فقہی مسائلمتفرق مضامین

رؤیت ہلال یعنی رمضان اور عیدین کے چاند کو دیکھنے کی بابت اسلامی تعلیمات

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

فَمَن شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرۃ : 186)

پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے۔

قمری مہینہ کی گنتی اور اس کے آغاز اور اختتام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُوْنَ لَیْلَۃً، فَلَا تَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْہُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ثَلَاثِیْنَ۔

(بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ:اِذَا رَأَیْتُمُ الہِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَارَأَیْتُمُوہُ فَأَفْطِرُوا)

مہینہ انتیس راتوں کا ہوتا ہے، جب تک چاند نہ دیکھو، روزے نہ رکھو اور اگر تم پر (چاندکی رؤیت)مشتبہ ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔

سائنسی نقطہ نگاہ سے ابتداءً چاند کس وقت نظر آسکتا ہے؟کیونکہ اسلامی کیلنڈر کی بنیاد چاند کی گردش پر ہے، اسی لیے اِسے قمری کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ جہاں تک زمین کے گرد چاند کی گردش کا تعلق ہے تو ماہرین فلکیات کے مطابق اس کا دورانیہ 29دن 12گھنٹے، 44منٹ اور 3سیکنڈ پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری کیلنڈر کے بعض مہینے 29اور بعض 30دنوں کے ہوتے ہیں اور قمری سال 354 یا 355دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

(انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا۔ زیر لفظ Muslim Calender)

چنانچہ سائنسی طریق پر رؤیت ہلال دیکھنے کی تاریخ کے متعلق لکھا ہے کہ مختلف اَدوار میں ہیئت دانوں نے چاند کے پہلی بار نظر آنے کے حوالےسے گہری تحقیق کے بعد مختلف پیمانے تجویز کیے۔ ان کا ذکر مختصراً درج ذیل ہے۔

Babylonians بھی چاند کی پیدائش اور اس کے بعد اس کےدیکھے جانے کے مراحل تک اس کی تمام حرکات سے بخوبی واقف تھے اور ان کے لٹریچر میں ملنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک رؤیت ہلال صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ اگر اس کی عمر پیدائش کے بعد سورج کے غروب ہونے تک 24گھنٹے سے زیادہ ہو اوروہ سورج کے غروب ہونے کے کم از کم 48منٹ کے بعد غروب ہو۔

مسلمان عرب ہیئت دانوں نے چاند کی بلندی (Altitude) کم از کم آٹھ ڈگری ہونا بھی ضروری شرط قرار دیا ہے۔

بیسوی صدی میں ہیئت دانوں نے ان پیمانوں کو حسابی شکل Mathematical Model میں ڈھالا، جیسا کہ Moundersنے چاند کے Altitude اور سورج اور چاند کے ایک دوسرے سے فاصلہ میں تعلق قائم کرتے ہوئے ایک فارمولہ بنایا کہ جس کے نتیجہ میں ایک گراف کے ذریعہ یہ بتایا کہ اگر یہ شرائط پوری ہوتی ہوں تو چاند نظر آئے گا ورنہ نہیں۔ مثلاً اگر چاند کا Altitudeدس ڈگری ہے اور اس کا سورج سے فاصلہ Azimuthبھی 10.5 ہے تو چاند نظر آسکے گا۔ لیکن اگر Azimuthیعنی سورج سے فاصلہ 9.0ہے تو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آئے گا۔

رسول اللہﷺ کے زمانہ ٔمبارک میں رؤیت ہلال کا طریق

آنحضورﷺ نے رؤیت ہلال یا چاند دیکھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھنا شروع کرو اور جب (اگلا ) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا چھوڑ دو۔ اور اگر تمہارے ہاں مطلع ابر آلود ہو تو پھر اندازہ کر لیا کرو۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں :

إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهٗ

( بخاری۔ کتاب الصوم باب ما یقال رمضان او شھرُ رمضان ومن رای کلہ واسعا)

اسی طرح سنن ابی داؤد کتاب الصیام کی روایت کے مطابق آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ

فَإِنْ حَالَ دُونَهُ غَمَامَةٌ، فَأَتِمُّوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ أَفْطِرُوا

یعنی اگر بادل وغیرہ حائل ہوجائے اور چاند نظر آنا ممکن نہ ہو تو پھر تیس روزے پورے کرکے عید مناؤ۔

آنحضورﷺ کے زمانہ مبارک میں زیادہ تر رمضان 29؍دنوں کے تھے۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ حضر ت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق:

مَا صُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ

(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ 29 دن کے روزے رکھے ہیں۔ یعنی آپؐ کی زندگی میں جوزیادہ تر رمضان آئے وہ 30دن کی بجائے 29دن کے تھے۔

ان احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ کےزمانہ مبارک میں بھی علم ہیئت کے مطابق قمری مہینوں کے دنوں کے بارے میں مروجہ اصولوں سے استفادہ کیا جا رہا تھا۔ اور اس بات پر یقین تھا کہ علم ہیئت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ایک قمری مہینہ یا تو29دن کا ہو سکتا ہے یا 30کا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا:

إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لَا نَحْسُبُ وَلَا نَكْتُبُ، وَالشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا – وَعَقَدَ الْإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ، وَالشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا تَمَامَ الثَّلَاثِينَ

(أبو داؤد کتاب الصیام باب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

ہم اُمی لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا، ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا)تیسری بار میں اپنی انگلی بند کر لی، یعنی مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔

رؤیتِ ہلال اجتماعی ذمہ داری ہے

آنحضورﷺ نے صدیوں قبل جس وضاحت اور حکمت سے رؤیت ہلال کے اصول وضوابط عطا فرمائے افسوس کہ مسلمان علماء اس میراث کو سنبھالنے سے قاصر رہے اورثابت شدہ سائنسی حقائق سے استفادےکی بجائے علومِ جدیدہ کی راہ میں مزاحم ہونے لگے۔ اس موقع پر قارئین کے استفادہ کے لیے وہ رہ نما تعلیم پیشِ خدمت ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پیشتر بیان فرمائی تھی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوْا لَهُ ثَلَاثِيْنَ۔ قَالَ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ شَعْبَانُ تِسْعًا وَعِشْرِيْنَ نُظِرَ لَهُ فَإِنْ رُئِيَ فَذَاكَ وَإِنْ لَمْ يُرَ وَلَمْ يَحُلْ دُوْنَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ وَلَا قَتَرَةٌ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَإِنْ حَالَ دُوْنَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ أَوْ قَتَرَةٌ أَصْبَحَ صَائِمًا قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفْطِرُ مَعَ النَّاسِ وَلَا يَأْخُذُ بِهَذَا الْحِسَابِ ۔

ترجمہ:حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کبھی مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے پس جب تک چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور اس طرح روزہ موقوف نہ کرو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور اگر اس دن مطلع ابر آلود ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو۔ راوی کا بیان ہے کہ ابن عمر شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھتے اگر دکھائی دے جاتا تو ٹھیک اور اگر اس دن مطلع آبر آلود نہ ہوتا اور لوگوں کو چاند نظر نہ آتا تو اگلے دن روزہ نہ رکھتے۔ لیکن اگر مطلع ابر آلود ہوتا یا گرد غبار ہوتا تو اگلے دن روزہ رکھتے ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ روزہ سب لوگوں کے ساتھ افطار کرتے اس میں حساب کا خیال نہ کرتے۔

(سن أبو داؤد کتاب الصوم،بَابُ الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)

اسی طرح آنحضورﷺ نے رؤیت ہلال کے ضمن میں معاشرتی اور اجتماعی شیرازہ قائم رکھنے کی تعلیم عطا فرمائی ہے اور ایسے معاملات میں انفرادی نہیں بلکہ جماعتی پہلو کو ترجیح دینے کی نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :

فِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ

(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب إِذَا أَخْطَأَ الْقَوْمُ الْهِلَالَ)

تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم سب افطار کرتے ہو ۱ور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتےہو۔

یعنی روزہ اور عیدین کے چاند کے بارے میں جب اجتماعی اور معاشرتی سطح پر ایک فیصلہ ہوجائے تو پھر اسی پر عمل کیا جائے۔

پس حقیقت یہ ہے کہ رؤیت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا اہتمام مسلم معاشروں کی ایسی روایت رہی ہےجس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ جھلکتا ہے۔ سائنسی علوم کی ترقی کے بعد بجائے اس کےکہ مسلمان علماء زمانے سے ہم آہنگ ہوکر مسلمان معاشرہ کو رؤیت ہلال کے جدید پہلوؤں سے آشنا کرتے اور اسلامی تہواروں کی عزت وعظمت میں اضافہ کا باعث بنتے اب یہ عالم ہے کہ رمضان اور عیدین کا آغاز دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک وجہ نزاع بنا رہتا ہے۔ کہیں تو مسلمان علماء شدت سے اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ ظاہری آنکھ سے چاند دیکھے بغیر نئے قمری مہینہ کا آغاز ممکن نہیں تو کہیں جدید سائنسی ذرائع سے ناواقفیت اور اس کے استعمال سے اجتناب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہنوز لا ینحل ہے۔

آنحضرتﷺ کا چاند دیکھنے کی بابت اسوہ

آپﷺ کے اسوۂ مبارک سے ثابت ہے کہ آپؐ نئے چاند کا استقبال دعا سے کرتے اوراللہ تعالیٰ کے حضور امن و سلامتی کے لیے ملتجی ہوتے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے:

أَللّٰہُمَّ !أ ہِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْأ مْنِ وَالْاِیْمَانِ، وَ السَّلَامَۃِ وَ الْاِسْلَامِ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ۔

(الترمذی۔ کتاب الدعوات باب مایقول عند رویة الہلال )

اے اللہ اس ماہ مبارک کے چاند کو ہم پر امن، ایمان،سلامتی اور حالت سلام میں طلوع فرما۔(اے چاند)یہ میرا بھی رب ہے اور تیرا بھی رب ہے ۔

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔

ھِلَالُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ،

(خیر و رشد والا چاند ہے) پھرتین دفعہ یہ فقرات دہراتے :

أللّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا

(اے اللہ میں تجھ سے اس کی خیر طلب کرتا ہوں) اور تین دفعہ ہی یہ دعائیہ فقرات پڑھتے،

أَللّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا الشَّہْرِ وَ خَیْرِ الْقَدْرِوَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ۔

(اے اللہ میں تجھ سے اس کی ماہ کی خیر طلب کرتا ہوں،نیز اس ماہ میں مقدر شدہ خیر کی۔اور اے پروردگار میں تجھ سے اس ماہ کے ممکنہ شر سے پناہ طلب کرتا ہوں)

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 4صفحہ276)

حضرت عبد اللہ بن مطرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے:

ھِلاَلُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ، ألْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ذَھَبَ بِشَہْرٍ کَذًا وَجَآءَ بِشَہْرٍ کَذًا، أسْألُکَ مِنْ خَیِرِ ھٰذَا الشَّہْرِوَنُوْرِہٖ وَبَرَکَتِہٖ وَھُدَاہُ وَطُھُوْرِہٖ وَمُعَافَاتِہٖ۔

( کنزالعمال 18047)

خیر و رشد والا چاند ہے۔تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں،جس نے فلاں ماہ کو پورا کردیا اور فلاں ماہ کو طلوع کر رہا ہے۔اور اے اللہ میں تجھ سے اس ماہ کی خیر کا،اس کے نور کا،اس کی برکت کا،اس کی ہدایت کا،اس ماہ کی پاکی و پاکیزگی کا اور اس ماہ مبارک کی عافیت کا طالب ہوں۔

احادیث کے مختلف متون اور متفرق صحابہ کی بیان فرمودہ روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہےکہ رسول اللہﷺ عموماًچاند دیکھنے کا اہتمام فرماتے تھے اور چاند دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے خیر وبرکت کی دعا مانگا کرتے تھے۔

آنحضورﷺ کی سنت مبارکہ کے تتبع میں رؤیت ہلال کا پہلو کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کا حصہ بنا چلا آرہا ہے۔ عیدین اور رمضان کے چاند کو دیکھنے کے لیےغیر معمولی ذوق وشوق کا اظہار مذہبی مسئلہ سے زیادہ اسلامی معاشرہ کے تہذیبی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

کچھ سالوں پہلے تک ہمارے برصغیر میں رمضان اور عیدین کےچاند دیکھنے کے لیے لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ آتےیا کھلے میدانوں میں نکل کردُور افق کی طرف نظریں جمائے بڑی بے تابی سے رؤیت ہلال کا اہتمام کرتے تھے۔ اور جب چاند نظر آجاتا تو خوشی ومسرت دیدنی ہوتی اور آنحضورﷺ کی سنت مبارکہ کی پیروی میں دعاؤں کے ساتھ نئے چاند کو خوش آمدید کہنے کا رواج عام تھا۔

قادیان میں رؤیت ہلال کا اہتمام

مسلم معاشرہ میں رؤیت ہلال کے لیے جو ذوق وشوق پایاجاتا تھا اس کی ایک جھلک قادیان میں دیکھی جاسکتی ہے۔ چاند دیکھنے کے بارے میں امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معمول کے بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ

’’یکم دسمبر1902ء۔ دربار شام:آج رمضان المبارک کا چاند دیکھا گیا۔ بعد نماز مغرب خود حجة اللہ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سقفِ مسجد پر رؤیت ہلال کے لئے تشریف لے گئے اور چاند دیکھا اور مسجد میں آکر فرمایا کہ رمضانِ گزشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا ہے۔ ‘‘

(الحکم نمبر 44 جلد 6، 10؍ دسمبر 1902ء صفحہ 8)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان میں عید کا چاند دیکھنے کے اشتیاق کے بارے میں ایک موقع کا ذکر کرتے ہوئےآپؓ فرماتے ہیں :

’’جب لوگ چھتوں پر چاند کو دیکھنے کے لئے چڑھے تو میں بھی چھت پر چڑھا اور دوربین سے میں نے چاند کو دیکھنا چاہا۔ کیونکہ میری نظر کمزور ہے لیکن میں نہ دیکھ سکا اور بیٹھ گیا اچانک میرے کان میں ایک بچہ کی جو میرا ہی بچہ ہے آواز آئی جو یہ تھی کہ چاند دیکھ لیا۔ چاند دیکھ لیا۔ میں نے بھی چاند دیکھ لیا۔‘‘

(الفضل 3؍جون 1924ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں رؤیت ہلال کے بارے میں شہادتوں کے ذریعہ عید کے اعلان کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آپؓ ایک عید کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’لاہور فون سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جالندھر سے رپورٹ آئی ہے کہ شملہ میں لوگوں نے چاند دیکھا ہے۔ اسی طرح معلوم ہوا کہ سولن پہاڑ پر بھی اور بمبئی میں بھی چاند دیکھا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چاند بہت کم اونچا تھا۔ قادیان کے احمدی دوست چونکہ اس وقت دعا میں مشغول تھے اس لئے وہ چاند نہ دیکھ سکے اور باہر بھی تھوڑے تھوڑے غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا مگر پہاڑوں پر چونکہ اتفاقاًمطلع صاف تھا اس لئے وہاں کے رہنے والوں نے چاند کو دیکھ لیا۔ چنانچہ اس بارہ میں جتنی رپورٹیں آئیں ان میں سے اکثر پہاڑی مقامات کی ہیں سوائے کپورتھلہ کے کہ وہاں بھی بعض نے چاند دیکھ لیا تھا۔ ‘‘

(خطبہ فرمودہ یکم اکتوبر 1943ء)

تیز ترین صنعتی ترقی اور دیہات سے شہروں کی طرف منتقل ہونے کے رجحان کے علاوہ چاند کی پیدائش اور طلوعِ ہلال کے بارے میں سائنسی و تکنیکی علوم کے فروغ کے بعد چاند دیکھنے کے لیے ظاہری رؤیت کے ساتھ ساتھ نئے ذرائع سے استفادہ شروع ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جون2016ءصفحہ5)

ہر ملک اور خطے کی رؤیت کا فیصلہ اس کے اُفق کے مطابق ہوگا

نئے چاند کا فیصلہ ہر ملک اور خطہ کے جغرافیائی حالات کے پیش نظر ہوگا۔ اس سلسلہ میں صحاح ستہ کے مؤلفین اور علماء بڑی صراحت سے درج ذیل حدیث بیان کرکے ہر ملک اور خطہ کے مطابق رؤیت ہلال کے اصول کو بیان فرمارہے ہیں۔ اس روایت کے مطابق حضر ت کریب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امّ فضل بنت حارث نے انہیں امیر معاویہؓ کے پاس شام بھیجا۔ وہ کہتے ہیں میں شام آیا اور ان کا کام مکمل کیا۔ مَیں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند طلوع ہوگیا۔ میں نے چاندجمعہ کے دن دیکھا، پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے (حال احوال)پوچھا پھر نئے چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے نیا چاند کب دیکھا؟مَیں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تم نے خود اسے دیکھا؟میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی اسے دیکھااور انہوں نے روزہ رکھااور امیر معاویہؓ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی للہ عنہما نے کہا ہم نے اسے ہفتہ کی رات دیکھا ہم روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس پورے کرلیں یا ہم اسے(چاندکو)دیکھ لیں۔ میں نے کہا کیا آپؓ کے لیے امیر معاویہؓ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں؟تو انہوں نے کہا نہیں، ہمیں رسول اللہﷺ نے ایسا ہی حکم دیا تھا۔ (یعنی ہم اپنے افق پر نظر آنے والے چاند کی رؤیت کا خیال رکھیں گے۔ )

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ …)

اس حدیث کو صحاح ستہ کے بعض ائمہ نے درج ذیل ابواب کے تحت بیان کرکے ہر ملک اورجغرافیہ کے مطابق رؤیت کے اصول کو تسلیم فرمایا ہے۔ صحیح مسلم باب الصیام باب

بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ۔

یعنی ہر خطہ کی رؤیت الگ ہوگی اور ایک علاقہ کے لوگوں کے چاند دیکھنے سے دوسروں پر یہ حکم واجب نہیں ہوگا۔

سنن نسائی کتاب الصیام بَابُ اخْتِلَافِ أَهْلِ الآفَاقِ فِي الرُّؤْيَةِ۔

یعنی رؤیت میں افق کے اختلاف کا امکان موجود ہے۔

سنن ترمذی کتاب الصیام میں باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ۔

ہر خطہ کے لوگوں کے لیے رؤیت الگ ہوگی۔

کیا ممکن ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی دن رمضان اور عیدین منائی جائیں !

ہر علاقے میں مقدس اسلامی ایام کا آغاز اور اختتام اس علاقے کے افق کے مطابق ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے بیان

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

کے مطابق رمضان کے آغازاور اختتام کے لیے رؤیت ہلال ضروری ہے۔ چونکہ زمین گھوم رہی ہے اس لیے چاند مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایک جگہ دن ہے تو دوسری جگہ رات ہے یا عصر کا وقت ہے۔ اسی طرح بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو افق مختلف ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ سب ممالک کے لوگ ایک ہی وقت میں چاند دیکھنے پر قادر ہو سکیں۔ اس لیے ایسا نظام نا ممکن ہے کہ ایک ملک میں چاند نظرآجا نے پر تمام ممالک کے لوگ ایک ہی دن رمضان کا آغاز کریں یا عید منائیں۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ آیت کے اس حصہ کی تشریح بیان کرتے ہوئےرمضان و عیدین ایک ہی دن کے آغاز کو نقلاً و عقلاً خلاف حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’رمضان بھی بعینہ ایک ہی تاریخ کو ہر جگہ شروع نہ ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ ممالک بدل جائیں پھر تو ویسے ہی ناممکن ہے۔ کیونکہ اگر جب بھی رمضان کا چاند طلوع ہوگا۔ اس وقت کسی جگہ گھپ اندھیرا، آدھی رات ہوگی۔ کسی جگہ صبح کا سورج طلوع ہورہا ہوگا۔ کسی جگہ دوپہر ہوگی، کسی جگہ عصر کی نماز پڑھی جارہی ہوگی۔ تو کیسے ممکن ہے کہ خدا نے جو نظام پیدا فرمایا ہے اس کے برعکس احکام جاری فرمائے۔ اس لئے’’مَنْ شَھِدَ‘‘کا مضمون جو ہے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر گز خدا کا یہ منشا ءنہیں کہ سب اکٹھے روزے رکھیں اور اکٹھے ختم کریں۔ ہر گزیہ منشاء نہیں کہ تمام دنیا میں ایک دن عید منائی جائےیا سارے ملک میں اگر وسیع ملک ہے ایک ہی دن عید منائی جائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جنوری 1996ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم نومبر2002ءصفحہ7)

اسی طرح ایک اَور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَفَلْیَصُمْہٗ

جس پر یہ مہینہ طلوع ہوگا اسی کو روزے رکھنے ہیں۔ دیکھا دیکھی سنی سنائی بات پر روزے نہیں رکھنے۔ اور یہاں “مَنْ”میں صرف ایک فرد واحد مراد نہیں ہے۔ بلکہ وہ قوم ہے جس کا افق ایک ہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے اس کا طریق یہ جاری فرمایا کہ اگر ایک ہی افق کے لوگ کسی موسم کی خرابی کی وجہ سے اکثر نہ دیکھ سکتے ہوں تو ان میں دو قابل اعتماد یا چار قابل اعتماد، کچھ قابل اعتماد لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور وہ کہیں، گواہی دیں کہ ہم نے دیکھا ہے۔ تواگر افق مشترک ہے تو سب کا ہی رمضان شروع ہو جائےگا۔ اور اگر افق مشترک ہے تو سب ہی کی عید ہو جائے گی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جنوری 1996ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم نومبر2002ء صفحہ7)

گواہی اور شہادتوں کے ذریعہ رمضان کا اعلان

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الهِلَالَ، قَالَ: ’’أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ‘‘، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:’’يَا بِلَالُ، أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوْا غَدًا‘‘

( ترمذی کتاب الصیوم باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ بِالشَّهَادَةِ)

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟‘‘اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ’’بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔

سیرت المہدی میں چاند دیکھنے کی گواہی کی بابت ایک روایت ان الفاظ میں ملتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ

’’میاں خیرالدین صاحب سیکھوانیؓ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریباًظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔ اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔ ‘‘ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ’’ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد 2صفحہ265)

اگر چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟ احادیث میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ عیدالفطر کے موقع پر ماہ شوال کا چاند بادلوں کی وجہ سے مدینہ میں نظر نہ آیا حضرت رسول پاکﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اگلے دن روزہ رکھ لیا، زوال آفتاب کے بعد بعض لوگ مدینہ میں آئے اور انہوں نے گواہی دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا تھا، اس پر حضورﷺ نے صحابہ کو روزہ کھولنے کا ارشاد فرمایااور اگلے دن نماز عیدادا کرنے کا اعلان کیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

عَنْ أَبِی عُمَیْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ:حَدَّثَنِی عُمُومَتِی، مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا:أُغْمِیَ عَلَیْنَا ہِلَالُ شَوَّالٍ، فَأَصْبَحْنَا صِیَامًا، فَجَاءَرَکْبٌ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ، فَشَہِدُوا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ رَأَوُا الْہِلَالَ بِالْأَمْسِ، فَأَمَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفْطِرُوْا، وَأَنْ یَخْرُجُوْا إِلَی عِیْدِہِمْ مِنَ الْغَدِ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الشہادۃ علی رؤیۃ الھلال)

حضرت ابوعمیر بن انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ انصار صحابہ میں سے میرے چچاؤں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ شوال کا چاند ہم پر مشتبہ ہوگیا، چنانچہ ہم نے اگلے دن روزہ رکھ لیا، دن کے آخری پہر میں ایک قافلہ وہاں اترا، قافلہ کے لوگوں نے حضورﷺ کے سامنے بیان کیا کہ انہوں نے گذشتہ کل چاند دیکھا تھا، اس پر حضورﷺ نے لوگوں کو روزہ کھولنے اور اگلے روز نماز عید کے لیے نکلنے کا حکم فرمایا۔

اسی طرح کا موقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات میں بھی پیش آیا، چنانچہ لکھا ہے کہ

’’سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا :’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)

دجال یعنی موجودہ زمانہ میں غیر معمولی حالات میں احکام اسلام نافذکرنے کی بابت رسول اللہﷺ کی پیشگوئی پر مبنی ہدایات

ایسی کیفیت والے مسائل کے متعلق آنحضو رﷺ کا یہ اصولی ارشاد ہماری رہ نمائی کرتاہے۔ آپﷺ نے صحابہ سے دجال کاذکر فرماتے ہوئے اس کی دیگرتفصیلات بیان فرمائیں تو صحابہؓ نے سوال کیا:

قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَمَا لَبْثُہُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ أَرْبَعُونَ یَوْمًا، یَوْمٌ کَسَنَۃٍ، وَیَوْمٌ کَشَہْرٍ، وَیَوْمٌ کَجُمُعَۃٍ، وَسَائِرُ أَیَّامِہِ کَأَیَّامِکُمْ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَذَلِکَ الْیَوْمُ الَّذِی کَسَنَۃٍ، أَتَکْفِینَا فِیہِ صَلَاۃُ یَوْمٍ؟ قَالَ لَا، اقْدُرُوا لَہُ قَدْرَہُ۔

(مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ )

سیدنا حضر ت مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’راوی کہتا ہے کہ یارسول اللہ کس مدّت تک دجّال دنیا میں ٹھہرے گاتو آپ نے فرمایاکہ چالیس دن…دجال کا ایک دن برس کے برابرہو گا اور ایک دن ایک مہینے کے برابراور ایک دن ہفتہ کے برابر۔ باقی دن معمولی دنوں کے موافق۔ پھر راوی کہتا ہے کہ ہم نے عرض کی کہ کیا ان لمبے دنوں میں ایک دن کی نماز پڑھنا کا فی ہوگاتو آپ نے فرمایاکہ نہیں۔ بلکہ نماز کے وقتوں کے مقدار پر اندازہ کر لیا کرنا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ207)

رؤیت ہلال کے لیے علمی و سائنسی ذرائع کااستعمال

رؤیت ہلال سے اصل مقصود چاند کی محبت و کشش نہیں بلکہ مراد یہ تھی کہ نئے چاند کے ذریعہ ماہ و سال کی تعیین کی جاسکے۔ اس کے لیے آپﷺ نے چاند دیکھنے اور رؤیت کے مطابق رمضان کے آغاز اور عیدمنانے کی نصیحت فرمائی۔ لیکن جب سائنس اور ثابت شدہ حقائق نے شمس و قمر کی گردش اور لیل و نہار کی تبدیلی کے اصول وضع کردیے تو ان سے استفادہ آنحضورﷺ کی منشا کے بر خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہے۔ درج ذیل امور سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ رؤیت ہلال کے لیے جدید علوم اور ذرائع سے استفادہ کرنا بانیٔ اسلامﷺ کی تعلیم کے عین مطابق ہے:

1۔ بادلوں وغیرہ کی وجہ سے جب ظاہری آنکھ چاند دیکھنے سے قاصر رہے توآپؐ نے ’’فَاقْدِرُوْا لَهٗ‘‘ کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ الفاظ علمی اور سائنسی ذرائع سے رؤیت کا دروازہ کھولتے ہیں۔ ’’فَاقْدِرُوْا لَهٗ‘‘کا مطلب ہے کہ پھر اندازہ اور حساب کتاب سے کام لیا جائے۔

2۔ چاند کا معاملہ مشتبہ ہوجائے تو آپ نے تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ قمری مہینہ کے دن انتیس یا زیادہ سے زیادہ تیس ہوں گے۔ اس بات کا علم بھی تو اُس زمانہ کے مروجہ فلکیاتی حساب کے ذریعہ ہوا تھا۔ پس اگر آئندہ فلکیاتی اور سائنسی علوم ترقی کر جائیں تو ان سے استفادہ کیسے ممنوع ہوسکتا ہے؟

3۔ یہ بات خلاف عقل ہوتی اگرآنحضورﷺ ایسی قوم کو علم فلکیات کے اصول سمجھاتے جو عمومی طور پرلکھنے پڑھنے سے نابلد اور حساب کتاب کے اصولوں سے ناواقف تھے۔ پس اس زمانہ میں آنحضورﷺ نے چاند کی رؤیت کے لیے ایسے طریقہ کار کاحکم دیا، جو زمانہ کے حالات سے بکلی ہم آہنگ تھا۔ پس اگر اس ترقی یافتہ زمانے میں چاند کا پتہ کرنے کے لیے دوسرے یقینی ذرائع میسر ہیں توان ذرائع کے استعمال میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟

4۔ نئے چاند کے بارے میں آنحضورﷺ نے گواہی کا اصول قبول فرمایا ہے۔ بلکہ ایک سادہ دیہاتی کی گواہی قبول فرماتے ہوئے عید کے د ن کے اعلان میں ردو بدل فرمادیا۔ تو کیا ماہرین فلکیات کے وضع کردہ اصول بطور گواہی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔

5۔ چاند دیکھ کر رمضان کا آغاز کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے اس بات سے منع نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا طریقہ کا ر اختیار نہ کیا جائے۔ معاملہ مشتبہ ہونے کی صورت میں ’’فَاقْدِرُوْا‘‘یا پھر تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت سے پتا چلتا ہے کہ ظاہری آنکھ کی رؤیت کے علاوہ بھی طریقہ کار اختیار کرنا جائز ہے۔

6۔ سورج اور چاند کی گردش کے بارے میں ماہرین فلکیات جو معلومات مہیا کرتے ہیں وہ بعینہٖ درست ثابت ہوتی ہیں۔ گذشتہ صدیوں کے علاوہ آئندہ زمانے کے بھی چاند اور سورج گرہن کے کیلنڈرز بن چکے ہیں۔ نمازوں کے لیے دھوپ گھڑی کی بجائے سورج کی حرکت سے وابستہ گھڑیاں سامنے آچکی ہیں۔ سحر وافطار ماہرین فلکیات کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں تو صرف رؤیت ہلال کے مسئلہ کو آنکھ کی ظاہری رؤیت سے منسلک کر ناسمجھ سے بالا ہے۔

آخری زمانہ میں سائنسی ذرائع سے چاند دیکھنے کی پیشگوئی

آخری زمانہ میں علوم فلکیات کی ترقی اور چاند کی رؤیت کے بارے میں آنحضورﷺ کی ایک حدیث واضح طور پر اشارہ کرتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے مترشح ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہلال بڑا نظر آئے گا۔ گویا دور بینوں اور سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد دور سے چاند کا دیکھ لینا ممکن ہوجائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ:مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ انتفاخُ الْأَهِلَّةِ، حَتَّى يُرَى الْهِلَالُ لِلَيْلَتِهِ، فَيُقَالُ: هُوَ لِلَيْلَتَيْنِ(المعجم الأوسط، للطبراني (المتوفى: 360ھ)حدیث نمبر: 6864۔ زیر بَابُ الْمِيمِ مَنِ اسْمُهُ: مُحَمَّدٌ، جلد 7صفحہ 65.الناشر: دار الحرمين القاهرة.عددالأجزاء:10)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ قرب قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ چاند معمول سے بڑا اورابھرا ہوا نظر آئے گا۔ یہاں تک کہ پہلی رات کےہلال کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ تو دو راتوں کا چاند ہے۔

علم ہیئت اور فلکیات کے اصولوں کے مطابق رؤیت ہلال

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رؤیت ہلال کا طریق قبلِ اسلام سے رائج تھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم ہیئت و فلکیات میں ترقی کی توانہوں نے چاند کی visibilityکا انحصار اس کے زاویہ پر رکھا۔ موجودہ زمانہ میں علم فلکیات کی غیر معمولی ترقی کے بعد ہیئت دانوں اور ماہرین نے جو اصول وضع کیے ہیں اس سے درج ذیل رہ نما اصول اخذ کرتے ہوئے چاند کی visibilityکا فیصلہ کیا جا سکتا ہے:

1۔ چاند کی پیدائش سے مراد Astronomical New Moonہے۔ اسےConjunctionبھی کہا جا تا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب زمین، چاند اور سورج ایسے زاویہ پر ہوتے ہیں کہ اس وقت ظاہری آ نکھ سے چاند نظر آنا ممکن نہیں۔ پس سائنسی لحاظ سے چاند کی محض پیدائش رؤیت ہلال کے لیے ناکافی سمجھی جائے گی۔

2۔ Conjunctionسے ہلال بننے تک۔ چاند کی پیدائش کے بعد عمر کم از کم 20گھنٹے ہونا ضروری ہے۔ لیکن صرف اتنی شرط بھی ناکافی ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ چاند کی پیدائش کی عمر بیس گھنٹہ ہونے کے باوجود ظاہر آنکھ سے نہ دیکھا جاسکے۔

3۔ اس کے لیے ایک اور اصول وضع کیا گیا ہے کہ چاند کی پیدا ئش کے بعد عمر 20گھنٹہ سے زائد ہو اورغروب آفتاب کے بعد چاند کم از کم 20منٹ تک افق پر موجود رہے اور ایک خاص زاویہ پر ہو توایسا چاند ظاہری آنکھ سے نظر آنا ممکن ہے۔

رؤیت کی شرط رکھنے میں حکمت

امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیت ہلال کے ضمن میں ایک اور نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ…رؤیت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔‘‘

(سر مہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 192)

سائنسی ترقی اور ایجادات کے موجودہ دَورمیں جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مروجہ سائنسی ذرائع سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے فلکیاتی علوم سے استفادہ کیا جائے وہاں امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق رؤیت کو فوقیت دیتے ہوئے چاند دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سنت رسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہر قمری مہینہ کا آغاز خیر وبرکت اور امن و سلامتی کی دعا سے کرناچاہیے۔

(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 21؍اپریل 2020ءصفحہ 14تا15)

جدید مشینی ذرائع سے چاند دیکھنے کی بابت خلفائے احمدیت کے فیصلہ کن ارشادات

آجکل چاند جدید سائنسی آلا ت کی مدد سے بھی دیکھا جاسکتا ہے بلکہ ایسے ذرائع بھی دریافت ہوگئے ہیں جن کی مدد سے چاند کی عمر کا حساب لگایا جاتا ہے لہٰذا ایک ماہ قبل ہی بتایا جاسکتا ہے کہ آیا چاند انتیس دن کا ہوگا یا تیس دن کا۔ اس بابت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’کیا مشینی ذرائع سے چاند کا علم پانا ’’مَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ‘‘ کے تابع ہوگا یا نہیں ہو گا؟اگر ہوتو پھر دیکھنا متروک ہے۔ اوریہ بھی ہو سکتاہے کہ مشینوں کے ذریعہ چاند دکھائی دے جاتا ہولیکن نظر سے نہ دکھائی دیتا ہو۔ تو کیا قرآن کریم کا پہلا عمل یعنی پہلے دَور کا عمل اس مشینی عمل کے مقابل پر رد ہو جائے گا؟ یا پہلے دَور کا عمل جاری رہے گا۔ اور مشینی دَور کا عمل متروک سمجھا جائے گا؟یہ بحث ہے جو بہت سے لوگوں کو الجھن میں مبتلا رکھتی ہے۔ حالانکہ اس میں ایک ادنیٰ ذرہ برابر بھی کوئی الجھن نہیں۔ الجھنلوگوں کی نا فہمی اور ناسمجھی میں ہے۔ ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ نئے دَور میں مشینوں کے حوالے سے یا برقیاتی آلوں کے حوالے سے اگر آپ چاند کے طلوع کا علم حاصل کریں تو وہ ’’مَنْ شَھِدَ‘‘کے تابع رہتا ہے اور جہاں ’’مَنْ شَھِدَ‘‘سے ہٹتا ہے وہاں اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ وہاں بے اعتبار ہو جائے گا۔ جو لوگ نہیں سمجھتے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اورپھر آپس میں خوب ان کی لڑائیاں ہوتی ہیں۔

اس لئے میں آپ کو سمجھا رہاہوں، آگے عید بھی آئے گی یہ بحثیں چلیں گی، بچوں کی سکول میں بھی دوسرے بچوں سے گفتگو ہوگی، کالجوں میں یہ معاملہ زیر بحث آجائے گا، بزنس، کاموں پر زیر بحث آئے گا، اس لئے سب احمدیوں کو اچھی طرح ہر ملک کے احمدی جو یہ خطبہ سن رہے ہوں ان کو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ چاند جو طلوع ہوتا ہے وہ جب زمین کے کنارے سے اوپر آتا ہے تو اگرچہ سائنسی لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین کے افق سے چاند ذرا سا اوپر آچکا ہے۔ لیکن وہ چاند لازم نہیں کہ نظرسے دیکھا جا سکتا ہو۔ ا س لئے سائنسدانوں نے بھی ان چیزوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اگر آپ اچھی طرح ان سے جستجو کر کے بات پوچھیں تو و ہ آپ کو بالکل صحیح جواب دیں گے کہ دیکھو یہ تو ہم یقینی طورپر معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ چاند کس دن کتنے بجے طلوع ہوگا۔ یعنی سورج غروب ہوتے ہی اوپر ہو چکا ہو گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لو کہ اگر موسم بالکل صاف ہواور کوئی بھی رستے میں دھند نہ ہو تب بھی تم اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو کیونکہ چاند کو طلوع ہونے کے بیس منٹ یا کچھ اوپر مزید چاہئے۔ اور ایک خاص زاویے سے اوپر ہونا چاہئے۔ اگر وہاں تک پہنچے تو پھر آنکھ دیکھ سکتی ہے ورنہ نہیں دیکھ سکتی۔ اس لئے ہوسکتاہے کہ جیسا کہ پچھلے سال مولویوں نے یہاں کیا کہ observatoryسے یہ تو پوچھ لیا کہ چاند کب نکلے گا اور انہوں نے وہی سائنسی جواب دیا کہ فلاں دن یہ اتنے بجے طلوع ہو جائے گا اور سورج ڈوبنے کے معاً بعد کا وقت تھا۔ تو مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ اس دن شروع ہو جائے گا، رمضان یا عید جو بھی تھی۔ اور بعض دوسرے جو ان میں سے سمجھ دارتھے، تعلیم یافتہ مسلما ن یہاں موجود ہیں، احمدی نہیں ہیں مگر و ہ ان باتوں پر غور کرتے ہیں انہوں نے انکا ر کر دیا انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسی عید نہیں کریں گے یا ایسا رمضان نہیں شروع کریں گے اور وہ سچے تھے۔ کیونکہ اگر وہ مولوی صاحبان ان لیبارٹریز سے یا جو ان کے مراکز ہیں، آسمانی سیاروں وغیرہ کے، ان سے پوچھتے تو وہ صاف بتا دیتے کہ نکلے گا تو صحیح لیکن تم اس کی شہادت نہیں دے سکتے تم اپنی آنکھ سے اس کو کبھی بھی دیکھ نہیں سکتے۔ کیونکہ جتنا وہ نکل کے اونچا جاتا ہے اس طلوع سے کوئی آنکھ بھی اس کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ وہ زمین کے بہت قریب ہوتا ہے اور زمین کے قریب کی فضا اس کی شعاعوں کو نظروں تک پہنچنے سے پہلے پہلے جذب کر چکی ہوتی ہے۔ اس لئے عین نشانہ پر پتہ ہو، کہ وہاں چاند طلوع ہو رہا ہے آپ نظر جما کر دیکھیں آپ کو ایک ذرہ بھی کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ تو شَھِدَ کا مضمون اس پر صادق نہیں آئے گا۔

شَھِدَ کا مطلب ہے جو گواہ بن جائے، جو دیکھ لے، جو پالے، مگر سائنسدان ہی یہ بھی آپ کو بتاتے ہیں اور قطعیت سے بتاتے ہیں کہ اگر اتنے منٹ سے اوپر چاند ہو چکا ہو یعنی سورج ڈوبنے کے بعد مثلا ًپندرہ منٹ کی بجائے بیس منٹ رہے تو پہلے پندرہ منٹ میں اگر دکھائی نہیں دے سکتا تو آخری پانچ منٹ میں دکھائی دے سکتا ہے۔ یا اس کا زاویہ اتنا ہو کہ وہ زمین کے ایسے افق سے اونچا ہو چکا ہو جو افق چاند اور ہماری راہ میں حائل رہتا ہے۔ اس سے جب اونچا ہو گا تو لازماً دیکھ سکتے ہو۔ پھر بادل ہوں تو الگ مسئلہ ہے، لیکن اگر بادل نہ ہوں تو لازماً ننگی آنکھ سے دیکھ سکتے ہو۔ تو پھر شَھِدَ مِنْکُمْ کا حکم صادق آگیا کیونکہ شَھِدَ میں ساری قوم کا دیکھنا تو فرض تھا ہی نہیں۔ کچھ بھی دیکھ سکتے ہوں لیکن اس طرح دیکھ سکتے ہوں جیسے انسان کی توفیق ہے کہ ننگی آنکھ سے دیکھ سکے وہ فتویٰ لازماً ساری قوم پر صادق آئے گا۔ اور وہ لوگ جن کا افق ایک ہے وہ سائنسی ذرائع سے معلوم کر کے پہلے سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔

تو اس لئے وہ جھگڑے کہ اب اکٹھی کیسے عید کی جائے یا اکٹھا رمضان کیسے شروع کیا جائے، یہ جھگڑے تو اس دَور میں ختم ہو چکے ہیں۔ اور اگر ہیں تو ان لوگوں نے پیدا کئے ہیں جو بے وجہ ناسمجھی سے اختلاف کرتے ہیں۔ پس یہ جو نظارے یہاں دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک عید آج ہو رہی ہے، ایک کل ہو رہی ہے، ایک پرسوں ہو گی یہ قرآن کریم کے بیان کا ابہام ہر گز نہیں ہے۔ قرآن کریم کابیان بیِّنات میں سے صاف کھلا کھلا ہے۔ اگر اس پر چلیں تو یہ ناممکن ہے کہ یہ اختلاف ہوں یا ننگی آنکھ سے چاند نظر آئے گا یا آلات کے ذریعہ آئے گا۔ اور دونوں ایک دوسرے پر بالکل چسپاں ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ سائنسی فتویٰ بعینہٖ وہی ہوگا جن شرائط کے ساتھ میں بیان کر رہا ہوں جو ننگی آنکھ سے دیکھنے کا فتویٰ ہے۔ تو اس لئے یہ دَور ایسا ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کو خدانے خود ہی بندوں کے لئے مُسَخّرفرما رکھا ہے اور نئی نئی باتیں جو ہمارے علم میں آرہی ہیں ان کو خدمت دین میں استعمال کرنا چاہئے۔

پس جماعت احمدیہ کی طرف سے جو کیلنڈر شائع ہوتے ہیں اور ابھی بھی یہاں ہو چکے ہیں یا ہر ملک میں ہوتے ہیں ان کی گواہی قطعی ہے کیونکہ ہم کبھی بھی ایسی گواہی کو قبول نہیں کرتے جہاں ننگی آنکھ سے چاند کا دیکھنا ممکن نہ ہو۔ جہاں یقینی ہو کہ اگر موسم صاف ہے تو چاند ضرور دکھائی دے گا وہاں قبول کیا جاتا ہے اور مہینوں کے جو دوسرے دن ہیں یا اس کا شروع اور آغاز، دوسرے مہینوں سے تعلقات، وہ ہمیشہ ٹھیک بیٹھتے ہیں اگر غلطی ہو تو بعض دفعہ عجیب سی غلطی بن جاتی ہے۔ بعض مہینے اس کے اٹھائیس دن کے رہ جاتے ہیں۔ اور اٹھائیس دن کا مہینہ ہو ہی نہیں سکتا، چاند کا۔ یہ کوئی فروری تو نہیں جو اٹھائیس دن کا آئے، چاند کا توہر مہینہ انتیس کا ہو گا یا تیس کا۔ پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جو فیصلہ ہے وہ قطعی اور درست ہے۔ اور قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جنوری1996ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم نومبر2002ء صفحہ7تا8)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقّتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا۔ مثلاً روزہ رکھنے کے لئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنّیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا۔ تب تک رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو۔ (یعنی جو قواعد سائنسدانوں کی طرف سے اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ جو فلکیات کا یا ستاروں کا علم رکھتے ہیں انہوں نے جو قواعد بنائے ہیں ضروری نہیں کہ ان قواعد کی پابندی کی جائے اور اگر ان کے اندازے یہ کہتے ہیں کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا تو اس کے مطابق عمل کرو اور چاند کو دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو یہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ نہیں ہو تا رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو) اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ (بلاوجہ اسی بات پہ عمل کرنا کہ کیونکہ ہمیں اندازے یہ بتا رہے ہیں اس لئے اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کریں گے یہ بلا وجہ کی ایک تکلیف ہے۔ ) فرمایا کہ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ سو یہ بڑی سیدھی بات (ہے) اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں (یعنی صرف ستاروں اور اجرام فلکی کا علم رکھنے والوں کے محتاج نہ رہیں ) اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ (چاند کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر دیکھنے کی کوشش کی جائے اور نظر نہ آئے تو پھر جو حساب کتاب ہے اس پہ بھی انحصار کیا جا سکتا ہے اور اس بات پہ بھی انحصار ہو کہ تیس دن سے زیادہ اوپر نہ جائیں۔ اور فرمایا کہ) اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عند العقل رؤیت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ (عقل بھی یہ کہتی ہے کہ جو آنکھوں سے دیکھنا ہے اس کو صرف حسابی اندازے جو ہیں ان اندازوں پر بہرحال فوقیت ہے۔ ) فرمایا کہ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رؤیت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجاد کئے۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2صفحہ 192-193) جو یورپ کے پڑھے لکھے لوگ ہیں، عقلمند لوگ ہیں، سائنسدان ہیں انہوں نے اس بات کو معتبر سمجھتے ہوئے کہ دیکھنا جو ہے وہ بہرحال زیادہ اعلیٰ چیز ہے، اس خیال کی وجہ سے اپنے آلات بنائے ہیں۔ دُوربینیں بنائی ہیں جن کے ذریعہ سے وہ اجرام فلکی کو دیکھتے ہیں۔

جیسا کہ مَیں نے کہا بعض دفعہ حساب میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا اور اگر غلطی ہو جائے مثلاً اگر چاند ایک دن پہلے نظر آنا ثابت ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے کیونکہ اس کا مطلب ہے ایک روزہ چھوٹ گیا۔ ہم نے ایک دن بعد شروع کیا اور چاند اس سے پہلے نظر آ گیا اور ثابت بھی ہو گیا کہ نظر آگیا تھا۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا۔ سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہو چکا تھا۔ عام طور پر اس علاقے میں ہر جگہ اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اس نے پوچھا کہ روزہ تو بدھ کو رکھا جانا چاہئے تھا۔ ہمارے ہاں پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اب کیا کرنا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا چاہئے۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 437۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ جو روزہ چھوٹ گیا وہ رمضان کے بعد پورا کرو۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جون2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جون2016ءصفحہ5تا6)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button