدسہ کی زیارت،بہشتی مقبرہ، بیت الدعا میں کی گئی دعائیں، حضرت خلیفۃ المسیح کی اقتدا میں ادا کی گئی نمازیں، سب مناظر ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ بوجھل قدموں سے خاکسار اپنا سامان اٹھائے ہوئے بس پر سوار ہوا۔ جی چاہ رہا تھا کہ قادیان کے ہر باسی سے یہ درخواست کی جائےکہ

جب کبھی موقع ملے تم کو دعائے خاص کا

یاد کرلینا ہمیں اہل وفائے قادیاں

بس روانہ ہوئی، تمام لوگ غمگین تھے، شاید سب کے دل میری طرح شدت جذبات سے مغلوب تھے کہ اس مقدس بستی اور اس کے وارث خلیفۃ المسیح سے جدا ہورہے ہیں۔ مگر یہ عشاق مسیح اپنی خوش بختی پر نازاں بھی تو تھے۔ جب ہم ربوہ کی حدود میں داخل ہوئے تو شام کے سائے لہرا رہے تھے۔

فیض کے یہ اشعار میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں

آگ سلگاؤ آبگینوں میں

دل عشاق کی خبر لینا

پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button