امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات
ہمیں جو ٹھیکہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے سکھاؤ اور ان کی طرف توجہ دلاؤ اور پھر ساتھ دعا بھی کرو۔
6؍مارچ 2021ء کو نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ آسٹریلیا اور ریجنل قائدین کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے آن لائن ملاقا ت کا شرف نصیب ہوا۔
حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ ممبران مجلس عاملہ نے خلافت ہال، مسجد بیت الہدیٰ سڈنی، آسٹریلیا سے شرکت کی۔
65 منٹ دورانیہ کی اس ملاقات میں جملہ ممبران عاملہ نے اپنے شعبہ جا ت کے حوالہ سے مساعی کی رپورٹ پیش کی۔ بعد ازاں حضورِ انور سے سوالات کرکے راہنمائی اور ہدایات حاصل کیں۔
ملاقات کے آغاز میں حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ کووِڈ کی کیا صورت حال ہے اور حاضرین نے ماسک کیوں نہیں پہنے ہوئے۔ اس پر ایک دوست نے بتایا کہ حضور آسٹریلیا میں کووِڈ کافی حد تک قابو میں آچکا ہے اور کافی نرمیاں ہو چکی ہیں۔ اگلے دو دن میں مزید پابندیاں ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس لیے ماسک نہیں پہنے ہوئے۔
بعد ازاں حضور انور نے دعا کروائی۔
دورانِ ملاقات حضور انور نے مجلس انصار اللہ کے ممبران کی پنجوقتہ نماز کی ادائیگی پر زور دیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ انصار کو تو اپنی عاقبت کی فکر ہونی چاہیے یہاں تو hundred percent نماز پڑھنے والے ہونے چاہئیں۔ انصار کیا کہتے ہیں، انصار کی عمر بڑھ رہی ہے تو ان کو تو اور زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ کسی شاعر نے کہا تھا
وقت کا پنچھی اڑتا جائے، عمر کا سایہ گھٹتا جائے
اس لیے اگر اس کو سوچیں تو فکر ہونی چاہیے۔ اس لیے اپنے انصار کو کہیں کہ کم از کم پانچ وقت کی نماز تو ضرور پڑھیں اور جن کو موقع ملتا ہے وہ باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ان کا نماز سنٹر یا مسجد دور ہے تو پھر اپنے گھروں میں نماز باجماعت کا اہتمام کریں۔ کم از کم ان کے بیوی بچے نماز پڑھیں گے تو نئی نسل کو بھی آگے عادت پڑے گی پانچ وقت اور باجماعت نماز پڑھنے کی اور نماز کی اہمیت پیدا ہو گی۔ اس بارے میں خاص پروگرام بنائیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی پڑھنے کی، تلاوت کی عادت ڈالیں اور انصار کی یہ بھی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ اپنے گھروں میں بھی جائزہ لیں کہ ان کے بچے بھی نمازوں اور قرآن کی طرف توجہ دے رہے ہیں کہ نہیں۔ یہ بھی انصار کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح کوئی نہ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس پر مشتمل درس وغیرہ کا انتظام اگر گھروں میں ہو جائے تو تربیت کا پہلو ہو جائے گا۔ جس طرح ہم دور جا رہے ہیں، زمانہ دور جا رہا ہے انصار کی ذمہ داریاں اَور زیادہ بڑھ رہی ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں تا کہ نئی نسلوں کو سنبھال سکیں۔ اگر انصار اللہ نے اب نئی نسلوں کونہ سنبھالا تو پھر کچھ سالوں کے بعد بڑی مشکل پیش آئے گی۔ ان ملکوں میں رہ کے تو پھرسارے بالکل ہی دنیا دار ہوجائیں گے۔
دورانِ ملاقات حضور انور نے قرآن کریم کی تلاوت کے حوالہ سے پھر زور دیا اور دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے سو فیصد انصار قرآن کریم پڑھنا جانتے ہیں۔ جس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ تین فیصد نہیں جانتے۔ حضور انور نے فرمایا :
ان کے لیے انتظام کریں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کئی بوڑھے بوڑھے انصار بھی شوق سے پڑھتے ہیں۔ ابھی کل ہی میں نے ذکر کیا تھا، ایک حافظ صاحب گھانین (Ghanian)جو فوت ہوئے تھے Boateng صاحب، 48سال کی عمر میں انہوں نے دوبارہ قاعدہ اور قرآن پڑھاتاکہ ان کا تلفظ درست ہو جائے۔ تو اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔اللہ کا کلام ہے، سیکھنے میں کیا حرج ہے۔ کوشش اگر صحیح طرح کی جائے تو کامیابی بھی ہو جاتی ہے۔ صرف ’کوشش کریں گے‘ نہ کہیں۔
دوران ملاقات حضورِ انور نے سیکرٹری وقار عمل کو ہدایات سے نوازا کہ وہ پورے ملک میں وسیع پیمانے پر درخت لگانے کی مہم شروع کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ حالیہ حالات کے پیش نظر جب جنگلوں میں لگنے والی آگ نے بہت سے جنگل ختم کر دیے ہیں، درخت لگانے کی اہمیت اَور بھی بڑھ گئی ہے۔
بعد ازاں حضور انور نے صفِ دوم کے انصار اللہ کی ورزشی رپورٹ کے حوالہ سے استفسار فرمایا کہ کتنے انصار سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ اس پر ایک دوست نے بتایا کہ حضور 97 انصار سائیکل چلاتے ہیں، جن میں سے 32 انصار صف دوم کے ہیں جبکہ 65 صف اول کے انصار ہیں۔ اور وہ باقاعدہ سائیکل چلاتے ہیں، صرف رکھے ہوئے نہیں ہیں۔ حضور انور نے فرمایاکہ دوسرے انصار کو بھی سائیکل چلانے کی طرف توجہ دلائیں۔ کم از کم قریبی فاصلوں کے لیے سائیکل چلایا کریں۔ یوں سائیکل استعمال کرکے اپنے ماحول کو صاف بنانے میں بھی کردار اد اکریں۔
ایک دوست نے جماعتی سطح پر متعدد شعبہ جات جن میں شعبہ تربیت، رشتہ ناطہ،اصلاحی کمیٹی اور امور عامہ کے موجود ہونے کے باوجود بڑھتے ہوئے عائلی مسائل کے حوالہ سے استفسار کیا کہ پھر عائلی مسائل کے ساتھ ساتھ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔ یوں طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سلسلہ میں انصار اللہ کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اور آپ میرے بعض خطبات اور تقاریر، خاص طور پر لجنہ سے تقاریر وغیرہ غور سے سنیں تو اس میں بھی مَیں یہی باتیں بیان کرتا رہتا ہوں۔ اور خدام الاحمدیہ کو بھی بیان کرتا رہتا ہوں اور انصار کو بھی۔ خطبات میں بھی میں نے کئی بار ذکر کیا ہے کہ اس لیے کہ دنیا داری زیادہ آگئی ہے،صبر اور حوصلہ کم ہو گیاہے، دونوں طرف کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ لڑکی کی بھی، لڑکے کی بھی۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد تو کرتے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی اس بات کو یاد نہیں رکھتے کہ جب تم رشتے کرو تو یہ جائزہ لو کہ دین کو ہم نے ترجیح دینی ہے بجائے دنیاوی دوسری چیزوں کے، دنیا کے یا حسن کے یا دولت کے۔ تو اگر ان چیزوں کو مد نظر رکھیں تومسائل کم پیدا ہوں گے۔ یہ مادیت کا اثر ہمارے احمدی معاشرے پر بھی ہو رہاہے۔ اس لیے اصلاحی کمیٹی کو اور سیکرٹریان تربیت کو جماعتی طور پر، سیکرٹری تربیت لجنہ کو، مہتمم تربیت خدام الاحمدیہ کو، قائد تربیت انصار اللہ کو، ان سب کو مل کر اپنے اپنے ماحول میں تربیت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس طرف توجہ دلانی چاہیے کہ ہم ایک عہد کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اس کے با وجود ہم اس عہد پر عمل نہیں کرتےاور توڑ دیتے ہیں ۔اور پھر یہی دنیاوی خواہشات ہی بڑھتی ہیں، صبر اور حوصلہ لڑکیوں میں بھی کم ہو گیا ہے اور لڑکوں میں بھی۔ یہ بھی میں نے دیکھا ہے۔ اس لیے یہ الزام جو دیا جا تا ہے اسلام کو کہ arrange marriage کی وجہ سے ہمارے رشتے صحیح طرح match نہیں ملائے گئے، اس لیے ہمارے رشتے ٹوٹ گئے، یہ بھی غلط ہے۔ دنیا میں مجموعی طور پر یہی رجحان پیدا ہو رہاہے اور دنیا داری کا (رجحان) کیونکہ ہمارے معاشرے میں (بھی) آرہا ہے اس لیے ہمیں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک بات یہ ہے کہ رشتے ہوئے اور ٹوٹ گئے، دوسری بات یہ ہے کہ لڑکیوں کو اچھے رشتے نہیں ملتے،عائلی مسائل ہیں۔ اگر لڑکوں کی تربیت صحیح کریں، انصار بھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں، خدام اپنے بھائیوں کی صحیح تربیت کریں اور ا ن کو بتائیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو۔ اور (دین) کو دیکھو۔ اور لجنہ صحیح تربیت کرے اور لڑکی دین پر قائم رہنے والی ہو تو جو دین کو ترجیح دیتے ہوئے ہونے والے رشتے ہوں گےوہ پھر کامیاب بھی ہوں گے۔ اور ہوتے ہیں۔ جو دنیا داری کو سامنے رکھتے ہو ئے کرتے ہیں ان میں پھر دراڑیں بھی پڑتی ہیں۔ یہ ایک لمبا اور مستقل process ہے، تمام تربیتی اور اصلاحی شعبوں کا۔ اس پر کوشش کرتے رہیں۔ اور اسی طرح انصار اپنے گھروں میں کوشش کرتے رہیں۔ صرف جماعتی نظام پر ہی نہ چھوڑیں کہ جماعتی نظام ہی یہ کرےبلکہ انصار کی تربیت کیا کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیا کریں۔ بعض جگہ الَّا ماشاء اللہ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ تربیت کے با وجود لڑکی پر ظلم ہورہا ہوتا ہے یا بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ لڑکوں پر بھی ظلم ہو جاتا ہے۔ لڑکیاں یہاں باہر کے ملکوں میں آتی ہیں، رشتہ کرکے یا شادی کرکے اور آنےکے بعد کہتی ہیں کہ ہم نے رشتہ نہیں کرنا۔ اور مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح پہنچ جائیں غیر ملک میں اور وہاں جا کر رشتہ توڑ دیں۔ ایسے معاملات بھی آتے ہیں۔ سارے حقائق کو ہمیں سامنے رکھنا چاہیے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ آپ کی ساری تربیتی اور اصلاحی کمیٹیوں کا کام ہے کہ ان کا حل تلاش کریں۔ لیکن ساتھ ہی سب سے اہم کا م یہی ہے کہ گھروں کے ماحول ٹھیک کریں۔ اور گھروں میں یہ چیزیں پیدا کریں اور پھر جب پاکستان سے رشتے لاتے ہیں تو وہاں سے بھی چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہو، سوچ سمجھ کر لایا کریں، صرف جلد بازی سے کام نہ لیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ دعا کرکے رشتے کرو، تو دعا کرکے کرنے چاہئیں، ہاں اس کے بعد بعض اوقات مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ اکا دکا ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر اگر ہم صحیح کوشش کریں تو یہ مسائل کم ہو سکتے ہیں۔
پھر ایک دوست نے سوال کیا کہ پیارے حضور کیا وجہ ہے کہ عذاب آنےکے با وجود دنیا کی توجہ امام الزمان کی طرف مبذول نہیں ہو رہی جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ پھر۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ جو پرانے انبیاء، رسول آئے تو ان کی قوموں کو توجہ پیدا ہو گئی تھی۔ عذابوں سے تباہ ہی ہوئے ناں۔ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آخری نبی تھے۔ آپؐ کے جو عذاب کی شکل تھی وہ جنگوں کی صورت میں تھی۔ یہاں پانی کا عذاب، آگ کا عذاب یا دوسرے عذاب نہیں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جنگ جو ہے وہی ان کے لیے عذاب تھی۔ اس میں مسلمان بھی شہید ہوتے تھے لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ پھر بہرحال ایک وقت آیا جب لوگوں نے realiseکر لیا۔ تو اَب بھی یہی حالت ہے۔ دنیا داری کی طرف پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ تم اس طرف توجہ نہیں کرو گے تو عذاب بڑھتے رہیں گے اور تباہ ہوجاؤ گے اور آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تم ضرور اسلام کو اور احمدیت کو مانو۔ ٹالنے کے لیے اگر اللہ تعالیٰ کا حق اور بندوں کے حق ادا کرنے شروع کر دو اور جو لغویات اور فضولیات اور گناہ ہیں ان سے بچنا شروع کر دو تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت حرکت میں آئے گی اور تم لوگ عذابوں سے بچ جاؤ گے۔ تو دنیا اس وقت مادیت میں ڈوبی ہوئی ہے وہ realise ہی نہیں کرتی کہ یہ سب کچھ کس وجہ سے ہو رہا ہے۔ باوجود اس کے ہم تنبیہ بھی کرتے رہتے ہیں اور پچھلے دنوں میں مَیں نے سربراہان کو بھی خط لکھے تھے ان کو بھی یہی بتایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے کہ اگر توجہ نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی آفات بھی آتی ہیں۔ اب بھی دیکھ لیں جب یہ کووِڈ آیا یا کوئی بھی سونامی یا طوفان یا زلزلہ آتا ہے تو توجہ پیدا ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصہ کے لیے اللہ اللہ کرتے ہیں۔ جو اپنے مذہب کے مطابق کوئی اللہ اللہ کرتا ہے، کوئی رام رام کرتے ہے کوئی اپنا دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے لیکن اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ حقوق ادا کر سکیں ایک دوسرے کے بھی اور اللہ کا بھی۔ لیکن جب وہ ٹل جاتی ہے تو بات پھر واپس وہیں چلی جاتی ہے۔ یہی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب عذاب آتا ہے، مشکل میں پھنستے ہو تو تم اللہ اللہ کرتے ہو، دعا مانگتے ہو؛ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے ٹال دے تو ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور جب ٹل جاتا ہے، یہ بھی تو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے قرآن کریم میں کہ جب عذاب ٹل جاتا ہے تو پھر تم اسی طرح دنیا داری میں مصروف ہوجاتے ہو۔ تو یہی حال ان دنیا داروں کا ہے۔ آخر، ultimately یہی ہوگا اگر نہیں مانیں گے اور نہیں سمجھیں گے تو پھر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ پہلی قومیں بھی تباہ ہوتی رہی ہیں اب بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ اسی طرح مٹتی جائیں گی اور جو نیک لوگ ہوں گے وہ اپنی اصلاح کرتے چلے جائیں گے۔ توبہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ تنبیہ کرنا، پیغام کو پہنچانا، تبلیغ کرنا ،ہر ایک تک پہنچنا، باقی ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ہم اپنا کام سنجیدگی سے کرتے رہیں تو یہی ہمارے فرض پورے ہو جاتے ہیں اور پھر دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور قومیں جو ہیں بربادی اور تباہی سے بچ جائیں۔ یہ ہمارا کام ہے اور یہی ہم نے کرتے چلے جانا ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے۔ آپ اس کی فکر نہ کریں کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے گی۔ ہم نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا دنیا کی اصلاح کا۔ ہاں ہمیں جو ٹھیکہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے سکھاؤ اور ان کی طرف توجہ دلاؤ اور پھر ساتھ دعا بھی کرو۔ اس فرض کو اگر ہم پورا کر رہے ہیں حقیقت میں پورا کر رہے ہیں اور سنجیدگی سے پورا کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں باقی اللہ تعالیٰ کا معاملہ اور ان کے بندوں کا معاملہ۔
٭…٭…٭